تاریخ۔۔
خلاصۂ تاریخِ کشتواڑ
اس کتاب کی طباعت کیلئے جموں وکشمیر اکیڈیمی آف آرٹ ، کلچر اینڈ لینگویجز سے مالی امداد حاصل کی گئی ہے ۔اس کتاب میں ظاہر کی گئی آراء سے کلچرل اکیڈیمی کابالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اس ضمن میں کلچرل اکیڈیمی پر کوئی ذمہ داری عاید ہوگی۔
تعارف
مضامین کی نوعیت کے اعتبار سے انہیں مندرجہ ذیل حصوں میں مرتب کیا گیا ہے ۔
تاریخ کشتواڑ ایک قرض تھا جو میں پچھلے دس برس سے اتارنے کی کوشش کررہاتھا ۔ مجھے مسرت ہے کہ اپنی زندگی کی بہترین پیش کش یہی کام ہے جسے کچھ حد تک مکمل کرسکاہوں ۔ تاریخ ایک عمل ہے جو جاری رہتا ہے اور جس کی تکمیل کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور ہر تاریخی تالیف پر اس کے مؤلف کے ذاتی اعتقادات و خیالات کی ہلکی یا گہری چھاپ پڑتی ہے ۔ تاریخ کشتواڑ کے اس لئے بہت سے گوشے دعوتِ تحقیق دیتے رہیں گے ۔ نہ معلوم اس چمن میں ابھی کتنے اور بلبل نغمۂ سرا ہوں گے۔عتراف:شکر گزار ہوں جناب مہتہ اوم پرکاش کا جنہوں نے اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود تاریخِ کشتواڑ کے تعلق میں میری ہمیشہ حوصلہ افزائی فرمائی ۔ اگر ان کی عنایت شاملِ حال نہ ہوتی تو یہ تالیف منصۂ شہودپر جلوہ نما نہ ہوتی۔ریاست کی اکیڈیمی برائے کلچراو رزبان کا شکر گذار ہوں کہ اس نے تاریخ کشتواڑ کے اس صبر آزماکام کے لئے مجھے پونے دو صد روپے کی نقد امداد عطافرماکر تاریخ نوازی کا ثبوت دیا ۔ کثیر خرچ کے مقابلہ میں حقیر امداد رقم کی اہمیت اس لئے ہے کہ اکیڈیمی کے اربابِ اختیار چند برس تک میعاد اشاعتمیں توسیع دیتے رہے۔
ان تمام حضرات کابھی شکر گذار ہوں جنہوں نے کسی نہ کسی صور ت میں اس کتاب کی تالیف میں میری رہنمائی فرمائی ہے ۔
عشرت کاشمیری
سابق ایم ۔ایل ۔اے
کشتواڑ
جموں۱۰ مارچ ۱۹۷۳ ء
خوشنویس: سید نورالدین کاملیؔ
مول:سرینگر
کمپیوٹرکتابت:عبدالجباربٹ
۳۔ پرگنہ اوڈیل: کشمیر کی سرحد سے لیکر کشتواڑ کے مغل میدان کے پل سنگمی تک یہ علاقہ پھیلا ہوا ہے ۔اس میں دو مشہور درّے ہیں ایک مربل جس کا دوسرانام سنگپور پہاڑ ہے ۔یہ ۱۱۵۷۰ فٹ بلند ہے اور کشتواڑ خاص سے ۳۰ میل کی مسافت پر واقع ہے ۔بڑا تاریخی درّہ ہے ۔کشتواڑ میں نہ صرف کشمیر سے آنے الے مہاجروں ،سیاسی پناہ گزینوں اور وقت کے ستم رسیدوں کے قافلے آتے رہے ۔بلکہ جب بھی کوئی حملہ ہوا تو اس راستے سے حملہ آوروں نے یلغاریں کیں ۔چنانچہ دلاور خان صوبیدار کشمیر نے جہانگیر کے عہد میں اسی پہاڑ کو عبور کرکے کشتواڑ کے راجہ پر حملہ کیاتھا اور چار ماہ دس دن تک بھنڈارکوٹ میں رُکے رہنے کے بعد کشتواڑ کو فتح کرلیاتھا۔ کشتواڑ کی متعدد تاریخوں میں خاص طور پر تاریخ حسن حصہ اول کے صفحات ۴۹ اور ۷۷ پر کتل مربل کا ذکر ہے ۔دوسرا درہ سنتھن ہے جو چنگام سے نومیل کے فاصلے پر ہے ۔ یہ درّہ نسبتاً کم مشہور اور کم بلند ہے ۔قدرے طویل ہونے کے سبب اس راہ سے زیادہ آمد و رفت نہیں ہوتی ہے ۔پرگنہ اوڈیل میں مربل کے علاوہ کوشر کوہل یاد ریائے چھاترو کا ذکر تاریخ فرشتہ اور دوسری تواریخ میں آیاہے ۔مربل عبور کرتے ہی اس کوہل کے کنارے اکثر لڑائیاں ہوئی ہیں ۔مرزا حیدر کاشغری کے بارہ میں تاریخ فرشتہ جلد چہارم (۱) میں درج ہے کہ کوشر کوہل کے کنارے وہ کشتواڑیوں سےنبرد آزما ہوا ۔ جہاز پور یعنی چھاترو ، ڈڈپیٹھ کی جگہ کوئی دوسرا نام فرشتہ نے تحریر کیا ہے ۔
قلعہ دہار: قلعہ دہار کا ذکر صاف ہے ۔جہاں لڑائی ہوتی تھی ۔جہانگیر نے اپنی تزک میں نرکوٹ کا ذکر کیا ہے ۔جہاں مغلیہ فوج اور راجۂ کشتواڑ کے لشکر کامقابلہ ہواتھا۔میرے خیال میں یہ جگہ چھاترو اور مغل میدان کے درمیان کہیں واقع تھی۔ موجودہ پاسر کوٹ اس لئے قرین قیاس نہیں ہیکہ اس جگہ سے صرف سنگپور کی طرف سے حملہ آور فوج کا مقابلہ کیاجاسکتاتھا۔سنتھن کی جانب سے جنگ آزمالشکر کو روکنا مشکل ہوجاتا۔ممکن ہے کہ کوٹ مغلمیدان کا پہلا نام ہو ۔کیونکہ یہ نام مغل فوج کی تباہی کے بعد پڑا ہے او ریہ مغل فوج وہ فوج نہیں تھی جو دلاور خان کی قیادت میں حملہ آور ہوئی تھی۔
۴۔پرگنہ کنتواڑہ: اس میں فلر ،پکالن ،دہڑبدان،سیرگواڑ،نار،سرانواں ،ہوڑنہ ،دھار ،کیشوان اورکونتواڑہ کے مواضعات شامل تھے ۔برشالہ جو آج تحصیل ڈوڈہ میں ہے وہ کونتواڑہ کا حصہ تھا ۔
۵۔پرگنہ سروڑ سرتھل: اس میں اگلے پچھلے سرور اور سرتھل کے دیہات شامل تھے۔
۶۔پرگنہ ڈوڈہ سراج: ڈوڈہ ریاست کشتواڑ کی سرمائی راجدھانی تھا ۔راجگان کشتواڑ موسم سرما ڈوڈہ کی کم سرد اور غیر برفانی آب و ہوا میں بسر کرتے تھے ۔ڈوڈہ سراج میں بانہال تک کاعلاقہ شامل تھا۔ بانہال کا پُرانا تاریخی نام مہابل تھا۔ ایک انگریز سیاح مسٹر فارسٹر ۱۷۸۳ ء میں جموں سے سرینگر درۂ بانہال عبور کرکے گئے تھے ۔ انہوں نے اپنے سفر نامہ میں تحریر کیاہے کہ وہ چناب عبور کرنے کے بعد (غالباً رام بن کے مقام پر ) راجۂ کشتواڑ کی عملداری سے گذرے ۔کریم بخش حاکم بانہال نے سرکشی کااظہار کیاتھا کہ راجہ سوجان سنگھ ۱۷۸۶ ء نے حملہ کرکے دوبارہ قبضہ کرلیا۔ سراج اور کنڈی کے کوتوالوں کااکثر ذکر آیاہے کہ انہوں نے مشکل وقت میں کشتواڑ کے حکمرانوں کی وفاداری کا ثبوت دیاتھا ۔راجہ عنایت اﷲ سنگھ کو قلعۂ باہو سے جہاں جموں کے راجہ رنجیت دیو نے اُسے قید کرکے رکھاتھا ۔ انہی کوتوالوں نے آزاد کرایا اور گدینشین کروایاتھا۔
۷۔پرگنہ خاص:۔ اس میں کشتواڑ خاص اور منڈل کے قر�ؤ شامل تھے ۔منڈل تھا،پوچھال، پلماڑ ،ڈول او رترگام کے مواضعات پر مشتمل تھا او رکشتواڑ خاص میں پچھلی لچھ گوہا، پچھلی لچھ غفار، اور بھنڈار کوٹ کے موضعے ۔معلوم ہوتاہے کہ لچھ خزانہ اور لچھ دیارام بعد میں بندوبست کے قریب نئے نام لکھے گئے ہوں گے ۔لچھ خزانہ کاپُرانا نام لچھ گوہا اور دیارام کالچھ غفار تھا۔
مندرجہ بالا پرگنہ جات کے علاوہ کچھ اور پرگنے بھی تھے جو ریاست کشتواڑ میں شامل تھے ۔یاباج گزار تھے ۔اُن کا ذکر حسب ذیل ہے :
پرگنہ جسکار: بقول شیوہ جی در ۔پرگنہ جسکاریازانسکار کے ۵۱ قر�أ ریاست کشتواڑ میں شامل تھے ۔درصاحب نے اپنی تاریخ میں قریوں کے نام بھی درج کئے ہیں ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ جسکار پاڈر اور لداخ کی فتح کے بعد کشتواڑ سے وابستہ کیاگیاتھا ۔ ریاست کشتواڑ کے خاتمہ کے بعد بھی کشتواڑ حاکم نشین شہر تھا اور یہ علاحدہ وزارت تھی جس میں بھدرواہ بھی شامل تھا ۔ چنانچہ کشتواڑ کے ایک وزیر وزارت شیوہ جی در کے نام مہاراجہ رنبیر سنگھ کی جانب سے تاریخ کشتواڑ مرتب کئے جانے کے متعلقہ مندرجہ ذیل خط موصول ہوا۔
’’نقل ارشادصحیح خاص ۱۴۸
از مہاراجہ صاحب بہادروالی جموں وکشمیر مشیر خاص قیصرہ ہند ، جنرل عساکر انگلشیہ ،اندر مہند سپر سلطنت انگلشیہ مہاراجہ صاحب رنبیر سنگھ جی بہادر ارشاد بنام پنڈت شیوجی وزیر وزارت کشتواڑ چوں درینوقت ارشاد والا بتاکیدتمام بنام شماصادر میگر دوکہ کاغذات راجگان پیشین قرار فہرست مشمولہ ارشاد ہذا معرفت واقفان تلاش کنانیدہ درمیعاددو ہفتہ تیار کردہ ارسالِ حضور انور سازند ،دریں باب تاکید مزید شناختہ حسب السطور بعمل آرندوتاپانزدہ یوم کاغذتمام ارسال داشتہ رسید بگیرند ،بنابراں اردلی ماموراست رسید دادہ باشند،تاکید است فقط ۔بتاریخ ۲۹ مگھر ۱۹۴۰ بپنڈت شیوہ جی در جو ہماری ریاست کی مشہور شخصیت جناب ڈی پی دھر کے جد ہیں اپنی وزارت کے بارہ میں خود رقم طراز ہیں۔
’’ من مسمی بہ پنڈت شیوہ جی دربن مہانند پنڈت در بن گنیش پنڈت درسکن�ۂ خطۂ کشمیر جنت نظیر از حضور سرکار نگردفوں اقتدار درسال ۱۹۳۸ بکرمی بخطاب وزیرری برحکمرانی ملک کشتواڑ و بھدرواہ مقررو مفخر شدم۔‘‘
۲۔ پرگنہ مڑوہ واڑون: اس پرگنہ کے بارہ میں تاریخ حسن حصہ اول کے صفحہ۲۴۰ پر حسب ذیل عبارت درج ہے :۔
’’ یک پرگنہ است درمیان دودرہ از کشمیر بطرف گوشۂ جنوب و مشرق بہ مسافت ۹۶میل، ہمیشہ شامل کشمیر بودہ است۔مردمانِ آنجا مسلمان و بزبان کشمیر تلفظ میسازند۔
لیکن پادر ی صاحبان نے مڑوہ واڑون کو ریاست کشتواڑ کی قلمرو میں دکھایاہے چوں کہ ان کا تاریخی مضمون’’ تاریخ ریاست کشتواڑ ‘‘ لاہور کی ’دی پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی کے رسالے میں ۱۹۱۶ ء میں شایع ہوا ہے ۔اس لئے یہ امر قرین قیاس ہے کہ انہوں نے وقت کے حالات کو مدِ نظر رکھا ہے ۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ مڑوہ واڑون کا علاقہ بفر سٹیٹ کے طور پر کشمیر اور کشتواڑ کے درمیان رہاہے ۔ وہاں کے مقامی زمیندار یعنی لون ملک وغیرہ وقت کے طاقت ور حاکم کے سامنے سراطاعت خم کرتے رہے ہیں ۔اس لئے کبھی کشتواڑ کے باج گزار رہے ہیں اور کبھی کشمیر کے جہاں تک زبان اورکلچر کے اثرات کاتعلق ہے ۔ظاہر ہے کہ کشمیر کے قریب ہے اور کشتواڑ دور،نیز واڑون کی چراگاہوں میں آج بھی موسم گرما میں اننت ناگ کے مشرقی اطراف کے مال مویشی وہاں کے باشندے بھیجتے ہیں۔
۳۔پاڈر: اسے مشہورڈوگرہ جنرل وزیر زورآور سنگھ کلہوریہ نے ۱۸۳۶ ء میں فتح کرکے مہاراجہ گلاب سنگھ کی مملکت میں شامل کیاتھا ۔اس سے پہلے یہ چنبہ کے زیرِنگین تھا اور راجگان چنبہ کی جانب سے مقامی رانے کا روبار حکومت چلایاکرتے تھے ۔راجہ عنایت اﷲ سنگھ نے ۱۷۸۳ ء پاڈر پر حملہ کیا او رمال و دولت لیکر قبضہ برقرار رکھے بغیر واپس کشتواڑ گیا ۔ اگر اس کا قبضہ پاڈر پر ہوتا تو وزیر زور آورسنگھ کو دوبارہپاڈر فتح کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی؟
