منگل، 21 ستمبر، 2021

تصاویر،اجرائ سحر سُراغ

0 تبصرے
احمد توصیف قدس  (ابن الطافؔ)
الطاؔف کشتواڑی کی شعری خصوصیات
سماج افراد کا مجموعہ ہے۔یہ افراد یکساں نہیں ہوتے بلکہ اپنی صلاحیتوں، قابلیوں اور محنتوں میں یکتا اور منفرد ہوتے ہیں۔ سب کا اپنا اپنا رول ہے اور سماج کی ہئیتِ اجتماعی کے واسطے سب ضروری ہیں۔ لیکن ادیب کا رول سماج میںاس لیے زیادہ ہے کیونکہ وہ نباض اور فطرت شناس ہے۔ اُس میں سوچنے اور تجزیے کی وہ صلاحیت ہوتی ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ہوتی۔ ادیب بیک وقت مصلح بھی ہوتا ہے اور واعظ بھی، وہ نفسیات کے علم سے واقف ہوتا ہےا ور درد شناسی کے وصف سے بھی۔جس آنکھ سے ادیب چیزوں کو دیکھتا ہے، غیر ادیب نہیں دیکھ پاتا۔ادیب کا محمود و مطلوب صرف اظہارِ ذات نہیں ہوتا بلکہ اُس کی نظرسماج کی ہئیتِ اجتماعی پر ہوتی ہے۔ اُس کی سوچ اور فکر کا  دائرہ بڑا ہوتا ہے۔ ادیب کا ایک خاص اسلوب ہوتا ہےجو دل نشین بھی ہوتا ہے ااور دماغ نشین بھی، یعنی وہ فرد کے دل اور دماغ دونوں کو ایڈریس کرتا ہے۔
ادیب کی تعریف میں جو سب باتیںعرض ہوئیں، اُن سب باتوں کی جھلک جناب الطافؔ کشتواڑی کی شاعری میں کہیں نہ کہیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ الطافؔ کشتواڑی کے ہاں سوچنے کا ایک خاص زاویہ ہے جو اُن کی پوری فکر اور سوچ کو متاثر کرتا ہے۔ اُن میں خیالات کی وہ پختگی ہے جو ایک موضوع پر بات کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ یہ خیالات کسی تقریر یا مضمون کے ذریعے سامنے نہیں آتے بلکہ اِنھیں ایجاز واختصار اور سجاوٹ کاایک حسین پیکر ملتا ہے جسے شاعری کہا جاتا ہے۔ وہی شاعری جسے الطافؔ کشتواڑی اپنی زیست کا ایک قیمتی سرمایہ سمجھتے ہیں۔
شاعری انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ رشید احمد صدیقی کے مطابق ’’شاعری دنیاوی مادری زبان ہے‘‘۔ ہر زمانے میں شاعری اور دیگر فنونِ لطیفہ کو سماج میں ایک مرکزی حیثیت رہی ہے۔یہ قوموں کی پہچان ہے اور اس نے سماج کے اقدار بدلے ہیں۔ہر شاعر نے کسی نہ کسی حیثیت سے سماج کی اجتماعیت کے واسطے کچھ نہ کچھ ضرور contributeکیا ہے جس سے شاعرکافن اہم اور قابلِ قدر بن جاتا ہے۔ الطافؔ کشتواڑی کا فن بھی اہم اور قابلِ قدر ہے۔آپ کی شاعری اظہارِ ذات سے سفر کرتے ہوئے اظہارِ کائنات پر ختم ہوتی ہےجس سے آپ کی شاعری کا کینویس وسیع ہو جاتا ہے۔
الطافؔ کشتواڑی جس بیک گرائونڈ سے آتے ہیں، اُس میں آپ اکلوتے شاعر ہیں۔آپ نے ناموافق حالات کے سبب اپنے فن کو مردہ ہونے سے بچایا ہے۔ وہ جہاں بھی گئے اور جس ماحول میں بھی رہے ہیں، اپنے اس فن کی آبیاری کے راستے تلاشے ہیں۔میری اس بات کی تصدیق الطافؔ کشتواڑی کے استاد جناب صابر مرزا صاحب کے ذیل کےاِن جملوں سے ہوتی ہے جو موصوف نے الطافؔ کشتواڑی کے پہلے مجموعے ’’ریزہ ریزہ آئینہ‘‘میں لکھے ہیں:
