منگل، 17 فروری، 2015

اُردو افسانہ

0 تبصرے

                            اُردو افسانہ

سعادت حسن منٹو منتخب افسانے - کھول دو، کالی شلوار، بلاؤز



یہ کون گستاخ ہے
سعادت حسن منٹو)


کھول دو                                                                              (سعادت حسن منٹو)


امر تسر سے اسپيشل ٹرين دوپہر دو بجے کو چلي آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچي، راستے ميں کئي آدمي مارے گئے، متعد زخمي اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گئے۔
صبح دس بجے ۔۔۔۔کيمپ کي ٹھنڈي زمين پرجب سراج الدين نے آنکھيں کھوليں، اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ايک متلاطم سمندر ديکھا تو اس کي سوچنے کي قوتيں اور بھي ضعيف ہوگئيں، وہ دير تک گدلے آسمان کو ٹکٹکي باندھے ديکھتا رہا، يو تو کيمپ ميں ہر طرف شور برپا تھا، ليکن بوڑھے سراج الدين کے کان جيسے بند تھے، اسے کچھ سنائي نہيں ديتا تھا، کوئي اسے ديکھتا تو يہ خيال کرتا تھا، کہ وہ کسي گہري فکر ميں غرق ہے، اسے کچھ سنائي نہيں ديتا ہے، اس کے حوش و حواس شل تھے، اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
گدلے آسمان کي طرف بغير کسي ارادے کے ديکھتے ديکھتے سراج الدين کي نگاہيں سورج سے ٹکرائيں، تيز روشني اس کے وجود کے رگ و ريشے ميں اتر گئي اور وہ جاگ اٹھا، اوپر تلے اس کے دماغ پر کئي تصويريں دوڑ گئيں، لوٹ، آگ۔۔۔۔۔بھاگم بھاگ۔۔۔۔۔اسٹیشن۔۔۔۔گولياں۔۔۔۔رات اور سکينہ۔۔۔سراج الدين ايک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کي طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھليے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھٹکانا شروع کيا۔ پورے تين گھنٹے وہ سکينہ سکينہ پکارتا کيمپ کي خاک چھانتا رہا، مگر اسے اپني جوان اکلوتي بيٹي کا پتہ نہ چل سکا،چاروں طرف ايک دھاندلي سي مچي ہوئي تھي، کوئي اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا، کوئي ماں، کوئي بيوي اور کوئي بيٹي، سراج الدين تھک ہار کر ايک طرف بيٹھ گيا، اور حافظے پر زور دينے لگا، کہ سکينہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئي تھي ليکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکينہ کي ماں کي لاش پر جا کر جم جاتا ہے، جس کي ساري انتڑياں باہر نکلي ہوئي تھيں، اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکا۔
سکينہ کي ماں مر چکي تھي، اس نے سراج الدين کي آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا، ليکن سکينہ کہاں تھي، جس کے متعلق اس کي ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا، مجھے چھوڑ دو اور سکينہ کو لے کر جلدي يہاں سے بھاگ جاؤ۔
سکينہ اس کے ساتھي ہي تھي، دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے، سکينہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا، اسے اٹھانے کيلئے سراج الدين نے رکنا چاہا مگر سکينہ نے چلا کر کہا ابا جي ۔۔۔۔۔چھوڑئيے، ليکن اس نے دوپٹہ اٹھا ليا تھا۔۔۔يہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کي بھري ہوئي جيب کي طرف ديکھا اور ميں ہاتھ ڈال کر ايک کپڑا نکالا۔۔۔۔۔سکينہ کا وہي دوپٹا تھا۔۔۔۔ليکن سکينہ کہاں تھي؟
سراج الدين نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور ديا مگر وہ کسي نتيجہ پر نہ پہنچ سکا، کيا وہ سکينہ کو اپنے ساتھ اسٹيشن لے آيا تھا؟۔۔۔۔کيا وہ اس کے ساتھ ہي گاڑي ميں سوار تھي؟۔۔۔ راستہ ميں جب گاڑي روکي گئي تھي اور بلوائي اندر گھس آئے تھے تو کيا وہ بے ہوش تھا جو وہ سکينہ کو اٹھا کر لئے گئے؟
سراج الدين کے دماغ ميں سوال ہي سوال تھے، جواب کوئي بھي نہيں تھا، اس کو ہمدردي کي ضرورت تھي، ليکن چاروں طرف جتنے بھي انسان پھيلے ہوئے تھے، سب کو ہمدردي کي ضرورت تھي، سراج الدين نے رونا چاہا، مگر آنکھوں نے اس کي مدد نہ کي، آنسو جانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔ چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسي قدر درست ہوئے تو سراج ان لوگوں سے ملا جو اس کي مدد کرنے کيلئے تيار تھے، آٹھ نوجوان تھے، جن کے پاس لاري تھي، بندوقيں تھيں، سراج الدين نے ان کو لاکھ لاکھ دعائيں ديں اور سکينہ کا حليہ بتايا، گورا رنگ ہے، بہت ہي خوبصورت ہے ۔۔۔۔مجھ پر نہيں اپني ماں پر تھي۔۔۔۔عمر سترہ برس کے قريب اکلوتي لڑکي ہے، ڈھونڈ لاؤ، تمہارا خدا بھلا کرے گا۔
رضاکار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدين کو يقين دلايا کہ اگر اس کي بيٹي زندہ ہوئي تو چند ہي دنوں ميں اس کے پاس ہوگي۔
آٹھوں نوجوانوں نے کوشش کي، جان ہتھيلي پر رکھ کر وہ امر تسر گئے، کئي عورتوں کئ مردوں اور کئي بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچايا، دس روز گزر گئے مگر انہيں سکينہ نہ ملي۔
ايک روز وہ اسي خدمت کيلئے لاري پر امر تسر جا رہے تھے، کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انہيں ايک لڑکي دکھائي دي، لاري کي آواز سن کر وہ بدکي اور بھاگنا شروع کرديا، رضاکاروں نے موٹر روکي اور سب کے سب اس کے پيچھے بھاگے، ايک کھيت ميں انہوں نے لڑکي کو پکڑ ليا، ديکھا تو بہت ہي خوبصورت تھي، دہنے گال پر موٹا تل تھا، ايک لڑکے نے اس سے کہا گھبراؤ نہيں۔۔۔۔۔۔کيا تمہارا نام سکينہ ہے؟
لڑکي کا رنگ اور بھي زرد ہوگيا، اس نے کوئي جواب نہ ديا، ليکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم سلاسہ ديا تو اسکي وحشت دور ہوئي اس نے مان ليا کہ وہ سراج الدين کي بيٹي سکينہ ہے۔
آٹھ رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سے سکينہ کي دل جوئي کي، اسے کھانا کھلايا، دودھ پلايا، اور لاري ميں بيٹھا ديا، ايک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے ديا، کيونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کر رہي تھي، اور بار بار بانہوں سے اپنے سينے کو ڈھانکنے کي ناکام کوشش ميں مصروف تھي۔ کئي دن گزر گئے ۔۔۔۔۔۔۔سراج الدين کو سکينہ کي کوئي خبر نہ ملي، وہ دن بھر مختلف کميپوں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا، ليکن کہيں سے بھي اسکي بيٹي سکينہ کا پتہ نہ چلا سکا، رات کو وہ بہت دير تک ان رضاکر نوجوانوں کي کاميابي کيلئے دعائيں مانگتا رہا، جنہوں نے اسکو يقين دلايا تھا کہ اگر سکينہ زندہ ہوئي تو چند ہي دنوں ميں وہ اسے ڈھونڈ نکاليں گے۔
ايک روز سراج الدين نے کيمپ ميں ان نوجوان رضا کاروں کو ديکھا، لاري ميں بيٹھے تھے، سراج الدين بھاگا بھاگا ان کے پاس گيا، لاري چلنے والي تھي کہ اس نے پوچھا بيٹا ميري سکينہ کا پتہ چلا؟
سب نے يک زبان ہو کر کہا چلا جائے گا، چل جائے گا اور لاري چلادي۔
سراج الدين نے ايک بار پھر ان نوجوانوں کي کاميابي کيلئے دعا مانگي اور اس کا جي کس قدر ہلکا ہوگيا، شام کے قريب کيمپ ميں جہاں سراج الدين بيٹھا تھا، اس کے پاس ہي کچھ گر بڑ سي ہوئي چار آدمي کچھ اٹھا کر لارہے تھے، اس نے دريافت کيا تو معلوم ہو کہ ايک لڑکي ريلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑي تھي، لوگ اسے اٹھا کر لائے ہيں، سراج الدين ان کے پيچھے پيچھے ہوليا، لوگوں نے لڑکي کو اسپتال والوں کے سپرد کيا اور چلے گئے۔
کچھ دير بعد ايسے ہي اسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑي کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا، پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گيا، کمرے ميں کوئي نہيں تھا، ايک اسٹيريچر تھا، جس پر ايک لاش پڑي تھي، سراج الدين چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کي طرف بڑھا، کمرے ميں دفعتا روشني ہوئي سراج الدين نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہو تل ديکھا اور چلايا، سکينہ۔
ڈاکٹر نے جس نے کمرے ميں روشني کي تھي، سراج الدين سے پوچھا کيا ہے؟
سراج الدين کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا،جي ميں ۔۔۔۔۔ جي ميں۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا باپ ہوں۔
ڈاکٹر نے اسٹريچر پر پڑي ہوئي لاش کي طرف ديکھا، اس کي نبض ٹٹولي اور سراج الدين سے کہا کھڑکي کھول دو۔
سکينہ کے مردہ جسم ميں جنبش پيدا ہوئي ، بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نيچے سرکا ديا، بوڑھا سراج الدين خوشي سے چلايا، زندہ ہے۔۔۔۔۔۔ميري بيٹی زندہ ہے۔۔۔۔ڈاکٹر سر سے پير تک پسينے ميں غرق ہوگيا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کالی شلوار بھی حاضر ہے۔ 






دہلی سے آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاؤنی میں تھی، جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی۔ ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ یہاں آئی اور اس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روزاس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔ ” دِس لیف.... ویری بیڈ۔“ یعنی یہ زندگی بہت بری ہے، جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔

انبالہ چھاؤنی میں اس کا دھندا بہت اچھا چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آجاتے تھے اور وہ تین چار گھنٹوں میں ہی آٹھ دس گوروں کو نپٹا کر بیس تیس روپے پیدا کرتی تھی۔ یہ گورے، اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر ان کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ کہہ دیا کرتی تھی۔ ”صاحب ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتی۔“ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ اپنی زبان میں گالیاں دینی شروع کردیتی تھی۔ وہ حیرت میں اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ کہتی۔ ”صاحب ! تم ایک دم الو کا پٹھا ہے، حرامزاد ہے، سمجھا۔“ یہ کہتے وقت وہ لہجہ میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ ان سے باتیں کرتی۔ گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔
مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی ایک بھی گورا اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہو گئے تھے جہاں اس نے یہ سنا تھا کہ بڑے لاٹ صاحب رہتے ہیں مگر صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو اور ان چھ گاہگوں سے خدا جھوٹ نہ بلوائے ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کئے تھے۔ تین روپے سے زیادہ پر کوئی نہ مانتا تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتلایا تھا مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا ”بھئی ہم تین روپے سے ایک کوڑی زیادہ نہیں دیں گے۔“ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے اسے تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے خود اس کہا۔” دیکھو میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں گی؛ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو میں نہ لوں گی۔ اب تمہاری مرضی ہو تو رہو ورنہ جاؤ“۔ چٹھے آدمی نے یہ سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاں ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں ....دروازہ بند کرکے اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا ”لایئے ایک روپے دودھ کا۔“ اس نے ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی ہوئی چونی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا مال غنیمت ہے۔

ساڑھے اٹھارہ روپے ماہوار تین مہینوں میں.... بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جس کو مالک انگریزی زبان میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لئے اس پاخانہ میں گئی تو اس کی کمر میں شدت کا درد ہو رہا تھا فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکتی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ اس زنجیر کو دیکھ کر اس نے یہ خیال کیا چونکہ یہ مکان خاص طور سے ہم لوگوں کی رہائش کے لئے تیار کئےکئے گئے ہیں، یہ زنجیر اس لئے لٹکائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے۔ مگر جونہی زنجیر پکڑ کر اس نے اٹھنا چاہا اوپر کھٹ کھٹ سی ہوئی اور پھر ایک دم پانی اس شور کے ساتھ باہر نکلا کہ ڈر کے مارے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹو گرافی کاسامان درست کر رہا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہائیڈرو کونین ڈال رہا تھا کہ اس نے سلطانہ کی چیخ سنی۔ دوڑ کر باہر نکلا اور سلطانہ سے کہنے لگا ” کیا ہوا.... چیخ تمہاری تھی۔“
سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ ”یہ موا پیخانہ ہے کیا.... بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر کیا لٹکا رکھی ہے۔ میری کمر میں درد تھا۔ میں نے کہا چلو اس کا سہارا لے لوں گی۔ پر اس موئی زنجیر کو چھیڑنا تھا کہ ایسا دھماکا ہوا کہ میں تم سے کیا کہوں۔“
اس پر خدا بخش بہت ہنسا تھا اور اس نے سلطانہ کو اس پیخانہ کی بابت سب کچھ بتا دیا تھا کہ یہ نئے فیشن کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی نیچے زمین میں دھنس جاتی ہے۔

خدابخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہوا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدا بخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرنس پاس کرنے کے بعد اس نے لاری چلانا سیکھا۔ چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت سے ہو گئی۔ اس کو بھگاکر وہ لاہور لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اس کو کوئی کام نہ ملا اس لئے اس نے اس عورت کو پیشے پر بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کو معلوم ہوا کہ وہ انبالہ میں ہے وہ اس کی تلاش میں انبالہ آیا۔ اس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اس کو پسند کیا چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہو گیا۔

خدابخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت چونکہ ضعیف الاعتقاد تھی اس لئے اس نے سمجھا کہ خدا بخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہوگئی چنانچہ اس خوش اعتقادی نے خدا بخش کی وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔

خدا بخش آدمی محنتی تھا۔ وہ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافر سے دوستی پیداکی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھینچا کرتا تھا۔ اس سے اس نے فوٹو کھینچنا سیکھ لیا۔ پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بھی بنوایا۔ دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس نے علیحدہ اپنا کام شروع کردیا۔

کام چل نکلا چنانچہ اس نے تھوڑے ہی عرصہ بعد اپنا اڈا انبالہ چھاؤنی میں قائم کردیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا رہتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس کی چھاؤنی کے متعدد لوگوں سے واقفیت ہوگئی چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھاؤنی میں خدا بخش کے ذریعے سے کئی گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے اور اس کی آمدنی پہلے سے دو گنی ہو گئی۔

سلطانہ نے کانوں کے لئے بندے خریدے، ساڑھے پانچ تولہ کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوالیں، دس پندرہ اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کرلیں۔ گھر میں فرنیچر وغیرہ بھی آگیا۔ قصہ مختصر یہ کہ انبالہ چھاؤنی میں وہ بڑی خوش حال تھی۔ مگر ایکا ایکی نہ جانے خدا بخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سلطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ وہ خدا بخش کو اپنے لئے بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کرلیا بلکہ اس نے یہ بھی سوچا کہ اتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہیں اس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہیلیوں سے وہ دہلی شہر کی تعریف سن چکی تھی۔ پھر وہاں حضرت نظام الدین اولیاءکی خانقاہ تھی جس سے اسے بے حد عقیدت تھی چنانچہ جلدی جلدی گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر خدا بخش کے ساتھ دہلی آگئی۔ یہاں پہنچ کر خدا بخش نے بیس روپے ماہوار پر ایک چھوٹا سا فلیٹ لے لیا جس میں وہ دونوں رہنے لگے۔
ایک ہی قسم کے نئے مکانوں کی لمبی سی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کے لئے مقرر کردیا تھا تاکہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈے نہ بنائیں۔ نیچے دکانیں تھیں اور اوپر دو منزلہ رہائشی فلیٹ تھے۔ چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی تھیں اس لئے شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دقت محسوس ہوتی تھی، پر جب نیچے لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگا دیا تو اس کو ایک پکی نشانی مل گئی۔ ” یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے“۔ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کرلیا کرتی تھی۔
اسی طرح اس نے اور بہت سی نشانیاں قائم کرلی تھیں مثلاً بڑے بڑے حروف میں جہاں کوئلوں کی دکان لکھا تھا وہاں اس کی سہیلی ہیرا بالی رہتی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو میں گانے جایا کرتی تھی۔ جہاں ” شرفاءکے کھانے کا اعلیٰ انتظام ہے“ لکھا تھا وہاں اس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانے کے اوپر انوری رہتی تھی جو اس کارخانے کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت کارخانے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی اس لئے وہ رات کو انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔

دکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہیں۔ چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی پر جب دو مہینے گزر گئے اور کوئی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا۔ ” کیابات ہے خدا بخش! دو مہینے آج پورے ہو گئے ہیں ہمیں یہاں آئے ہوئے، کسی نے ادھر کا رخ ہی نہیں کیا.... مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے پر اتنا بھی تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل ہی دیکھنے نہ آئے۔“ خدا بخش کو بھی یہ بات بہت عرصے سے کھٹک رہی تھی، مگر وہ خاموش تھا پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اس نے کہا ” میں کئی دن سے اس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ کہ لوگ باگ جنگ دھندوں میں پڑنے کی وجہ سے بھاگ کر دوسرے دھندوں میں ادھر کا راستہ بھول گئے.... یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ....“
وہ اس سے آگے کچھ کہنے ہی والاتھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدا بخش اور سلطانہ دونوں اس آواز کی طرف متوجہ ہو ئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی۔ خدا بخش نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آئے یعنی تین مہینے میں چھ، جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کئے۔

بیس روپے ماہوار تو فلیٹ کے کرایہ میں چلے جاتے تھے۔ پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا تھا۔ اس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچ تھے کھانا پینا کپڑے لتے۔ دوا اور دارو اور آمدن کچھ بھی نہیں۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں آئیں تو اسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے۔ سلطانہ پریشان ہو گئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اس نے انبالہ میں بنوائیں تھیں آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اس نے خدا بخش سے کہا۔ ” تم میری سنو اور چلو واپس انبالہ، یہاں کیا دھراہے۔ بھئی ہو گا، پر ہمیں تو یہ شہر راس نہیں۔ تمہاراکام وہاں خوب چلتا تھا، چلو وہیں چلتے ہیں، جو نقصان ہوا ہے اس کو اپنا سر صدقہ سمجھو۔ یہ آخری کنگنی بیچ کر آؤ میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج را ت کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔“
خدابخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا ”نہیں جانِ من! انبالہ اب نہیں جائیں گے یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے۔ یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو، وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں پر بھی کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔“
سلطانہ چپ ہو رہی چنانچہ آخری کنگنی بھی ہاتھ سے اتر گئی۔ بچے ہاتھ دیکھ کر اس کو بہت رنج ہوتا تھا پر کیا کرتی پیٹ کو بھی آخر کسی حیلے بھرنا تھا۔

جب پانچ مہینے گزر گئے اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدا بخش بھی سارا دن اب گھر سے غائب رہنے لگا۔ سلطانہ کو اس کا بھی دکھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ وقت کاٹ سکتی تھی۔ پر ہر روز ان کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اس کو بہت برا لگتا تھا چنانچہ رفتہ رفتہ اس نے ان سہیلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کردیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسان مکان میں بیٹھی رہتی، کبھی چھالیہ کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے پرانے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی بالکونی میں آکر جنگلے کے پاس کھڑی ہو جاتی تھی اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔

سڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال اسباب کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹڑیاں بچھی ہوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹڑیاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چھک چھک اور پھک پھک کی صدائیں گونجتی رہتی تھیں۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکونی میں آتی تو ایک عجیب سماں اسے نظر آتا۔ دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بال بھی ایک عجیب شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اٹھتے تھے اور ہولے ہولے ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہوں اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور خود بخود جارہی ہے۔ دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے.... نہ جانے کہاں۔ پھر ایک روز ایسا آئے گا کہ جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گا اور وہ کہیں رک جائے گی کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہو۔
یوں تو بے مطلب گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی پٹڑیوں اور ٹھہرے اور چلتے ہوئے انجنوں کی طرف دیکھتی رہتی تھی پر طرح طرح کے خیات اس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ انبالہ چھاؤنی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اس کا مکان تھا مگر وہاں اس نے کبھی ان چیزوں کو ایسی نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ اب توکبھی کبھی اس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہوا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہاہے ایک بہت بڑا چکلہ ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہیں جن کو چند موٹے موٹے انجن ادھر ادھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو بعض اوقات یہ انجن سیٹھ معلوم ہوتے جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے ہاں آیا کرتے تھے پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس گزرتا دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر کوٹھوں کی طرف دیکھتا جا رہا ہے۔
سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے، چنانچہ جب اس قسم کے خیالات اس کو آنے لگے تو اس نے بالکونی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اس نے بارہا کہا دیکھو، میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو ۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں مگر اس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اس کی تشفی کردی ”جان من.... میں باہر کمانے کی فکر کر رہا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو چند دنوں میں بیڑا پار ہو جائے گا۔“
پورے پانچ مہینے ہوگئے تھے مگر ابھی تک نہ سلطانہ کا بیڑا پار ہوا تھا اور نہ خدا بخش کا۔
محرم کا مہینہ آرہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہیملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیض بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کے لئے اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل کی طرح چمکتی تھی۔ انور ی نے ریشمی جارجٹ کی ایک بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا وہ اس ساڑھی کے نیچے سفید بوسکی کا کوٹ پہنے گی کیونکہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑھی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لئے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔
انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش بھی حسب معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گاؤ تکیہ کو سر کے نیچے رکھے لیٹی رہی پر جب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ سی گئی تو وہ اٹھ کر بالکونی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ سے نکال دے۔
سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے۔ پر انجن کوئی بھی نہیں تھا۔ شام کا وقت تھا چھڑکاؤ ہوچکا تھا۔ اس لئے گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہو گئے تھے جو تانک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کر کے سلطانہ کی طرف دیکھا۔
سلطانہ مسکرا دی اور اس کو بھول گئی کیونکہ سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہو گیا تھا۔ سلطانہ نے غور سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال دماغ سے نکالنے کی خاطر جب اس نے پھر سڑک کی طرف دیکھا تو وہی آدمی بیل گاڑیوں کے پاس کھڑا نظر آیا۔ وہی جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے پوچھا ”کدھر سے آؤں؟“ سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا مگر بڑی پھرتی سے اوپر چلا آیا۔
سلطانہ نے اسے دری پر بٹھایا جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لئے کہا ” آپ اوپر آتے ہوئے ڈر رہے تھے۔“ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا۔ ”تمہیں کیسے معلوم ہوا.... ڈرنے کی بات ہی کیا تھی؟“ اس پر سلطانہ نے کہا کہ ”یہ میں نے اس لئے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئے“۔ وہ یہ سن کر مسکرا دیا ” تمہیں غلط فہمی ہوئی۔ میں تمہارے اوپر والے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا پھر بالکونی میں سبز بلب روشن ہوا تو میں کچھ دیر کے لئے اور ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے بہت پسند ہے۔ آنکھوں کو اچھی لگتی ہے۔ “ یہ کہہ کر اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا ” آپ جا رہے ہیں“۔ آدمی نے جواب دیا۔ ” نہیں میں تمہارے اس مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں.... چلو مجھے تمام کمرے دکھا“۔
سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کر کے دکھا دئے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا جائزہ لیا۔ جب وہ دنوں پھر اسی کمرہ میں آگئے جہاں پہلے بیٹھے تھے تو اس آدمی نے کہا ” میرا نام شنکر ہے“۔
سلطانہ نے پہلی بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا انسان تھا۔ مگر اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر صاف و شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک بھی پیدا ہوتی تھی۔ گھٹا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہو رہے تھے۔ گرم پتلون پہنے تھا۔ سفید قمیض تھی جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اٹھا ہوا تھا۔
شنکر کچھ اسی طرح دری پر بیٹھا ہوا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کی بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کردیا چنانچہ اس نے شنکر سے کہا ”فرمایئے....“
شنکر بیٹھا تھا، یہ سن کر لیٹ گیا۔ ” میں کیا فرماؤں، کچھ تم ہی فرماؤ، بلایا تم نے ہے مجھے۔“ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو اٹھ بیٹھا۔ ” میں سمجھا، لو اب مجھ سے سنو جو کچھ تم نے سمجھا ہے غلط ہے، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دے جایاکرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینی ہی پڑتی ہے۔“
سلطانہ یہ سن کر چکرا گئی۔ مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آگئی۔
”آپ کیا کام کرتے ہیں؟“
شنکر نے جواب دیا ”یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔“
”کیا؟“
”میں....میں.... کچھ بھی نہیں کرتی۔“
”میں بھی کچھ نہیں کرتا۔“
سلطانہ نے بھنا کر کہا ” یہ کوئی بات نہ ہوئی.... آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔“
شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ” تم بھی کچھ نہ کچھ ضرورر کرتی ہوگی۔“
”جھک مارتی ہوں۔“
”تو آؤ دونوں جھک ماریں“۔
”میں حاضر ہوں۔ مگر میں جھک مارنے کے دام کبھی نہیں دیا کرتا۔“
”ہوش کی دوا کرو....یہ لنگر خانہ نہیں۔“
”اور میں بھی والنٹیئر نہیں ہو!“
سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا ” یہ والنٹیئر کون ہوتے ہیں؟“
شنکر نے جواب دیا۔ ”الو کے پٹھے۔“
”میں بھی الو کی پٹھی نہیں۔“
”مگر وہ آدمی جو تمہارے ساتھ رہتا ہے ضرور الو کا پٹھا ہے۔“
”کیوں؟“
اس لئے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کھلوانے کی خاطر جا رہاہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔“ یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔
اس پر سلطانہ نے کہا۔ ” تم ہندو ہو اس لئے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اڑاتے ہو۔“
شنکر مسکرا دیا۔ ”ایسی جگہوں پر ہندو مسلم کا سوال پیدا نہیں ہوا کرتے۔ بڑے بڑے پنڈت مولوی اگر یہاں آئیں تو وہ شریف آدمی بن جائیں۔“
” جانے تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہو....
بولو، رہو گے اسی شرط پر جو میں پہلے بتا چکاہوں۔“
سلطانہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ” تو جاؤ رستہ پکڑو۔“
شنکر آرام سے اٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں اس نے اپنے دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا۔ ” میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرتا ہوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو، بلا لینا.... میں بہت کام کا آدمی ہوں۔“
شنکر چلا گیا اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کردیا تھا۔ اگر وہ انبالہ میں آیا ہوتا جہاں وہ خوش حال تھی تو اس نے کسی اور ہی رنگ میں ا س آدمی کو دیکھا ہوتا اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہوتا یہاں چونکہ وہ اداس رہتی تھی اس لئے شنکر کی باتیں پسند آئیں۔

شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نے اس سے پوچھا ”تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟“
خدا بخش تھک کر چور چور ہو رہا تھا کہنے لگا ” پرانے قلعے سے آرہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ انہی کے پاس ہر روز جاتا ہوں کہ ہمارے دن پھرجائیں۔“
”کچھ انہوں نے تم سے کہا۔“
”نہیں ابھی وہ مہربان نہیں ہوئے.... پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کر رہاہوں وہ اکارت کبھی نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل شاملِ حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہوجائیں گے۔“
سلطانہ کے دماغ میں محرم بنانے کا خیال سمایا ہوا تھا۔ خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی۔ سارا سارا دن باہر غائب رہتے ہو۔ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں۔ نہ کہیں جا سکتی ہوں۔ محرم سر پر آگیا ہے۔ کچھ تم نے اس کی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہئیں۔گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں سو وہ ایک ایک کرکے بک گئیں۔ اب تم ہی بتاؤ کہ کیاہوگا؟.... یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کروگے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کر دو، کچھ تو سہارا ہو ہی جائے گا۔“
خدابخش دری پر لیٹ گیا اورکہنے لگا۔ ”پر یہ کام شروع کرنے کے لئے بھی تو تھوڑا بہت سرمایہ چاہئے.... خدا کے لئے اب ایسی دکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی تھی۔ پر جو کرتا ہے اللہ ہی کرتاہے اور ہماری بہتری ہی کےلئے کرتاہے۔ کیا پتہ ہے کچھ دیر اور تکلیف برداشت کرنے کے بعد ہم....“
سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا۔”تم خدا کے لئے کچھ کرو۔ چوری کرو یا ڈاکہ ڈالو پرمجھے شلوار کا کپڑا لا دو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی ایک قمیض پڑی ہوئی ہے اس کو میں کالا رنگوا لوں گی۔ سفید شفون کا ایک دوپٹا بھی میرے پاس موجود ہے۔ وہی جو تم نے دیوالی پر مجھے لا کر دیا تھا۔ یہ بھی قمیض کے ساتھ ہی رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے سو وہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کردو.... دیکھو تمہیں میری جان کی قسم، کسی نہ کسی طرح ضرور لا دو.... میری بھتی نہ کھاؤ اگر نہ لا۔“
خدابخش اٹھ بیٹھا۔ ” اب تم خواہ مخواہ زور دئے چلی جا رہی ہو.... میں کہاں سے لاؤں گا.... افیم کھانے کے لئے تو میرے پاس پیسے نہیں۔“
”کچھ بھی کرو مگر ساڑھے چار گز کالی شلوار کا کپڑا لا دو۔“
”دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین بندے بھیج دے۔“
”لیکن تم کچھ نہیں کرو گے.... تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کر سکتے ہو۔ جنگ سے پہلے ساٹن بارہ چودہ آنے گز مل جاتی تھی۔ اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے ساڑھے چار گزوں پر کتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟“
”اب تم کہتی ہو تو میں کوئی حیلہ کروں گا۔“ یہ کہہ کر خدا بخش اٹھا۔ ” لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ۔ میں ہوٹل سے کھانا لاتا ہوں۔“

ہوٹل سے کھانا آیا۔ دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سوگئے۔ صبح ہوئی۔ خدابخش پرانے قلعہ والے فقیر کے پاس چلا گیا۔ سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی۔ کچھ دیر سوئی رہی۔ ادھر ادھر کمروں میں ٹہلتی رہی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا شفون کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیض نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لئے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔

یہ کام کرنے کے بعد اس نے واپس آکر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کی دیکھی ہوئی فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی۔ جب اٹھی تو چار بج چکے تھے کیونکہ دھوپ آنگن میں موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہوئی تو گرم چادر اڑھ کر بالکونی میں آکھڑی ہوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ سلطانہ بالکونی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہو رہی تھیں۔ نیچے سڑک میں رونق کے آثار نظر آرہے تھے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی تھی مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہوا۔ وہ سڑک پر آتے جاتے ٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتاً اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔
جب شنکر اوپر آگیا تو سلطانہ بہت پریشان ہوئی کہ اسے کیا کہے۔ در اصل اس نے ایسے ہی بنا سوچے سمجھے اسے اشارہ کر دیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اس کا اپنا گھر ہے۔ چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح گاؤ تکیہ کو سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نے دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس نے کہا ” تم سو دفعہ مجھے بلا سکتی ہو اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ.... میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا۔“
سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی کہنے لگی۔ ”نہیں بیٹھو تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔
شنکر اس پر مسکر ادیا۔ ”تو میری شرطیں تمہیں منظور ہیں۔“
”کیسی شرطیں؟“ سلطانہ نے ہنس کر کہا ”کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے ؟“
”نکاح اور شادی کیسی؟....نہ تم عمر بھر میں کسی سے نکاح کروگی، نہ میں.... یہ رسمیں ہم لوگوں کے لئے نہیں....چھوڑو ان فضولیات کو، کوئی کام کی بات کرو۔“
”بولو کیا کروں؟“
”تم عورت ہو....کوئی ایسی بات کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے.... اس دل میں صرف دکانداری ہی دکانداری نہیں، کچھ اور بھی ہے۔“
سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کر چکی تھی، صاف صاف کہو تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟“
”جو دوسرے چاہتے ہیں“۔ شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا۔“
” تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اور مجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہئیں خود سمجھنا چاہئیں۔“
سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی، پھر کہا ” میں سمجھ گئی ہوں!“
”تو کہو کیا ارادہ ہے؟“
”تم جیتے، میں ہاری، پر میں کہتی ہوں، آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔“
”تم غلط کہتی ہو.... اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو یقین نہیں کریں گی کہ کیا عورت ایسی ذلت قبول کر سکتی ہے جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو لیکن ان کے یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو.... تمہارا نام سلطانہ ہے نا“۔
”سلطانہ ہی ہے“۔
شنکر اٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔ ”میرا نام شنکرہے.... یہ نام بھی عجب اوٹ پنانگ ہوتے ہیں۔ چلو اندر چلیں۔“
شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا۔ شنکر تم میری ایک بات مانو گے؟“
شنکر نے جواباً کہا۔ ” پہلے بات تو بتاؤ؟“
سلطانہ کچھ جھنیپ سی گئی۔ ”تم کہوگے میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں، مگر....“
”کہو کہو، ....رک کیوں گئی ہو؟“
سلطانہ نے جرأت سے کام لے کر کہا۔ ”بات یہ ہے کہ محرم آرہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں۔ یہاں کے سارے دکھڑے تو تم سن ہی چکے ہو۔ قمیض اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لئے دے دیاہے!“
شنکر نے یہ سن کر کہا”تم چاہتی ہوکہ میں تمہیں کچھ روپے دوں جو تم کالی شلوار بنا سکو۔“
سلطانہ نے فوراً ہی کہا۔ ” نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار بنوا دو۔“
شنکر مسکرایا۔ ” میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ بہر حال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لو بس اب تو خوش ہو گئیں۔ پھر سلطانہ کے بندوں کی طرف دیکھ کر شنکر نے پوچھا ” کیا یہ بندے تم مجھے دے سکتی ہو؟“
سلطانہ نے ہنس کر کہا ” تم انہیں کیا کرو گے۔ چاندی کے معمولی بندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہو نگے۔“
اس پر شنکر نے ہنس کر کہا ”میں نے تم سے بندے مانگے ہیں ان کی قیمت نہیں پوچھی۔ بولو دیتی ہو؟“
”لے لو“ یہ کہہ کر سلطانہ نے بندے اتار کر شنکر کو دے دئے۔ اس کو بعد میں افسوس ہوا، لیکن شنکر جا چکا تھا۔

سلطانہ کو قطعاً یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پوراکرے گا۔ مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبارمیں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا ” ساٹن کی کالی شلوار ہے۔ دیکھ لینا شاید لمبی ہو.... اب میں چلتاہوں۔“

شنکر شلوار دے کر چلا گیا اور کوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں، بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیاہے۔
سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی۔ ایسی ہی جیسی کہ وہ مختار کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بندوں اور اس سودے کا جو افسوس اسے ہوا تھا، اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کردیا۔

دوپہر کو وہ نیچے لانڈری والے سے اپنی رنگین قمیض اور دوپٹہ لے آئی۔ تینوں کالے کپڑے جب اس نے پہن لئے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو مختار اندر داخل ہوئی۔ اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا۔ ”قمیض اور دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ پر یہ شلوار نئی ہے، کب بنوائی؟“
سلطانہ نے جواب دیا”آج ہی درزی لایا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں مختار کے کانوں پر پڑیں۔ ” یہ بندے تم نے کہاں سے لئے؟“
مختار نے جواب دیا ” آج ہی منگوائے ہیں۔“
اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش رہنا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                                                                         (بلاؤز )




کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت، باتیں کرتے ہوئے، حتٰی کہ سوچتے ہوئے بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر وہ بیان کرنا چاہتا تو نہ کر سکتا۔

بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ ایک دم چونک پڑتا۔ دھندلے دھندلے خیالات جو عام حالتوں میں بے آواز بلبلوں کی طرح پیدا ہو کر مٹ جایا کرتے ہیں مومن کے دماغ میں بڑے شور کے ساتھ پیدا ہوتے اور شور ہی کے ساتھ پھٹتے۔ اس کے دل و دماغ کے نرم و نازک پردوں پر ہر وقت جیسے خار دار پاؤں والی چیونٹیاں سی رینگتی رہتی تھیں۔ ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ اس کے اعضا میں پیدا ہو گیا تھا جس کے باعث اسے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ اس تکلیف کی شدت جب بڑھ جاتی تو اس کے جی میں آتا کہ اپنے آپ کو ایک بڑے سے ہاون میں ڈال دے اور کسی سے کہے کہ مجھے کوٹنا شروع کردیں۔

باورچی خانے میں گرم مصالحہ جات کوٹتے وقت جب لوہے سے لوہا ٹکراتا اور دھمکوں سے چھت میں ایک گونج سی دوڑ جاتی تو مومن کے ننگے پیروں کو یہ لرزش بہت بھلی معلوم ہوتی۔ پیروں کے ذریعے یہ لرزش اس کی تنی ہوئی پنڈلیوں اور رانوں میں دوڑتی ہوئی اس کے دل تک پہنچ جاتی جو تیز ہوا میں رکھے ہوئے دیےکی لو کی طرح کانپنا شروع کردیتا۔

مومن کی عمر پندرہ برس تھی۔ شاید سولہواں بھی لگا ہو۔ اسے اپنی عمر کے متعلق صحیح اندازہ نہیں تھا۔ وہ ایک صحت مند اور تندرست لڑکا تھا جس کا لڑکپن تیزی سے جوانی کے میدان کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اسی دوڑ نے جس سے مومن بالکل غافل تھا اس کے لہو کے ہر قطرے میں سنسنی پیدا کردی۔ وہ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا مگر ناکام رہتا۔

اس کے جسم میں کئی تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ گردن جو پہلے پتلی تھی اب موٹی ہوگئی تھی۔ بانہوں کے پٹھوں میں اینٹھن سی پیدا ہو گئی تھی۔ کنٹھ نکل رہاتھا۔ سینے پر گوشت کی موٹی تہہ ہو گئی تھی اور اب کچھ دنوں سے پستانوں میں گولیاں سی پڑ گئی تھیں، جگہ ابھر آئی تھی جیسے کسی نے ایک بنٹا اندر داخل کر دیا ہے۔ ان ابھاروں کو ہاتھ لگانے سے مومن کو بہت درد محسوس ہو تا تھا۔ کبھی کبھی کام کرنے کے دورا ن میں غیر ارادی طور پر جب کا ہاتھ ان گولیوں سے چھو جاتا تو وہ تڑپ اٹھتا۔ قمیض کے موٹے اور کھردرے کپڑے سے بھی اس کی تکلیف دہ سرسراہٹ محسوس ہوتی تھی۔

غسل خانے میں نہاتے وقت یا باورچی خانہ میں جب کوئی اورموجود نہ ہوتا۔ مومن اپنے قمیض کے بٹن کھول کر ان گولیوں کو غور سے دیکھتا۔ ہاتھوں سے مسلتا۔ درد ہوتا، ٹیسیں اٹھتیں جیسے جسم پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ کی طرح زور سے ہلا دیا گیا ہو۔ کانپ کانپ جاتا مگر اس کے باوجود وہ اس درد پیدا کرنے والے کھیل میں مشغول رہتا۔ کبھی کبھی زیادہ دبانے پر یہ گولیاں پچک جاتیں اور ان کے منہ سے ایک لیس دار لعاب نکل آتا۔ اس کو دیکھ کر اس کا چہرہ کان کی لوؤں تک سرخ ہو جاتا۔ وہ یہ سمجھتا کہ اس سے کوئی گناہ سر زد ہو گیا ہے۔ گناہ اور ثواب کے متعلق مومن کا علم بہت محدود تھا۔ ہر وہ فعل جو ایک انسان دوسرے انسان کے سامنے نہ کر سکتا ہو، اس کے خیال کے مطابق گناہ تھا۔ چنانچہ جب شرم کے مارے اس کا چہرہ کان کی لوؤں تک سرخ ہو جاتا تو وہ جھٹ سے اپنی قمیض کے بٹن بند کرلیتا اور دل میں عہد کرتا کہ آئندہ ایسی فضول حرکت کبھی نہیں کر ے گا لیکن اس عہد کے باوجود دوسرے یا تیسرے روز تخلیے میں وہ پھر اسی کھیل میں مشغول ہو جاتا۔