۴۔ بونجواہ: راجہ عنایت اﷲ سنگھ نے بھدرواہ کو بھی پاڈر کی طرح تاخت و تاراج کیاتھا ۔اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسی راجہ کے عہد میں بونجواہ کشتواڑ کی ریاست میں شامل ہواتھا۔ بھدرواہ پر راجہ محمد تیغ سنگھ کے وزیر لکھپت پڈیار نے بھی حملہ کیاتھا ۔اور چنبہ کے وزیر نتھو کے لشکر کو بسنوتہ اور گالو گڑھ کے مقام پر فیصلہ کن شکست دی اور بھدرواہ کو فتح کرکے جلادیاگیاتھا ۔اسی کارنامہ کی بنا پر وزیر لکھپت کو بونجواہ کا علاقہ جاگیر میں دیاگیاتھا ۔ورنہ اس سے پیشتر وہاں مقامی رانے راجہ بھدرواہ کی اطاعت کا جو اگلے میں ڈالے حکومت کیاکرتے تھے ۔
روایات کے گرداب: کشتواڑ کو کوئی کلہن نہیں ملا ۔اگر ملا بھی ہو تو اس کا کرنامہ محفوظ نہیں رہا۔ راج ترنگنی بھی شاعرانہ پروازِخیال ،مبالغہ آرائی اور روایات پرستی سے خالی نہیں ہے لیکن کشتواڑ کی تاریخ راجہ رائے سنگھ ۱۵۴۷ ء تک روایات کے گرداب میں پھنسی رہی ۔ کہاوتوں ،قصوں اور بے سر و پاقصیدوں کے جھاڑ جھنکار میں چھپے ہوئے چنبیلی کے پھول مشکل سے ملتے ہیں ۔ تاریخ کے اوراق سنسکرت اور شاردا رسم الخط میں کسی کہنہ چوبی صندوق میں کاغذی کیڑوں کی نذ ر ہورہے ہیں ۔دھوئیں سے اٹے ہوئے ان چوبی صندوقوں یاالماریوں کے مالکوں کو اس قدر علم کی بصیرت نہیں ہے کہ وہ اپنے خزانے کو دیکھیں کہ وہ اینٹوں اور پتھروں پر مشتمل ہیں یا لعل و جواہرات سے مزین ہیں اور نہ ہی ظرف اتنا عالی ہے کہ اہل علم کو اُن سے راشناس کرائیں ۔بعض مخطوطے نظر سے گذرے جو مخصوص زاویہ نگاہ سے لکھے گئے ہیں ۔ جس راجہ نے مصنف یا اس کے بزرگوں کو اپنی فیاضی سے مطمئن اور مسرور کیا ہے ۔اس کی مدح میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں ۔اُسے کرن کی طرح دانی کہاگیا ہے ۔ پنڈت دینا ناتھ جوتشی کے پاس ایک مخطوطہ شاردا رسم الخط میں ہے ۔اس میں مندرجہ ذیل عبارت مرقوم ہے:
’’وجے کا بیٹا بلبھدر ہوا ہے ، جس بلبھدر کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے بارہ ہاتھی دان میں دئے۔‘‘ کشتواڑ میں ہاتھی ہوتا ہی نہیں ہے بلکہ آتاہی نہیں ہے ۔ آج سے صدیاں پہلے راستے بے حد دشوار گذار تھے ، ان ایام میں کسی ہاتھی کاآنا او ربھی ممکن نہ تھا ۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود تاریخ کشتواڑ میںتھی کا ذکر آتا ہے ۔ایک روایت ہے کہ راجہ سنگرام سنگھ کے عہد میں متا اور کلید کے درمیان ایک دیو پیداہوا تھا جو ہاتھی کی شکل میں ظاہر ہوتا تھا اور ارد گرد کے دیہات میں جب موقع ملتا کسی نہ کسی انسان کو اپنا شکار بنا لیتا ۔ کہاجاتا ہے کہ چوگان (کشتواڑ کامرغ زار) میں اگر گیارہ آدمی چل رہے ہوتے تو ایک آدمی خودبخود غائب ہوجاتا۔آخر راجہ نے ناگسین سے ایک بوڑھے ،تجربہ کار اور ماہر روحانیات براہمن کو بلایا جس نے اپنے علم کے زور سے دیو کو زندہ جلادیااور انعام میں سنگرام بھاٹا کے مقام پر جاگیر حاصل کی ۔ سنگرام بھٹا اُسی براہمن کا آباد کیاہوا موضع ہے ۔ دیو کے مار ے جانے کی خوشی میں بہادون یااسوج میں چوگان میں کٹک یاترا منعقد ہوتی تھی ۔ جس میں مقامی بھانڈاپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے او رہاتھی کی شکل (Effigy) بناتے تھے ۔چوگان میں ایک پتھر بھی تھاجوزمین میں گڑا ہوا تھا اور جو حصہ باہر تھا ،اس میں سوراخ تھا ،اسے ہستی گنڈ یعنی ہاتھی باندھنے کی جگہ کہتے تھے ۔
کشتواٹ: گنائیوں نے موجودہ قصبہ کو آباد کیا تھا ۔ راج ترنگنی میں جب بھی ذکر آیا ہے ۔ کشتواٹ نام دیاگیا ہے ۔ہچی سن نے اس کا مطلب باغِ دشت بتایا ہے اور اسے سنسکرت کامرکب قرار دیاہے جو بجا ہے ۔ تاریخ بہارستان شاہی میں جو چک عہد کی تاریخ ہے کشتواڑکو کاٹھوار کہاگیا ہے ۔ کشتواڑ کے معانی بھی مختلف بیان کئے گئے ہیں ۔ بقول سید نجم الدین مؤلفّ تاریخ کشتواڑ ، کشٹہ خوبانی کے چھلکے کو کہتے ہیں اور واڑ جگہ کو ۔دوسرے معنی ہیں دُکھ کی جگہ ۔ یہی معنی زیادہ مستعمل ہیں۔
کشٹ رنج آمدبہ ہندی جائے وار
جائے رنج آمد بمعنے کشٹوار
ہرکہ ساکن مے شود رر کشتوار
کردباید ایں دوچیزش اختیار
روزداردنفس رادرسوزِ جوع
شب ز سرما با پدش ترک ہجوع
یعنی ہندی میں کشٹ کے معنی رنج ہیں اور دار ،جگہ کو کہتے ہیں ۔اس لئے کشتواڑ کے معنی ہوئے دُکھ کی جگہ ۔جوکوئی کشتواڑ میں رہ جاتا ہے وہ دوباتیں اختیار کرتاہے ۔ دن کے وقت بھوک کی آگ میں جلتا ہے اور رات کو سردی اُسے سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ اسی مفہوم کو ایسے بھی بیان کیاگیا ہے۔
کشتواڑ ، کشٹ کا بھانڈا دن کو بھوکا رات کو ٹھانڈا
جوکوئی آئے ،جب وہ جائے وہ ہے گوڑ گاؤں کا جھانڈا۔اج ترنگنی کا مترجم سٹائن جلد دو م کے صفحہ ۴۳۱ پر لکھتا ہے ۔
’’( کشمیر) کے جنوب مشرق میں سب سے پہلے کشتواٹ کی وادی ہے، موجودہ کشتواڑ جو چناب بالا پر واقع ہے اسے کلہن نے راجہ کلش کے عہد حکومت میں ایک جداگانہ پہاڑی ریاست کے طور پر بیان کیا ہے ۔اس کے راجہ جو اورنگ زیب کے زمانہ تک ہندو تھے ۔ عملی طور پر خود مختیار رہے جب تک ان کی مملکت کو مہاراجہ گلاب سنگھ نے فتح نہیں کرلیا۔‘‘
تاریخ حسن کے جلد اول کے صفحہ ۲۴۳ پر یہ عبارت کشتواڑ کے بارہ میں درج ہے ۔
’’کشتواڑ ایک درہ کے درمیان ہے ۔ کشمیر سے جنوب کی طرف مڑوہ کے راستے ۱۲۰ میل کی مسافت پر ہے ۔سطح سمندر سے اس کی بلندی ۵۴۵۰ فٹ ہے ۔ وہاں کی آب وہوا اچھی ہے ۔وہاں کے درخت اور پھل مرغوب ہیں ۔ برف قلیل پڑتی ہے ۔فوراً پگھل جاتی ہے ۔ وہاں کے اصلی باشندے ٹھکر اور گدی قوم سے ہیں ۔اُس جگہ بہت سے کشمیری بھی شال بافی کاکام کرتے ہیں ۔اس سے پہلے وہاں کی عورتیں سحر اور جادوگری میں مشہور تھیں ۔انہیں’’ڈین‘‘ کہتے تھے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے ان کا مناسب تدارک کیا اور ان کا عمل معدوم ہوگیا ۔اُس جگہ کے راجہ راجپوت قوم سے تھے اور خودمختیارانہ حکومت کرتے تھے ۔۹۰۰ ہجری میں سید شاہ فرید ؒ نے جو روشن دل درویش تھے ۔راج�ۂ کشتواڑ کو مسلمان کرکے مرید بنالیا۔اور عالمگیر کے عہد میں وہ راجہ سعادت یار خاں کے لقب سے ملقب ہوا۔آخری راجہ تیغ سنگھ جو سیف خان کے نام سے بھی مشہور تھا وہاں کی حکومت کی مسند پر بیٹھا۔وزیر لکھپت رائے جو راجہ کامقرب اور خاص الخاص محرم تھاکسی وجہ سے اُس سے ناراض ہوگیا۔مہاراجہ گلاب سنگھ کو تسخیر کشتواڑ کی ترغیب و تحریص دی ۔حتےٰ کہ مہاراجہ نے ۱۸۷۷ بکرمی میں اس کی تسخیر کے لئے فوجِ جرار متعین کی ۔وہاں کے راجہ نے تاب مقابلہ نہ پاکر لاہور کی طرف فرار اختیار کیا اور مہاراجہ گلاب سنگھ نے علاقۂ کشتواڑ اور بھدرواہ پر قبضہ و اقتدار حاصل کیا۔‘‘
اوجین: مالوہ کا مشہور تاریخی شہر ہے اس کے بارہ میں آج بھی کشتواڑ کے گوڑیے براہمنوں میں مشہور ہے ۔
اوجین نگری سپرا تیرۃ، ارس پڑس کے گھاتا
کاتیانی سوتر،متندنی شاکھا، جانکادیوی ماتا
تاریخ ہندوستان مولفۂ مولوی زکاء اﷲ کی جلد پنجم کے صفحہ ۱۰۱۱ پر تحریر ہے ۔
’’اوجین ایک بزرگ شہر ، ساحل سپرا پر ہے ۔ہندوؤں کی بڑی پرستش گاہ ہے۔‘‘
بکرم بھوج
بکرم بھوج دُج تھے بھاری امیر بڑے بڑے مایادھاری
تمرناشک میں لکھاہے کہ بکرم آٹھ ہوئے ہیں ۔ان میں سے بیشتر کے ساتھ افسانے منسوب ہیں اور خود اُن کا وجود بھی افسانوی حیثیت رکھتاہے جس بکرم یابکرما جیت نے بکرمی سموات جاری کیا ہے ، تاریخ میں اس کی حیثیت بھی واضح نہیں ہے ،عام طور پر چندر گپت بکرما جیت جس کا عہد حکومت ۴۱۴۔۳۷۵ ء ہے اور جو گپتا خاندان کا نامور حکمران ہوا ہے وہ چند گپت کہاجاتا ہے جس کے نورتنوں میں کالیداس بھی شامل تھا۔
آر۔سی ۔موزمدار ،’قدیم ہند‘‘ کے صفحہ ۲۹۸ پر لکھتے ہیں۔ ’’ بکرم سموات اور مہاراجہ بکرما دتیہ کے عہدِ حکومت کا تعین ہندوستان کی تاریخ کے ناقابل حل مسایل سمجھے جانے چاہئیں۔
دراصل بکرما جیت ایک لقب ہے جو تاریخ قدیم کے نامور حکمرانوں نے اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لئے اختیار کیاتھا۔ گپت خاندان میں چندر گپت بکرما جیت کے علاوہ اس کا پوتا پوروگپتا ۷۳۔۴۶۷ ء بھی اپنے آپ کو وکرم دت کہلاتاتھا او رایسا اس کے عہد کے سکول سے ظاہر ہے ۔