’’الطاف کشتواڑی کی بلند حوصلگی کی داد اس لیے بھی دی جا سکتی ہے کہ جس ماحول میں ان کے شب و روز گزرے ہیں وہ یکسر غیر ادبی ہی نہیں غیر سنجیدہ بھی ہیں۔ جہاں پھر بھی انھوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کے محل کو پژمردہ ہونے سے بچا رکھا ہے۔‘‘
ہر شاعر کا ایک انفراد ہوتا ہے۔میرؔ اور غالبؔ دونوں شاعری کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ لیکن دونوں کے نظامِ فکر اور شعر کہنے کے عمل میں فرق ہے۔شاعر کا یہ انفراد نہ صرف موضوعات میں بلکہ اُس کے تخیل ، اسلوب اور ذخیرۂ الفاظ میں نظر آتا ہے۔یہی چیز شاعر کو ایک جداگانہ حیثیت عطا کرتی ہے۔ذیل میں ہم الطافؔ کشتواڑی کےموضوعات، تخیل، الفاظ کے چنائو اور اسلوب نگارش کو اُن کی شاعری کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
وہ کیا گیا کہ زمان و مکان روٹھ گئے
تھا ایک شخص وہ سارے جہان میںشاید
تجھ کو آواز میں ڈھونڈا ہے مغنی بن کر
اک نئے سُر میں نئے راگ میں گایا ہے تجھے
جب وہ مرحوم ہوا پھرنہ ملےوہ مجھ کو
 میں نے لکھے تھے ترے نام کے کتبے کتنے
یہ تین اشعار ہیں تین مختلف غزلوں کے۔ اشعار کی قرات اور پھر معنی تک رسائی سے ہمارے ذہن میں ایک شخص کا پیکر سامنے آتا ہے۔شاعر وقت وقت پر اِس کردار کو سامنے لاتا ہے۔ یہ شخص شاعر کا ایک تصوراتی خاکہ بھی ہو سکتا ہے اور کوئی انسانی وجود بھی۔لیکن صاف ظاہر ہے شاعر اِس کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی رکھتا ہے۔کبھی "تھا ایک شخص جہان میں وہ شاید" سے شاعر اِس کردار کو خاص بناتا ہے تو کبھی"مغنی بن کر" اُسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ایک دوسری جگہ پر شاعر اِس شخص سے بچھڑنے کا ماتم کرتا ہےاو ر اُس کی یاد کو یوں بیان کرتا ہے:
یاد کترن کی طرح دل سے گزرتی ہے کبھی
کاٹتی ہے مری دیوار وہ سیلن کی طرح
اِس کردار کےساتھ شاعرکا ایک پرانہ رشتہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ اُسے ایک بُت سے مشابہت دے رہا ہے جس کی وہ ایک عرصے سے عبادت کر رہا ہے۔ زمانے بیت گئے، لیکن وہ اُس کے دل کے کسی کونے میں اب بھی موجود ہے۔ اِس خیال کو شاعر نے یوں باندھا ہے:
ازل سے جس کے لیے ہر نظر طواف میں ہے
وہ بت ہنوز مرے دل کے اک شگاف میں ہے
زندگی کیا ہے ۔ اِس میں یہ پیچیدگیاں کیوں ہے؟ زندگی گزارنے کے طورطریقے اور خیالات و افکار میں فرق کیوں ہے؟ زندگی اگر بہار کا نام ہے تو پھراِس میں خزاں کا کیا کام؟ یہ اگرکوئی جائے 