مومن کا بھی بالکل یہی حال تھا۔ وہ کچھ دنوں سے موڑ مڑتا زندگی کے ایک ایسے راستے پر آنکلا تھا جو زیادہ لمبا تو نہیں تھا مگر بے حد پُرخطر تھا۔ اس راستے پر اس کے قدم کبھی تیز تیز اٹھتے تھے، کبھی ہولے ہولے۔ وہ در اصل جانتا نہیں تھا کہ ایسے راستوں پر کس طرح چلنا چاہئے۔ انہیں جلدی طے کرنا چاہئے یا کچھ وقت لے کر آہستہ آہستہ ادھر ادھر کی چیزوں کا سہارا لے کر طے کرنا چاہئے۔ مومن کے ننگے پاؤں کے نیچے آنے والے شباب کی گول گول چکنی بنٹیاں پھسل رہی تھیں۔ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس لئے بے حد مضطرب تھا۔ اسی اضطراب کے باعث کئی بار کام کرتے کرتے چونک کر وہ غیر ارادی طور پر کسی کھونٹی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیتا اور اس کے ساتھ لٹک جاتا۔ پھر اس کے د ل میں خواہش پیدا ہوتی کہ ٹانگوں سے پکڑ کر اسے کوئی اتنا کھینچے کہ وہ ایک مہین تار بن جائے۔ یہ سب باتیں اس کے دماغ کے کسی ایسے گوشے میں پیدا ہوتی تھیں کہ وہ ٹھیک طور پر ان کا مطلب نہیں سمجھ سکتا تھا۔

مومن سے سب گھر والے خوش تھے۔ بڑا محنتی لڑکا تھا۔ جب ہر کام وقت پر کردیتا تو کسی کو شکایت کا موقع کیسے ملتا۔ ڈپٹی صاحب کے یہاں اسے کام کرتے ہوئے صرف تین مہینے ہوئے تھے لیکن اس قلیل عرصے میں اس نے گھر کے ہر فرد کو اپنی محنت کش طبعیت سے متاثر کرلیا تھا۔ چھ روپے مہینے پر نوکر ہوا تھا مگر دوسرے مہینے ہی اس کی تنخواہ میں دو روپے بڑھا دئے گئے تھے۔ وہ اس گھر میں بہت خوش تھا اس لئے کہ اس کی یہاں قدر کی جاتی تھی مگر اب کچھ دنوں سے وہ بے قرار تھا۔ ایک عجیب قسم کی آوارگی اس کے دماغ میں پیدا ہو گئی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ سارا دن بے مطلب بازاروں میں گھومتا پھرے یا کسی سنسان مقام پر جا کر لیٹا رہے۔

اب کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا لیکن اس بے دلی کے ہوتے ہوئے بھی وہ کاہلی نہیں برتتا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ گھر میں کوئی بھی اس کے اندرونی انتشار سے واقف نہیں تھا۔ رضیہ تھی سو وہ دن بھر باجہ بجانے، نئی نئی فلمی طرزیں سیکھنے اور رسالے پڑھنے میں مصروف رہتی تھی۔ اس نے کبھی مومن کی نگرانی ہی نہ کی تھی۔ شکیلہ البتہ مومن سے ادھر ادھر کے کام لیتی تھی اور کبھی کبھی اسے ڈانٹتی بھی تھی مگر اب کچھ دنوں سے وہ بھی چند بلاؤزوں کے نمونے اتارنے میں بے طرح مشغول تھی۔ یہ بلاؤز اس کی ایک سہیلی کے تھے جسے نئی نئی تراشوں کے کپڑے پہننے کا بے حد شوق تھا۔ شکیلہ اس سے آٹھ بلاؤز مانگ کر لائی تھی اور کاغذوں پر ان کے نمونے اتار رہی تھی چنانچہ اس نے بھی کچھ دنوں سے مومن کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔

ڈپٹی صاحب کی بیوی سخت گیر عورت نہیں تھی۔ گھر میں دو نوکر تھے یعنی مومن کے علاوہ ایک بڑھیا بھی تھی جو زیادہ تر باورچی خانے کا کام کرتی تھی۔ مومن کبھی کبھی اس کا ہاتھ بٹا دیا کرتا تھا۔ ڈپٹی صاحب کی بیوی نے ممکن ہے مومن کی مستعدی میں کوئی کمی دیکھی ہو مگر اس نے مومن سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا اور وہ انقلاب جس میں مومن کا دل و دماغ اور جسم گزر رہا تھا، اس سے تو ڈپٹی صاحب کی بیوی بالکل غافل تھی۔ چونکہ اس کا کوئی لڑکا نہیں تھا اس لئے وہ مومن کی ذہنی اور جسمانی تبدیلیوں کو نہیں سمجھ سکی اور پھر مومن نوکر تھا.... نوکروں کے متعلق کون غور و فکر کرتا ہے۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک وہ تمام منزلیں پیدل طے کرجاتے ہیں اور آس پاس کے آدمیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔

غیر شعوری طور پر وہ چاہتا تھا کہ کچھ ہو.... کیا ہو؟ .... بس کچھ ہو۔ میز پر قرینے سے چنی ہوئی پلیٹیں ایک دم اچھلنا شروع کریں۔ کیتلی پر رکھا ہوا ڈھکا پانی ایک ہی ابال سے اوپر کو اڑ جائے۔ نل کی جستی نال پر دباؤ ڈالے تو وہ دوہری ہو جائے اور اس میں سے پانی کا ایک فوارہ سا پھوٹ نکلے۔ اسے ایک ایسی زبردست انگڑائی آئے کہ اس کے سارے جوڑ جوڑ علیحدہ علیحدہ ہو جائیں اور اس میں ایک ڈھیلا پن پیدا ہو جائے۔
کوئی ایسی بات وقوع پذیر ہو جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔

مومن بہت بے قرار تھا۔ رضیہ نئی طرز سیکھنے میں مشغول تھی اور شکیلہ کاغذوں پر بلاؤزوں کے نئے نمونے اتار رہی تھی۔ جب اس نے یہ کام ختم کرلیا تو وہ نمونہ جو ان سب میں اچھا تھا، سامنے رکھ کر اپنے لئے اودی ساٹن کا بلاؤز بنانا شروع کردیا۔ اب رضیہ کو بھی اپنا باجہ اور فلمی گانوں کی کاپی چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہونا پڑا۔

شکیلہ ہر کام بڑے اہتمام اور چاؤ سے کرتی تھی۔ جب سینے پرونے بیٹھتی تو اس کی نشست بڑی پر اطمینان ہوتی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن رضیہ کی طرح وہ افرا تفری پسند نہیں کرتی تھی۔ ایک ایک ٹانکا سوچ سمجھ کر بڑے اطمینان سے لگاتی تھی تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ پیمائش بھی اس کی بہت صحیح تھی۔ اس لئے کہ پہلے کاغذ کاٹ کر پھر کپڑا کاٹتی تھی یوں وقت زیادہ صرف ہوتا ہے مگر چیز بالکل فٹ تیار ہوتی تھی۔
شکیلہ بھر ے بھرے جسم کی صحت مند لڑکی تھی، ہاتھ بہت گدگدے تھے۔ گوشت بھری مخروطی انگلیوں کے آخر میں ہر جوڑ پر ایک ننھا گڑھا تھا جب مشین چلاتی تھی تو یہ ننھے گڑھے ہاتھ کی حرکت سے کبھی کبھی غائب ہو جاتے تھے۔

شکیلہ مشین بھی بڑے اطمینان سے چلاتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی دو یا تین انگلیاں بڑی صفائی کے ساتھ مشین کی ہتھی گھماتی تھیں۔ کلائی میں ایک ہلکا سا خم پیدا ہو جاتا تھا۔ گردن ذرا ایک طرف کو جھک جاتی تھی اور بالوں کی ایک لٹ جسے شاید اپنے لئے کوئی مستقل جگہ نہیں ملتی تھی نیچے پھسل آتی تھی۔ شکیلہ اپنے کام میں اس قدر منہمک رہتی کہ اسے ہٹانے یا جمانے کی کوشش ہی نہیں کرتی تھی۔

جب شکیلہ اودی ساٹن سامنے پھیلاکر اپنے ماپ کا بلاؤز تراشنے لگی تو اسے ٹیپ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ ان کا ٹیپ گھس گھسا کر اب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ لوہے کا گز موجود تھا مگر اس سے کمر اور سینے کی پیمائش کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کے اپنے کئی بلاؤز موجودے تھے مگر اب چونکہ وہ پہلے سے کچھ موٹی ہو گئی تھی اس لئے ساری پیمائش دوبارہ کرنا چاہتی تھی۔

قمیض اتار کر اس نے مومن کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس سے کہا ”جاؤ مومن دوڑ کر چھ نمبر سے کپڑے کا گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہے“۔

مومن کی نگاہیں شکیلہ کی سفید بنیان سے ٹکرائیں۔ وہ کئی بار شکیلہ بی بی کو ایسی بنیانوں میں دیکھ چکا تھا مگر آج اسے ایک عجیب قسم کی جھجک محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی نگاہوں کا رخ دوسری طرف پھیر لیا اور گھبراہٹ میں کہا۔ ”کیسا گز بی بی جی۔“

شکیلہ نے جواب دیا” کپڑے کا گز.... ایک گز تو یہ تمہارے سامنے پڑا ہے۔ یہ لوہے کا ہے۔ ایک دوسرا گز بھی ہوتا ہے کپڑے کا۔ جاؤ چھ نمبر میں جاؤ اور دوڑ کے ان سے یہ گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہے۔“

چھ نمبر کا فلیٹ بالکل قریب تھا۔ مومن فوراً ہی کپڑے کا گز لے کر آگیا۔ شکیلہ نے اس کے ہاتھ سے لے لیا اور کہا ”یہاں ٹھہر جا۔ اسے ابھی واپس لے جانا۔“ پھر وہ اپنی بہن رضیہ سے مخاطلب ہوئی۔ ان لوگوں کی کوئی چیز اپنے پاس رکھ لی جائے تو وہ بڑھیا تقاضے کر کے پریشان کردیتی ہے.... ادھر آؤ یہ گز لو اور یہاں سے میرا ماپ لو۔

رضیہ نے شکیلہ کی کمر اور سینے کا ماپ لینا شروع کیا تو ان کے درمیان کئی باتیں ہوئیں۔ مومن دروازے کی دہلیز پر کھڑا تکلیف دہ خاموشی سے یہ باتیں سنتا رہا۔

”رضیہ تم گز کو کھینچ کر ماپ کیوں نہیں لیتیں.... پچھلی دفعہ بھی یہی ہوا۔ جب تم نے ماپ لیا اور میرے بلاؤز کا ستیا ناس ہوگیا.... اوپر کے حصہ پر اگر کپڑا فٹ نہ آئے تو ادھر ادھر بغلوں میں جھول پڑ جاتے ہیں۔“

” کہاں کا لوں، کہاں کا نہ لوں۔ تم تو عجب مخمصے میں ڈال دیتی ہو۔ یہاں کا ماپ لینا شروع کیا تھا تو تم نے کہا ذرا اور نیچے کا لو.... ذرا چھوٹا بڑا ہو گیا تو کون سی آفت آجائے گی۔“

”بھئی واہ.... چیز کے فٹ ہونے ہی میں ساری خوبصورتی ہوتی ہے۔ ثریا کو دیکھو کیسے فٹ کپڑے پہنتی ہے۔ مجال ہے جو کہیں شکن پڑے، کتنے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ایسے کپڑے.... لو اب تم ماپ لو....“۔

یہ کہہ کر شکیلہ نے سانس کے ذریعے اپنا سینہ پھلانا شروع کیا۔ جب اچھی طرح پھول گیا تو سانس روک کر اس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا ” لو اب جلدی کرو۔“

جب شکیلہ نے سینے کی ہوا خارج کی تو مومن کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے اندر ربڑ کے کئی غبارے پھٹ گئے ہیں۔ اس نے گھبرا کر کہا ”گز لائیے بی بی جی.... دے آؤں۔“
شکیلہ نے اسے جھڑ ک دیا۔ ”ذرا ٹھہر جا“۔
یہ کہتے ہوئے کپڑے کا گز اس کے ننگے بازو سے لپٹ گیا۔ جب شکیلہ نے اسے اتارنے کی کوشش کی تو مومن کو اس کی سفید بغل میں کالے کالے بالوں کا ایک گچھا نظر آیا۔ مومن کی اپنی بغلوں میں بھی ایسے ہی بال اگ رہے تھے مگر یہ گچھا اسے بہت بھلا معلوم ہوا۔ ایک سنسنی سی اس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ ایک عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی کہ یہ کالے کالے بال اس کی مونچھیں بن جائیں۔ بچپن میں وہ بُھٹوں کے کالے اور سنہری بال نکال کر اپنی مونچھیں بنایا کرتا تھا۔ ان کو اپنے بالائی ہونٹ پر جماتے وقت جو سرسراہٹ اسے محسوس ہوتی تھی۔ اسی قسم کی سرسراہٹ اس خواہش نے اس کے بالائی ہونٹ اور ناک میں پیدا کردی۔

شکیلہ کا بازو اب نیچے جھک گیا تھا اور بغل چھپ گئی تھی مگر مومن بھی کالے بالوں کا وہ گچھا دیکھ رہا تھا۔ اس کے تصورمیں شکیلہ کا بازو دیر تک ویسے ہی اٹھا رہا اور بغل میں اس کے سیاہ بال جھانکتے رہے۔

تھوڑی دیر بعد شکیلہ نے مومن کو گز دے دیا اور کہا ”جاؤ، واپس دے آؤ۔ کہنا بہت بہت شکریہ ادا کیاہے“۔

مومن گز واپس دے کر باہر صحن میں بیٹھ گیا۔ اس کے دل و دماغ میں دھندلے دھندلے خیال پیدا ہو رہے تھے۔ دیر تک ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا رہا جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے غیر ارادی طور پر اپنا چھوٹا سا ٹرنک کھولا، جس میں اس نے عید کے لئے نئے کپڑے بنوارکھے تھے۔

جب ٹرنک کا ڈھکنا کھولا اور نئے لٹھے کی بو اس کی ناک تک پہنچی تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ نہا دھو کر یہ نئے کپڑے پہن کر وہ سیدھا شکیلہ بی بی کے پاس جائے اور اسے سلام کرے۔ اس کی لٹھے کی شلوار کس طرح کھڑ کھڑ کرے گی اور اس کی رومی ٹوپی....

رومی ٹوپی کا خیال آتے ہی مومن کی نگاہوں کے سامنے اس کا پھندنا آگیا اور پھندنا فوراً ہی ان کالے کالے بالوں کے گچھے میں تبدیل ہو گیا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھا تھا۔ اس نے کپڑوں کے نیچے سے اپنی نئی رومی ٹوپی نکالی اور اس کے نرم اور لچکیلے پھندنے پر ہاتھ پھیرنا شروع ہی کیا تھا کہ اندر سے شکیلہ بی بی کی آواز آئی۔ ”مومن“

مومن نے ٹوپی ٹرنک میں رکھی، ڈھکنا بند کیا اور اندر چلا گیا جہاں شکیلہ نمونے کے مطابق اودی ساٹن کے کئی ٹکڑے کاٹ چکی تھی۔ ان چمکیلے اور پھسل پھسل جانے والے ٹکڑوں کو ایک جگہ رکھ کر وہ مومن کی طرف متوجہ ہوئی۔ "میں نے تمہیں اتنی آوازیں دیں۔ سو گئے تھے کیا؟“
مومن کی زبان میں لکنت پیدا ہو گئی۔ ”نہیں بی بی جی“۔
”تو پھر کیا کر رہے تھے؟“
”کچھ.... کچھ بھی نہیں“۔
”کچھ تو ضرور کرتے ہوگے۔“ شکیلہ یہ سوال کئے جا رہی تھی مگر اس کا دھیان اصل میں بلاؤز کی طرف تھا جسے اب اسے کچا کرنا تھا۔
مومن نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔ ٹرنک کھول کر اپنے نئے کپڑے دیکھ رہا تھا۔
شکیلہ کھل کھلا کر ہنسی۔ رضیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
شکیلہ کو ہنستے دیکھ کر مومن کو ایک عجیب تسکین محسوس ہوئی اور اس تسکین نے اس کے دل میں یہ خواہش پیدا کی کہ وہ کوئی ایسی مضحکہ خیز طور پراحمقانہ حرکت کرے جس سے شکیلہ کو اور زیادہ ہنسنے کا موقع ملے چنانچہ لڑکیوں کی طرح جھینپ کر اور لہجے میں شرماہٹ پیدا کرکے اس نے کہا۔ ”بڑی بی بی جی سے پیسے لے کر میں ریشمی رومال بھی لوں گا۔“
شکیلہ نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا۔ ”کیا کرو گے اس رومال کو ؟“
مومن نے جھینپ کر جوا ب دیا۔ ”گلے میں باندھ لو ں گا بی بی جی.... بڑا اچھا معلوم ہو گا۔“
یہ سن کر شکیلہ اور رضیہ دونوں دیر تک ہنستی رہیں۔
”گلے میں باندھو گے تو یاد رکھنا اسی سے پھانسی دے دوں گی“ یہ کہہ کر شکیلہ نے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کی اور رضیہ سے کہا۔ ”کم بخت نے مجھ سے کام ہی بھلا دیا۔ رضیہ میں نے اسے کیوں بلایا تھا؟“
رضیہ نے جواب نہ دیا اور نئی فلمی طرز گنگنانا شروع کردی جو وہ دو روز سے سیکھ رہی تھی۔ اس دوران میں شکیلہ کو خود ہی یاد آگیا کہ اس نے مومن کو کیوں بلا یاتھا۔
”دیکھو مومن میں تمہیں یہ بنیان اتار کر دیتی ہوں۔ دوائیوں کے پاس جو ایک دکان نئی کھلی ہے نا، وہاں جہاں تم اس دن میرے ساتھ گئے تھے۔ وہاں جاؤ اور پوچھ کے آؤ کہ ایسی چھ بنیانوں کے وہ کیا لے گا.... کہنا ہم چھ لیں گے۔ اس لئے کچھ رعایت ضرور کرے.... سمجھ لیا نا؟“
”مومن نے جواب دیا۔ ”جی ہاں“۔
”اب تم پرے ہٹ جاؤ۔“
مومن باہر نکل کر دروازے کی اوٹ میں ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد بنیان اس کے قدموں کے پاس آگرا اور اندر سے شکیلہ کی آوازآئی۔ ”کہنا ہم اس قسم کی ہی ڈیزائن کی بالکل یہی چیز لیں گے۔ فرق نہیں ہونا چاہئے۔“
مومن نے بہت اچھا کہہ کر بنیان اٹھا لیا جو پسینے کے باعث کچھ کچھ گیلا ہو رہا تھا جیسے کسی نے بھاپ پر رکھ کر فوراً ہی اٹھا لیا ہو۔ بدن کی بو بھی اس میں بسی ہوئی تھی۔ میٹھی میٹھی گرمی بھی تھی۔ یہ تمام چیزیں اس کو بہت بھلی معلوم ہوئیں۔
وہ اس بنیان کو جو بلی کے بچے کی طرح ملائم تھا، اپنے ہاتھوں میں مسلتا ہوا باہر چلا گیا۔ جب بھاؤ دریافت کر کے بازار سے واپس آیا تو شکیلہ بلاؤز کی سلائی شروع کر چکی تھی۔ اس اودی، اودی ساٹن کے بلاؤز کی جو مومن کی رومی ٹوپی کے پھندنے سے کہیں زیادہ چمکیلی اور لچک دار تھی۔

یہ بلاؤز شاید عید کے لئے تیار کیا جارہا تھا کیونکہ عید اب بالکل قریب آگئی تھی۔ مومن کو ایک دن میں کئی بار بلا گیا۔ دھاگہ لانے کے لئے، استری نکالنے کے لئے، سوئی ٹوٹ گئی تو نئی سوئی لانے کےلئے، شام کے قریب جب شکیلہ نے دوسرے روز پر باقی کام اٹھا دیا تو دھاگے کے ٹکڑے اور اودی ساٹن کی بیکار کترنیں اٹھانے کے لئے بھی اسے بلایا گیا۔

مومن نے اچھی طرح جگہ صاف کردی۔ باقی سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دیں مگر ساٹن کی چمکیلی کترنیں اپنی جیب میں رکھ لیں.... بالکل بے مطلب کیونکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ ان کا کیا کر ے گا؟

دوسرے روز اس نے جیب سے کترنیں نکالیں اورالگ بیٹھ کر ان کے دھاگے الگ کرنے شروع کردئے۔ دیر تک وہ اس کھیل میں مشغول رہا حتٰی کہ دھاگے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا ایک گچھا سا بن گیا۔ اس کو ہاتھ میں لے کر وہ دباتا رہا، مسلتا رہا لیکن اس کے تصور میں شکیلہ کی وہی بغل تھی جس میں اس نے کالے کالے بالوں کا ایک چھوٹا سا گچھا دیکھا تھا۔