کاہن پال کی فتوحات اور حکمت عملی: ۔ اس نے کشتواڑاور منڈل میں اپنی حکومت مضبوط کی ۔ راجگی کاخٰون اس کی رگوں میں دوڑ رہاتھا ۔ حکومت کے طور طریقے جانتاتھا ۔مقامی آبادی بالخصوص راتھر اور گنائیوں سے حُسن سلوک سے پیش آیا۔وہ لوگ پنج ساسیوں کے ستائے ہوئے تھے ۔ راجہ کی مہربانی اور عنایت سے خوش ہوئے اور اس کے مطیع بن گئے ۔راجہ نے اپنے ساتھیوں کو انعام و اکرام اور جاگیرات سے نوازااور انہیں مقامی آبادی سے گھل مل جانے اور قرابت داری کرنے کی ہدایت کی ۔جب کاہن پال نے دیکھا کہ کشتواڑ میں اس کے قدم مضبوطی سے جم گئے ہیں او راس کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔اس نے اپنی مملکت کی حدود کو وسیع کرنے کی طرف دھیان دیا ۔وہ ایک مضبوط فوج لیکر نکلا اور کاندنی سے سی گھٹ کے راستے کونتواڑہ کے راٹھیوں پر حملہ آور ہوا ۔وہاں کے راناؤں نے مقابلہ کیا ۔لیکن کاہن پال کی چالوں اور زبردست طاقت کے سامنے انھیں جھکنا پڑا اور طوقِ اطاعت گلے میں ڈالنا پڑا۔ کونتواڑہ سے ٹھاکرائی جاکر وہاں کے زمینداروں کو اپنا مطیع بنایا اور ٹھاکرائی سے اوڈیل کے تمام علاقے پر اپنا پرچم لہراتا ہوا بھنڈار کوٹ کے راستے کشتواڑ واپس آیا ۔ فتوحات کے سبب راجہ کیجاگیر کے ایک مقام پر اپنے نام پر ایک گاؤں آباد کیا اور خود بھی وہاں رہنے لگا ۔اُس گاؤں کو آج کل متا کہتے ہیں ۔دوسرے بیٹے دیو سین نے دیکھا کہ وہ کیوں پیچھے رہے ۔چنانچہ وہ کچھ فوج لیکر دچھن اور مڑوہ گیا اور ان علاقوں پر قابض ہوگیا ۔اس طرح تینوں بھائی اپنی اپنی جگہ مطمئن ہوکر رہنے لگے اور جس خانہ جنگی کا نمونہ ان کے بزرگ اوجین میں دیکھ چکے تھے اس سے بچ گئے ۔دیو سین کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ ایک بار بھائی سے ملنے مڑواہ سے آیا ۔یہاں بڑے بھائی مہمان نوازی کالطف اٹھارہاتھا کہ دھندراٹھ اور ہدار میں بعض زمینداروں نے سرکاری کارندوں کے ساتھ کچھ زیادتی کی ۔دیو سین خود فوج لیکر گیا اور ان علاقوں کو فتح کرکے اور اپنے بھائی کا جھنڈا لہر ا کر واپس آگیا ۔ پھر مڑوہ اپنی جاگیر پر چلاگیا۔مہاسین: گندھرب سین کے بعد اس کا بیٹا مہاسین گدی نشین ہوا ۔ اس کے عہد حکومت میں امن و امان رہا۔کشتواڑ خوشحال او رآباد تھا ۔راجہ مہاسین نے عیش وعشرت کی زندگی گذاری اور لمبے عرصے تک حکومت کرنے کے بعد ۸۰ برس کی عمر میں عدم کو سُدھارا۔مہاسین کے بعد رام سین ، کام سین ، مدن سین ، برہم سین راجے ہوئے لیکن ان کے دور کاکوئی خاص واقعہ قابل ذکر نہیں ہے ۔ صرف برہم سین بڑاعالم و فاضل اور شاعر تھا ۔ سنسکر ت میں مہارت کامل رکھتا تھااور دربار کے علما کو علمی بحث میں عاجز کردیاکرتاتھا۔اودت دیو: یہ وہی راجہ ہے جسے راجہ کلش دیونے پہاڑی راجاؤں کے ساتھ اپنے دربار میں کشمیر بلایاتھا اور جس کاذکر راج ترنگنی میں اوتم راجہ کے لقب سے کیاگیا ہے ۔یہ دربار ۸۸۔۱۰۸۷ ء میں منعقد ہواتھا۔اس راجہ کے بعد کشتواڑ کی گدی پر چودہ راجے ایسے بیٹھے جن کے نام کے ساتھ دیو لاحقہ لگاہوا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راجاؤں نے اپنے نام کے ساتھ لاحقے وقت کے فیشن کے طور پر لگالئے تھے ۔ مثلاً کاہن پال سے پہلے چار راجے ایسے ہوئے ہیں جو اپنے نام کے ساتھ پال لاحقہ رکھتے تھے ۔ جیسے ہری پال ،دمانگ پال ، مانک پال وغیرہ ،کاہن پال کے بعد جس قدرے راجے اودت دیو تک گدی نشین ہوئے وہ اپنے نام کے ساتھ سین لکھتے تھے ۔ تیسواں راجہ سنگرام سنگھ ہوا ہے جس نے سب سے پہلے اپنےنام کے ساتھ سنگھ کا لاحقہ چسپان کیا او راس کے بعد آنے والے تمام راجاؤں نے سنگھ ہی کو اپنے نام کاآخری جزو بنایا۔راجہ اودت دیو کے بعد پیتادیو یا پرتھی دیو راجہ ہوا ۔اس کاایک نام پرتھو دیو بھی ہے ۔اس کے عہد میں ناگسین او رڈول کے مابین پہاڑ پر(ڈول دھار) ایک دیو ظاہر ہوا ۔جس نے مسافروں کے لئے چلنا دوبھر کردیاتھا۔ راجہ نے اُسے حکمت عملی سے مروادیا۔خیال یہی ہے کہ کوئی ڈاکو یا جابرشخص ہوگا جو عوام کو لوٹتا ہوگا ۔اس کے بعد گنگا دیو راج گدی پر بیٹھا۔ اس راجہ نے کشتواڑ کے مشرق کی جانب اپنی توجہ مبذول کی ۔اس نے پُلر اور ناگسین کے علاقوں کو فتح کرکے سب سے پہلی بار کشتواڑ کی مرکزی حکومت کے ساتھ انہیں وابستہ کیا۔گنگا دیو کے بعد یکے بعد دیگر ے گوڑ دیو ، سنگھدیو ، رگھودیو، آنند دیو ، اوتار دیو اور بھاگ دیو نے مسند راجگی کو زینت بخشی لیکن ان کے خاص کارنامے نہیں ہیں ۔اس لئے تاریخ میں ان کے صرف نام محفوظ ہیں ۔رائے دیو: اس راجہ کا وزیر منگل رائے تھا ۔اس راجہ نے پاڈر پر حملہ کیا او رجاڑ کدیل تک کا علاقہ فتح کر لیا ۔ راجہ پاڈر سے چوبیس ہزار روپے نقب اور ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ بکری ، چنور (سُراگائے) اور گائیں لایا۔ پاڈر پر یہ دوسرا حملہ تھا۔ اس سے پہلے مہا سین کے ایک بیٹے نے پیاس تک کا علاقہ پاڈر کے راناؤں سے چھین کر ریاست کشتواڑ میں شامل کرلیاتھا ۔راجہ رائے دیو بڑا لالچی اور جابر حکمران تھا ۔اس کی زبان درازی اور ستمگری سے تنگ آکر راتھر، گنائی اور پنج ساسی جن کی اب کچھ تعداد ہوگئی تھی ۔آپس میں مل گئے تینوں فرقوں نے ملکر سازش کی اور ایک اندھیری رات میں بغاوت کردی ۔ راجہ رائے دیو بڑی مشکل سے اپنی اور اپنے قریبی رشتہ داروں کی جان بچا کر بھاگا۔ بھنڈار کوٹ اور سی گھٹ پر باغیوں نے پہلے ہی پہرے بٹھارکھے تھے تاکہ جونہی راجہ اُس راہ سے گذرنے لگے تو اُسے پکڑ کر کشتواڑ لایاجائے ۔راجہ کو اس سکیم کا بھی علم ہوگیاتھا ۔اس لئے شمال اور جنوب کی طرگ بھاگنے کے بجائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کشتواڑ
خلاصۂ تاریخِ کشتواڑ
(ایک تقابلی مطالعہ)
مُرتبہ عشرتؔ کاشمری
تصحیح وتوسیع فداؔ کشتواڑی
بار دوئم
تعداد پانچ صد
قیمت ۲۰۰ روپے
ناشر
تقسیم کار: ۱۔اجیت نیوز ایجنسی نزد، ڈی۔سی۔ آفس کشتواڑ۔ ۱۸۲۲۰۴
۲۔شمع نیوز ایجنسی کشتواڑ۔۱۸۲۲۰۴۔نزد ڈسٹرکٹ ہسپتال کشتواڑ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کتاب کی طباعت کیلئے جموں وکشمیر اکیڈیمی آف آرٹ ، کلچر اینڈ لینگویجز سے مالی امداد حاصل کی گئی ہے ۔اس کتاب میں ظاہر کی گئی آراء سے کلچرل اکیڈیمی کابالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اس ضمن میں کلچرل اکیڈیمی پر کوئی ذمہ داری عاید ہوگی۔
(ایک ضروری نوٹ)
تاریخِ کشتواڑ کا پہلا ایڈیشن سال ۱۹۷۳ ء میں اشاعت پذیر ہوا ہے ،اب تقریباً ستائیس (۲۷) سال کے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آرہاہے ۔ ستائیس(۲۷) سال کے طویل عرصے میں یہاں تاریخی اور جغرافیائی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں ۔اس لئے اس کی تصحیح اور توسیع کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ جو اس اشاعت میں شامل کی گئی ہیں ، یہ کام ناممکن تھا اگرمجھے عشرت کاشمیری کے خاندان اور ان کے پسران نیک بخت کا تعاون حاصل نہ ہوتا جن کا خاندانی شجرہ نسب میں ذکر کیاجاچکاہے۔
(فدا کشتواڑی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعارف
نام: غلام مصطفےٰ والد :عبدالمجید
قلمی نام: عشرتؔ کاشمیری تاریخ ولادت: ۱۲مئی ۱۹۱۶
وفات:۲۴؍اپریل۱۹۷۸( بمقام جموں حرکت قلب بند ہوجانے سے)
تعلیم:ایف ۔اے(ادیب فاضل) آبائی وطن: کاس گنج ( یو۔ پی)
پیشہ:ملازمت ادبی زندگی کاآغاز:زمانہ طالب علمی سے
غلام مصطفےٰ عشرتؔ کاشمیری کی ولادت کاس گنج اُتر پردیش میں ہوئی ۔ عشرتؔ کاشمیری کے چچا عبداﷲ جُو شیخ جو کشمیر سے کاروبار کے سلسلہ میں کشتواڑ آئے تھے ۔ان کا کاروبار یہاں خوب چلانکلا۔ انہوں نے یہاں ہی شادی کرکے سکونت اختیار کرلی ۔ عبداﷲ جو شیخ جن کی کوئی اپنی اولاد نہیں تھی، اپنے بڑے بھائی عبدالمجید جو عالم شباب میں ہی اترپردیش بمقام کاش گنج چلے گئے تھے اور کسی مسجد میں امامت کے فرائض انجان دیتے تھے ۔اُن کے ہاں عشرتؔ کاشمیری پیدا ہوئے اور جب وہ سات آٹھ سال کو پہنچے تو اُسے عبدالمجید سے مانگ لیا ۔
ملازمت:۱۹۴۷ ء سے ۱۹۵۰ ء بحیثیت مدرس ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ۱۹۵۶ ء میں محکمہ دیہات سدھار میں بحیثیت بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر تعلینات ہوئے ۔۱۹۴۰ ء میں جموں سے جاری ہونے والے ماہنامہ دیہات سُدھار کے مدیر بنے ، اس کے بعد ۱۹۶۷ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوکر ریاستی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔ ۱۹۷۱ ء سے لیکر ۱۹۷۸ ء تک کانگریس کمیٹی کے آفیشل آرگن ’’قومی آواز جموں‘‘ اور اخبار’’سچ‘‘ کی ادارت سے وابستہ ہوگئے۔
تصنیفات: تاریخ کشتواڑ ایک تقابلی مطالعہ اس کے علاوہ ملک کے دیگر اخبارات و جرائد میں آپ کے کئی تحقیقی مقالات اور آپ کا شعری کلام چھپتا رہا۔
طبع آزمائی:غزل، نظم ،رباعی، قطعات ،نعت گوئی ،افسانہ نگاری، نیز تحقیقی مقالات
فدا ؔ کشتواڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کشتواڑ کا مختصر جائزہ
_________فدا ؔ کشتواڑی
’’تاریخ کشتواڑ‘‘ عشرتؔ کاشمیری کا وہ کارنامہ ہے جسے رہتی دُنیا تک یاد رکھاجائے گا ۔تاریخ کشتواڑ عشرتؔ صاحب کی عمر بھر کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس پر وہ عمر بھر کام کرتے رہے بہت سی اُردو انگریزی تاریخی کتابوں کو پڑھابلکہ کھنگالا تب جاکر تاریخ کشتواڑ مرتب ہوسکی ۔ اگرچہ یہاں نجم الدین کی تاریخ کشتواڑ اور گلشن اسرار جیسی کتابیں بھی پہلے سے موجود تھیں جو تضادات اور اغلاط سے بھری ہوئی تھیں ۔ لیکن عشرتؔ کاشمیری کی تاریخ کشتواڑ(ایک تقابلی مقابلہ) کی بات ہی کچھ اور ہے ۔جو اول تا آخر تاریخی واقعات اور حالات سے بھری ہوئی ہے ۔ جس میں کشتواڑ سے متعلق تمام قسم کی تواریخی معلومات فراہم کی گئی ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔تاریخ جو ایک مسلسل عمل ہے ۔اس موضوع پر لکھنا ہر ایرے گیرے کا کام نہیں ہے لیکن عشرتؔ کاشمیری نے اس کو ایک منجھے ہوئے تاریخدان کی طرح برتاہے ۔