امتحان ہے تو امتحان میں شرحِ کامیابی کم کیوں ہے؟ یعنی باوجود محنت و مشقت کے انسان کو وہ سب کچھ کیوں حاصل نہیں ہوتا جس کا وہ مستحق ہے۔
ہر شاعر کے ہاں زندگی سے جڑی ان بنیادی باتوں کا کوئی نہ کوئی خاکہ ہوتا ہے۔ اُس کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کی اصل سے واقف ہے اور وہ زندگی کا ایک اجتماعی تصور رکھتا ہے۔ زندگی کے اِسی خاکے اور تصور کو شاعر اپنی شاعری میں بیان کرتا ہے۔ ذیل کے یہ تین اشعار دیکھیں:
کچھ جام روبرو ہیں مگر بے دلی کے ہیں
حالات گرد وپیش سبھی بے رُخی کے ہیں
کوئی اِس رن میں کب الطافؔہم سے جیت سکتا ہے
جو ہم نے جان کر کھائی ہیںوہ خاموش ماتیں ہیں
اُنھیں میرے حوادث سے بھلا الطاف ؔکیا لینا
یہ فہم و دل کی ساری جنگ، کیا تم کو سنانی اب
تینوں اشعار میں ایک شکایتانہ لہجہ عیاں ہے۔ شاعر کےمطابق اِس دنیا میں چین و سکون اور آرام و راحت کو کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو وہ ایک لمحاتی کیفیت کا نام ہے اور بس۔ زندگی انسان کو اکثر اوقات بے رُخی کی وہ شکل دکھاتی ہے کہ وہ ٹوٹ جاتا ہے ، یاس اور نااُمیدی میں غرق ہوتا ہے۔ زندگی حادثات کا نام ہے ۔ بے رُخی اِس کا شیوہ ہے۔
زندگی بے ثباتی کا بھی نام ہے۔یہاں کوئی چیز مستقل نہیں ہے اور اس دنیا میں ہمیشہ کے لیے کوئی نہیں رہے گا۔ کیا شاہ و گدا، کیا عالم اور جاہل، کیامنصف اور مدعی سب خاک ہو جائیں گے۔ یہ زندگی کا وہ فلسفہ ہے جس سے کسی کو فرار نہیں۔ ذیل کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں اور الطافؔ کشتواڑی کے ہاں زندگی کی بے ثباتی کا جو تصور ہے اُسے محسوس کریں:
سونے اور چاندی میں جو تُلتا ہی رہا
آخر وہ بھی اس دنیا میں خاک ہوا
کن اثاثوں پہ جنگ تھی الطافؔ
جاتے ہو تو ہیں مٹھیاں خالی
معنی آفرینی شاعری کا جوہر ہے۔غالبؔ کے مطابق یہ اصلِ شاعری ہے۔یہ شاعر کی ذہانت ناپنے کاایک بہترین آلہ ہے۔ شاعری میں معنی آفرینی کا التزام فی الاصل ایک نازک کام ہے۔ کیونکہ اِس میں شاعر چند الفاظ یا مصرعوں میں وہ بات کہہ دیتا ہے جسے کہنے کے لیے عموماً صفحات کے صفحات درکار ہوتے ہیں۔ذیل کے اشعار دیکھیں:
وہ آئینے گلی میں بیچتا تھا
جو اپنی شکل سے پچھتا رہا ہے 
میں ہی رسی پر چلا ہوں دوستو
میری شہرت تو مرے کرتب سے ہے
جپتے ہیں ترا نام، ہے قربت نہ جدائی
تسبیح کا یہ دانہ بکھر کیوں نہیں جاتا
تینوں اشعار جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن تینوں اشعار میں معنی کی تہہ داری ہے۔
شعر اول:
  وہ شخص جو خود اپنی شکل سے نامانوس ہے وہ لوگوں کو مانوسیت کا درس دے رہا ہے۔ یعنی وہ شخص وہ کام انجام دے رہا ہے جس کا وہ اہل ہے ہی نہیں۔ وہ گلی میں آئینے بیچتا ہےتاکہ لوگ آئینوں میں اپنی شکل دیکھ کر خود کا محاسبہ کریں اور زندگی کا درس لیں۔ جبکہ آئینہ بیچنے والا شخص آئینے کی حقیقت سےخوب واقف ہے۔ اُسے زندگی کا وہ راز معلوم ہے جو آئینہ خریدنے والے کو معلوم نہیں ہے۔معلوم ہوا آئینہ بیچنے والا شخص عیّار ہے۔ اُس کی عیّاری کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اوّل یا تو وہ مجبور ہے کہ اُسے بعض مادی چیزیں چاہیے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے۔ دوم وہ سچ میں عیّار ہے یعنی اُس کی نیت ہی لوگوں کو دھوکا دینے کی ہے۔
شعر دوم:
رسّی پر چلنا ایک کرتب ہے۔ یہ ایک دشوار گزار کام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نازک کام بھی ہے کہ رسی پر ذرا سا پیر پھسلا تو سارا معاملہ تل پٹ ہوجائے۔شعر میں رسی پر چلنے سے مراد وہ کام انجام دینا ہے جس کو کرنے سے سب کتراتے ہیں۔ شاعر کے مطابق وہ دشوار گزار اور نازک کام اُس نے خود انجام دیا ۔ لیکن بجائے Appreciationکے اُسے حقارت ملی، دُکھ اور رنج ملا۔ "شہرت" کو شاعر نے یہاں پر طنزیہ( satirical)انداز میں استعمال کیا ہے۔
شعر سوم:
عمل دو طریقوں کے ہیں۔شعوری اور غیر شعوری۔شعوری طورپر جو عمل انجام دیا جائے اُس میں انسان کی غرض شامل ہوتی ہے۔ یعنی اُس میں اُسے مفاد چاہیے، خوشی اور لطف چاہیے اور ایسے ہی دوسرے احساسات کی تسکین۔ لیکن غیر شعوری پر جو عمل انجام دیا جائے وہ بے غرض ہوتا ہے۔ اُس میں اگر غرض ہوتی بھی ہے تو عمل کرنے والا اُس سے بے خبر ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ غیر شعوری طور پر جو عمل انجام دیا جائے اُس میں روحانیت یا کسی غیبی طاقت کو دخل حاصل ہے۔مذکورہ شعر میںایک شخص کو شاعر بار بار یاد کر رہا ہے۔جبکہ اُس شخص کے ساتھ شاعر کا کوئی واسطہ ہے نہ رابطہ۔لیکن شاعر اُس کے نام کی تسبیح پڑھے جا رہا ہے۔رابطے کی محرومی کے سبب تسبیح کے دانے بکھر جانے چاہیے تھےیعنی اُس شخص کے نام کی تسبیح پڑھنے کا عمل رُک جانا چاہیے ۔ لیکن وہ اور زیادہ مضبوط ہو رہا ہے۔ کوئی غیبی یا روحانی طاقت ضرور ہے جو تسبیح کے دانوں کو بکھرنے نہیں دیتی۔
پتھر زمانے بھر کے یہاں سہہ رہا ہوں میں
اک سچ ہی ہے کہ جس کو ابھی کہہ رہا ہوں میں
یہ کون سا سچ ہے جس کے کہنے پر شاعر کو پتھر نصیب ہوئے ہیں۔ الطافؔ کشتواڑی کے اِس مجموعےکے مطالعے سے معلوم ہوتا ہےکہ اُن کی شاعری میں بعض کچھ ناصحانہ جھلکیں ہیں جس سے وہ اپنے ہم جلیسوں کو باخبر کرنا چاہتے ہیں۔وہ زندگی کی صداقتوں کو اپنے دوستوں پر آشکار کرنا چاہتے ہیں۔یہ صداقتیں کیا ہیں؟ یہ دراصل وہ آفاقی اصول ہیں جو کسی بھی انسانی سماج کا جوہر ہیں ۔غزل کے دو اشعار دیکھیں:
جوشِ دمِ طفلانِ مناسب میں ابھی ہو
ناپختہ بہت حسبِ مراتب میں ابھی ہو
ترتیب معین ہے ستاروں کی ازل سے