اس دن بھی اسے شکیلہ نے کئی بار بلایا.... اودی ساٹن کے بلاؤز کی ہر شکل اس کی نگاہوں کے سامنے آتی رہی۔۔
پہلے جب اسے کچا کیا گیا تھا تو اس پر سفید دھاگے کے بڑے بڑے ٹانکے جا بجا پھیلے ہوئے تھے۔ پھر اس پر استری پھیری گئی جس سے سب شکنیں دور ہو گئیں اور چمک بھی دوبالا ہو گئی۔ اس کے بعد کچی حالت ہی میں شکیلہ نے اسے پہنا۔ رضیہ کو دکھایا۔ دوسرے کمرے میں سنگھار میز کے پاس آئینے میں خود اس کو ہر پہلو سے اچھی دیکھا۔ جب پورا اطمینان ہو گیا تو اسے اتارا۔ جہاں جہاں تنگ یا کھلا تھا وہاں نشان لگائے۔ اس کی ساری خامیاں دور کیں۔ ایک بار پھر پہن کر دیکھا جب بالکل فٹ ہو گیا تو پکی سلائی شروع کی۔
اُدھر ساٹن کا یہ بلاؤز سیا جا رہا تھا، اِدھر مومن کے دماغ میں عجیب و غریب خیالوں کے ٹانکے ادھڑ رہے تھے.... جب اسے کمرے میں بلایا جاتا اور اس کی نگاہیں چمکیلی ساٹن کے بلاؤز پر پڑتیں تو اس کا جی چاہتا کہ وہ ہاتھ سے چھو کر اسے دیکھے صرف چھو کر ہی نہیں.... بلکہ اس کی ملائم اور روئیں دار سطح پر دیر تک ہاتھ پھیرتا رہے۔ اپنے کھردرے ہاتھ۔
اس نے ان ساٹن کے ٹکڑوں سے اس کی ملائمت کا اندازہ کرلیا تھا۔ دھاگے جو اس نے ان ٹکڑوں سے نکالے تھے اور بھی زیادہ ملائم ہو گئے تھے۔ جب اس نے ان کا گچھا بنایا تو دباتے وقت اسے معلوم ہوا کہ ان میں ربڑی کی سی لچک بھی ہے.... وہ جب بھی اندر آکر بلاؤز کو دیکھتا تو کا خیال فوراً ان بالوں کی طرف دوڑ جاتا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھے تھے۔ کالے کالے بال۔ مومن سوچتا تھا کہ وہ بھی ساٹن ہی کی طرح ملائم ہوں گے؟

بلاؤز بالآخر تیار ہو گیا.... مومن کمرے کے فرش پر گیلا کپڑا پھیر رہا تھا کہ شکیلہ اندر آئی۔ قمیض اتار کر اس نے پلنگ پر رکھی۔ اس کے نیچے اسی قسم کا سفید بنیان تھا جس کا نمونہ لے کر مومن بھاؤ دریافت کرنے گیا تھا.... اس کے اوپر شکیلہ نے اپنے ہاتھ کا سلا ہوا بلاؤز پہنا۔ سامنے کے ہک لگائے اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
مومن نے فرش صاف کرتے ہوئے آئینہ کی طرف دیکھا۔ بلاؤز میں اب جان سی پڑ گئی تھی۔ ایک دو جگہ پر وہ اس قدر چمکتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا ساٹن کا رنگ سفید ہو گیا ہے.... شکیلہ کی پیٹھ مومن کی طرف تھی جس پر ریڑھ کی ہڈی کی لمبی جھری بلاؤز فٹ ہونے کے باعث اپنی پوری گہرائی کے ساتھ نمایاں تھی۔ مومن سے رہا نہ گیا۔ چنانچہ اس نے کہا”بی بی جی، آپ نے درزیوں کو بھی مات کر دیا ہے۔“
شکیلہ اپنی تعریف سن کر خوش ہو ئی مگر وہ رضیہ کی رائے طلب کرنے کے لئے بے قرار تھی۔ اس لئے وہ صرف ”اچھا ہے نا“ کہہ کر باہر دوڑ گئی.... مومن آئینے کی طرف دیکھتا رہ گیا جس میں بلاؤزکا سیاہ اور چمکیلا عکس دیر تک موجود رہا۔

رات کو جب وہ پھر اس کمرے میں صراحی رکھنے کے لئے آیا تو اس نے کھونٹی پر لکڑی کے ہینگر میں اس بلاؤز کو دیکھا۔ کمرے میں کوئی موجود نہیں تھا۔ چنانچہ آگے بڑھ کر پہلے اس نے غورسے دیکھا پھر ڈرتے ڈرتے اس پر ہاتھ پھیرا۔ ایسا کرتے ہوئے یوں لگا کہ کوئی اس کے جسم کے ملائم روؤں پر ہولے ہولے بالکل ہوائی لمس کی طرح ہاتھ پھیر رہا ہے۔
رات کو جب وہ سویا تو اس نے کئی اوٹ پٹانگ خواب دیکھے.... ڈپٹی صاحب نے پتھر کے کوئلوں کا ایک بڑا ڈھیر اسے کوٹنے کو کہا جب اس نے ایک کوئلہ اٹھایا اور اس پر ہتھوڑے کی ضرب لگائی تو وہ نرم نرم بالوں کا ایک گچھا بن گیا.... یہ کالی کھانڈ کے مہین مہین تار تھے جن کا گولا بنا ہوا تھا.... پھر یہ گولے کالے رنگ کے غبارے بن کر ہوا میں اڑنے شروع ہوگئے.... بہت اوپر جا کر یہ پھٹنے لگے.... پھر آندھی آگئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا کہیں غائب ہو گیا.... پھندنے کی تلاش میں نکلا.... دیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہا.... نئے لٹھے کی بو بھی یہیں کہیں سے آنا شروع ہوگئی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا.... ایک کالی ساٹن کی بلاؤز پر اس کا ہاتھ پڑا .... کچھ دیر تک وہ کسی دھڑکتی ہوئی چیز پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر دفعتہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ تھوڑی دیر تک وہ کچھ سمجھ نہ سکا کیا ہوگیاہے۔ اس کے بعد اسے خوف، تعجب اور ایک انوکھی ٹھیس کا احساس ہوا۔ اس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی.... پہلے اسے تکلیف دہ حرارت محسوس ہوئی۔ مگر چند لمحات کے بعد ایک ٹھنڈی سی لہر اس کے جسم میں رینگنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


 " بین "