تاریخ کشتواڑ سال ۱۹۷۳ ء میں قومی آواز پرنٹنگ پریس جموں سے پہلی بار کلچراکادمی کے مالی تعاون سے پانچ صد کی تعداد میں چھاپی گئیں اور اس کی قیمت مبلغ چار روپے مقرر ہوئی ۔ جواب بالکل نایاب ہے ۔ جس میں راجے راجاؤں اور مشاہیر کا تذکرہ شامل ہے ۔ یہ تاریخ اب وارثان کے پاس بھی موجود نہیں ہے ۔ راقم کے پاس دو کتابیں تھیں ایک محترم محمد یوسف ٹینگ صاحب کے اصرار پر صاحب موصوف کی خدمت میں پیش کی گئی اور دوسری میرے پاس بطورِ امانت موجود ہے یہ تاریخ ۱۴۲ صفحات پر مشتمل ہے جو لیتھو میں چھپی ہے ۔اور مجلد ہے اگر کلچرل اکادمی اس نادر تاریخ کو دوبارہ چھاپ لیتی تو یہ انمول تاریخ محفوظ رہ سکتی ہے ۔اس کتاب میں تمام تاریخی موضوعات پر بحث کی گئی ہے اور قصبہ کشتواڑ کے تمام خطوں کا تاریخی ، جغرافیائی اور معاشی خصوصیات کو اُجاگر کیاگیا ہے ۔
تاریخ نویسی بلاشبہ ایک اہم ذمہ دار ی ہت تصنیف و تالیف کے نقطۂ نظر سے ہی نہیں بلکہ علم تاریخ کے تقاضوں کے لحاظ سے بھی کسی بھی ملک و قوم کے ماضی اور حال کے واقعات ، حالات و کیفیات کو منصبی ایمانداری کے ساتھ قلم بند کرنا دیدہ وری ہی کا نہیں بلہکہ اعلیٰ ظرفی کا بھی امتحان ہوتا ہے ۔اسکے لئے بصیرت درکار ہوتی ہے اور جسارت بھی پھر اس کی باز گوئی یا بازیافت کے ذریعے نئی نسلوں تک تاریخی حقیقتوں اور شواہد کو معتبر ماخذوں اور حوالوں کے ساتھ بلا کم و کاست پیش کرنا بھی کچھ کم اہم کام نہیں ہے ۔ جس میں ہوسکتا ہے عظمتوں کے مینارے بھی ہوں اور کہیں کہیں پستیوں کے غار بھی ۔مگر کئی ملک و قوم کو اپنے ارتقا کے سفر میں کن معرکوں اور انقلابوں سے دوچار ہوناپڑا ہے ۔اس کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی او رمعاشی زندگی کے مدوجزر کا رُخ کیا تھا؟ افراد یا جماعتوں اور اُن کے رویے کیا اور کیسے رہتے ہیں کس پروہ محرکات کیا رہے ہیں انجام کار ، نتائج و عواقب نے کس طرح کروٹیں لیں اور آج تازہ صورت حال کیا ہے ۔ان سب باتوں پر نظر رکھنا اور قلم اُٹھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں لیکن عشرتؔ صاحب نے اس عمل کو بخوبی نبھایا ہے ۔
_________فدا ؔ کشتواڑی
’’تاریخ کشتواڑ‘‘ عشرتؔ کاشمیری کا وہ کارنامہ ہے جسے رہتی دُنیا تک یاد رکھاجائے گا ۔تاریخ کشتواڑ عشرتؔ صاحب کی عمر بھر کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس پر وہ عمر بھر کام کرتے رہے بہت سی اُردو انگریزی تاریخی کتابوں کو پڑھابلکہ کھنگالا تب جاکر تاریخ کشتواڑ مرتب ہوسکی ۔ اگرچہ یہاں نجم الدین کی تاریخ کشتواڑ اور گلشن اسرار جیسی کتابیں بھی پہلے سے موجود تھیں جو تضادات اور اغلاط سے بھری ہوئی تھیں ۔ لیکن عشرتؔ کاشمیری کی تاریخ کشتواڑ(ایک تقابلی مقابلہ) کی بات ہی کچھ اور ہے ۔جو اول تا آخر تاریخی واقعات اور حالات سے بھری ہوئی ہے ۔ جس میں کشتواڑ سے متعلق تمام قسم کی تواریخی معلومات فراہم کی گئی ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔تاریخ جو ایک مسلسل عمل ہے ۔اس موضوع پر لکھنا ہر ایرے گیرے کا کام نہیں ہے لیکن عشرتؔ کاشمیری نے اس کو ایک منجھے ہوئے تاریخدان کی طرح برتاہے ۔
تاریخ کشتواڑ سال ۱۹۷۳ ء میں قومی آواز پرنٹنگ پریس جموں سے پہلی بار کلچراکادمی کے مالی تعاون سے پانچ صد کی تعداد میں چھاپی گئیں اور اس کی قیمت مبلغ چار روپے مقرر ہوئی ۔ جواب بالکل نایاب ہے ۔ جس میں راجے راجاؤں اور مشاہیر کا تذکرہ شامل ہے ۔ یہ تاریخ اب وارثان کے پاس بھی موجود نہیں ہے ۔ راقم کے پاس دو کتابیں تھیں ایک محترم محمد یوسف ٹینگ صاحب کے اصرار پر صاحب موصوف کی خدمت میں پیش کی گئی اور دوسری میرے پاس بطورِ امانت موجود ہے یہ تاریخ ۱۴۲ صفحات پر مشتمل ہے جو لیتھو میں چھپی ہے ۔اور مجلد ہے اگر کلچرل اکادمی اس نادر تاریخ کو دوبارہ چھاپ لیتی تو یہ انمول تاریخ محفوظ رہ سکتی ہے ۔اس کتاب میں تمام تاریخی موضوعات پر بحث کی گئی ہے اور قصبہ کشتواڑ کے تمام خطوں کا تاریخی ، جغرافیائی اور معاشی خصوصیات کو اُجاگر کیاگیا ہے ۔
تاریخ نویسی بلاشبہ ایک اہم ذمہ دار ی ہت تصنیف و تالیف کے نقطۂ نظر سے ہی نہیں بلکہ علم تاریخ کے تقاضوں کے لحاظ سے بھی کسی بھی ملک و قوم کے ماضی اور حال کے واقعات ، حالات و کیفیات کو منصبی ایمانداری کے ساتھ قلم بند کرنا دیدہ وری ہی کا نہیں بلہکہ اعلیٰ ظرفی کا بھی امتحان ہوتا ہے ۔اسکے لئے بصیرت درکار ہوتی ہے اور جسارت بھی پھر اس کی باز گوئی یا بازیافت کے ذریعے نئی نسلوں تک تاریخی حقیقتوں اور شواہد کو معتبر ماخذوں اور حوالوں کے ساتھ بلا کم و کاست پیش کرنا بھی کچھ کم اہم کام نہیں ہے ۔ جس میں ہوسکتا ہے عظمتوں کے مینارے بھی ہوں اور کہیں کہیں پستیوں کے غار بھی ۔مگر کئی ملک و قوم کو اپنے ارتقا کے سفر میں کن معرکوں اور انقلابوں سے دوچار ہوناپڑا ہے ۔اس کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی او رمعاشی زندگی کے مدوجزر کا رُخ کیا تھا؟ افراد یا جماعتوں اور اُن کے رویے کیا اور کیسے رہتے ہیں کس پروہ محرکات کیا رہے ہیں انجام کار ، نتائج و عواقب نے کس طرح کروٹیں لیں اور آج تازہ صورت حال کیا ہے ۔ان سب باتوں پر نظر رکھنا اور قلم اُٹھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں لیکن عشرتؔ صاحب نے اس عمل کو بخوبی نبھایا ہے ۔
مضامین کی نوعیت کے اعتبار سے انہیں مندرجہ ذیل حصوں میں مرتب کیا گیا ہے ۔
ا۔ب۔ج۔د۔ھ۔و۔ز۔ح۔ط۔ی۔ک۔ل۔م۔ن۔س۔ع۔ف۔ص۔ق۔ر۔ش۔ت۔ث ۔ خ۔ ذ۔ض۔
ان صفحات میں مورخ عشرتؔ کاشمیری نے اپنی پیش لفظ میں تاریخ کشتواڑ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جس میں کشتواڑ کی خوبصورت وادی کو سطح سمندر سے ۵۳۰۰ فُٹ بلند بتایا ہے ۔ طول بلد مرشقی ۴۶ء۷۵ درجے اور عرض بلبد۱۸ء۳۳ درجے شمالی دکھایا ہے ۔اس طرح یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ رقبے کے لحاظ سے تحصیل کشتواڑ جواب ضلع بن گیا ہے ماسوائے ضلع لداخ ،ڈوڈہ سب سے بڑی تحصیل ہے ،پھر حرف (ث) کے بعد پیغام کے عنوان سے ایک نظم درج ہے جس کو عشرتؔ کاشمیری نے اپنے عہد شباب کی ایک مختصر نظم لکھا ہے ۔ چند اشعار حسب ذیل ہیں۔
(نظم)
اُٹھو وطن کے نام پر عزیز کشتواڑیو عزیز کشتواڑیو وطن کے نام پر اُٹھو
نقاب شب ہے چہرۂ جہاں سے برملا اُٹھی دریچے نور کے کُھلے وہ صبح مسکرا اٹھی
جو بے خبر ہیں سورہے پیام انقلاب دو عزیز کشتواڑیو وطن کے نام پر اُٹھو
اس نظم کے بعد نہر نئے گڈھ اور پاور پروجیکٹ کاذکر ہے پھر حرف آخر میں یوں رقم طراز ہیں۔
حرفِ آخر: تاریخ کشتواڑ ایک قرض تھا جو میں پچھلے دس برس سے اُتارنے کی کوشش کررہاتھا۔ مجھے مسرت ہے کہ اپنی زندگی کی بہترین پیشکش یہی کام ہے جسے کچھ حد تک مکمل کرسکاہوں ،تاریخ ایک عمل ہے جو جاری رہتا ہے اور جس کی تکمیل کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور ہر تاریخ تالیف پر اس کے مولف کے ذاتی ،اعتقادات و خیالات کی ہلکی یا گہری چھاپ پڑتی ہے ۔ تاریخ کشتواڑ کے اس لئے بہت سے گوشے دعوتِ تحقیق دیتے رہے ہیں نہ معلوم اس چمن میں ابھی کتنے بلبل نغمہ سرا ہوں گے ۔
حرفِ آخر کے بعد اعتراف کے عنوان سے مہتہ اوم پرکاش مرکزی وزیر اور ریاست کی اکادمی کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا ہے ۔
اعتراف: شکر گزار ہوں جناب مہتہ اوم پرکاش کا جنہوں نے اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود تاریخ کشتواڑ کے تعلق میں میری ہمیشہ حوصلہ افزائی فرمائی ۔ اگر ان کی عنایت شامل حال نہ ہوتی تو یہ تالیف منصہ شہود پر جلوہ نما نہ ہوئی ہوتی۔ ریاست کی اکادمی برائے کلچر اور زبان کا شکریہ گزار ہوں کہ اس نے تاریخ کشتواڑ کے اس صبر آزما کام کے لئے مجھے پونے دو صد روپے کی نقد امداد عطا فرماکر تاریخ نوازی کا ثبوت دیا۔
کثیر خرچ کے مقابلے میں حقیر امدادی رقم کی اہمیت اس لئے ہے کہ اکادمی کے ارباب اختیار چند برس تک میعادِ اشاعت میں توسیع دیتے رہے ۔ ان تمام حضرات کا بھی شکر گذار ہوں جنہوں نے کسی نہ کسی صورت میں اس کتاب کی تالیف میں میری رہنما ئی فرمائی۔
تاریخ کے شروع میں فیض احمد فیضؔ کے شعر میں ترمیم کرکے یوں لکھا گیا ہے
نثار میں تیرے گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلے وہ رسم کہ سب سر اُٹھاکے چلیں
عشرتؔ کاشمیری کشتواڑ( جموں)سابق ممبر اسمبلی
قیمت ۳ روپے۔ مارچ ۱۹۷۳ ء کتبہ سید نور الدین
لیکن کتاب کے کور پر چار روپے درج ہے ۔
دوسرے صفحے پر انتساب سے پہلے یہ شعر درج ہے ۔
تمہاری ذات سے وابستہ اپنے خواب رہے
تمہارے فیض سے ہر سو کِھلے گلاب رہے
انتساب : میں یہ عبارت درج ہے۔
ماضی میں عظیم کشتواڑی مہتہ منگل نے نہ صرف کشتواڑ کے رستے زخموں پر ہمدردی اور عنایت کا مرہم لگایا بلکہ لداخ میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئے کہ اب تک اہل لداخ اس کی یاد میں سر عقیدت خم کرتے ہیں اور آج اسی مہتہ منگل کا پڑپوتا اور بلند مرتبت کشتواڑی اوم مہتہ اس پسماندہ دور افتادہ اور فلاکت زدہ دیار کے لئے عظیم اور تعمیری خدمات بجا لارہاہے ۔
اہل لداخ نے مہتہ منگل کے حضور میں سر جھکایا اور میں اہل کشتواڑ کی جانب سے جناب اوم مہتہ کی بار گاہ میں یہ قلمی نذارانہ پیش کرتاہوں۔
اگلے صفحے پر اوم مہتہ کی رنگین تصویر ہے جس کے نیچے انگریزی میں یہ حروف ہیں۔
Hon'ble Mehata,State Minister for Parliamentary Affairs and Housing Govt. of India