تم چرخ شناسی کے مطالب میں ابھی ہو
یہ باخبری بعض اوقات تنبیہ بن جاتی ہے جس میں شاعر کی تندی ظاہر ہوتی ہے۔شعر دیکھیں:
تیری انا کے دوڑتے گھوڑوں کا کیا کریں
آجائیں گے یہ خود ہی کبھی راہِ راست پر
باخبری اور تنبیہ کے باوجود شاعر کو بدلے میں دُکھ ملا ہے اور اُس کے اخلاص کو سخت چوٹ پہنچی ہے۔ شاعر کے مطابق دنیا میں مفاد پرستی کا غلغلہ ہے اور یہاں پر شرافت کو کوئی جگہ حاصل نہیں ہے۔ایک اورشعر دیکھیں:
کہاں الطافؔ تم اخلاص کی گھٹڑی اٹھائے ہو
شرافت کی تجارت کا تو کاروبار مندہ ہے
الطافؔ کشتواڑی جس بیک گرائونڈ سے آتے ہیں وہ مذہبی بیک گرائونڈ ہے۔شادی بیاہ کی خوشی ہو یا کسی اپنے کے بچھڑ جانے کا ماتم، رسم و رواج کی انجام دہی ہو یا اور اخلاق و عادات کے اصولوں کا تعین ہر جگہ مذہب کو ایک خاص دخل حاصل ہے۔یہاں مذہبی بیک گرائونڈ سے مُراد پروفیشنل مذہبی بیک گرائونڈ نہیں ہے۔ بلکہ اِس سے مُرادہماری وہ تہذبی زندگی ہے جس کے اصول و ضوابط مذہب سے اخذ کیے گئے ہیں اور جو ہماری کُل میراث ہے۔
الطافؔ کشتواڑی خود کو اپنی مذہبی تہذیب کے اثر سے دور نہیں رکھ پائے ہیں۔ذیل کے اشعار آپ کی مذہب پسندی کا بیّن ثبوت ہیں۔
حمدِ خدا:
اِدھر دیکھا اُدھر دیکھا یہاں دیکھا وہاں دیکھا
جہاں بھی جس طرف دیکھا تجھے سب میں نہاں دیکھا
حبِ نبیﷺ:
آسان یہاں تم پہ ہو یہ گردشِ دوراں
کرنی ہے محبت تو کرو میرے نبی سے
تکریمِ ولی(شاہ فرید الدین بغدادیؒ):
چناب بہتا رہا ہے جہاں سے آپؒ نے بھی
پلائی ایسے اخوت چھلک نہ پائے ایاغ
فلسطین کی خونریزی پر نوحہ:
ارض دنیا پہ جو افضل تھی کبھی اعلیٰ تھی
اب ہے وہ غرقِ خرافات عجب ہے واللہ
اُمتِ مسلمہ کی بدحالی پر اظہارِ افسوس:
ہیں کہیں پاک، کہیں عرب و ایران کہیں
برسرِ موجِ فسادات عجب ہے واللہ
اُمتِ مسلمہ سے شکایت:
تم تو افضل امتو میں تھے میاں
یہ ریاکاری تمہاری کب سے ہےشبِ قدر کی بابرکت رات کے موقعے پر:
ہمیں تو جاگنا ہے آج کی شب صبحِ کاذب تک
کھلیں گے رحمتوں کے سارے در اب صبحِ کاذب تک
بہ کثرت توبہ، استغفار، الغفار سجدے میں
مداوا لادوا کا ہوگا امشب صبحِ کاذب تک
الطافؔ کشتواڑی کی تہذیب کشمیر کی تہذیب ہے۔ کشمیر کی تہذیب یکتائے زمانہ ہے۔کشمیر کی زبان، آب و ہوا، رہن سہن، فیرن، وازوان، کانگڑی، سماوار، برف ، ٹین،جھیل ، آبشار، پہاڑ ،جنگل، کشتی، چپو سب چیزوں کی کوئی نہ کوئی جھلک الطافؔ کشتواڑی کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ذیل کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:
غنیمِ وقت کے حملے سے لوگوں کو بچانا ہے
میں آہنگر ہوں ان کے واسطے بکتر بناتا ہوں