آج احمد ندیم قاسمی کےجنم دن پر ان کا ایک افسانہ " بین " پیش خدمت ہے
بس کچھ ایسا ہی موسم تھا میری بچی، جب تم سولہ سترہ سال پہلے میری گود میں آئی تھیں۔ بکائن کے اودے اودے پھول اسی طرح مہک رہے تھے اور بیریوں پر گلہریاں چوٹی تک اسی طرح بھاگی پھرتی تھیں اور ایسی ہوا چل رہی تھی جیسے صدیوں کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی۔ جب تم میری گود میں آئی تھیں تو دیے کی کالی پیلی روشنی میں اونگھتا ہوا کوٹھا چمکنے سا لگا تھا اور دایہ نے کہا تھا کہ ہائے ری، اس چھوکری کے تو انگ انگ میں جگنو ٹکے ہوئے ہیں! اس وقت میں نے بھی درد کے خمار میں اپنے جسم کے اس ٹکڑے کو دیکھا تھا اور مجھے تو یاد نہیں پر دایہ نے بعد میں مجھے بتایا تھا کہ میں مسکرا کر تمھارے چہرے کی دمک میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو یوں دیکھنے لگی تھی جیسے کوئی خط پڑھتا ہے۔
اگلی رات جب تمھارے بابا نے موقع پا کر تمھیں دیکھا تھا تو اداس ہو گیا تھا اور میں نے کہا تھا: "تم تو کہتے تھے بیٹا ہو یا بیٹی سب خدا کی دین ہے، پھر اب کیوں منہ لٹکا لیا ہے۔ " اور اس نے کہا تھا: "تو نہیں جانتی نا بھولی عورت، تو ماں ہے نا۔ تو کیسے جانے کہ خدا اتنی خوب صورت لڑکیاں صرف ایسے بندوں کو دیتا ہے جن سے وہ بہت خفا ہوتا ہے۔ " اس وقت میرا جی چاہا تھا کہ میں تمھارے بابا کی آنکھیں اس کی کھوپڑی میں سے نکال کر باداموں کی طرح توڑ دوں کیوں کہ میری جان، وہ تو تمھیں اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے چڑیا سانپ کو دیکھتی ہے، وہ تمھاری خوب صورتی دیکھ کر ڈر گیا تھا اور پھر اس نے اپنی عمر کے سولہ سترہ سال تم سے ڈرتے ڈرتے گزار دیے۔ وہ اب بھی ڈرا اور سہما ہوا، باہر گلی میں بچھی ہوئی چٹائیوں پر لوگوں میں گھرا بیٹھا ہے اور آسمانوں کو یوں دیکھ رہا ہے جیسے کوئی اس کی طرف آ رہا ہے۔
تم مجھ پر تو نہیں گئی تھیں میری بچی، میں تو گاؤں کی ایک عام لڑکی تھی۔ میرا ناک نقشہ بالکل سیدھا سادا تھا۔ ہاں تم اپنے بابا پر گئی تھیں جو بہت خوب صورت تھا۔ وہ تو اب بھی خوب صورت ہے پر اب اس کی خوب صورتی سولہ سترہ سال کی گرد سے اَٹ گئی ہے۔ اب بھی اس کی بڑی بڑی چیرویں بادامی آنکھیں ہیں اور اب بھی اس کے چہرے اور مونچھوں کے رنگ میں سونا ہے پر جب تم پیدا ہوئی تھیں نا تو وہ بالکل مورت تھا۔ تم آئیں تو وہ ڈر گیا تھا مگر اس ڈر نے اس کی شکل نہیں بدلی۔ بس ذرا سی بجھا دی۔ تمھارے آنے کے بعد میں نے اس کے موتیوں کے سے دانت بہت کم دیکھے۔ اس کے پنکھڑی ہونٹ ہمیشہ یوں بھنچے رہے جیسے کھلے تو کچھ ہو جائے گا۔ ابھی کچھ دیر پہلے جب وہ آیا اور اس نے تمھیں دیکھا تو مجھے ایسا لگا جیسے کسی بہت بڑے محل کی بنیادیں بیٹھ رہی ہیں۔ وہ یہاں کھڑے کھڑے ہی ایک دم اندر سے بوڑھا ہو گیا۔ جب وہ پلٹا تو میں ڈری کہ وہ گلی تک پہنچنے سے پہلے ہی ڈھیر ہو جائے گا مگر ابھی ابھی میں نے دیوار پر سے جھانکا ہے تو وہ گلی میں بیٹھا ہے اور جمع ہوتے ہوئے لوگوں کو یوں ڈر ڈر کر، چونک چونک کر دیکھ رہا ہے جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہے۔
تم جب تین چار سال کی ہو کر بھاگنے دوڑنے لگیں تو دیکھنے والوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ مٹی کا بنا ہوا انسان اتنا خوب صورت بھی ہو سکتا ہے۔ ایک بار تم گر پڑیں اور تمھارے ماتھے پر چوٹ آئی تو میں تو روتے روتے نڈھال ہو گئی پر تمھارے بابا نے چہک کر کہا تھا "خدا جو بھی کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے۔ ہماری رانو بیٹی کے ماتھے پر چوٹ کے نشان نے اس کی خوب صورتی کو داغ دار کر دیا ہے۔ " پر خدا کو تو کچھ اور منظور تھا۔ چوٹ کا نشان تو باقی رہ گیا مگر یہ نشان بالکل نئے نئے چاند کا سا تھا۔ لال لال سا بھی اور سنہرا سنہرا سا بھی، جو اَب میری جان، پیلا پیلا سا لگ رہا ہے۔
پھر جب تم پانچ سال کی ہوئیں تو میں نے قرآن شریف پڑھانے کے لیے تمھیں بی بی جی کے پاس بٹھا دیا۔ تب پتا چلا کہ تمھاری آواز بھی تمھاری طرح خوب صورت ہے۔ بی بی جی کے گھر کی دیواروں کے اندر سے قرآن شریف پڑھنے والی بچیوں کی آوازیں آتی تھیں تو ان میں سے میری رانو بیٹی کی آواز صاف پہچانی جاتی تھی۔ تمھاری آواز میں چاندی کی کٹوریاں بجتی تھیں۔ ایسی کھنک کہ تم چپ بھی ہو جاتی تھیں تو جب بھی چار طرف سے جھنکار سی اٹھتی رہتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ پہلے تم آیت پڑھتی تھیں اور تمھارے بعد تمھاری ہم سبقوں کی آوازیں آتی تھیں۔ یوں جب تم اکیلی پڑھ رہی ہوتی تھیں تو گلی میں سے گزرنے والوں کے قدم رک جاتے تھے اور چڑیوں کے غول منڈیروں پر اتر آتے تھے۔ ایک بار مزار سائیں دولھے شاہ جی کے مجاور سائیں حضرت شاہ ادھر سے گزرے تھے اور تمھاری آواز سن کر انھوں نے کہا تھا "یہ کون لڑکی ہے جس کی آواز میں ہم فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سن رہے ہیں۔ " اور جب تمھیں معلوم ہوا تھا کہ سائیں حضرت شاہ نے تمھارے بارے میں یہ کہا ہے تو تم اتنی خوش ہوئی تھیں کہ رونے لگی تھیں۔
تب یوں ہوا کہ عورتیں پانی سے بھرے ہوئے برتن لاتیں اور تمھاری تلاوت ختم ہونے کا انتظار کرتی رہتیں۔ تم قرآن پاک بند کر کے اٹھتیں اور "طفیل سائیں دولھے شاہ جی" کہتی ہوئی ان برتنوں پر "چھوہ" کرتیں اور عورتیں یہ پانی اپنے عزیزوں کو پلاتیں تو بیمار اچھے ہو جاتے، برے نیک ہو جاتے، بے نمازی نمازی ہو جاتے۔
ان دنوں مجھے یوں لگنے لگا جیسے تم نور کی بنی ہوئی تو خیر ہمیشہ سے ہو پر اب تم بی بی جی کے ہاں سے واپس گھر میں آتیں تو تمھارے چہرے پر میری نظریں نہ جم پاتیں، جیسے سورج پر نظر نہیں جمتی۔
خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد تم سائیں دولھے شاہ جی کا نام جپتی رہتی تھیں۔ اسی لیے تو تمھارا بابا ایک بار تمھیں سائیں دولھے شاہ جی کے مزار پر سلام بھی کرا لایا تھا۔
قرآن شریف تم نے اتنا پڑھا میرے جگر کی ٹکڑی، کہ اب بھی جب چارا طرف سناٹا اور صرف ادھر ادھر سے سسکی کی آواز آتی ہے، میں تمھارے آس پاس، تمھاری ہی آواز میں قرآن شریف کی تلاوت سن رہی ہوں۔ تمھارے ہونٹ تو نہیں ہل رہے، پر میں اپنے دودھ کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ یہ آواز تمھاری ہے۔ زمین پر ایسی نورانی آواز میری رانوں کے سوا اور کس کی ہو سکتی ہے۔
ایک دن جب تمھارے چاچا دین محمد کی بیوی اپنے بیٹے کے لیے تمھارا رشتہ پوچھنے آئی تو تب مجھے معلوم ہوا کہ تم شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہو۔ مائیں تو بیٹی کے سر پر چنی لیتے ہی سمجھ جاتی ہیں کہ وقت آ رہا ہے پر تمھارے بارے میں تو میں سوچ ہی نہ سکی۔ تم نے سوچنے کی مہلت ہی نہ دی۔ میں نے تمھارے بابا سے اپنی اس بے خبری کی بات کی تو وہ بولا "تو تو سدا کی بے خبر ہے پر میں ایسا بے خبر نہیں ہوں۔ بس یہ ہے کہ مجھے لڑکی سے ڈر لگتا ہے اس سے بھی تو بات کرو۔ اس نے تو جیسے اپنا سب کچھ مولا کی راہ میں تج دیا ہے۔ "
تب پہلی بار مجھے بھی تم سے خوف آیا۔ میں نے سوچا اگر میں نے تم سے رشتے کی بات کی تو کہیں تم جلال میں نہ آ جاؤ، مگر پھر اسی شام کو سائیں حضرت شاہ کا ایک خادم آیا اور اس نے بتایا کہ کل سے سائیں دولھے شاہ کا عرس ہے جو تین دن تک چلے گا اور سائیں حضرت شاہ نے خواب میں سائیں دولھے شاہ جی کو دیکھا ہے اور یہ فرماتے سنا ہے کہ میری چیلی رانو کو بلا کر تین دن تک اس سے میرے مزار پر قرآن شریف کی تلاوت کراؤ ورنہ سب کو بھسم کر دوں گا۔ تم جانتی تھیں بیٹی کہ سائیں دولھے شاہ جی بڑے جلال والے سائیں تھے۔ زندگی میں جس نے بھی ان کے خلاف کوئی بات کی اسے بس ایک نظر بھر کر دیکھا اور راکھ کر ڈالا۔ مرنے کے بعد بھی ان کی درگاہ میں یا اس کے آس پاس کوئی برا کام یا بری بات ہو جائے تو ان کا مزار شریف سرہانے کی طرف سے کھل جاتا ہے اور اس میں سے ان کا دستِ مبارک بلند ہوتا ہے۔ برا کام یا بری بات کرنے والا جہاں بھی ہو کھنچا چلا آتاہے۔ اپنی گردن سائیں جی کے دستِ مبارک میں دے دیتا ہے اور پھر وہیں ڈھیر ہو جاتا ہے۔ سائیں جی کا دستِ مبارک واپس مزار شریف میں چلا جاتا ہے اور مزار شریف کی دراڑیں یوں جاتی ہیں جیسے کبھی کھلی ہی نہیں تھیں۔
کس کی مجال تھی کہ سائیں دولھے شاہ جی کا حکم ٹالتا۔ دوسرے دن صبح کو ہم تینوں ایک اونٹ پر کجاوے میں بیٹھے تھے اور درگاہ سائیں دولھے شاہ جی کی طرف جا رہے تھے۔ میں کجاوے کے ایک طرف تھی اور تم میری جان، دوسری طرف تھیں اور درمیان میں اونٹ کے پالان پر تمھارا بابا بیٹھا تھا۔ اونٹ جونہی اٹھا تھا اور چلنے لگا تھا تو تم نے قرآن شریف کی تلاوت شروع کر دی تھی اور میری پاک اور نیک بچی، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ ہمارا اونٹ جہاں سے بھی گزرتا تھا، لوگ دور دور سے کھنچے چلے آتے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور رو رہے تھے اور سبحان اللہ کہہ رہے تھے اور کجاوے کے اوپر چڑیوں اور ابابیلوں اور کبوتروں کے جھنڈ کے جھنڈ آتے تھے اور غوطہ لگا کر جیسے میری بچی کی آواز کا شربت پی کر ناچتے تیرتے ہوئے دور نکل جاتے تھے اور میں سوچتی تھی کہ یہ ہم گنہگاروں کی کس نیکی کا بدلہ ہے کہ خدا نے ہمیں ایسی بیٹی بخشی ہے جو زمین پر قرآن شریف کی تلاوت کرتی ہے تو اس کی آواز آسمان تک جاتی ہے۔ آسمان کا خیال مجھے یوں آیا تھا کہ ایک بار تمھارے بابا نے پالان پر سے جھک کر کے میرے کان میں ہولے سے کہا "اوپر دیکھو، یہ کیسے نورانی پرندے ہیں جو ہمارے ساتھ ساتھ اڑ رہے ہیں۔ میں نے ان علاقوں میں ایسا پرندہ کبھی نہیں دیکھا کہ ان کے پروں میں ستارے چمکتے ہوں۔ یہ تو آسمانوں سے اتر کر آنے والے فرشتے معلوم ہوتے ہیں " اور میری آنکھوں کا نور بچی، میں تمھاری جاہل ماں بھی قسم کھا کر کہہ سکتی ہوں کہ وہ فرشتے ہی تھے۔ کچھ ایسے جیسے ننھے منے بچوں کے پر لگ گئے ہوں اور وہ ہوا میں ہمکتے پھرتے ہوں۔ وہ میری پہنچی ہوئی بیٹی سے تلاوت سننے آئے تھے۔
پھر جب درگاہ سائیں دولھے شاہ جی کے پاس ہمارا اونٹ بیٹھا تھا تو جیسے تم بھول گئی تھیں کہ تمھارے ساتھ تمھارے ماں باپ بھی ہیں تم مزار شریف کی طرف یوں کھنچی چلی گئی تھیں جیسے سائیں دولھے شاہ جی تمھاری انگلی پکڑ کر تمھیں اپنے گھر لیے جا رہے ہوں۔ مزار شریف کو بوسہ دے کر اور اس کے ایک طرف بیٹھ کر تم نے قرآن شریف کی تلاوت کر دی تھی اور تمھاری آواز کی مٹھاس چکھنے کے لیے عرس پر آنے والے لوگ مزار شریف پر ٹوٹ پڑے تھے۔ ہم دونوں نے مزار شریف کو اپنی پوروں سے چھوا اور پھر اپنی پوریں چوم لیں۔ پھر ہم سائیں حضرت شاہ کی خدمت میں ان کے زانوؤں کو چھونے اور دستِ مبارک کو چومنے پہنچے تھے اور انھوں نے فرمایا تھا "اپنی بیٹی کو سائیں جی کے قدموں میں بٹھا کر تم نے اپنے اگلے پچھلے گناہ معاف کرا لیے ہیں۔ تم انشاء اللہ جنّتی ہو۔ " یہ سن کر خوشی سے ہماری سانسیں پھول گئی تھیں۔ پھر میں نے اندر جا کر بیبیوں کو سلام کیا تھا اور تمھیں۔ ۔ ۔ میری جان۔ ۔ ۔ سائیں دولھے شاہ جی اور سائیں حضرت شاہ اور ان کے گھرانے کی بیبیوں کی امانت میں دے کر ہم دونوں یہ کہہ کر واپس گاؤں آ گئے تھے کہ عرس کے تین دن گزرنے کے بعد اگلے روز ہم اپنی اس نعمت کو لینے حاضر ہو جائیں گے جو خدا نے اور اس کے حبیب پاک نے ہم غریبوں، گنہگاروں کو ہماری کسی سیدھی سادی نیکی سے خوش ہو کر بخشی ہے۔
اے میری بچی، اے میری جگر کی ٹکڑی، اے میری صاف ستھری رانو بیٹی! پھر جب تین دنوں کے بعد ہم دونوں سائیں دولھے شاہ جی کے مزار شریف پر گئے تھے تو تم وہیں بیٹھی تھیں جہاں ہم تمھیں بٹھا گئے تھے، مگر کیا یہ تم ہی تھیں، تمھاری آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئی تھیں، تمھارے ہونٹوں پر جمے ہوئے خون کی پپڑیاں تھیں، تمھارے بال الجھ رہے تھے۔ چادر تمھارے سر سے اتر گئی تھی مگر اپنے بابا کو دیکھ کر بھی تمھیں اپنا سر ڈھانپنے کا خیال نہیں آیا تھا۔ تمھارا رنگ مٹی مٹی ہو رہا تھا اور ہمیں دیکھتے ہی تم چلا پڑی تھیں "مجھ سے دور رہو بابا، میرے پاس نہ آنا اماں۔ میں اب یہیں رہوں گی۔ میں اس وقت تک یہیں رہوں گی جب تک سائیں دولھا شاہ جی کا مزار شریف نہیں کھلتا اور اس میں سے ان کا دستِ مبارک نہیں نکلتا۔ جب تک فیصلہ نہیں ہوتا میں یہیں رہوں گی۔ جب تک انصاف نہیں ہو گا میں یہیں رہوں گی اور مزار شریف کھلے گا۔ آج نہیں تو کل کھلے گا۔ ایک مہینہ بعد، ایک سال بعد، دو سال بعد سہی، پر مزار شریف ضرور کھلے گا اور دستِ مبارک ضرور نکلے گا۔ تب میں خود ہی اپنے بابا اور اپنی اماں کے قدموں میں چلی آؤں گی اور ساری عمر ان کی جوتیاں سیدھی کروں گی اور ان کے پاؤں دھو دھو کر پیوں گی۔ پر اب میں نہیں آؤں گی، اب میں نہیں آ سکتی۔ میں بندھ گئی ہوں۔ میں مر گئی ہوں۔ " پھر تمھیں ایک دم بہت سا رونا آ گیا تھا مگر تم نے ایک دم اپنے آنسو روک لیے تھے اور تم بھیگی ہوئی آواز میں تلاوت کرنے لگی تھیں۔ آس پاس کھڑے ہوئے بیسیوں لوگ ہمارے ساتھ زار زار رونے لگے تھے اور کہنے لگے تھے "اثر ہو گیا ہے، دن رات مزار شریف پر رہنے سے اس پر اثر ہو گیا ہے۔ "
تمھارے بابا نے فریاد کی تھی۔ اثر ہو گیا ہے؟ دن رات قرآن شریف کی تلاوت کرنے والی لڑکی پر کوئی اثر کیسے ہو سکتا ہے اور اگر تم کہتے ہو کہ اثر ہو گیا ہے تو سائیں حضرت شاہ کہاں ہیں؟ وہ روتا ہوا سائیں حضرت شاہ کی طرف چل پڑا تھا اور میں بلکتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے تھی، مگر ہمیں خادموں نے بتایا تھا کہ سائیں جی تو عرس کے فوراً بعد ایک حجرے میں بند ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور کئی دنوں تک وظیفہ فرماتے ہیں اور کسی سے نہیں ملتے پھر میں نے اندر بیبیوں کے پاس جانا چاہا تھا مگر بڑے دروازے پر خادماؤں نے بتایا تھا کہ رانو کی حالت سے بی بیاں پہلے ہی بہت پریشان ہیں اور انھیں زیادہ پریشان کرنا گناہ ہے۔
ہم اجڑے پجڑے ماں باپ، مزار شریف سے ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گئے تھے اور رو رہے تھے اور لوگ ہمیں روتا دیکھ کر رو رہے تھے کہ سائیں حضرت شاہ کا خاص خادم آیا تھا اور اس نے بتایا تھا کہ سائیں جی کو بہت رانو کی اس حالت کا بڑا دکھ تھا اور انھوں نے فرمایا تھا کہ یہ لڑکی اچانک جن بھوت کے قبضے میں چلی گئی ہے اور سائیں حضرت شاہ ایک خاص وظیفہ فرما رہے ہیں کہ یہ جن اُترے تو اس امانت کو اس کے ماں باپ تک پہنچایا جائے۔ پھر حکم ہوا تھا کہ تم جاؤ اور رانو کو درگاہ شریف کی نگرانی میں رہنے دو۔
"اب تم جاؤ۔ " ہمارے سروں پر تمھاری آواز آئی تھی اور ہم نے سر اٹھا کر دیکھا تھا کہ تمھاری آنکھیں تالابوں کی طرح بھری ہوئی تھیں۔ "اب تم جاؤ میرے بابا، جاؤ میری اماں۔ اب تم جاؤ مزار شریف ضرور کھلے گا۔ دستِ مبارک ضرور نکلے گا۔ فیصلہ ضرور ہو گا۔ فیصلہ ہو جائے تو میں سیدھی تمھارے پاس پہنچوں گی۔ سائیں دولھے شاہ جی خود مجھے تمھارے پاس چھوڑ جائیں گے۔ اب تم جاؤ۔ ۔ ۔ " یہ کہہ کر تم مزار شریف کی طرف پلٹ گئی تھیں اور تم چلتے ہوئے یوں ڈول رہی تھیں جیسے کٹی ہوئی پتنگ ڈولتی ہے۔
میں تم پر سے صدقے جاؤں میری بیٹی۔ ہم تمھارے ماں باپ اس کے بعد بھی بار بار تمھارے پاس پہنچے مگر اب تو تم ہمیں پہچانتی بھی نہیں تھیں۔ ہم تمھیں پکارتے تھے تو تم ہماری طرف یوں خالی خالی آنکھوں سے دیکھتی تھیں جیسے حیران ہو رہی ہو کہ یہ آواز کدھر سے آئی ہے۔ تمھارا رنگ خاکستری ہو گیا تھا۔ تمھارے ہونٹ اکڑ کر پھٹ گئے تھے۔ تمھارے بالوں میں گرد تھا اور تنکے تھے اور ٹوٹے ہوئے خشک پتے تھے۔ ایک بار جب ہم تمھارے لیے کپڑوں کا نیا جوڑا لے کر گئے اور ہم نے یہ کپڑے تمھارے سامنے رکھ دیے تو تم یہ کپڑے ہاتھ میں لے کر اٹھیں اور ایک طرف چل پڑیں۔ تمھارا ایک بھی قدم سیدھا نہیں اٹھتا تھا۔ پھر تم غائب ہو گئی تھیں اور ہم خوش ہوئے تھے کہ تم کہیں کپڑے بدلنے گئی ہو، مگر پھر ایک دم ایک طرف سے شور اٹھا تھا۔ تم اسی رفتار سے واپس آ رہی تھیں اور تمھارے پیچھے درگاہ شریف کے چند خادم تھے جنھوں نے بتایا تھا کہ تم نے نئے کپڑوں کا یہ جوڑا اور درگاہ شریف کے لنگر کی دیگ کے نیچے بھڑکتی آگ میں جھونک دیا تھا۔
تلاوت تو تم اب بھی کر رہی تھیں مگر آواز میں چاندی کی کٹوریاں نہیں بجتی تھیں۔ پھر تم پڑھتے پڑھتے مزار شریف کے سرہانے کی طرف جھک جاتی تھیں جیسے کوئی جھری، کوئی دراڑ ڈھونڈنے کی کوشش میں ہو پھر تم ٹوٹ کر رو دیتی تھیں اور تلاوت کو روک کر ہولے ہولے جیسے خود کو سمجھاتی تھیں۔ ۔ ۔ مزار شریف ضرور کھلے گا۔ دستِ مبارک ضرور نکلے گا۔ فیصلہ ضرور ہو گا۔ انصاف ضرور ہو گا۔ پھر تم آنکھیں بند کر لیتی تھیں اور تلاوت میں مصروف ہو جاتی تھیں۔
ایک بار ہم سائیں حضرت شاہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے تھے اور عرض کیا تھا کہ جن بھوت کلامِ پاک پڑھنے والوں کے پاس بھی نہیں پھٹکتے۔ دور سے بیٹھے ہنستے رہتے ہیں اور جھومتے رہتے ہیں اور اگر ہماری ہیرا بیٹی پر ایسے کافر جن آ گئے ہیں جو قرآن شریف کی تلاوت کا بھی لحاظ نہیں کرتے، تو یہ آپ کی درگاہ شریف ہی کے جن ہیں۔ آپ کے حکم سے اتر جائیں گے۔ خدا کے نام پر، رسولؐ پاک کے نام پر، پیر دستگیر کے نام پر، سائیں دولھے شاہ جی کے نام پر ہمارے ساتھ مزار شریف پر چلیے اور یہ جن اتاریے اور سائیں حضرت شاہ نے فرمایا تھا کہ ہم جن تو اتار دیتے مگر تم نے ٹھیک کہا۔ یہ کوئی بڑا کافر جن ہے اور کافر جن ہمارے قبضے میں نہیں ہیں۔ ہم یہاں دعا کر رہے ہیں، تم گھر جا کر دعا کرو۔ ہمارا وظیفہ جاری رہے گا۔
جب ہم ٹوٹے پھوٹے واپس آ رہے تھے تو بیبیوں کی ایک بوڑھی خادمہ نے مجھے ایک طرف لے جا کر بتایا تھا کہ عرس کے تیسرے دن سائیں حضرت شاہ مزار کی طرف آئے تھے تو تمھاری بدنصیب بیٹی نے مزار شریف پر سے گول گول لہریے پتھر اٹھا کر جھولی میں بھر لیے تھے اور چیخ چیخ کر کہا تھا کہ سائیں! مزار شریف سے دستِ مبارک تو جب نکلے گا، نکلے گا اگر تم ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں سائیں دولھے شاہ جی کے دیے ہوئے ان پتھروں سے تمھارا ناس کر دوں گی۔ خادم تمھاری بیٹی کو پکڑ کر مارنے پیٹنے کے لیے آگے بڑھے تھے تو سائیں جی نے انھیں روک کر کہا تھا کہ نادانو یہ لڑکی نہیں بول رہی ہے اس کے اندر کا کافر جن بول رہا ہے۔ جب تک یہ مزار شریف پر قابض ہے ہمیں اور ہمارے خاندان کے کسی مرد عورت کو ادھر نہیں آنا چاہیے ورنہ کیا خبر یہ جن کیا کر بیٹھے۔
پھر رات درگاہ شریف کا ایک خادم آیا کہ تمھاری بیٹی تمھیں بلا رہی ہے۔ پر راتوں رات گرتے پڑتے وہاں پہنچے تو تم مزار شریف کی پائنتی لیٹی ہوئی تھیں۔ چراغ کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ تمھاری نظر ٹک گئی تھیں اور تمھارے ہونٹ ذرا ذرا سے ہل رہے تھے۔ ظاہر ہے تم اس وقت بھی تلاوت ہی کر رہی تھیں۔ پھر جب میں نے تمھارا سر اپنی گود میں رکھا اور تمھارے بابا نے تمھارا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر رونا شروع کر دیا تو نہایت ہی کمزور آواز میں تم نے کہا تھا "میری اماں، میرے ابا کون جانے مزار شریف کیوں نہیں کھلا۔ انصاف تو یہیں ہوا پر چلو فیصلہ تو ہو گیا۔ چلو میں ہی گنہگار سہی۔ سائیں دولھے شاہ جی، آپ نے تو بڑا انتظار کرایا۔ اب قیامت کے دن جب ہم سب خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔ ۔ ۔ جب ہم خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔ ۔ ۔ خدا کے سامنے۔ ۔ ۔ خدا۔ ۔ ۔ "! اس کے بعد تم چپ ہو گئی تھیں اور تب سے چپ ہو۔
پھر ہم تمھیں یہاں گھر میں اٹھا لائے اور جب ابھی ابھی سویرے سائیں حضرت شاہ کا خاص خادم سائیں جی کی طرف سے تمھارے لیے کفن لایا تو تم پر سے اترا ہوا جن جیسے تمھارے بابا پر آ گیا۔ ۔ ۔ اس نے کفن ہاتھ میں لیا اور اسے اس چولھے میں جھونک دیا جس پر تمھیں غسل دینے کے لیے پانی گرم کیا جا رہا تھا۔
اب میرے جگر کی ٹکڑی، میرے نیک اور پاک، میری صاف اور ستھری رانو بیٹی! آؤ میں تمھارے ماتھے کے بجھے ہوئے چاند کو چوم لوں۔ دیکھو کہ بکائن کے اودے اودے پھول مہک رہے ہیں اور بیریوں پر گلہریاں تنے سے چوٹی تک بھاگی پھر رہی ہیں اور ایسی ہوا چل رہی ہے جیسے صدیوں کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی اور چار طرف تمھاری تلاوت کی گونج ہے اور سائیں حضرت شاہ کے بھیجے ہوئے کفن کے جلنے کی بو اب تک سارے میں پھیل رہی ہے اور میرے اندر اتنا بہت سا درد جمع ہو گیا ہے جیسے تمھیں جنم دیتے وقت جمع ہوا تھا۔ 







پطرس بخاری

بچے

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بچوں کی کئی قسمیں ہیں مثلاً بلی کے بچے ، فاختہ کے بچے وغیرہ۔ مگر میری مراد صرف انسان کے بچوں سے ہے ، جن کی ظاہرہ تو کئی قسمیں ہیں ، کوئی پیارا بچہ ہے اور کوئی ننھا سا بچہ ہے۔ کوئی پھول سا بچہ ہے اور کوئی چاند سا بچہ ہے۔ لیکن یہ سب اس وقت تک کی باتیں ہیں۔ جب تک برخوردار پنگوڑے میں سویا پڑا ہے۔ جہاں بیدار ہونے پر بچے کے پانچوں حواس کام کرنے لگے ، بچے نے ان سب خطابات سے بے نیاز ہو کر ایک الارم کلاک کی شکل اختیار کر لی۔ یہ جو میں نے اوپر لکھا ہے کہ بیدار ہونے پر بچے کے پانچوں حواس کام کرنے لگتے ہیں یہ میں نے اور حکماء کے تجربات کی بنا پر لکھا ہے ورنہ حاشا و کلاء میں اس بات کا قائل نہیں۔ کہتے ہیں بچہ سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے لیکن مجھے آج تک سوائے اس کی قوت ناطقہ کے اور کسی قوت کا ثبوت نہیں ملا۔ کئی دفعہ ایسا اتفاق ہوا ہے کہ روتا ہوا بچہ میرے حوالے کر دیا گیا ہے کہ ذرا اسے چپ کرانا، میں نے جناب اس بچے کے سامنے گانے گائے ہیں ، شعر پڑھے ہیں ، ناچ ناچے ہیں ، تالیاں بجائی ہیں ، گھٹنوں کے بل چل کر گھوڑے کی نقلیں اتاری ہیں ،
بھیڑ بکری کی سی آوازیں نکالی ہیں ، سر کے بل کھڑے ہو کر ہوا میں بائیسکل چلانے کے نمونے پیش کئے ہیں۔ لیکن کیا مجال جو اس بچے کی یکسوئی میں ذرا بھی فرق آیا ہو یا جس سُر پر اس نے شروع کیا تھا اس سے ذرا بھی نیچے اُترا ہو اور خدا جانے ایسا بچہ دیکھتا ہے اور سنتا ہے تو کس وقت؟ بچے کی زندگی کا شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گزرتا ہو جب اس کے لئے کسی نہ کسی قسم کا شور ضروری نہ ہو۔ اکثر اوقات تو وہ خود ہی سامعہ نوازی کرتے رہتے ہیں ورنہ یہ فرض ان کے لواحقین پر عائد ہوتا ہے۔ ان کو سلانا ہو تو لوری دیجئے۔ ہنسانا ہو تو مہمل سے فقرے بے معنی سے بے معنی منہ بنا کر بلند سے بلند آواز میں ان کے سامنے دہرائیے اور کچھ نہ ہو تو شغل بے کاری کے طور پر ان کے ہاتھ میں ایک جھنجھنا دے دیجئے۔ یہ جھنجھنا بھی کم بخت کسی بے کار کی ایسی ایجاد ہے کہ کیا عرض کروں یعنی ذرا سا آپ ہلا دیجئے لڑھکتا چلا جاتا ہے اور جب تک دم میں دم ہے اس میں سے ایک ایسی بے سری، کرخت آواز متواتر نکلتی رہتی ہے کہ دنیا میں شاید اس کی مثال محال ہے اور جو آپ نے مامتا یا ”باپتا“ کے جوش میں آ کر برخوردار کو ایک عدد وہ ربڑ کی گڑیا منگوا دی جس میں ایک بہت ہی تیز آواز کی سیٹی لگی ہوتی ہے تو بس پھر خدا حافظ۔ اس سے بڑھ کر میری صحت کے لئے مضر چیز دنیا میں اور کوئی نہیں۔ سوائے شاید اس ربڑ کے تھیلے کے جس کے منہ پر ایک سیٹی دار نالی لگی ہوتی ہے اور جس میں منہ سے ہوا بھری جاتی ہے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو والدین کہلاتے ہیں۔ بدقسمت ہیں تو وہ بے چارے جو قدرت کی طرف سے اس ڈیوٹی پر مقرر ہوئے ہیں کہ جب کسی عزیز یا دوست کے بچے کو دیکھیں تو ایسے موقع پر ان کے ذاتی جذبات کچھ ہی کیوں نہ ہوں وہ یہ ضرور کہیں کہ کیا پیارا بچہ ہے۔ میرے ساتھ کے گھر ایک مرزا صاحب رہتے ہیں۔ خدا کے فضل سے چھ بچوں کے والد ہیں۔ بڑے بچے کی عمر نو سال ہے۔ بہت شریف آدمی ہیں۔ ان کے بچے بھی بے چارے بہت ہی بے زبان ہیں۔ جب ان میں سے ایک روتا ہے تو باقی کے سب چپکے بیٹھے سنتے رہتے ہیں۔ جب وہ روتے روتے تھک جاتا ہے تو ان کا دوسرا برخوردار شروع ہو جاتا ہے۔ وہ ہار جاتا ہے تو تیسرے کی باری آتی ہے ، رات کی دیوٹی والے بچے الگ ہیں۔ ان کا سُر ذرا باریک ہے۔ آپ انگلیاں چٹخوا کر، سر کی کھال میں تیل جھسوا کر، کانوں میں روئی دے کر، لحاف میں سر لپیٹ کر سوئیے ، ایک لمحے کے اندر آپ کو جگا کے اُٹھا کے بٹھا نہ دیں تو میرا ذمہ۔ ان ہی مرزا صاحب کے گھر پہ جب میں جاتا ہوں تو ایک ایک بچہ کو بلا کر پیار کرتا ہوں۔ اب آپ ہی بتائیے میں کیا کروں۔ کئی دفعہ دل میں آیا مرزا صاحب سے کہوں حضرت آپ کی ان نغمہ سرائیوں نے میری زندگی حرام کر دی ہے ، نہ دن کو کام کر سکتا ہوں نہ رات کو سو سکتا ہوں۔ لیکن یہ میں کہنے ہی کو ہوتا ہوں کہ ان کا ایک بچہ کمرے میں آ جاتا ہے اور مرزا صاحب ایک والدانہ تبسم سے کہتے ہیں۔ اختر بیٹا!ان کو سلام کرو، سلام کرو بیٹا، ان کا نام اختر ہے۔ صاحب بڑا اچھا بیٹا ہے۔ کبھی ضد نہیں کرتا، کبھی نہیں روتا، کبھی ماں کو دق نہیں کرتا۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ وہی نالائق ہے جو رات کو دو بجے گلا پھاڑ پھاڑ کے روتا ہے۔ مرزا صاحب قبلہ تو شاید اپنے خراٹوں کے زور شور میں کچھ نہیں سنتے ، بدبختی ہماری ہوتی ہے لیکن کہتا یہی ہوں کہ ”یہاں آؤ بیٹا“ گھٹنے پر بٹھا کر اس کا منہ بھی چومتا ہوں۔ خدا جانے آج کل کے بچے کس قسم کے بچے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم بقر عید کو تھوڑا سا رو لیا کرتے تھے اور کبھی کبھار کوئی مہمان آ نکلا تو نمونے کے طور پر تھوڑی سی ضد کر لی، کیونکہ ایسے موقعہ پر ضد کارآمد ہوا کرتی تھی۔ لیکن یہ کہ چوبیس گھنٹے متواتر روتے رہیں۔ ایسی مشق ہم نے کبھی بہم نہ پہنچائی تھی۔