پیشِ لفظ جو حرف’’ض‘‘ پر ختم ہوتا ہے کُل اٹھائیس صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے بعد تاریخ کشتواڑشروع ہوتی ہے جو باب اول سے شروع ہوکر باب ہفتم صفحہ ۱۴۲ ء پر ختم ہوتی ہے ۔ صفحہ نمبر۱۴۳ پر کتب نما کے عنوان سے تاریخ کشتواڑ کی تیاری میں جن کتب سے مدد لی گئی اُس کا ذکر حسب ذیل ہے ۔
پروفیسر فدا محمد حسنین نے عشرت کاشمیری کی تاریخ کشتواڑ کااس طرح جائزہ پیش کیا ہے ۔ عشرتؔ کشتواڑ کے رہنے والے تھے اور انہیں اس علاقے کے ساتھ انتہائی محبت تھی ۔وہ ادیب اور شاعر بھی تھے ۔ انھیں تمنا تھی کہ کشتواڑ کی تاریخ لکھی جاسکے۔ ظاہر ہے مصنف نے یہ تاریخ ٹھوس بنیادوں پر قلمبند کی ہے اور اس پر ان کے دلی جذبات کا گہرا اثر رہاہے ۔ کشتواڑ کے ساتھ جو مصنف کو لگاؤ پیدا ہوگیا تھا ،اسی نے انہیں کشتواڑ سے متعلق تحقیق کرنے کی تحریک دی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے کچھ ایسے معلومات بہم پہنچائے جو سنگ میل کی حیثیت رکھتے تھے ۔ مشہور بدھ عالم ناگسین کے بارے مین اس کی رائے یہ ہے کہ وہ کشتواڑ کا رہنے والا تھا ۔ بطورِ ثبوت وہ کہتا ہے کہ آج بھی کشتواڑ میں ایک ایساعلاقہ ہے جس کانام ’’ناگسون ‘‘ یا ناگ سین ہے۔
مذکورہ علاقے کی وجہ تسمیہ مشہور بدھ عالم ناگسین ہے ۔ کشمیر کی طرح کشتواڑ میں بھی بدھ مت عروج پر رہاہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کشمیر میں بدھ مت کے ماننے والوں پر ظلم و ستم بڑھنے لگے تو وہ شیو مت کے پیرو کاروں سے دور بھاگ کر پہاڑوں کی طرف چلے گئے ۔ کشتواڑ،لولاب ،اور دیگر ملحقہعلاقے بدھ مت کے پیروکاروں کی پناہ گاہ بنے ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قحط اور دوسرے آفات کے دوران کشمیری کشتواڑ میں پناہ لیتے تھے ۔’’ملہندہ پنہ‘‘ کے کشمیری میں لکھے جانے کی روایت موجود ہے اور منیندر کی حکومت میں قندہار کا سارا علاقہ پنجاب ، سنگھ اور کاٹھیاواڑ بھی اس کے ساتھ شامل تھے ۔اس طرح ناگسین کے بارے میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ وہ کشمیر ی تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کشتواڑی باشندہ ہو ۔ کیونکہ کشتواڑی زبان کشمیری زبان کا قدیم روپ ہے ۔ عشرتؔ کاشمیری نے کشتواڑ کے ساتھ محبت میں اور بھی دریافت کی ہے ۔ یعنی آگ پر رقص کرنا ۔ اٹھارہ بھوجہ والی دیوی کے استھان پر منعقد کی جانے والی ایک تقریب کے موقع پر آگ کے انگاروں پر ناچنا ۔ایسا یونان کے رقاص بھی کرتے تھے ۔ ممکن ہے سکندر اعظم کے واپس جانے کے بعد جب کشمیر اور کشتواڑ میں یونانی شہزادوں کی حکومت قائم ہوئی تو اُسی زمانے میں شاید اس ناچ کا رواج ہوا ہوگا۔مگر عشرتؔ کاشمیری کی کاوش قابل داد ہے جس نے تاریخی معلومات ہم تک پہنچائیں ۔اسی طرح اس نے کشتواڑ کے جنرل مہتہ منگل اور مہتہ بستی رام کابھی ذکر کیا ہے ۔ چونکہ مرحوم عشرتؔ کو ادب اور شاعری سے بھی کافی رغبت تھی ۔اس لئے ان کی تاریخ میں تاریخ کے علاوہ ادبیت کا رنگ بھی جھلکتا ہے ۔ عشرتؔ صاحب نے تاریخی واقعات پر اپنا اثر ڈالا ہے ۔ جس سے اس میں او ر بھی چاشنی پیدا ہوتی ہے ۔ اس لحاظ سے یہ کتاب لکھنے کے لئے دلچسپ کتابوں کی مدد حاصل کرکے تاریخ کشتواڑ کو ایک مستند تاریخ بنانے کی کوشش فرمائی ہے ۔ جس میں کچھ حد تک کامیاب بھی رہے ہیں ۔ کشتواڑ کی تاریخ پریہ اہم کوشش ہے ۔ لہذا اس کی تعریف بھی ضروری محسوس ہوتی ہے ۔ خاص کر یہ کتاب ایک ادیب نے تحریر کی ہے ۔ کسی تاریخ دان نے نہیں ۔ پھر بھی عشرت نے کوشش کی ہے کہ یہ تاریخ مکمل بن جائے ۔
’’بحوالہ‘‘ سون ادب ۱۹۸۷ ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری ذات سے وابستہ اپنے خواب رہے
تمہارے فیض سے ہر سوکھلے گلاب رہے
( انتساب )
ماضی میں عظیم کشتواڑی مہتہ منگل نے نہ صرف کشتواڑ کے رِستے زخموں پر ہمدردی اور عنایت کا مرہم لگایا بلکہ لداخ میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئے کہ اب تک اہل لداخ اس کی یاد میں سرِعقیدت خم کرتے ہیں اور آج اسی مہتہ منگل کا پڑپوتا اور بلندمرتبت کشتواڑی اوم مہتہ اس پسماندہ ، دور افتادہ اور فلاکت زدہ دیار کے لئے عظیم اور تعمیری خدمات بجالارہاہے ۔ اہلِ لداخ نے مہتہ منگل کے حضور میں سرجھکایا اور میں اہل کشتواڑ کی جانب سے جناب اوم مہتہ کی بارگاہ میں یہ قلمی نذرانہ پیش کرتاہوں ۔
عقیدت کیش
عشرتؔ کاشمیری
پیش لفظ
کشتواڑکی خوبصورت وادی سطح سمندر سے ۵۳۰۰ فٹ بلند ہے ۔اس کا طول بلد مرقی ۴۶ء۷۵ درجے اور عرض بلد۱۸ء۳۳ درجے شمالی ہے ۔ آب و ہوا گرمیوں میں خوشگوار اور سرما میں سرد ہے۔ خاص کشتوار میں تیز اور تند ہوا چلتی ہے ۔ جو سردیوں میں ناقابل برداشت اور گرمیوں میں دھوپ کی حدّت کو اعتدال پر لاتی ہے ۔ مجموعی طور پر آب و ہوا صحت افزا ہے ۔
بحالتِ موجودہ تحصیل کشتواڑ ریاست کے تمام ضلعوں میں ماسوائے اضلاع لداخ ڈوڈہ بلحاظ رقبہ سب سے بڑہی تحصیل ہے ۔ ضلع ڈوڈہ کا کل رقبہ ۲ء۴۳۸۰ مربع میل ہے اور کشتواڑ تحصیل کا رقبہ ۹ء۳۰۱۶ مربع میل ہے ،تحصیل کشتواڑ شمال مشرق میں ہماچل پردیش ، شمال میں کشمیر ، مغرب میں ڈوڈہ اور جنوب میں تحصیل بھدرواہ سے ملتی ہے ۔ کل آبادی ۹۲۰۰۰ نفوس پر مشتمل ہے۔قدیم ریاست کشتواڑ میں تحصیلات ڈوڈہ ماسوائے مرمت اور رام بن کے علاقے شامل تھے ۔ضلع ڈوڈہ کی اس وقت کل آبادی ۲۶۸۴۰۳ ہے جبکہ قدیم ریاست کشتواڑ کی آبادی حسب ذیل ہے:
تحصیل کشتواڑ ۹۲۰۰۰
تحصیل ڈوڈہ ۵۴۱۸۰( تحصیل ڈوڈہ بشمول مرمت ۵۸۳۸۶ آبادی رکھتی ہے)
تحصیل رام بن ۷۱۲۲۶(تحصیل رام بن کی بشمول بٹوت ۷۳۶۴۸ آبادی ہے)
میزان کل ۲۱۷۴۰۶
گویا آج اگر ریاست کشتواڑ برقرار ہوتی تو دو لاکھ آبادی کا ایک راجواڑہ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیر نے اپنی تزک میں راجۂ کشتواڑ کو زمیندار پٹہ کشتواڑ لکھاہے ۔
معدنی لحاظ سے تحصیل کشتواڑ کے سینے میں بیش قیمت خزانے دفن ہیں ۔ ابرق، سیسہ، جپسم اور نیلم منظر عام پر آچکے ہیں اور دوسری پوشیدہ دولت کا سراغ ابھی تک نہیں لگایاگیا ہے ۔ پہاڑوں کی
ھلانوں میں چیل، پرتل ، دیودار او ردیگر عمارتی لکڑی کے جنگلات لہلہاتے ہیں ۔ ان جنگلوں میں ہر قسم کا چھوٹا بڑا شکار پایاجاتا ہے ۔ چنانچہ آج سے پچاس سال اوپر بھی انگریز شکاری دشوار گزار راستوں کو طے کرکے اندرونی علاقوں میں شکار کھیلنے آیا کرتے تھے ۔ ایک بدقسمت فرنگی شکاری کسی حادثہ کا شکار ہوکر خاص کشتواڑ میں دفن کیاگیا تھا ۔ قدیم زمانہ میں کشتواڑ کی طرف مغلوں اور کشمیری تاجداروں کو جو خراج دیاجاتا تھا ۔اس میں بازاور جرہ پرندے بھی شامل ہوتے۔ ایسے علاقے بہت کم ہیں جہاں آبپاشی کا خاطر خواہ انتظام ہوتا ہو۔اس لئے زیادہ تر پیداوار مکئی،جو گندم اور دالوں کی ہے ۔
کشتواڑی۔ کشمیر کی ہمسایگی نے نہ صرف تاریخ کے دھارے موڑے ہیں اور کشتواڑ کی ملکی سیاست کو زیر و زبر رکھا ہے بلکہ روایتوں میں بھی یکسانی پیدا کی ہے۔مثلاً کشمیر کے متعلق مہاراجہ گلاب سنگھ کے مصنف پنڈت سالگرام کول لکھتے ہیں ’’روایت ہے کہ جس وقت کشمیر کی سر زمین ایک جھیل کی حالت میں بلند کوہستان کی چوٹیوں تک پانی اور برف سے پُر ہوکر ’’ستی سر‘‘ کے نام سے ملقب تھی اُس وقت کیشب جی کشتواڑ میں بھی رہتے تھے اور یہاں ہی سے کشمیر کی طرف بڑھ کر اور کوثر ناگ کے پہاڑ پر بیٹھکر جھیل مذکور کاپانی نکالنے کے واسطے انہوں نے تپسیا کرنا شروع کی ۔ کیشب جی کا گذر چوں کہ پہلے کشتواڑ میں ہوا،اس واسطے اس سر زمین کانام کیشب وار یعنی کیشب جی کے رہنے کی جگہ پڑا۔‘‘
روایتوں نے کشمیر کی طرح کشتواڑ کو بھی جھیل کے شکم سے جنم دیاہے ۔ کشمیر میں وتستہ( جہلم) اور کشتواڑ میں چندربھاگا،وہاں ستی سر اور یہاں وسیع جھیل۔ ایک ہی کہانی کے دو روپ ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر میں جب ناگا برسر اقتدار آئے تو اُن کی ایک جماعت نے کشتواڑ کو بھی اپنے زیر نگین کیا ۔ چنانچہ ایسے متعداد مقامات ہیں جن کے ساتھ ناگ وابستہ ہے ۔ مثلاً ناگ ایشور ، گودرش ناگ ، کانی ناگ، گمانی ناگ ، ڈامر ناگ اور ناگ سین ، ناگاؤں کی تہذیب و تمدن کے دیئے ایسے بجھے کہ روشنی کی ایک کرن بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ صرف بیشمار صدیوں کے چکر میں ناگ نام رہ گیا ہے ۔
ناگاؤں کے بعد آریائی نسل کے قبیلے ان پہاڑوں میںآئے اور انہوں نے حکمران ناگ قبیلوں کو
شکست دے کر دور افتادہ پہاڑی وادیوں میں بھگا دیا اور بچی کھچی آبادی کو مطیع کرلیا۔ رفتہ رفتہ دونوں قوموں کو وقت نے ایک رنگ میں رنگ دیا ۔ چنانچہ صدیاں بیت جانے پر بھی رنگ ونسل کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ اکثر خالص آریائی نقش سرخ و سپید چہروں پر دکھائی دیتے ہیں اور کہیں کہیں خاص طور پر دیہات میں گندمی رنگ کرخت چہرے ، چھوٹی آنکھیں ،موٹی ناک غیر آریائی نسل کی طرف ذہن کو منتقل کردیتے ہیں ۔ ’’کشتواڑ میں قلم اور بندوق کے ساتھ کے مصنف مسٹر آٹودوتھ فیلڈ نے صفحہ ۱۷ پر سنتھن بنگلہ کے چوکیدار کا تعارف کرانے کے بعد لکھا ہے ۔’’ میرے لئے شاید اس خوش باش اور وحشی شخص کی عجیب تر چیز یہ تھی کہ وہ کس درجہ خلافِ امید ہندوستانی دکھائی دیتا تھا اور یہی حیرت مجھے دوسرے کشتواڑیوں کو دیکھ کر ہوئی ۔‘‘مصنف مذکور نے چوکیدار کا جو قلمی چہرہ بیان کیا ہے ۔وہ ایک مخلوط نسل کے فرد کا ہے ورنہ وہ اگر کسی سو فیصد کشتواڑی کو دیکھتے تو عش عش کر اُٹھتے اور اُنہیں اس کے چہرے پر سیاہی اور عجیب و غریب ناک نقشہ دکھائی نہ دیتا۔