آہنگر الطافؔ کشتواڑی کی ذات ہے جسے لوہاری بھی کہتے ہیں۔کشمیر میں لوہاری کا پیشہ ایک عرصہ سے رائج ہے ۔ لوہار نہ صرف گھر کی ضروری اشیاء بناتا ہے بلکہ وہ زمینداری کے آلات سے لے کر جنگوں کے ساز و سامان تک بنانے کی مہارت رکھتا ہے۔ درج بالا شعر اِسی بات کی عکاسی کرتا ہے۔
کچن میں اب ہے پرانے سے برتنوں کاہجوم
ہیں ساری صدیاں ہمارے مکان میں شاید
کشمیر کا کچن اپنی نوبہ نوع خاصیتوں کی وجہ سے مشہور ہے۔کچن میں ایک سادہ اور صاف فرش ہے جہاں پر بیٹھ کر کھانا کھایا جاتا ہے۔دیواروں پر لکڑی کے شیلف لگے ہیں جن پر لوہے اور تانبے کے برتن قرینے سے رکھے ہوئے ہیں۔ کونے پر ایک کانگڑی رکھی ہے اور شیلف کے ایک طرف ایک بڑا سماوار۔ کچن کی سامنے والی دیوار کے وسط میںایک چولہا بھی جل رہا ہے جو نہ صرف کھانا بنانے کے کام آتا ہے بلکہ اُس سے زندگی کی حرارت کا اصل احساس ہوتا ہے۔ یہی کشمیر کے کچن کی کہانی ہے اور اِسی کہانی کی ترجمانی الطافؔ کشتواڑی نے اپنی شاعری میں جا بجا کی ہے۔ 
یہاں تانی ہے چادر دیر سے چلۂ کلاں نے
بہت مدت سے یخ بستہ نیا کشمیر دیکھو
خوبصورتی کے علاوہ کشمیر کی سردی بھی لوگوں کے لیے توجہ کا مرکز رہی ہے۔ چلۂ کلاں 40 روز کی سخت سردیوں کا ایک خاص وقفہ ہے جوبہت مشہور ہے۔ 40 روز کے اِس عرصے میں سخت سردی پڑتی ہے جس سے معمولاتِ زندگی بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ 
ہماری روٹی، ہماری خوشبو، ہمارا زر تھی
وہ زعفراں کی زمیں کسی نے لتاڑ دی ہے
زعفراں کشمیر کی پہچان ہے۔ کشمیر کے ضلع پلوامہ اور ضلع کشتواڑمیں اِس کی کاشت ہوتی ہے۔زعفران ایک خاص قسم کا پھول ہے جو بہت قیمتی بھی ہے اور اِس کا استعمال بھی خاص ہے۔
کس سے کس کا رشتہ ٹوٹا، اندر باہر سب خاموش
زون ؔکا نغمہ، میرؔ کی جھانجر ، نوحہ گھر گھر سب خاموش
  زونؔ سے مُراد کشمیری زبان کی شاعرہ حبہ خاتون ہے اور میرؔ سے مُراد رُسل میر ہے جو کشمیری زبان کے ایک رومان پرور شاعر تھے۔ دونوں شعراء اپنی کشمیری شاعری کی وجہ سےمعروف ہیں۔ الطافؔ کشتواڑی دونوں شعراء کے فن اور شاعری سے متاثر نظر آتے ہیں۔
غم، دُکھ ، درد ، تکلیف، اداسی، بے بسی، بے چینی ایسی حسیاتی کیفیات ہیں جو زندگی کے جزوِ لازم ہیں۔ الطافؔ کشتواڑی نے اِن سب کیفیات کو نہ صرف شدت سے محسوس کیا ہے بلکہ اپنے اشعار سے اِن کی بہترین عکاسی بھی کی ہے۔ وہ ا ِن کیفیات کے اظہار کے لیے ایک خاص شعری اسلوب رکھتے ہیں۔ ذیل کےا شعار دیکھیں:
غم اگر سینے میں ضم ہو تو غزل ہوتی ہے
یا کوئی تازہ الم ہو تو غزل ہوتی ہے
رات سنسان ہو، بوجھل ہو سبھی کی سانسیں
روح رنگوں میں بھسم ہو تو غزل ہوتی ہے
الطافؔ کو نہ جانے ہے یہ کیسی چپ لگی
اس کی غزل کا ہر کوئی مصرعہ اداس ہے
مٹکےاُداس ہیں یہاں گاگر اُداس ہیں
پانی کی بوند بوند کو بنجر اُداس ہیں