(بجوکا )

منفرد کہانی کار ’’سریندر پرکاش‘‘کی اہم ترین کہانی



سریندر پرکاش کی ایک ایسی کہانی منتخب کی جارہی ہے جو اُن کی مشہور ترین کہانی ہے ۔’’بجوکا ‘‘کی ابتدا پریم چند کے ذکرسے ہوتی ہے،اس کہانی کامرکزی کردار پریم چند کاایک کردار تھا جو سریندر پرکاش کی کہانی کا مرکزی کردار بننے تک بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔

ہوری پریم چند سے سریندر پرکاش کے عہد تک آتے آتے خود تو بوڑھا ہو گیا مگر استحصال نہ کمزور پڑ سکا۔پریم چند سے سریندر پرکاش اور سریندر پرکاش سے آج تک کے کہانی کار میں ہوری اپنے اُوپر ہونے والے استحصال کے ساتھ موجود ہے ۔سریندر پرکاش کایہ مشہور افسانہ غریبوں ،مجبوروں ،محنت کشوں کے استحصال کونئے اور اُچھوتے انداز سے پیش کرتا ہے۔سریندر پرکاش نے پچاس کی دہائی سے لکھناشروع کیا ،وہ اُردو کہانی کو نئے رنگ و رُوپ دینے والوں میں اولین حیثیت کے حامل ہیں ۔سریندرپرکاش کا یہ افسانہ ایک ایسی تلخ حقیقت کوپیش کرتا ہے جس کوجھٹلایانہیں جاسکتا ،وہ تلخ حقیقت ہے استحصال کو وہ انداز جو رہنمائوں کی طرف سے عوام کو ملتاہے۔وہ رہنما جو عوام کی حفاظت کے علمبر دار کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔سریندر پرکاش کا یہ افسانہ ایک شاہکار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔چونکہ اُنہوں نے ساری زندگی ہندوستان میں گزاری تو اُن کی تحریریں یہاں کم دستیاب ہوتی ہیں ۔پوری اُردودنیا میں سریندر پرکاش کو جاننے والے لوگ موجود ہیں،جو لوگ بھی کہانی سے ذرا سا مَس بھی رکھتے ہیں ،اُنہیں سریندر پرکاش کی کہانیوں کی تلاش رہتی ہے ،ایسے ہی قارئین کے لیے ایک شاہکار کہانی پیش ہے۔(احمد اعجاز) پریم چند کی کہانی کاہوری اتنا بوڑھا ہو چکا تھاکہ اس کی پلکوں اور بھوؤں تک کے بال سفید ہو گئے تھے کمر میں خم پڑگیاتھا اور ہاتھوں کی نسیں سانولے کھُردرے گوشت سے اُبھر آئی تھیں۔ اس اثناء میں اس کے ہاں دو بیٹے ہوئے تھے‘ جو اب نہیں رہے۔ایک گنگا میں نہا رہا تھا کہ ڈوب گیا اور دوسرا پولیس مقابلے میں مارا گیا۔پولیس کے ساتھ اس کا مقابلہ کیوں ہوا؟ اس میں کچھ ایسی بتانے کی بات نہیں ۔جب بھی کوئی آدمی اپنے وجود سے واقف ہوتا ہے اور اپنے اِرد گرد پھیلی ہوئی بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے تو اس کا پولیس کے ساتھ مقابلہ ہو جانا قدرتی ہو جاتا۔بس ایسا ہی کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا۔ اور بُوڑھے ہوری کے ہاتھ ہل کے ہتھے کو تھامے ہوئے ایک بار ڈھیلے پڑے ذرا کانپے اور پھر ان کی گرفت اپنے آپ مضبوط ہو گئی۔اس نے بیلوں کو ہانک لگائی اور ہل کا پھل زمین کا سینہ چیرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ اس دن آسمان سورج نکلنے سے پہلے کچھ زیادہ ہی سرخ تھااور ہوری کے آنگن کے کنویں کے گرد پانچوں بچے ننگ دھڑنگ بیٹھے نہا رہے تھے۔اس کی بڑی بہو کنویں سے پانی نکال نکال کر ان پر باری باری اُنڈیلتی جارہی تھی اور وہ اُچھلتے ہوئے اپنا پنڈا ملتے پانی اُچھال رہے تھے۔چھوٹی بہو بڑی بڑی روٹیاں بنا کر چنگیری میں ڈال رہی تھی اور ہوری اندر کپڑے بدل کر پگڑی باندھ رہا تھا۔ پگڑی باندھ کر اس نے طاقچے میں رکھے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا،سارے چہرے پر لکیریں پھیل گئیں۔ اس نے قریب ہی لٹکی ہوئی ہنو مان جی کی چھوٹی سی تصویر کے سامنے آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھ جوڑ کر سر جھکایا اور پھر دروازے میں سے گزر کر باہر آنگن میں آگیا۔ ’’ سب تیار ہیں ؟‘‘اس نے قدرے اونچی آواز میں پُوچھا۔ ’’ ہاں باپُو۔۔۔‘‘سب بچے ایک ساتھ بول اُٹھے۔بہوؤں نے اپنے سروں پر پہلودرست کئے اور ان کے ہاتھ تیزی سے چلنے لگے۔ہوری نے دیکھاکوئی بھی تیار نہیں تھا۔سب جھوٹ بول رہے تھے۔اس نے سوچا یہ جھوٹ ہماری زندگی کے لئے کتنا ضروری ہے۔اگر بھگوان نے ہمیں جھوٹ جیسی نعمت نہ دی ہوتی تو لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگ جاتے۔ اس کے پاس جینے کا کوئی بہانہ نہ رہ جاتا۔ہم پہلے جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اسے سچ کرنے کی کوشش میں دیر تک زندہ رہتے ہیں ۔ ہوری کے پوتے پوتیاں اور بہوئیں ۔۔۔ ابھی ابھی بولے ہوئے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں پوری تندہی سے جُٹ گئیں ۔جب تک ہوری نے ایک کونے میں پڑے کٹائی کے اوزار نکالے۔۔۔ اور اب وہ سچ مُچ تیار ہو چکے تھے۔ ان کا کھیت لہلہا اُٹھا تھا۔فصل پک گئی تھی اور آج کٹائی کا دن تھا۔ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی تہوار ہو۔سب بڑے چاؤ سے جلد از جلد کھیت پر پہنچنے کی کوشش میں تھے کہ انہوں نے دیکھا سورج کی سنہری کرنوں نے سارے گھر کو اپنے جادو میں جکڑ لیا ہے۔ ہوری نے انگوچھا کندھے پر رکھتے ہوئے سوچا۔کتنا اچھا سمے آپہنچا ہے نہ اہلمد کی دھونس نہ بنئے کا کھٹکا نہ انگریز کی زور زبردستی اور نہ زمیندار کا حصہ۔۔۔ اس کی نظروں کے سامنے ہرے ہرے خوشے جھوم اٹھے۔ ’’چلو بابو‘‘ ۔ اس کے بڑے پوتے نے اس کی انگلی پکڑ لی‘ باقی بچے اس کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گئے۔بڑی بہو نے کوٹھری کا دروازہ بند نہ کیا اور چھوٹی بہو نے روٹیوں کی پوٹلی سر پر رکھی۔ بیر بجرنگی کا نام لے کر سب باہر کی چاردیواری والے دروازے میں سے نکل کر گلی میں آگئے اور پھر دائیں طرف مُڑ کر اپنے کھیت کی طرف بڑھنے لگے۔ گاؤں کی گلیوں ‘ گلیاروں میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ لوگ کھیتوں کو آجارہے تھے۔سب کے دلوں میں مست کے انار چھوٹتے محسوس ہو رہے تھے۔سب کی آنکھیں پکی فصلیں دیکھ کر چمک رہی تھیں ۔ہوری کو لگا کہ جیسے زندگی کل سے آج ذرا مختلف ہے۔اس نے پلٹ کر اپنے پیچھے آتے ہوئے بچوں کی طرف دیکھا۔وہ بالک ویسے ہی لگ رہے تھے جیسے کسان کے بچے ہوتے ہیں ۔سانولے مریل سے۔۔۔جو جیپ گاڑی کے پہیوں کی آواز اور موسم کی آہٹ سے ڈر جاتے ہیں۔بہوئیں ویسی ہی تھیں جیسے غریب کسان کی بیوہ عورتیں ہوتی ہیں۔چہرے گھونگھٹوں میں چُھپے ہوئے اور لباس کی ایک ایک سلوٹ میں غریبی جوؤں کی طرح چھُپی بیٹھی۔ وہ سر جھکاکر آگے بڑھنے لگا۔گاؤں کے آخری مکان سے گزر کر آگے کھلے کھیت تھے۔قریب ہی رہٹ خاموش کھڑا تھا۔نیم کے درخت کے نیچے ایک کتابے فکری سے سویا ہوا تھا۔دُور طویلے میں کچھ گائیں ‘ بھینسیں اور بیل چارہ کھا کر پھنکار رہے تھے۔سامنے دُور دُور تک لہلہاتے ہوئے سنہری کھیت تھے۔۔۔ ان سب کھیتوں کے بعد ذرا دُور جب یہ سب کھیت ختم ہو جائیں گے اور پھر چھوٹا سا نالہ پار کر کے الگ تھلگ ہوری کا کھیت تھا جس میں جھونا پک کر انگڑائیاں لے رہا تھا۔ وہ سب پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے دُور سے ایسے لگ رہے تھے جیسے رنگ برنگے کپڑے سوکھی گھاس پر رینگ رہے ہوں۔۔۔وہ سب اپنے کھیت کی طرف جا رہے تھے۔جس کے آگے تھل تھا۔دُور دُور تک پھیلا ہوا جس میں کہیں ہریالی نظر نہ آتی تھی بس تھوڑی بے جان مٹی تھی۔جس میں پاؤں رکھتے ہی دھنس جاتا تھا۔اور مٹی یُوں بُھربھری ہوگئی تھی کہ جیسے اس کے دونوں بیٹوں کی ہڈیاں چتا میں جل کر پھول بن گئی تھیں اور پھر ہاتھ لگاتے ہی ریت کی طرح بکھر جاتی تھیں۔وہ تھل دھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا۔ ہوری کو یاد آیا پچھلے پچاس برسوں میں وہ دو ہاتھ آگے بڑھ آیا تھا۔ہوری چاہتا تھا کہ جب تک بچے جوان ہوں وہ تھل اس کے کھیت تک نہ پہنچے اور تب تک وہ خود کسی تھل کا حصہ بن چکا ہو گا۔ پگڈنڈیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور اس پر ہوری اور اس کے خاندان کے لوگوں کے حرکت کرتے ہوئے ننگے پاؤں۔۔۔ سورج آسمان کی مشرقی کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھ رہا تھا۔ چلتے چلتے ان کے پاؤں مٹی سے اٹ گئے تھے۔کئی اِرد گرد کے کھیتوں میں لوگ کٹائی کرنے میں مصروف تھے وہ آتے جاتے کو رام رام کہتے اور پھر کسی انجانے جوش اور ولولے کے ساتھ ٹہنیوں کو درانتی سے کاٹ کر ایک طرف رکھ دیتے۔ انہوں نے باری باری نالہ پار کیا۔ نالے میں پانی نام کو بھی نہ تھا۔۔۔اندر کی ریت ملی مٹی بالکل خشک ہو چکی تھی اور اس پر عجیب و غریب نقش و نگار بنے تھے۔وہ پانی کے پاؤں کے نشان تھے۔۔۔ اور سامنے لہلہاتا ہوا کھیت نظر آرہاتھا۔سب کا دل بلیوں اُچھلنے لگا۔۔۔فصل کٹے گی تو ان کا آنگن پُھوس سے بھر جائے گا اور کوٹھری اناج سے پھر کھٹیا پر بیٹھ کر بھات کھانے کا مزہ آئیگا۔کیا ڈکاریں آئیں گی پیٹ بھر جانے کے بعد ان سب نے ایک ہی بار سوچا۔ اچانک ہوری کے قدم رُک گئے۔وہ سب بھی رُک گئے۔ہوری کھیت کی طرف حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔وہ سب کبھی ہوری کو اور کبھی کھیت کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک ہوری کے جسم میں جیسے بجلی کی سی پُھرتی پیدا ہو ئی۔اس نے چند قدم آگے بڑھ کر بڑے جوش سے آواز لگائی۔ ’’ ابے کون ہے۔۔۔ے۔۔۔ے۔۔۔؟‘‘ اور پھر سب نے دیکھاان کے کھیت میں سے کوئی جواب نہ ملا۔اب وہ قریب آچکے تھے اور کھیت کے دوسرے کونے پر درانتی چلنے کی سراپ سراپ چلنے کی آواز بالکل صاف سنائی دے رہی تھی۔سب قدرے سہم گئے۔ پھر ہوری نے ہمت سے للکارا۔ ’’کون ہے حرام کا جنا۔۔۔ بولتا کیوں نہیں؟‘‘اور اپنے ہاتھ میں پکڑی درانتی سونت لی۔ اچانک کھیت کے پرلے حصے میں سے ایک ڈھانچہ سا اُبھرا اور جیسے مسکرا کر انہیں دیکھنے لگا ہو۔۔۔ پھر اس کی آواز سنائی دی۔ ’’میں ہوں ہوری کاکا۔۔۔ بجوکا!‘‘اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی درانتی فضاء میں ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ سب کی مارے خوف کے گُھٹی گُھٹی سی چیخ نکل گئی۔ان کے رنگ زرد پڑ گئے اور ہوری کے ہونٹوں پر گویا سفید پپڑی سی جم گئی۔۔۔ کچھ دیر کے لئے سب سکتے میں آگئے اور بالکل خاموش کھڑے رہے۔۔۔وہ کچھ دیر کتنی تھی؟ایک پل ایک صدی یا پھر ایک یُگ۔۔۔اس کا ان میں سے کسی کو اندازہ نہ ہوا۔جب تک انہوں نے ہوری کی غصہ سے کانپتی ہوئی آواز نہ سنی انہیں اپنی زندگی کا احساس نہ ہوا۔ ’’ تم ۔۔۔ بجوکا۔۔۔ تم۔ارے تم کو تو میں نے کھیت کی نگرانی کے لئے بنایا تھا۔۔۔بانس کی پھانکوں سے اور تم کو اس انگریز شکاری کے کپڑے پہنائے تھے جس کے شکار میں میرا باپ ہانکا لگاتا تھا اور وہ جاتے ہوئے خوش ہو کر اپنے پھٹے ہوئے خاکی کپڑے میرے باپ کو دے گیا تھا۔تیرا چہرہ میرے گھر کی بے کار ہانڈی سے بنا تھااور اس پر اسی انگریز شکاری کا ٹوپا رکھ دیا تھا ارے تو بے جان پتلا میری فصل کاٹ رہا ہے؟‘‘ ہوری کہتا ہوا آگے بڑھ رہاتھا اور بجوکا بدستور ان کی طرف دیکھتا ہوا مسکراتا رہا تھا۔جیسے اس پر ہوری کی کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا ہو۔جیسے ہی وہ قریب پہنچے انہوں نے دیکھا ۔۔۔ فصل ایک چوتھائی کے قریب کٹ چکی ہے اور بجوکا اس کے قریب درانتی ہاتھ میں لئے مسکرارہاہے۔ وہ سب حیران ہوئے کہ اس کے پاس درانتی کہاں سے آگئی۔۔۔وہ کئی مہینوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔بے جان بجو کا دونوں ہاتھوں سے خالی کھڑا رہتا تھا۔۔۔مگر آج ۔۔۔ وہ آدمی لگ رہا تھا۔گوشت پوست کا ان جیسا آدمی ۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر ہوری تو جیسے پاگل ہو اُٹھا۔اس نے آگے بڑھ کر اسے ایک زوردار دھکا دیا۔۔۔ مگر بجوکا تو اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا۔البتہ ہوری اپنے ہی زور کی مار کھا کر دور جاگرا۔۔۔سب لوگ چیختے ہوئے ہوری کی طرف بڑھے۔وہ اپنی کمر پر ہاتھ رکھے اٹھنے کی کوشش کررہا تھا ۔۔۔ سب نے اسے سہارا دیا اور اس نے خوف زدہ ہو کر بجوکا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’ تَو۔۔۔تُو مجھ سے بھی بھی طاقتور ہو چکا ہے بجوکا! مجھ سے۔۔۔؟جس نے تمہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا۔اپنی فصل کی حفاظت کے واسطے‘‘۔ بجوکا حسبِ معمول مسکرارہاتھا‘ پھر بولا۔’’ تم خواہ مخواہ خفا ہو رہے ہو ہوری کاکا میں نے تو صرف اپنے حصے کی فصل کاٹی ہے۔ایک چوتھائی۔۔۔‘‘ ’’ لیکن تم کو کیا حق ہے میرے بچوں کا حصہ لینے کا۔تم کون ہوتے ہو؟‘‘ ’’ میرا حق ہے ہوری کاکا۔۔۔کیونکہ میں ہوں ۔۔۔اور میں نے اس کھیت کی حفاظت کی ہے‘‘۔ ’’ لیکن میں نے تو تمہیں بے جان سمجھ کر یہاں کھڑا کیا تھا اور بے جان چیز کاکوئی حق نہیں ۔ یہ تمہارے ہاتھ میں درانتی کہاں سے آگئی؟‘‘ بجوکا نے ایک زور دار قہقہہ لگایا’’ تم بڑے بھولے ہو ہوری کاکا۔خود ہی مجھ سے باتیں کر رہے ہو۔۔۔اور پھر مجھ کو بے جان سمجھتے ہو۔۔۔؟‘‘ ’’ لیکن تم کو یہ درانتی اور زندگی کس نے دی۔۔۔؟ میں نے تو نہیں دی تھی!‘‘ ’’ یہ مجھے آپ سے آپ مل گئی ۔۔۔جس دن تم نے مجھے بنانے کے لئے بانس کی پھانکیں چیری تھیں۔انگریز شکاری کے پھٹے پرانے کپڑے لائے تھے‘ گھر کی بے کار ہانڈی پر میری آنکھیں ‘ ناک اور کان بنایا تھا۔اسی دن ان سب چیزوں میں زندگی کلبلا رہی تھی اور یہ سب مل کر میں بنا اور میں فصل پکنے تک یہاں کھڑارہا اور ایک درانتی میرے سارے وجود میں سے آہستہ آہستہ نکلتی رہی ۔۔۔ اور جب فصل پک گئی وہ درانتی میرے ہاتھ میں تھی۔لیکن میں نے تمہاری امانت میں خیانت نہیں کی۔۔۔ میں آج کے دن کا انتظار کرتا رہا اور آج تم اپنی فصل کاٹنے آئے ہو۔۔۔میں نے اپنا حصہ کاٹ لیا‘اس میں بگڑنے کی کیا بات ‘‘۔۔۔بجوکا نے آہستہ آہستہ سب کہا ۔۔۔ تاکہ ان سب کو اس کی بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔ ’’نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔یہ سب سازش ہے ۔ میں تمہیں زندہ نہیں مانتا۔یہ سب چھلاوہ ہے۔میں پنچائت سے اس کا فیصلہ کراؤں گا۔تم درانتی پھینک دو۔میں تمہیں ایک تنکا بھی لے جانے نہیں دوں گا۔۔۔‘‘ ہوری چیخا اور بجوکا نے مسکراتے ہوئے درانتی پھینک دی۔ گاؤں کی چوپال پر پنچائت لگی۔۔۔پنچ اور سر پنچ سب موجود تھے۔ہوری ۔۔۔اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ پنچ میں بیٹھا تھا۔اس کا چہرہ مارے غم کے مُرجھایا ہوا تھا۔اس کی دونوں بہوئیں دوسری عورتوں کے ساتھ کھڑی تھیں اور بجوکا کا انتظار تھا۔آج پنچائت نے اپنا فیصلہ سنانا تھا۔مقدمہ کے دونوں فریق اپنا اپنا بیان دے چکے تھے۔ آخر دُور سے بجوکا خراماںخراماں آتا دکھائی دیا۔۔۔سب کی نظریں اس طرف اُٹھ گئیں وہ ویسے ہی مسکراتا ہوا آرہاتھا۔جیسے ہی وہ چوپال میں داخل ہوا۔سب غیرارادی طور پر اُٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے سر تعظیماًجھک گئے۔ہوری یہ تماشہ دیکھ کر تڑپ اُٹھا اسے لگا کہ جیسے بجوکا نے سارے گاؤں کے لوگوں کاضمیر خرید لیا ہے۔پنچائت کا انصاف خرید لیا ہے۔وہ تیز پانی میں بے بس آدمی کی طرح ہاتھ پاؤں مارتا ہوا محسوس کرنے لگا۔ ’’ سنو۔۔۔یہ شاید ہماری زندگی کی آخری فصل ہے ۔ابھی تھل کھیت سے کچھ دُوری پر ہے ۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں ‘ کہ اپنی فصل کی حفاظت کے لئے پھر کبھی بجوکا نہ بنانا۔اگلے برس جب ہل چلیں گے ۔۔۔بیج بویا جائے گا اور بارش کا امرت کھیت میں سے کونپلوں کو جنم دے گا۔تو مجھے ایک بانس پر باندھ کر ایک کھیت میں کھڑا کردینا ۔۔۔بجوکا کی جگہ پر۔میں تب تک تمہاری فصلوں کی حفاظت کروںگا‘ جب تک تھل آگے بڑھ کر کھیت کی مٹی کو نگل نہیں لے گا اور تمہارے کھیتوں کی مٹی بُربری نہیں ہوجائے گی۔مجھے وہاں سے ہٹانا نہیں۔۔۔ کہ بجوکا بے جان نہیں ہوتا۔۔۔آپ سے آپ اسے زندگی مل جاتی ہے اور اس کا وجود اسے درانتی تھمادیتا ہے اور اس کا فصل کی ایک چوتھائی پر حق ہو جاتا ہے‘‘۔ہوری نے کہا اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کھیت کی طرف بڑھا۔اس کے پوتے اور پوتیاں اس کے پیچھے تھے اور پھر اس کی بہوئیں اور ان کے پیچھے گاؤں کے دوسرے لوگ سر جھکائے ہوئے چل رہے تھے۔ کھیت کے قریب پہنچ کر ہوری گرا اور ختم ہو گیا‘ اس کے پوتے پوتیوں نے اسے ایک بانس سے باندھنا شروع کیا اور باقی کے لوگ یہ تماشہ دیکھتے رہے۔بجوکا نے اپنے سر پر رکھا شکاری ٹوپا اُتار کر سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنا سر جھکا دیا۔
 