جنگجو کشتواڑی:کشتواڑ کو کوئی کلہن نہیں ملا جو راج ترنگنی میں اُن کے کارنامے محفوظ کرتا اور اپنے شاعرانہ بیان سے روایتوں میں رنگینی پیدا کرتا اور اگر کوئی ہوا بھی ہو تو اُس کاکارنامہ دستبرد زمانہ سے نہیں بچا ہے ۔لیکن ایک حقیقت ظاہر ہے کہ شمالی اور وسطی ہند میں جو ں جوں انقلاب آتے گئے ۔وہاں کے جنگجو قبیلے امن و امان کی تلاش میں ان پہاڑوں میں وارد ہوتے گئے ۔آٹھویں دسویں صدی تک یہ سلسلہ جاری رہا،گوکشمیر سے سیاست وقت کے شکار ،جاگیرداریت کے مظلوم او رقحط سالی کے فاقہ کش مجبور اُنیسویں صدی تک کشتواڑ کی پناہ گاہ میں سکھ کا سانس لینے کے لئے آتے رہے۔
جو لوگ باہر سے آئے وہ زیادہ تر راجپوت اور ٹھکر تھے ،ان کے بعد ہریجنوں کی تعداد ہے اور سب سے کم براہمن فرقہ ہے ۔اس تعلق میں پاڈر کو مثال کے طور پیش کیاجاتاہے جہاں ٹھکرا ور ہریجن بیشتر تعداد میں ہیں اور براہمن بہت قلیل ہیں ۔یہ وہ خطہ ہے جو انقلابوں کی کم سے کم آماجگاہ رہاہے ۔
بہر حال ان جنگجو قبیلوں نے آزادی کی مشعل کو عرصۂ دراز تک روشن رکھا۔ اکبرِ اعظم نے کشمیر کو تو فتح کرلیاتھا لیکن کشتواڑ کو تابعِ فرمان بنانے کی حسرت اُسے بھی رہی۔درحالے کہ کشمیر کاآخری حکمران
اکبر کے جرنیلوں سے شکست کھا کر کشتواڑ میں پناہگزین ہواتھا اور یہاں سے بار بار کشمیر پر حملہ آور ہوتا تھا ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے نامور جرنیل وزیر زور آور سنگھ کلہوریہ نے جو کشتواڑ کے گورنر تھے۔اپنی مہم لداخ کی داغ بیل کشتواڑ میں ڈالی تھی ۔اُن کی فوج کے سرکردہ کمانداروں میں سابقہ مملکت کشتواڑ کے مہتہ بستی رام ،اوتم پڈیار ، وزیر کھوجہ بھونچہ،قطب شاہ ولد نور شاہ، دائم ملک اور ظفر لون ساکنان مڑواہ رانا ظالم سنگھ ساکن اڑنورہ (گھٹ ڈوڈہ) مرزارسول بیگ ساکن اُودیانپور(ڈوڈہ)وغیرہ شامل تھے۔ یہ جیالے فوجی نہ صرف جنگجو اور آزمودہ کار سپاہی تھے بلکہ ایک ایسے خطّے سے تعلق رکھتے تھے جوکامل فرقہ وارانہ اتحاد اور سیکولر فلسف�ۂ حیات رکھتاتھا ۔ یہاں یہ عرض کرنابھی بیجا نہ ہوگا کہ وزیر زورآور سنگھ کلہوریہ اچھے حکمران کی طرح جہاں شجاعت میں شیر تھا اور جنگی تدابیر میں بے نظیر تھا وہاں ملکی انتظام او رعام انتظامیہ میں سیکولر نظریہ رکھتاتھا ۔اُس نے اپنی فوج کے جہاں ہندو کمانداروں کو ان کی بہادری پر خصوصی انعامات سے نوازااور مہاراجہ گلاب سنگھ سے جاگیریں دلوائیں وہاں مسلم کمانداروں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک روا رکھا۔
خصوصی روایات: کشمیر کی طرح کشتواڑ بھی روادار اور اتحاد پر ور روایات کا علمبردار رہا۔ کشمیر میں تو مہر گل نے جوہن قوم سے تعلق رکھتا تھا بدھوں کو بے پناہ ظلم وستم کانشانہ بنایا ۔ چکوں کے عہدِ حکومت میں شیعوں اور سنیوں کے خوفناک فسادوں کی آگ بھڑکتی رہی ۔ لیکن کشتواڑ اس قسم کے مذہبی جنون سے آزاد رہا اور آج تک فرقہ وارانہ میل ملاپ کے جذبے سے کشتواڑ ی سرشار ہیں ۔رواداری اور احترام باہمی سے اُن کا ضمیر اٹھا ہے ۔
یہ عجیب بات ہے کہ کشتواڑ کی سرحدوں پر خاص طور پر شمالی سرحدوں پر کھاسلیہ کے راجپوت آباد تھے ۔ آج کھاسلیہ میں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں ہے ۔ کشمیر سے جابر و ظالم حکومتوں کے ستائے ہوئے ،قحط اور افلاس کے مارے ہوئے ان علاقوں میں جو ق در جوق آتے رہے اور فراخ دل راجپوت وقت کے ان مظلوموں کو آباد کرتے رہے اور پناہ دیتے رہے حتیٰ کہ مہمانوں کی تعدادمیزبانوں سے بڑھ گئی ۔ پاڈر میں مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وہ علاقہ انتہائی دشوار گذار اور دور دراز تھا ۔ کشمیرسے آنے والے وہاں تک نہ پہنچ سکے ۔ کشتواڑی راجے مسلمان ہونے کے باوجود مسلم و غیر مسلم رعایا سے یکساں سلوک کرتے تھے ۔ بلکہ راج دربار کے طور طریقے وہی تھے جو ہندو راجاؤں کے وقت میں رائج تھے ۔ مسلم راجے ہندووانہ اور اسلامی دونوں نام رکھتے تھے ۔مثلاً املوک سنگھ سعادتمند خان ، مہر سنگھ سعادتمند خان ، محمد تیغ سنگھ سیف اﷲ خان وغیرہ ، باقاعدہ پروہت مقرر تھے ۔ راجہ کی شادی کی تقریب یا کسی اور تقریب پر براہمنوں کو انعامات او رجاگیریں ملا کرتی تھیں ۔ ہندوؤں کے مذہبی مقامات کیلئے بھی جاگیریں وقف کی جاتی تھیں ۔ ایسے بیس پٹے ( فرمان) راقم کی نگاہ سے گذرے ہیں ۔جن میں براہمنوں کو مسلم راجاؤں نے اراضی بطور جاگیر عطا کی ہے ۔آخری تاجدارِ کشتواڑ راجہ محمد تیغ سنگھ نے اپنی حکومت کی طرف سے اپنی ریاست کے سرکردہ شہریوں ، حکومت کے ممتاز حاکموں اور مقدس مقامات کے لئے تیل اور تمباکو کا کوٹہ مقرر کیاتھا ۔ مقدس مقامات میں ہندو اور مسلمانوں کے متبرک آستانے اور ٹھاکر دوارے شامل تھے ۔
تیغ سنگھ کی حکومت کو ختم کرکے مہاراجہ گلاب سنگھ نے ریاستِ کشتواڑ کومہاراجہ رنجیت سنگھ کے نام پر جموں میں شامل کیا ۔اس وقت بھی اس روایت پرستی نے ایک او رمثال قائم کی تھی ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے خلاف سراج میں ایک زبردست بغاوت ہوئی یہ بغاوت راجہ محمد تیغ سنگھ کی حمایت میں تھی اور اس کا سرغنہ ایک ہندو راجپوت بھکم تھا۔ بھکم یا بکرم کے ساتھ سید محی الدین شاہ بھی علمِ بغاوت بلند کرنے میں شریک تھا۔مذہب:ضابطۂ اخلاق اور فلسفۂ حیات کانام مذہب ہے ۔وہ ہمدردی ، رحم ،عفو وکرم اور خدمت کے جذبات کو تحریک دیتاہے ۔ اہلِ کشتواڑ اس حقیقت پر عمل کرتے رہے کہ مذہب انسانیت کا معمار ہے ۔ قاتل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں مختلف مذہبی دور گزرے اورانقلاب آئے لیکن کشتواڑ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ نہ لگا اور اس سر زمین نے خاموشی سے وقت کی رفتارکو قبول کیا ۔ایک وقت تھا کہ ناگایاناگ قبیلے کشتواڑ میں آباد تھے ۔ پھر بدھ درھ م نے اپنی ہر دلعزیزی کے پرچم لہرائے ۔ کشتواڑ میںآج بھی موضع پوچھال کی طرح پتھر کے ستونMegalith پائے جاتے ہیں۔ پاڈر جہاں نیلم کی کانیں ہیں وہاں ابھی موضع کبن اور دیگر مقامات پر بدھ مت کے پیرو آباد ہیں ۔ مذہبی مقامات کی ساخت Stupa طرز کی ہے ۔پروفیسر غلام محی الدین حاجنی نے اپنی کتاب’’ ک�أشری شاعری‘‘ کے تعارف میں لکھا ہے کہ مشہور بدھ عالم ناگسین نے اپنی تصنیف ’’ملندہ پنہ‘‘ Malinda Panha کشتواڑ ی زبان میں سوال و جواب کے پیرایہ میں لکھی تھی جس کا ترجمہ پالی اور سنہالی میں بھی ہواتھا۔ پروفیسر صاحب کا قیاس ہے کہ ناگسین کشمیری تھا۔ اگر یہ قیاس درست ہے تو یہ بدھ عالم یقیناًکشتواڑی تھا او ل تو اس نے کشتواڑی میں اپنی کتاب لکھی اور دوسرے یہ کہ آج بھی کشتواڑ کے علاقے کانام ناگسون یا ناگسین ہے ۔ جناب S.Radhakrishnan بدھ مت کے ۲۵۰۰ سال میں لکھتے ہیں۔ہندی یونانی بادشاہ میناڈر بدھ مت کا بڑا سرپرست اور حامی تھا۔ میناڈرManader پالی کتاب مالندہ پنہ Malanda panha کے سوالات کے کرداروں میں سے ایک ہے ۔ اس کے (یونانی بادشاہ میناڈر) کے شکوک قابل احترام ناگسین نے دور کردئے تھے ۔میناڈر کی حکومت میں پشاور، کابل، کی بالائی وادی ،پنجاب ، سندھ ، کاٹھیاواڑ ،ایسا دور دراز علاقہ اس کی مملکت میں شامل تھے ۔ تو کشتواڑ نسبتاً ہمسائیگی میں تھا۔ ناگسین اور بادشاہ کی ملاقات کے تعلق میں S.Radhakrishna ایس رادھا کرشنا صاحب (۱)بیان فرماتے ہیں یہ ایک خوش کُن اتفاق تھا کہ ایک دن بدھ بادشاہ بدھ بکشو ناگسین نام کو دیکھا ۔ جو بکھشا مانگنے جارہاتھا ۔ اس کامیاب مقالمہ پر جو بادشاہ اور بکھشو کے درمیان ہوا ۔ ملندہ پنہ کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ جو ابتدائی بدھ مت کے پالی ادب کی بے حد قابل ذکر کتاب ہے اور جسے بدھ گوشاپانچویں صدی عیسوی میں پالی سکالر تھااس نے وسو دی مارگ کتاب لکھی ہے جسے بدھ گوش نے سند ماناہے اور تسلیم کیا ہے ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ جب کشمیر میں بدھوں کا ستارہ اقبال غروب ہوگیا اور مہایان فرقہ بھی اپنی کوششوں کے باوجود بدھ مت کے زوال کو نہ روک سکا ۔تو کشتواڑ میں بھی ہندو دھرم کا سکہ پھر سے جاری ہوگیا بلکہ کشمیر سے شیو فلسفہ کے عالم اس ریاست میں بھی آکر آباد ہوگئے اور انہوں نے علم و دانش کے چراغ روشن کئے۔ حکمرانوں کی طرف سے ،علماء و فضلاء کی قدر دانی بھی ہوتی رہی اور علم و ادب کے پرستاروں نے گوشۂ امن و عافیت میں بیٹھ کر تصنیف و تالیف کا شغل اختیار کیا ماضی کے یہ انمول خزانے بھی پورے طور پر دریافت نہیں ہوئے ہیں ورنہ کشتواڑ کے براہمنوں نے علم کے چمن میں جو پھول کھلائے تھے اُن کی خوشبو سے اہلِ نظر شادکام ہوتے۔سنگیت سنگرہ: کشتواڑ کے راجہ نریندر سین(۷۵۱۔۷۴۶ء) کے عہد میں یہ کتاب لکھی گئی ہے جو علم موسیقی سے تعلق رکھتی ہے ۔ کتاب کے مصنف شری وک ہیں ۔پورانام معلوم نہیں ہوسکا۔ قابل مصنف آغازِ کتاب میں بیان کرتا ہے ۔’’اورجوبھی علم موسیقی کے ماہر ہیں اُن سب کو پہلے نمسکار کرتاہوں اور کشتواڑ کے راجہ نریندر سین کی اجازت سے شغل کے لئے شری وک دلچسپ عنوانات سے اسی دلکش کتاب کو مزین کرتاہے ۔۔۔۔ اس میں ایسے نغمے ہیں جو رسیلے اور فطری ہیں اور اصلی راگوں سے ڈھالے گئے ہیں ۔اس کتاب میں تشبیہات و استعارات ہیں ۔۔۔کشتواڑ کی دھرتی کابڑا اندر جو نریندر سین نام کا ہے ۔اس کی جے جے کارہو۔‘‘امرکوش کی تشریحات:۔راج ترنگنی کے مترجم مسٹر ایم ۔اے سٹین جلد اول کے صفحہ ۴۷ پر لکھتے ہیں۔’’ راجنک رتن کنٹھ کی یاد ابھی تک کشمیری پنڈتوں کی روایات میں زندہ ہے ۔ ایک بڑے عالم اور بہت تیز لکھنے والے کے طور پر ۔ میں نے خود سرینگر میں مندرجہ ذیل مسودّوں کی نقلیں جو اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں حاصل کی ہیں ۔۱۔ امر کوش پر رائے مکت کی تشریحات ۔یہ کتاب کشتواڑ یا کشتواڑ میں ساکاس ۱۵۷۷ ء یا ۵۶۔۱۶۵۵ بکرمی میں لکھی گئی تھی۔۲۔ سری کنٹھ کرت پر جون راجہ کی تشریحات ۔میرے رائے مکت کے مسودہّ سے جو کشتواڑ میں ۱۶۵۵ ء میں لکھا گیا ۔اندازہ لگاتے ہوئے عیاں ہوتا ہے کہ رتن کنٹھ باہر سفر کرتے ہوئے بھی مسودّوں کی نقلیں کرناجاری رکھتا تھا۔‘‘ علاوہ ازیں کتاب بھون کوش جوٹاپو گرافی پرمعلومات فراہم کرتی ہے کشتواڑ کے اُس علمی خزانے میں پائی گئی جو منظرِ عام پر آکرمحفوظ ہوچکاہے ۔ ایک اور کتاب بھوگل پران کا سراغ پلماڑ میں ملا ہے ۔آج سے تین سو سال پہلے امرکوش کی تشریحات کا کشتواڑ میں لکھا جانا اُسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جبکہ یہاں مسندِ علم پر سنسکرت کے عالم مبتحر جلوہ افروز تھے اور ایسے ہی علم کے شیدائیوں کی کاوشوں کی تلاش میں رتن کنٹھ کو سرینگر سے کشتواڑ آنا پڑا تھا ۔ رتن کنٹھ کو بھان کی ہرش چرت کا مسودہ بھی کشتواڑ میں دستیاب ہوا تھا ۔ علم جوتش پر کشتواڑ میں متعدد بلندپایہ کتابیں لکھی گئی تھیں اور اُن میں سے چند ایک آج بھی باقی ہیں ۔اس علم میں کشتواڑی براہمنوں کو بڑا بلند مقام حاصل تھا کیونکہ کشتواڑی حکمران اکثر اُن سے اپنے مستقبل کے بارہ میں رائے لیا کرتے تھے ۔ جوتش کے علاوہ علمِ کیمیا میں راج پروہت کمال رکھتے تھے ۔ چنانچہ ایک بار تاریخ غلط بتانے کے سبب اور اپنی بات منوانے کے لئے ایک سرکردہ پروہت نے ایران کے ماہِ نخشب کی طرح آسمان پر ایک مصنوعی چاند کو اپنے علم سے زمین پر اتار لیا تھا ۔ سنسکرت کے علوم کا زوال ریاستِ کشتواڑ کے کشمیر اور دہلی کے مسلم حکمرانوں کے زیر اثر آنے سے شروع ہوا۔ خود کشتواڑ کے راجے بھی سترھویں صدی کے وسط میں دائرہ اسلام میں آگئے اور رفتہ رفتہ نیا مذہب کشتواڑ کے اطراف میں پھیل گیا ۔ اسلام کی اشاعت کی حسبِ ذیل وجوہات تھیں:۔۱۔ کشمیر حلقہ بگوش اسلام ہوچکاتھا۔وہآں جب جب قحط سالی نے عوام کو لقمۂ اجل بنانا شروع کیا ۔ تحصیل اننت ناگ کی آبادی کا کچھ حصہ سنگپورہ چھاترو اور واڑون منتقل ہوتا رہا۔ یہ مہاجران سرحدی علاقوں میں مستقل طور پر آباد ہوگئے اور کشتواڑ خاص کی طرف بڑھتے گئے ۔واڑون سے دچھن کی طرف مسلم مہاجروں کے قدم تیز تیز نہ بڑھ سکے اس لئے کہ کشمیر سے جہاں وہ کلچرل لحاظ سے وابستہ تھے۔دُور ہوجاتے تھے اور دچھن میں نئی آبادیاں قائم کرنے کی گنجائش کم تھی۔۔ غیر مسلم اہلِ کشتواڑ نے رواداری اور بھائی چارہ کا ثبوت دیا۔ بونجواہ آخر وقت تک ایک ہندو جاگیررہا لیکن آبادی کا بیشتر حصہ مسلمان ہے ۔ سنگپور کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ قدیم کھاسلیہ کاموضع ہے جہاں راجپوت رہتے تھے۔ لیکن آج وہاں بھی مسلمان اکثریت میں ہیں ۔ سنگپور کا ذکر جہانگیر نے بھی اپنی سوانح عمری تزک جہانگیر میں کیا ہے ۔۳۔ مسلم صوفیاء نے اپنے اخلاقِ حسنہ، انسان نوازی اور خدا دوستی کے سبب خاموش انقلاب پیدا کیا ۔ کشمیر کے سرخیلِ طائفہِ ریشیاں حضرت شیخ نو ر الدین ولی قدس سرہ کاخاندان سرتھل کشتواڑ سے ہجرت کرکے کشمیر گیاتھا ۔ ان کے بلند مرتبہ مردی حضرت زین الدین ؒ جو عیش مقام میں مدفون ہیں بھنڈارکوٹ کے رہنے والے نومسلم راجپوت تھے۔پھر جنوب کی طرف سے حضرت سید شاہ محمد فریدالدین قادری قدس سرہٗ العزیز کشتواڑ میں تشریف فرماہوئے ۔اُن کی اور ان کے چاروں خلفاء کی پاکیزگی نفس انسان دوستی اور کشف و کرامات سے اہل کشتواڑ متاثر ہوئے اور آج تک اُن کا آستانہ مرجع خاص و عام ہے ۔ حضرت شاہ صاحب ؒ کے عالی مقام صاحبزادوں یعنی حضرت سید شاہ محمد اسرار الدین قدس سرہٗ ،حضرت سید اخیار الدین قدس سرہٗ نے بھی اپنے روحانی تصرفات سے کشتواڑ کو متاثر کیاتھا۔
۴۔ آخری دور کے راجاؤں کے اسلام قبول کرنے سے اُن کے حلقۂ اثر کے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔فارسی ادب: ریاست کشتواڑ میں مسلمانوں کے اثرو رسوخ کے بڑھ جانے سے نیز کشمیر اور مغلیہ سلطنت کے ساتھ تعلقات کے سبب اسلامی علوم فنون کو فروغ حاصل ہوا فارسی زبان کا دائرہ اثر بڑھتا گیا حتیٰ کہ غیر مسلم راجے بھی فارسی میں اتنی مہارت رکھتے تھے کہ اس زبان میں شعر گوئی کرتے تھے ۔ راجہ بہادر سنگھ (۱۵۷۰ء لغایت ۱۶۰۵ء) کے عہد سے فارسی نے راج دربار میں اپنے قدم جمانے شروع کئے تھے۔ بہادر سنگھ کے کشمیر کے چک حکمرانوں سے قرابت کے تعلقات تھے ۔یعقوب شاہ کی بیوہ شنکر خاتون نے اپنی زندگی کا آخری حصہ اپنے وطن مالوف کشتواڑ میں بسر کیاتھا ۔ وہ علماء و فضلاء کی بڑی قدر دان تھی اور اس کے ذاتی ملازموں میں شاعر،حافظ اور عالمِ دین شامل تھے ۔ چک خاندان کے بہت سے افراد کشتواڑ میں رہتے تھے اور یہ سب کشمیری اور فارسی بولتے تھے ۔تاریخ میں جس راجہ کے سر پر فارسی علم و ادب میں کمال حاصل کرنے کا تاج رکھاگیا ہے وہ راجہ مہاسنگھ عرف مہاجان (۷۴۔۱۶۶۱ء) ہے ۔ کشتواڑ کی تمام تاریخیں متفق ہیں کہ وہ نہایت عادل اور سخی تھا۔ سنسکرت اور فارسی کے فن شاعری میںمہارتِ کامل رکھتاتھا۔حضرت سید شاہ محمد فرید الدین قادری بغدادی علیہ الرحمہ نے اپنے خلیفہ شاہ محمد درویش کو تبرکات اپنی کلاہ دی تھی ۔اس کے بارہ میں حضرت شاہ صاحب کے اپنے دست مبارک کی تحریر خاکسار عشرت کے پاس موجود ہے جو فارسی میں ہے مضمون حسبِ ذیل ہے:
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
امابعد
بنابریاد آاوری بااعتماد ووثوقِ اہل اسلام این چند حروف تحریر مے شوند۔کہ یک عدد کلاہ برنگ سرنگ خط دار سفید بطور تبرک بہ خلیفۂ خاص خود شاہ محمد درویش دارم۔ خلیفۂ مذکورہ تبرکاَّ وتیمنا نزدِ خود موجود نہادن خواہد۔والسلام۔
سید شاہ فرید الدین قادری بغدادی
مہر
سید فرید الدین قادری
یہاں شاہ صاحب کا شجر�ۂ نسب بھی درج کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔یہ فارسی میں حضرت شاہ صاحب کے بارہ میں تصنیف ’’روضۃ العارفین‘‘ سے لیاگیا ہے:فرید الدین بن سید مصطفےٰ بن سید عبداﷲ بن شیخ یحیٰ طاہر بن سید عبدالرزاق بن سید عبدالقادر ثانی بن سید حسین بن سید علی بن سید محمد بن سید یحیٰ بن سید احمد بن شیخ محمد بن شیخ نصیر بن سید تاج الدین بن سید ابوبکر بن سید عبدالرزاق بن محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ علیہ ۔گویا حضرت شاہ صاحب چودہ واسطوں سے حضرت پیرانِ پیر عبدالقادر جیلانی سے وابستہ ہوجاتے ہیں ۔اس شجرۂ نسب سے بھی شاہ صاحب کا عہد معلوم کیاجاتاہے۔قاضی نیاز اﷲ اپنے وقت کے فقیہ اور عالم دین تھے۔ انہوں نے وقایہ کی شرح منظوم لکھی تھی ۔راجہ عنایت اﷲ کے قتل کی تاریخ ان سے یاد گار ہے ۔ قاضی نیاز اﷲ کشمیر کے مشہور عالم و صوفی حضرت ایشان شیخ یعقوب صرفی قدس سرہٗ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ کشتواڑ میں عہدہ ، قضا ان کے خاندان میں آج تک چلا رہا ہے ۔مولوی عبدالرسول پال راجہ عنایت اﷲ سنگھ کے عہد کے سر برآوردہ عالم اور جامع کمالات تھے ۔شعر و شاعری کا ذوق بھی رکھتے تھے ۔حضرت نصر الدین ناصر خاندانِ قاسمیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ان کے مورثِ اعلےٰ حافظ ابوالقاسم تھے جو راجہ کیرت سنگھ کے عہد میں (۱۷۶۴ ء) بقیدِ حیات تھے ۔ اس خاندان نے کشتواڑ میں مشعلِ علم و ادب کو فروزاں رکھا۔ یکے بعد دیگرے بہت سے حافظ عالم دین اور شاعر و ادیب ہوئے ۔آستانۂ حضرت سید محمد اسرار الدین رحمۃ اﷲ علیہ کی سجادہ نشینی اس خاندان میں ابھی تک برقرار ہے ۔ حضرت نصر الدین نے تاریخِ کشتواڑ(قلمی) کا ترجمہ سنسکرت سے پہلی بار فارسی میں کیاتھا۔
مصنف نے آگے صفحہ(م) پر ایک فارسی غزل کے چند اشعار بہ عنوان
بے کارم و باکرم چوں مد بحساب اندر
گویایم و خاموشم چوں خط بکتاب اندر
تحریر کی ہے جو نصر الدین ناصر کی تخلیق نہیں بلکہ حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کی تخلیق ہے ۔جو خاندان چشتیہ کے روشن چراغ بزرگ تھے اور حضرت نظام الدین اولیاء کے جانشین ہیں بمقام اودھ بے پیدا ہوئے ۔اپنے پیرو مرشد کے تیس سال بعد 18 رمضان ۷۵۷ ء کو رحلت فرما گئے ۔ یہ غزل ماھنامہ شبستان دہلی شمارہ 22 جون میں بھی چھپی ہے جو حسب ذیل ہے ۔
بے کارم و باکرم چوں مد بحساب اندر
گویایم و خاموشم چوں خط بکتاب اندر
اے زاہدِ ظاہر بیں از قُرب چہ می پُرسی
اودرمن ومن دروے چوں بوبہ گلاب اندر
دریااست پُر از چشمم لب ترنہ شود ہرگز
ایں طرفہ عجائب بیں تشنہ است بآب اندر
گہہ شادم و گہہ غم غین از حال خودم غافل
می گریم ومی خندم چوں طفل بخواب اندر
درسینہ نصیر الدین جز عشق نمی گنجد