چپو ہے غم زدہ انہیں دیمک نے کھا لیا
روٹھی ہے برف ٹین کی چھپر اُداس ہے
یہ کوئل کیسا نغمہ گا رہی ہے
مرے دل کو بہت تڑپا رہی ہے
خلائوں میں پرندے چیختے ہیں
زمیں پر کوئی آفت آر ہی ہے
نہیں کھلتا کہ ہے اب ماجرا کیا
دریچوں سے صدا کچھ آرہی ہے
ان سب اشعار کے توسط سے الطاف ؔکشتواڑی فضا کو مکدر کر رہے ہیں۔سب اشعار میں’’اداسی ‘‘ کا جو پہلو در آیا ہے وہ انسانی سماج کی ایک مشترک حسیاتی کیفیت ہے۔اداسی کا بیان بعض اوقات اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ اداسی کی بھی اپنی جمالیات ہے۔ درد کو درد نہ کہا جائے تو وہ ناسور بن جاتا ہے۔ 
الطاف کشتواڑی کا اسلوب سادہ اور سہل ہے۔ وہ بڑی ترکیبوں اور اصطلاحات کا استعمال نہیں کرتے بلکہ عام اور آسان الفاظ میں اپنی بات کہہ دیتے ہیں۔ بعض الفاظ الطافؔ کشتواڑی باربار استعمال کرتے ہیں جو کہ ظاہر ہے اُن کے پسندیدہ الفاظ بھی ہیںا ور ان الفاظ سے اُن کی سوچ اور فکر کا دائرہ بھی متعین ہوتا ہے۔ مثلاًقلم، قرطاس، سحر، سراغ، رت جگا، پھاگن، کتبہ، اختر، بکتر، دھمال،اشجار،ابر،مٹکے،تشنہ لبی،پھول اور پتے،صحرا، شبِ غم،زخم، مرہم، نغمہ،گیت،تسبیح،گھنیری رات،رفوگر،ریت، مٹی،برف، شمع،کھیت، فصل،لوہار، بکتر، آہنگر،کواڑ، ریت، مٹھی،چائے،کرچیاں،جھیل،سنتور، رباب،کاغذ، کشتی، آندھی،کوئل،چنار،سحرگاہی ،رُت وغیرہ یہ سب الفاظ اِس مجموعے میں جگہ جگہ پر مستعمل ملےگیں۔
الطافؔ کشتواڑی نے چھوٹی،بڑی اور میانہ بحروں کے سب تجربات کئے ہیں جو کہ شاعر کی ذہانت کا عمدہ نمونہ ہے۔ چھوٹی بحروں والی غزلوں میں معنی کی نزاکت اور خوبصورتی نظر آتی ہے۔ بڑی بحروں والی غزلوں میں فکر اور فلسفہ ہے۔ میانہ بحروں والی غزلوں میں معنی کی نزاکت بھی ہے اور فکر و فلسفہ بھی۔تین بحروں کے نمونے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
چھوٹی بحر:
ہیں مناظر سے بستیاں خالی
لے رہی ہیں یہ ہچکیاں خالی
بڑی بحر:
تمام چہرے، اداس نسلوں کے، اپنی پشتوں کو دیکھتے ہیں
جو سب کی قسمت میں لکھ دیا ہے ، مٹا تھا شاید، مٹا نہیں ہو
میانہ بحر:
دیکھنے میں مرے اشعار اب کچھ بھی نہیں
ہیں فقط سوچوں کا انبار اب کچھ بھی نہیں
 سحر سُراغ:
’’سحر سراغ‘‘ الطاف ؔکشتواڑی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ایک حمد،ایک نعت اورایک منقبت کے علاوہ اِس میں 200غزلیں شامل ہیں ۔کتاب کے آغاز میں "میری رسیدی ٹکٹ" کے عنوان سے الطافؔکشتواڑی کا پیش لفظ ہے جس میں آپ نے اپنی حیات، فن اور’’سحر سراغ‘‘پر مختصر لیکن اہم گفتگو کی ہے۔بزرگ شاعر اورساہتیہ اکادمی ایواڑد یافتہ ادیب جناب کرشن کمار طوراور اُستادِ محترم پروفیسر کوثر مظہری صاحب (شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) نے ’’سحر سراغ‘‘ پر تاثرات لکھے ہیں جو کہ کتاب میں شامل ہیں۔ کتاب کا نام کرشن کمار طور صاحب کا تجویز کردہ ہے۔آپ نے کتاب میں شامل پورے کلام کو پڑھا اور کتاب کا نام تجویز کیا۔یہ نام الطافؔ کشتواڑی کو نہ صرف پسند آیا بلکہ’’میںنے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرےدل میں ہے‘‘والی بات ہو گئی۔