برج پریمیؔ کی ادبی خدمات۔۔۔سرتاج احمد بدرو
برج کشن ایمہ المعروف برج پریمیؔ ریاست جموں و کشمیر کے وہ مایہ ناز محقق اور نقاد ہیں،جنہوں نے اردو کے مشہور افسانہ نگارسعادت حسن منٹو کے فکروفن اور اپنے آبائی وطن کشمیر کی تہذیب و ثقافت اور ادب کو تحقیق وتنقید کے کینوس پر اُبھار کر اپنا نام ریاست اور ریاست سے باہربلکہ بر صغیر کے ادبی حلقوں میں متعارف کرایاہے۔ان دونوں موضوعات کے پہلو بہ پہلو انہوں نے فن اورآرٹ کے دیگر پہلو ؤں پر بھی لکھا اور قلیل ادبی زندگی میں اردو ادب کو ڈیڑھ درجن کے قریب کتابیں تفویض کیں ،جن میں سے چند ایک اردو کے افسانوی ادب کے محققین کے لیے بنیادی ماخذ کا کام کرتی ہیں اور چند ایک کو وادیٔ کشمیر کے اردو طلباء کے لیے یونی ورسٹی نے سیلیبس میں تجویز کرکے شامل کی ہیں۔برج پریمیؔ ۲۴ستمبر ۱۹۳۵ء کو درابی یار حبہ کدل سری نگر میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم مقامی اسکولوں سے حاصل کی اور بعد میں ڈی۔اے ۔وی ہائی اسکول مہاراج گنج (سری نگر) سے ۱۹۴۸ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ابھی سری پرتاپ کالج میں ایف۔ایس ۔سی میں داخلہ لیا ہی تھا کہ والد(پنڈت شیام لال ایمہ جو اپنے زمانے کے مشہور استاد اور ادیب تھے) کا انتقال ہوگیااورگھریلو ذمہ داریوں کے بہ مؤجب تعلیم کے سلسلے کو منقطع کرنا پڑا۔والد کی خالی اسامی پر انہیں ماڈل اسکول امیرا کدل سری نگر میں بحیثیت ایک کم سن استاد کے ماہوار تیس روپے پر تعینات کیا گیا۔برج پریمیؔ چوں کہ کچھ سے کچھ بننا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے ملازمت کے دوران ایک پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے تعلیم جاری رکھی اور بی ۔ای ۔سی(بیسک ایجوکیشن کورس) ،ادیب کامل،ادیب فاضل،بی ۔اے،بی ایڈ (ٹیچرس ٹریننگ کالج سری نگر۱۹۵۹ء) اور ایم ۔اے (جموں و کشمیر یونی ورسٹی۱۹۶۲ء)جیسے امتحا نات امتیازات کے ساتھ پاس کیے ۔ایم۔اے مکمل کرنے کے بعد انہیں پی ایچ۔ ڈی کرنے کا بہت شوق تھا لیکن اس کے داخلے کے لیے انہیں تقریباً دس سال کا طویل انتظار کرنا پڑا ۔اس کے با وجود انہوں نے اس شوق کو جانے نہیں دیا بلکہ اپنی لگن اور محنت سے اس پر کاربند رہے اور بالآخر کشمیر یونی ورسٹی میں انہوں نے مشہور شاعر،نقاد اور افسانہ نگار پروفیسر حامدی کاشمیری (جو بعد میں اسی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر تعینات ہوئے)کی نگرانی میں اردو کے مشہور افسانہ نگارسعادت حسن منٹو پر تحقیقی مقالہ بعنوان’’سعادت حسن منٹو حیات اور کارنامے‘‘ لکھا جس پر انہیں ۱۹۷۶ء میں مذکورہ یو نی ورسٹی سے پی ایچ۔ڈی کی سند تفویض ہوئی۔اس دوران وہ اسکولی محکمہ تعلیم میں مختلف ترقیوں سے ہوتے ہوئے سینئر ماسٹر،ایڈیشنل ہیڈماسٹر،ہیڈ ماسٹر،ڈسٹرکٹ سروے آفیسر اور ڈسٹرکٹ پلاننگ آفیسر جیسے ذمہ دار عہدوں پر بھی فائز رہ چکے تھے۔پی ایچ۔ڈی مکمل کرنے کے بعد ۱۹۷۷ء میں اسکولی تعلیم کے محکمے کو خیر باد کہہ کر جامعہ کشمیر کے شعبۂ اردو سے وابستگی اختیار کی اور درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے ۔شعبۂ اردو کو اپنے ادبی ذوق و شوق کی سیرابی کے لیے انہوں نے موزوں اور زرخیز پایااور پھر اپنے انتقال کے وقت تک اردو ادب کی خدمت انجام دینے میں مشغول رہے۔
جامعہ کشمیر میں استاد ہونے کے تیرہ سال بعد ۱۹۹۰؁ء میں جب برج پریمیؔ کے گھریلو حالات اقتصادی طور پر خوش گوار ہو نا شروع ہوئے تھے،تو اچانک وادیٔ کشمیر میں ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول چھا گیا اور مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے ترک سکونت کرکے محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کی۔ برج پریمیؔ نے بھی اپنے اہل و عیال سمیت جموں ہجرت کی اور کسمپرسی کی حالت میں محلہ افغاناں میں کرایے پر ایک مکان لے کر عارضی سکونت اختیار کی ۔ابھی وہ ہجرت کے صدمے میں مبتلا ہی تھے کہ صحت نے بھی ساتھ دینا دھیرے دھیرے چھوڑ دیا اور آخر کا ر ہجرت کے فوراً بعد ۲۰اپریل ۱۹۹۰؁ء کو جموں میں ہی ان کا انتقال ہوگیا اور اپنے وطن کشمیر سے دور دریائے توی کے ساحل پر نذرِ آتش کیے گئے۔
برج پریمیؔ ایک اہلِ علم پنڈت گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد اپنے زمانے کے ایک مشہور استاد او رمعروف ادیب وشاعر تھے۔ اُ س دور کے مشہور و معروف ادباء اکثر ان کے یہاں تشریف لاتے تھے جن میں نندلال کول طالب کشمیری‘ کشپ بندھو‘ غلام حیدر چشتی‘ دینا ناتھ واریکو‘ شاہد کاشمیری‘ پریم ناتھ پردیسی‘ دینا ناتھ دلگیر او رپریم ناتھ بزاز وغیرہ شامل تھے۔ان ادباء کی موجودگی میں شیام لال ایمہ(بر ج پریمیؔ کے والد) کے گھر پر شعر و ادب کی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں جن سے برج پریمیؔ کو تحریک ملی او ر کہانیاں لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ان کے ادبی ذوق کو نکھارنے میں اس دور کے مختلف رسائل و جرائد نے اہم رول ادا کیا ہے۔ برج پریمیؔ پہلے اپنے والد سے اصلاح لیتے رہے لیکن والد کے انتقال کے بعدانہوں نے پریم ناتھ پردیسی کو اپنا ادبی مرشد بنایا او ر ان سے نہ صرف افسانوں پر اصلاح لی بلکہ ہیئت اور تکنیک کی تربیت بھی حاصل کی ۔ چنانچہ اپنی ایک مشہور تصنیف’’ کشمیر کے مضامین‘‘ میں وہ پریم ناتھ پردیسی کی اُستادی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نہ صر ف یہ کہ میری کہانیوں کی تصحیح کرتے تھے بلکہ کہانی بننے کے فن اورکردار سازی پر لیکچر دیا کرتے تھے میرے ساتھ کبھی کبھی تیجوری المعروف ارون کول بھی ہوا کرتے تھے ‘‘ ۱؂
برج پریمیؔ نے پہلا افسانہ۱۹۴۹ء میں لکھا۔’’آقا‘‘ کے نام سے ان کا یہ افسانہ روزنامہ ’’ امر جیوتی ‘‘ سرینگر میں شائع ہوا۔ آقا کے بعد انہوں نے بہت سے افسانے لکھے جو ریاست اور بیرون ریاست کے مختلف گراں قدر رسائل و جرائد میں شائع ہوئے جن میں بیسویں صدی(دہلی) ‘راہی (جالندھر)‘ مصور(پٹنہ)‘ استاد(سرینگر)‘پگڈنڈی(امرتسر)‘ جیوتی(سرینگر)‘ فلمی ستارے(دہلی)‘ سب رنگ(بمبئی)دیش اور گاشہِ آگُر(سرینگر) وغیرہ شامل ہیں ۔ان کی کہانیوں کا مجموعہ۱۹۹۵ء میں ’’ سپنوں کی شام‘‘کے عنوان سے شائع ہوکر منظرعام پر آیا۔افسانوں کے پہلو بہ پہلو برج پریمیؔ نے متعدد خاکے او رانشائیے بھی لکھے ہیں اور تحقیقی و تنقیدی نوعیت کے مضامین بھی ۔ اپنے تخلیقی سفر کی ابتدا کے بارے میں وہ اپنے اوّلین تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’’حرفِ جستجو‘‘میں لکھتے ہیں:
’’میری ادبی زندگی کاسفر بیسویں صدی کے نصف میں ایک کہانی کار کی حیثیت سے ہوا اور کافی عرصہ تک میں اپنی روح کادرد اپنی کہانیوں میں انڈیلتا رہا اور اب بھی جب کسی داخلی کرب کی ٹیسیں اندر ہی اندر دور دور تک کاٹتی ہوئی چلی جاتی ہیں تو کہانی جنم لیتی ہے مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ کہانی میرا پہلا عشق ہے ‘‘ ۲؂
۱۹۶۰؁ء کے آس پاس انہوں نے اردو افسانہ اور ناول سے وابستہ متعد د فن کاروں کے فن پر کئی فکر انگیز مقالے لکھ کر ایک ناقد کی حیثیت سے دستک دی ،لیکن ۱۹۷۷ء میں شعبۂ اردو جامعہ کشمیر سے منسلک ہونے کے بعد ان کے تحقیقی و تنقیدی کام تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہوئے ۔اگر چہ وہ بیچ بیچ میں کہانیاں بھی لکھتے رہے تاہم تحقیق و تنقید کی طرف وہ زیادہ متوجہ رہے ۔۱۹۸۲ء میں ان کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ’’حرفِ جستجو‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا ۔یہ کتاب ادبی حلقوں میں کافی سراہی گئی اور اس پر مصنف کو یو۔پی اردو اکادمی کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اس کتاب میں برج پریمی ؔنے پریم چند،منٹو ،کرشن چندر،بیدی و غیرہ جیسے فکشن سے وابستہ فن کاروں کا احاطہ کیا ہے اور ان کی تخلیقات کا فکری و فنی جائزہ حتی الامکان اپنی ادبی بصیرت اور تنقیدی شعور کے تحت پیش کیا ہے۔اس کتاب میں شامل مضامین کے مطالعے سے برج پریمیؔ کے ادبی و تنقیدی رویوں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ چونکہ شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی میں وہ اپنے رفقائے کار جن میں حامدی کاشمیری‘ شکیل الرحمن‘ عبدالقادرسروری اہم ہیں‘ کے رجحان ساز تنقیدی میلانات سے مستفید ہوتے رہے۔ انہی کے زیر اثر انہوں نے عملی تنقید کی طرف مراجعت کی او رنتیجہ یہ ہوا کہ وہ مروجہ تنقیدی رویے سے فرار حاصل نہیں کرسکے۔ ’پریم چند اور تحریک آزادی،پریم چند کے تکنیکی تجربے،پریم چند اور دیہات،منٹو کے خطوط،سعادت حسن منٹو اور نگار خانے،منٹو بحیثیت ترجمہ کار،پردیسی اور ان کے افسانے،دو زاویے تکون کے(منٹو اور کرشن چندر)،اردو کے چند قدآور افسانہ نگار،مختصر افسانہ اور خواتین‘ وغیرہ اس مجموعہ میں شامل چند اہم مقالات ہیں۔جن میں بقول پروفیسر شکیل الرحمٰن مشرقی اور مغربی اصولِ انتقادیات کی بہتر روشنی میں برج پریمیؔ نے اردو کے چند تخلیقی فنکاروں کے تخلیقی عمل اور ان کی تخلیقات کے بعض اہم پہلوؤں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔۳؂
’’جلوۂ صد رنگ ‘‘ وادیٔ کشمیر کی ادبی و ثقافتی زندگی سے متعلق تحقیقی مضامین پر مشتمل برج پریمیؔ کی ایک اور کتاب ہے جو ۱۹۸۵ء میں پہلی بار منظرِ عام پر آکر مصنف کو کشمیر کے ایک بے باک ترجمان کی حیثیت سے اردو دنیا میں متعارف کرا گئی۔یہ کتاب بھی ریاستی کلچرل اکادمی کے اعزاز سے نوازی گئی ۔ رمزیت اور ایمائیت کا سہارا لے کر برج پریمیؔ نے اس کتاب میں کشمیر کی ہزاروں سال قدیم تاریخ کو سمیٹا ہے او راپنی محققانہ جگر کاوی سے کام لے کر کشمیر سے متعلق بہت ساری واقفیت بہم پہنچائی ہے۔ کشمیر کو دھرتی کے سورگ سے تعبیر کرتے ہوئے وہ زیرِبحث کتاب میں’’ جہاں میں رہتا ہوں‘‘ کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں:
’’ جہاں میں رہتا ہوں اسے صدیوں سے دھرتی کاسورگ کہا جاتاہے۔ اپسراؤں کایہ دیس تہذیب کی صبح سے اپنے ملکوتی حسن اپنے رنگ اور اپنے نو رسے سورگ کے انسانی تصور کا پیکر ہے ۔یہ وہ خطہ ارضی ہے جہاں کے صدر نگ جلوؤں نے صدیوں سے سیلانیوں کو برمایا ہے۔ یہاں گیان و عرفان کے کتنے سوتے پھوٹتے ہیں ۔آگہی و بصیرت کے کتنے چراغ روشن ہوئے ہیں اور عقل وعشق کے کتنے مرحلے انجام کو پہنچے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پر یہ سب داستانیں نقش ہیں‘‘ ۴؂
 یہ کتاب جہاں کشمیر ی کلچر کی عکاس کہی جا سکتی ہے کہ اس میں کشمیر ی رہن سہن ، آثارِ قدیمہ،یہاں کی ادبی شخصیات ،روحانی بزرگوں،یہاں کے لوک گیتوں کے سماجی پس منظر، زیب و زینت،خردو نوش وغیرہ پر تحقیقی مضامین لکھے گئے ہیں اور کشمیر کو غیر ملکی سیاحوں کی نظر میں پیش کیا گیا ہے وہیں یہاں کی ادبی تاریخ پر بھی تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں ۔’اردو افسانہ ریاست میں‘،’اردو نثر ریاست میں‘ اور’ ریاست جموں و کشمیر میں اردو تنقید و تحقیق‘ فکر انگیز مقالے ہیں جن کے مطالعے سے یہاں کی ادبی صو رتِ حال سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔پرو فیسر عنوان چشتی نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ جلوہ ٔصد رنگ کشمیر کے آرٹ،فن ،کلچر اورثقافت کے تناظر میں اسم بامسمیٰ ہے آپ نے اس میں کشمیر کی تہذیب ،ماضی او رحال کوبڑی شگفتہ زبان میں پیش کیا ہے یہ ایک ایسا ادبی جام جہاں نما ہے جس میں کشمیر کے جلوے بے نقاب نظر آتے ہیں‘‘ ۵؂
’’سعادت حسن منٹو حیات اور کارنامے‘‘ برج پریمی ؔکی وہ کتاب ہے جس کی بدولت انہوں نے برصغیر میں بحیثیت ایک محقق کے اپنی شخصیت تسلیم کروائی ۔ یہ اصل میں ان کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انہیں ۱۹۷۶ء میں کشمیر یونی ورسٹی سے پی ایچ۔ڈی کی ڈگری ملی۔دس سال بعد جب ۱۹۸۶ء میں یہ کتابی صورت میں منظرِ عام پر آیا تو اسے یو ۔پی اور مغربی بنگال کی اردو اکادمیوں کے اعزازات سے نوازا گیاکیوں کہ یہ منٹو پر پہلا باقاعدہ اور جامع تحقیقی کام ہے اور منٹو کی حیات اور ادبی کارناموں کا نہایت ہی عرق ریزی کے ساتھ اس میں احاطہ کیا گیا ہے ۔یہ کتاب منٹو شناسی کے سلسلے میں حوالے کا حکم رکھتی ہے ۔ یہ کتاب برصغیر کے مستند محققین اورناقدین کی توجہ کا مرکز بھی بنی جن میں محمد حسن،قمر رئیس،آل احمد سرور ، مسعود حسیں خاں، جگن ناتھ آزاد،گوپی چند نارنگ،وارث علوی،محمد یوسف ٹینگ اور بیسیوں دیگر شامل ہیں ۔ کتاب چھ ابواب میں منقسم ہے ……منٹو کی حیات ‘اردو کا مختصر افسانہ منٹو تک ‘منٹو کی افسانہ نگاری ‘منٹو کے مضامین،انشایے اور خاکے ‘منٹو کے خطوط اور آخری باب میں منٹو کے ان کارناموں سے بحث کی گئی ہے جو انہوں نے ڈراما،ناول،ترجمہ اور صحافت جیسی اصناف ادب میں انجام دیے ہیں ۔مختصراً کتاب میں منٹو کی حیات‘ شخصیت او رکارناموں کو بنیاد بناکر ان کے فن کے مختلف او رمتنوع پہلوؤں سے مفصل او رمدلل بحث کی گئی ہے اور معتوب کے برعکس سعادت حسن منٹو کو محبوب کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔
’’ذوقِ نظر ‘‘ تحقیقی و تنقیدی نو عیت کی ایک اور کتا ب ہے جو جموں و کشمیر کلچرل اکادمی کے مالی اشتراک سے ۱۹۸۷ء میں منصہ شہود پر آئی۔اس میں تنقید،افسانہ،شاعری ،شخصیات اور فلم کے عنوانات کے تحت کئی بصیرت افروز مضامین شامل ہیں جو مصنف کے سوچ و فکر اور ذہنی رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔’اردو کہانی کے بدلتے ہوئے رنگ ۱۹۳۶ء تک،پریم ناتھ پردیسی:شخص اور فنکار،پریم ناتھ پردیسی کی شاعری،منٹو اور شراب،سردار جعفری اور قومی رواداری،کشمیر میں اردو تنقید،منٹو اور ہندوستانی فلم،بیدی اور ہندوستانی فلم وغیرہ ا س کتاب میں شامل چند ایسے مضامین ہیں جن میں ،برج پریمیؔ نے اپنی تحقیقی صلاحیت اور تنقیدی شعور کو بروئے کار لاکر ان فن کاروں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ان مضامین کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ برج پریمیؔ کے ہاں تحقیق کے ساتھ ساتھ تنقید بھی چلتی نظر آتی ہے جس وجہ سے ان کی تحریریں جاذبِ نظر بن جاتی ہیں۔
’’چند تحریریں ‘‘برج پریمیؔکی ایک اور کتاب ہے جو ۱۹۸۸ء میں زیورِطبع سے آراستہ ہوئی ۔اس میں تحقیق وتنقید ‘مختصر سفر نامہ‘انشائیے‘دیو مالا ‘ فلم‘نثری مرثیے(شخصی)اورترجمہ کے عنوانات کے تحت کل ملا کر۲۳مضامین شامل ہیں۔ جن کے مطالعے سے برج پریمیؔ کی تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کااندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ تحقیق و تنقید کے باب کے تحت اس میں چھ مضامین درج ہیں یہ ہیں:تحریک آزادی او راردو ادب‘اردو فکشن اور قومی وحدت‘ قومی وحدت اور اردو شاعری‘ منٹو کاعہد بوئے خلوص کامتلاشی اور منٹو کی دو کہانیاں ایک اجمالی مطالعہ۔
’’تحریک آزادی اور اردو ادب‘‘ زیرِ بحث کتاب میں شامل ایک معلوماتی مقالہ ہے جس میں ڈاکٹر برج پریمیؔ نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں اردو ادب کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ادب کی مختلف اصناف سے وابستہ ادیبوں کی ان تخلیقات کاجائزہ لیا ہے جن میں قومیت اور حب الوطنی کے جذبات کااظہار ملتاہے ۔افرنگی راج او رسرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کے خلاف اردوادب سے وابستہ جن شاعروں ‘افسانہ نگاروں‘ڈرامہ نگاروں‘صحافیوں او ردوسرے قلمکاروں نے اپنے اپنے قلم کی نوک سے انگارے برسائے‘برج پریمیؔ نے ان کے تخلیقی عمل میں جدوجہد آزادی کے جذبہ احساس کی جس نرالے انداز سے نقاب کشائی کی ہے وہ انہی کا حصہ ہے ۔انہوں نے قومیت اور حب الوطنی کے جذبے سے لبریز مختلف اشعار بھی حوالے کے طور پر درج کیے ہیں جس سے ان کے استد لالی انداز بیان کا پتہ چلتاہے ۔غالبؔ‘امام بخش صہباؔئی‘ فضل حق خیر آبادی ‘شبلیؔ ‘ چکبستؔ ‘سرو رؔجہاں آبادی‘ظفر علی خاں‘حسرت موہانی‘ فیض‘ اقبالؔ‘مجازؔ‘سردار جعفری‘وامقؔ‘کیفیؔ‘مخدوم محی الدین‘سلام مچھلی شہریؔ وغیرہ جیسے شعراء کے ساتھ ساتھ منشی پریم چند‘ؔکرشن چندؔر‘ سدرشنؔ‘اعظم کریویؔ‘علی عباس حسینیؔ‘ پریم ناتھ پردیسیؔ‘منٹو‘ؔ بیدیؔ‘عصمتؔ‘اشکؔ‘ قدرت اﷲ شہابؔ‘ رامانند ساگرؔ‘مولوی محمد باقرؔ‘ مولانا ابوالکلام آزاؔد وغیرہ جیسے افسانہ نگاروں ‘ ڈرامہ نگاروں او رصحافیوں کی خدمات کااحاطہ کیا گیا ہے۔
’’کشمیر کے مضامین‘‘برج پریمیؔکی کشمیر شناسی کی ضامن ایک اور کتاب ہے جو ۱۹۸۹ء میں منظرِ عام پر آئی اور ریاستی کلچرل اکادمی کے اعزاز سے نوازی گئی،اس کتاب میں بھی ’’جلوۂ صد رنگ‘‘ہی کی طرح کشمیر کی ثقافت،تاریخ،شخصیات اور ادب کے بعض مستور پہلوؤں کی نقاب کشائی کی گئی ہے ۔ پروفیسر حامدی کاشمیری کے مطابق یہ مجموعہ کشمیر کے ادب ‘ تہذیب اور تاریخ کے بعض نئے ابعاد کو روشن کرتاہے اور پریمیؔ کو کشمیریات کے ایک بالغ نظر ماہر کی حیثیت سے سامنے لاتاہے۔ ۶؂ ’’لل دید کی شاعری‘منٹو او رشاعر کشمیر مہجور‘ کشمیر میں ترقی پسند ادبی تحریک‘ کشمیر میں اردو پروفیسر سروری کے حوالے سے اور جموں وکشمیر میں صحافت‘‘ اس کتاب میں ادب کے باب کے تحت خالص ادبی مضامین ہیں،جو مصنف کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں پر دال ہیں۔
’’کشمیر میں ترقی پسند ادبی تحریک‘‘ ایک فکر انگیز مضمون ہے جو بقول پروفیسر جگن ناتھ آزادکشمیر میں ادب کی ترقی پسند تحریک کاایک ایسا باب ہے جس کے بغیر ہندوستان میں ترقی پسند ادب کی تاریخ مکمل قرار نہیں دی جاسکتی ۔۷؂
’’جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشو ونما ‘‘: یہ کتاب ۱۹۹۲ء میں شائع ہوئی۔اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اسے کشمیر یونی ورسٹی نے ایم۔اے کے اردو طلباء کے لیے شاملِ نصاب کیا ہے۔ ’ریاست جموں و کشمیر میں اردو ناول کے خدوخال،جموں و کشمیر میں اردو ڈراما،ریاستی کلچرل اکادمی کی ادبی خدمات،ریاست کے تمدنی ادارے،جموں و کشمیر میں اردو ادب کے نمائندہ فن کار وغیرہ جیسے مضامین اس کتاب میں شامل ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر میں اردو ادب کی تاریخ مرتب کرنے والا کوئی بھی ادبی مؤرخ اس کتاب سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔پروفیسر سلیمان اطہر جاوید اس تصنیف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جموں وکشمیر میں اردو ادب کی نشوونما‘ ڈاکٹر برج پریمیؔ کے ان مضامین کامجموعہ ہے جو جموں وکشمیر میں اردو شعر و ادب او رثقافت سے تعلق رکھتے ہیں۔ان مضامین کی نوعیت تحقیقی بھی ہے او رتنقیدی بھی۔ کشمیر سے جذباتی وابستگی او رعشق کے باعث ان مضامین میں جہاں تہاں غالبؔکی طرفداری کااحساس ہوتاہے لیکن بنیادی طور پر ڈاکٹر برج پریمی کاجو مقصد ہے کہ کشمیر کی شعری‘ادبی‘ صحافتی او ر تمدنی زندگی کو متعارف کرایا جائے اور ممکنہ حد تک اس کی بھر پور او ررنگین تصویر پیش کی جائے‘ ہاتھ سے جانے نہیں پاتا او ریہی اس کتاب کی سب سے اہم اور امتیازی خصوصیت ہے ‘‘ ۸؂
’’منٹو کتھا‘‘منٹو شناسی کے سلسلے کی ایک اور کڑی ہے جو مصنف کے انتقال کے چار سال بعد ۱۹۹۴ء میں منظرِعام پر آئی۔منٹو اور کشمیر چوں کہ برج پریمیؔکے پسندیدہ موضوعات تھے اور ان کے مختلف پہلوؤں پر لکھنا وہ باعثِ سعادت سمجھتے تھے ۔شایدیہی وجہ ہے کہ منٹو پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے بعد بھی برج پریمیؔ نے ان کی شخصیت اور فن پر یہ دوسری کتاب لکھی ۔پروفیسر گوپی چند نارنگ رقمطراز ہیں:
’’برج پریمیؔ صاحب کاکام منٹو پر بنیادی نوعیت کاہے ۔ منٹو کاسنجیدہ مطالعہ کرنے والا کوئی بھی شخص مرحوم برج پریمیؔ کے کام سے صرف نظر نہیں کرسکتا۔ انہوں نے پوری زندگی اس میں کھپا دی ۔ان کاادبی کمٹ منٹ مثالی تھا۔ان کی دلسوزی ‘نیکی اورشرافت ان کے رفقاء کے لیے نمونے کادرجہ رکھتی ہے ‘‘ ۹؂
منٹو کی شخصیت اور فکرو فن کے جن گوشوں کی نقاب کشائی کا احاطہ ’سعادت حسن منٹو حیات اور کارنامے‘ میں نہیں ہوا تھا۔ زیرِبحث کتاب میں اُن مخفی گوشوں پر سے چادر ہٹا کر منٹو کے فکروفن کا جائزہ لیا گیا ہے۔
’’مباحث‘ ‘ ڈاکٹربرج پریمی کے مختلف النوع تحقیقی‘ تنقیدی‘فکری او رتجزیاتی مضا مین کاایک اورمجموعہ ہے جسے ان کے فرزند سبھاش ایمہ(المعروف پریمی رومانی) نے ترتیب دے کر۱۹۹۷ء میں رچنا پبلی کیشنز جموں کے زیر اہتمام شائع کروایا۔ اس مجموعہ میں کل ملا کر۲۳مضامین شامل ہیں۔جن میں سے چند ایک کے عنوانات اس طرح ہیں……’مولانا ابوالکلام آزاد بحیثیت انشاء پرداز‘، ’مختصر افسانے کا آرٹ‘،’لفظوں کا جادوگر: کرشن چندر‘،’حبیب کیفی شخص اور فنکار‘،’کشمیر ی غزل ‘،’کشمیر ی افسانہ ‘،کشمیری ڈراما‘،پریم چند اور ہندوستانی فلم‘،’اوپندرناتھ اشک اور ہندوستانی فلم‘وغیرہ۔مولانا ابولکلام آزاد کے اسلوب پر بحث کرتے ہوئے برج پریمیؔ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’مولاناکے نثری اسلوب کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ الفاظ کے بلیغ استعمال سے جادو جگاتے ہیں او ربلاغت کاپورا حق ادا کرتے ہیں……. یہ صحیح ہے کہ سیاسی‘فلسفیانہ یا دینی مباحث کو سمجھانا ایک جان لیوا کام بھی ہے اور خشک اور بے حد دقیق کام ہے لیکن مولانا کااندازہ نگارش ان مباحث کے بیان میں حسن و تاثیر کے عناصر آمیز کرتا ہے ‘‘ ۱۰؂
اس کتاب کی اہمیت مسلّم ہے کہ اس میں تحقیقی و تنقیدی نوعیت کے مضامین کے علاوہ انشایے اور خاکے بھی شامل ہیں اور بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی۔
’’پریم ناتھ پردیسی :عہد شخص اور فن کار ‘‘ریاست جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک افسانہ نگار اور شاعر کی شخصیت اور فن پر لکھی ہوئی تحقیقی و تنقیدی نوعیت کی ایک اورکتاب ہے جو ۲۰۰۹ء میں منظرِ عام پر آئی ۔یہ کتاب کشمیر کے پریم چند یعنی پریم ناتھ پردیسی کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر مفصل کتاب تصور کی جاتی ہے ۔ اس میں تحقیق کے ساتھ ساتھ تنقید کا حق بھی ادا کیا گیا ہے اور کشمیر کے مشہور اردو ادیب کی زندگی اور ادبی کارناموں کو اردو دنیا کے وسیع حلقے تک پہنچانے کی سعیٔ جمیل کی گئی ہے۔
 برج پریمی کی جو تصانیف ابھی غیر مطبوعہ ہیں ان میں ’’پریم چند:ایک نئی جہت‘‘،’’اردو ادب میں کشمیری پنڈتوں کی خدمات‘‘،’’نئی تحریریں ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ کشمیری زبان میں بھی ان کی دو کتابیں (وژھنے۱۹۹۹ء اور وراثت۲۰۰۳ء)منظرِعام پر آئی ہیں۔انہوں نے کشمیری زبان کے ایک مشہور صوفی شاعر صمد میر پر لکھاہوا مونو گراف بھی کشمیری سے اردو میں ترجمہ کیا جو ۱۹۹۲ء میں شائع ہوکر منظر عام پر آیا۔ادبی تصانیف کے علاوہ تعلیمِ بالغاں کے سلسلے میں بھی انہوں نے’’مرغ بانی‘‘ ’’ شجر کاری‘‘ اور ’’ روشن چراغ‘‘ جیسی کارآمد کتابیں لکھیں۔
مذکورہ بالا تفصیل سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ برج پریمیؔ برق رفتاری کے ساتھ اردو ادب کی خدمت میں مصروف تھے ۔جامعہ کشمیر میں درس و تدریس سے وابستہ ہونے سے لے کر ان کے انتقال تک ہر سال اُن کی کوئی نہ کوئی کتاب شائع ہوکر منظرِ عام پر آتی رہی۔صرف کتابیں لکھتے ہوئے اور درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے ہی وہ اردو ادب کی خدمت میں مشغول نہیں رہے بلکہ انہوں نے تخلیقی سفر کے دوران متعدد علمی و ادبی انجمنوں سے بھی وابستگی اختیار کی او رادبی نشستوں میں باقاعدگی کے ساتھ شمولیت کرتے رہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ کبھی کبھی اپنے گھر پر بھی ادبی نشستوں کااہتمام کیا کرتے تھے ۔۱۹۵۴ء میں شہرِ سرینگر کے خانیار علاقے میں بہاؤ الدین زاہدؔ اور بدر الدین نے ’’حلقہ علم و ادب‘‘ کی بنیاد رکھی جو کچھ عرصہ بعد ایک مشہور ادبی او رثقافتی مرکز بن گیا۔برج پریمیؔ اس کے اراکین میں شامل تھے ۔ اس ادبی حلقے کی نشستوں میں کشمیر اور بیرونِ کشمیر کے مشہور ادباء شرکت کرتے تھے جن کے ساتھ برج پریمیؔ کو ملاقات کے مواقعے فراہم ہوئے۔اور اس طرح ان کی تخلیقی صلاحیت ادبی ماحول میں پروان چڑھتی گئی۔اسی دور میں گنپت یار سرینگر میں ہندی سنسد نام کی ایک انجمن بھی قائم ہوئی جس کے ساتھ پرتھوی ناتھ جوتشی‘ سوم ناتھ بالی‘ رادھاکرشن بے کس‘موہن رینہ‘راج کمل وغیرہ جیسے ادیب شامل تھے ۔ہندی کے معروف ادیب وسنت کمار تیجوری المعروف ارون کول اس انجمن کے صدر اور برج پریمیؔ اس کے سیکرٹری تھے ۔۱۹۵۷ء میں زینہ کدل سرینگر میں ا یک اور ادبی مرکز’’ انجمن اربابِ ذوق‘‘ کے نام سے وجود میں آیا اوربر ج پریمیؔ بھی اپنے دوست او ر معاصر ادیب پشکر ناتھ کے ہمراہ ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے اس انجمن کے ساتھ وابستہ ہوئے ۔ اس دوران ان کی ملاقاتیں قدآور ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ہوئیں جن میں غلام رسول نازکی‘دینا ناتھ نادم‘ امین کامل‘رحمن راہی‘ شمیم احمد شمیم‘ راہی معصوم رضا‘ سوم ناتھ زتشی اور اختر محی الدین وغیرہ شامل ہیں۔ برج پریمیؔ انجمن اد ب بڈگام کے ساتھ بھی وابستہ رہے جو بعدمیں انہی کی تجویز پر ’’انجمن ترقی ادب بڈگام‘‘ کے نام سے از سر نو منظم کی گئی او روہ اس کے نائب صدر منتخب کیے گئے ۔اس انجمن کی ادبی نشستوں میں بر ج پریمیؔ نے اپنی کئی کہانیاں پڑھ کر سنائیں او راپنی خداداد صلاحیتوں کی بناء پر داد و تحسین حاصل کیے۔شاہد بڈگامی اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں:
’’برج پریمیؔ کامطالعہ بہت وسیع تھا او راپنی عمر سے وہ کہیں زیادہ بالغ اور تجربہ کار لگتے تھے ۔انہوں نے انجمن ادب بڈگام کی نشستوں میں شعراء او ر ادباء کی تخلیقات پر تنقید کاسلسلہ بھی رائج کیااور علمی سطح پر ہماری ادبی تحریک کو جدید ادبی رجحانات سے روشناس کرانے میں اہم رول ادا کیا۔‘‘ ۱۱؂
برج پریمیؔ کلچرل فرنٹ‘آزاد کلچرل فورم او رآزاد میموریل کمیٹی سے بھی وابستہ رہے۔ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں انہوں نے’’صدف‘‘ نام کی ایک انجمن تشکیل دی۔ جس کی طرف سے یادگار جلسے اور ادبی نشستیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔اس انجمن کے ساتھ پروفیسر حامدی کاشمیری‘ پروفیسر جعفر رضا‘ پروفیسر نذیر احمدملک او رپروفیسر مجید مضمر(مرحوم) جیسی ادبی شخصیات وابستہ تھیں ۔