’’سحر سراغ ‘‘مرکب لفظ ہے سحر اور سراغ کا۔ سحریعنی صبح کاوہ اولین وقت جو اُمیدوں اور اُمنگوں سےبھرا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ رات کی سیاہی کو ختم کرکے اُسے روشنی میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔رات کی سیاہی کو ختم کرنے کی جدوجہد میں ’’سحر‘‘ کووہ ’’ راز‘‘معلوم ہوتا ہے کہ جس راز کو جاننے کی ہم سب کو ضرورت ہے۔ الطافؔ کشتواڑی کے مطابق آپ نے جو کچھ لکھا ہے اِسی’’سحر سراغ‘‘ کو بیان کرنے کی کوشش میں لکھا ہے۔
اِس کتاب کی پیش کش میں ایک نیا تجربہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ ہر غزل کے ساتھ ایک تصویر شامل کی گئی ہے جو اُس غزل کے کسی خاص شعر کی عکاسی کرتی ہے۔تصویریں سب کی سب نئی ہیں یعنی یہ کہیں سے ماخوذ نہیں ہیں۔ اِنھیں Artificial Inteligence اور بعض اہم سافٹ ویرس اور ویب سائٹس کی مدد سے generateکیا گیا ہے۔تصویروں کی شمولیت کی غرض کتاب میں جدت لانا ہے۔ کیونکہ جدت کا مظاہرہ بھی فی الاصل ایک تخلیقی عمل ہے۔
کتاب کا ٹائٹل پیج صاحبِ کتاب یعنی الطافؔ کشتواڑی نے خود اپنی تخلیقی صلاحیت کا استعمال کرکے تیار کیا ہے۔کتاب عمر فرحت صاحب کے پبلی کیشن سینٹر" تفہیم پبلی کیشنز راجوری (جموں و کشمیر)" سے شائع ہو رہی ہے۔ کمپوزنگ نسیم اختر اور الطافؔ کشتواڑی نے کی ہے۔عمر فرحت صاحب، جو کہ خود ایک نوجوان شاعر ہیں، نے اِس کتاب کی ترتیب میں کئی اہم مشوروں سے نوازاجو کتاب شائع کرنے کے پورے عمل میں معاون اور ممد ثابت ہوئے ہیں۔

(ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)
( NET-JRF, JKSET, B-Ed)
Touseefqudus@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سحر سُراغ شعری مجموعہ کی رسمِ رونمائی
ریزہ ریزہ آئینہ کی رسمِ رونمائی 1990 جموں یونورسٹی
سحر سُراغ شعری مجموعہ کی رسمِ رونمائی


کرشن کمار طور صاحب احمد توصیف کو سارٹیفکٹ دیتے ہوئے













مرحوم عبدالرشید لون صاحب













0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

اردو ہے جس کا نام.
سُخن ورانِ کشتواڑ ..!

سُخن ورانِ کشتواڑ۔مرحومین ..!

سُخن ورانِ کشتواڑ۔مرحومین ..!

سُخن ورانِ کشتواڑ۔مرحومین ..!


اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

..!

..!

.........................................!