مختصراً برج پریمی ؔنے قلیل عرصے میں ایک طویل ادبی سفر طے کیا اور بہ یک وقت افسانہ نگار،مترجم،صحافی،ناقد،محقق اور مؤرخ کے اردو ادب میں وہ مناسب مقام پایاجس کے وہ یقیناً مستحق تھے ۔ کشمیریونیورسٹی کاشعبہ اردو ’’ بازیافت‘ ‘کے نام سے جو سالانہ تحقیقی وتنقیدی مجلہ شائع کررہاہے اس کے مجلس مشاورت کے ایک رکن کی حیثیت سے بھی انہوں نے تحقیقی وتنقیدی کاموں کو بحسن و خوبی نبھایا ہے ۔وہ ملک کے متعدد رسائل و جرائد سے بالواسطہ یا بلا واسطہ بھی وابستہ رہے ہیں جن میں ماہنامہ’’دیس‘ (سرینگر) استاد (سرینگر) آگہی (شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی) صدف (سرینگر) او رہندوپاک کے مشہور ماہنامہ سہیل(گیا) وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ریاست کی کئی ادبی اورثقافتی انجمنوں سے بھی ان کا تعلق رہا جو ان کے متحرک ذہن‘ تخلیقی وفوراو رقلم کی روانی کا پتہ دیتاہے۔برج پریمیؔ کی تحقیقی و تنقیدی تصانیف کامطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ ان کااسلوب نگارش ارتقائی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے ۔ان کی تحریروں میں روانی اور شگفتگی کے ساتھ ساتھ بے ساختہ پن بھی موجود ہے ۔ ریاست میں اردو ادب کو فروغ دینے میں ان کے کلیدی رول کو کوئی بھی ادبی مؤرخ نظر انداز نہیں کرسکتا۔

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

اردو ہے جس کا نام.
سُخن ورانِ کشتواڑ ..!

سُخن ورانِ کشتواڑ۔مرحومین ..!

سُخن ورانِ کشتواڑ۔مرحومین ..!

سُخن ورانِ کشتواڑ۔مرحومین ..!


اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

..!

..!

.........................................!