ایں طرفہ عجائب بیں دریا بحباب اندر
________ تصحیح کار: فداؔ کشتواڑی
حضرت ناصر کے دونوں صاحبزادوں مولانا ضیاء الدین ضیاء اور مولانا سعد الدین نے بھی گلشنِ علم و ادب کی آبیاری کی ہے ۔ ضیاء صاحب کی روضۃ العارفین میں زیادہ تر حضرت سید شاہ محمد فرید الدین قدس سرہ العزیز اور اُن کے فلک مقام صاحبزادوں کے حالات اور اُن کے اقوال بیان کئے گئے ہیں ۔ کشتواڑ میں جو محفلِ شعر و سخن آراستہ تھی وہ راجہ تیغ سنگھ کی حکومت کا تختہ الٹ جانے پر درہم برہم ہوگئی۔ اہلِ فن سرپرست نہ ہونے کے سبب کہیں سے کہیں پہنچ گئے ۔ بعض گوشہ نشیں ہوکر گمنامی کی زندگی گذارنے لگے اور بعض نے ہند کی دوسری ریاستوں کا رُخ کیا ۔ جہاں جو ہر فن کی قدردانی ہوتی تھی ۔حاجی عطاء اﷲ عطا اور مولانا حمایت اﷲ نے دیار کشتواڑ کو خیر باد کہا۔ حاجی عطاء اﷲ عطا ہند کے مختلف شہروں کی سیاحت کرتے ہوئے حجاز تشریف لے گئے او رمدینہ منورہ میں مدفون ہیں ۔ مولانا حمایت اﷲ نواب بھوپال کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں وہ شاہی خاندان کے اتالیق مقرر ہوئے ۔ ان دو بھائیوں کے علاوہ مولوی کلیم اﷲ عالم و فاضل اور بُلند پایہ شاعر تھے لیکن اُن کے مزید حالات دریافت نہیں ہوسکے۔زبان: کشتواڑی زبان کے متعلق عام خیال یہی ہے کہ وہ قدیم کشمیری کا رُوپ ہے ۔ سنسکرت نے اس زبان کے دامن کو مالا مال کیا ہے ۔اس کو لہجہ (Dialect) نہیں کہاجاسکتا ۔ کیونکہ قدیم حالت میں برقرار رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس زبان کو راج دربار کی سرپرستی حاصل نہیں ہوسکی اور اس طرح ادیبوں اور شاعروں نے اس طرف کم توجہ دی کیونکہ اُنہیں حکمرانِ وقت سے صلہ میں کسی انعام یا جاگیر کے ملنے کیاُمید نہ تھی ۔جب فارسی چار سو سال تک درباری زبان رہی اس کے اثر سے یہ زبان پاک رہی کیونکہ ایسے شاعروں نے اس میں طبع آزمائی نہیں کی جو فارسی میں بھی شعر کہتے تھے اور عوام سے فارسی میں بات چیت نہیں ہوتی تھی۔ اس طرح اس میں فارسی کا ملاپ قابلِ ذکر حد تک نہیں ہوا ۔اس کے برعکس کشمیری پر فارسی کااثر غالب رہا اور سنسکرت کااثر کم ہوتاگیا ۔دربار کی سرپرستی سے محروم ہونے کے باوجود یہ زبان زندہ ہے کیونکہ اسے عوام کی سرپرستی ملتی رہی ۔
پروفیسر محی الدین صاحب حاجنی نے ’’کاشری شاعری‘‘ کے تعارف میں متعدد بار کشتوار کا ذکر کیا ہے ۔ صفحہ چار پرفرماتے ہیں ۔’’آج یہ بات بھی چلی ہے کہ بدُھوں کا بہت بڑا مذہبی علم ناگ سین بھی شاید کشمیری تھا۔ جس نے اپنی کتاب’’ملندہ پاہنہ‘‘ اُس زمانے کی کشتواڑی کشمیری میں سوال و جواب کی صورت میں کہی تھی جس کا پالی اور سنہالی میں ترجمہ ہو ا۔اصل گُم ہوگیا اور ترجمہ باقی رہا۔‘‘’’مہانے پرکاش‘‘ واحد کشمیری کتاب ہے جو اپنی صحیح حالت میں زمانے کے دستبرد سے محفوظ رہی ہے ۔اس کا مصنف شتی کنٹھ ہے کشمیری زبان کے محقق جارج گریسن کا خیال ہے کہ مصنف نے یہ کتاب پندرھویں صدی میں تحریر کی تھی لیکن پروفیسر حاجنی صاحب اسے تیرھویں صدی کی تصنیف سمجھتے ہیں۔اس کتاب میں شیو مت فلسفہ بیان کیاگیا ہے اور شاردارسم الخط میں اسے لکھاگیا ہے ۔اس کتاب کا آخری شعریہ ہے ۔
پأوِت یہ کموَ پیوس پساوے شِتہ کنٹھس گتہ زمہ کِتاتھو
تینہ مہ مہجن کھلہ تمہ سادے تے مارادے ۔مہتے پرماتھو
کشمیری میں ،فعلِ حال کے لئے چُھوبا اس کے مشتق استعمال کئے جاتے ہیں لیکن کشتواڑی کشمیری تُھو۔ شتی کنٹھ نے بھی تھو استعمال کیا ہے ۔اس سے کشتواڑی اور قدیم کشمیری جس پر سنسکرت سایہ فگن تھی ،کارشتہ ثابت ہوتاہے۔حاجنی صاحب صفحہ۱۳ پر لکھتے ہیں۔’’ لیکن کشتواڑ پر فارسی زبان کا اثر کم پڑا، اس لئے بہت سے وہ کشمیر ی الفاظ وہاں موجود رہےجنہیں یہاں (کشمیری )فارسی نے اپنے نیچے کچل دیا۔ علاو ہ ازیں بہت سے کشمیری الفاظ نے وقت کے ساتھ ساتھ دوسرا چہرہ بدل لیا ۔ مگر کشتواڑیوں نے پُرانا چہرہ ہی برقرار رکھا۔ مثلاً ہم کہتے ہیں۔’’وُنی پھاٹہ وَے کلہ‘‘ کشتواڑی اس جملے کو کہیں گے۔’’اُنئی ٹھانےَ شِیر‘‘غیر کشتواڑی کشمیری جب کشتواڑی زبان کو سُنے گا تو اُسے پورا مفہوم سمجھ میں نہیں آئے گا ۔وہ کشتواڑی کو کشمیری سے ملتی جلتی زبان تو سمجھ لے گا لیکن ایک ایسی زبان جس پر اُسے عبور نہ ہو ۔حاجنی صاحب فرماتے ہیں:۔’’کشمیری میں بلاضرورت سنسکرت یافارسی استعمال کرنے کے علاوہ ہمار ی زبان نے لہجہ اور اسلوب میں بھی کچھ کچھ مقامی طور طریقوں کو اپنا لیا ہے ۔اس لئے کشتواڑ کی اورکشمیروالوں کی کشمیری سرینگر کی کشمیری سے سوفیصد نہیں ملتی۔‘‘ یہ خیال حقیقت پر مبنی ہے کشتواڑی سرینگر کی کشمیری آسانی کے ساتھ بول سکتے ہیں لیکن سرینگر کے کسی باشندے کے لئے کشتواڑی کشمیری کا بولنا مشکل ہے کیونکہ کشتواڑی میں ایسے الفاظ ہیں جنہیں اُس نے پہلے کبھی نہ سُنا ہوگا اور جن کا تلفظ اتنا دُرشت ہے کہ اس کی زبان اُس کا ساتھ نہ دے سکے گی جب تک مہینوں ریاضت نہ کرے ۔
ذیل میں کشتواڑی کے چند ایسے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں جو کشمیری سے مختلف ہیں ۔ یہ نمونہ مشتے از خراوارے ہے اور انتخاب میں باقاعدگی نہیں ہے ۔تحقیق کے لئے یہ میدان کھلا ہوا ہے ۔
کشتواڑی کشمیری کشتواڑی کشمیری
دپُن ونُن تھُو چھُو
کیاہو ہتہ سأ کتہِ گیاکھ کوت گِیاکھ
شُنڈ بُتھ پنہ ادہ
شیرہ تھِم ہُلن کلس چھوم دوٗد ہیگری صبحن
کیا بھئے کیابنی زہن مِژ
ژوڑے زِیون باأھِ پتر
پائیں آب منج ژوچ
ککڑی منج مکائی ژوچی وہرسُن بٹھور وُشکی بٹھور
گوں بٹھور کنک بٹھور ژاہ لسی
ژھیل ساوج گبؤ گبؤ
گبڑ کٹھ ہنٹھو پکِیو
کاکرِ لآر وومنگل پیشن چائے
ناہری ناشتہ زونڈ کنن
مکوئی مکژ ڈال کدالی
چھوڑ اخروٹ ،ڈون کوژک آنچہ
انکار ژوئین بسان بستر
لُٹ کلہ تھونس اَینگٹ
مازن لسُل مندری پتج
تئکالن شامک دخ
اگرچہ کشتواڑی پر فارسی زبان اثر نہ ڈال سکی ۔ لیکن ڈوگری کاکچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑا ہے ککڑی۔ کاکر مکوئی، بسان ،ترکالن وغیرہ الفاظ ہمارے خیال کی تائید کرتے ہیں ۔ مہاراجہ رنجیت دیو (۱۷۲۵ ء ) کے عہد میں کشتواڑ جموں کے تخت سے براہ راست وابستہ ہوگیاتھا اور کچھ عرصہ وہاں کے کار دار یہاں حکومت کرتے تھے ۔اس تعلق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈوگری زبان نے اتنا اثرو رسوخ حاصل کرلیاتھا کہ آخری کشتواڑی راجوں کے بہت سے فرمان اور پٹے ڈوگری میں لکھے ہوئے ہیں ۔ ناگر پنڈت ، جلا پروہت جو راجہ امولک سنگھ اور راجہ مہر سنگھ کے وزیر تھے۔ منگل سین جوراجہ سبحان سنگھ کا وزیر تھا۔ راجہ تیغ سنگھ کے وزیر جٹوگور ، کھوجہ بھونچہ وغیرہ نے جو پٹے لکھے ہیں وہ سب ڈوگری میں ہیں ۔ڈوگرہ حکومت کے قیام کے بعد یہ اثر و رسوخ اور بھی بڑھا ۔مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد میں دفتری زبان ڈوگرہ رہی ۔ڈوگری میں تاجرانہ حسابوکتاب رکھنا قدرے آسان ہے ۔ مسلمان فارسی میں خط و کتابت کرتے تھے لیکن حساب وکتاب ڈوگری اعداد میں رکھتے تھے ۔رفتہ رفتہ عام کشتواڑی اور اپنی علاقائی زبانوں کے علاوہ ڈوگری بھی بولنے لگے۔ہر ماحول اپنے باشندوں پر اثر ڈالتا ہے اور اپنے مخصوص رنگ میں انہیں رنگ لیتا ہے ۔ یہی مخصوص رنگ کسی خطے کی تہذیب و تمدن کی نشاندہی کرتاہے کشمیر میں کشمیری پھرن یا پیراہن پہنتے ہیں، گول ٹوپی سر کی زینت بناتے ہیں اور چاول خور ہیں ۔ان کے مکان سلامی دار اور کئی منزلہ ہوتے ہیں ۔ لیکن یہی کشمیری جب ہجرت کرکے کشتواڑ میں آباد ہوئے تو پھرن کی جگہ کرتے یاانگرکھے نے لے لی ۔ گول ٹوپی سروں سے غائب ہوگئی اور اُس کے بجائے لداخیوں کی وضع کی کنٹوپ سروں پر دکھائی دینے لگی ۔ چاول صرف تہواروں اور بیاہ شادی کی تقریبوں میں استعمال ہونے لگے ۔ مکئی کی روٹی یا جو کے خمیرے دو وقت استعمال کئے جانے لگے اور سلامی دار کئی منزلہ مکان غائب ہوکر صرف چوڑی چھتوں کے کوٹھے رہ گئے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کی زبان کشمیری رہی لیکن اس کے لب و لہجہ میں بھی فرق آگیا ۔ بوڈ ہیو لڑکہ کے بجائے بوڈہیوبوکت(بڑالڑکا) کہنے لگے ۔رہنے سہنے اور کھانے پینے کے معاملے میں کشتواڑی کشمیر کی بہ نسبت اپنے جنوب کے خطوں سے متاثر رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیر کو راجہ کشتواڑ کا لباس اہلِ ہند کی طرح معلوم ہوا۔کشتواڑیوں کے ذہن کی تشکیل میں مختلف اور متضاد عناصر نے کام کیا ہے ۔زبان کشمیری ہے ،مقامی تہوار جنہیں جاترہ کہاجاتا تھا ۔عام طور پرموسمی تہوار تھے ۔ بہادون سے اسوج تک جگہ جگہ یہ میلے لگے تھے ۔ ہٹہ کے گاؤں میں جہاں دیوی اشٹ بھوجہ کامندر ہے سب سے پہلی جاترہ منعقد ہوتی تھی ۔یاترہ میں پروگرام پیش کرنے والے نقال اور بھانڈ مسلمان ہوتے تھے ۔ ممکن ہے مسلمانوں کی آمد سے پہلے کوئی دوسرا فرقہ یہ کام کرتاہو ۔ جاترہ مندر سری نیل کنٹھ کے سامنے ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ حضرت اسرار الدین اور حضرت فرید الدین رحمۃ اﷲ علیہم کے مزاروں پر بھی منعقد ہوتی تھیں۔چوگان کے وسط میں کٹک جاترہ کامیلہ ہوتا تھا ۔ جس میں ہاتھی کی شکل بنائی جاتی تھی ۔یہ جاترہ بسوہلی کے راجہ کی شکست کی یاد گار کے طور پرمنائی جاتی تھی ۔علاوہ ناچ او رگانے کے اس جاترہ میں بھیڈووں کا مقابلہ ہوتا تھا اور جوبھیڈوزبردست ٹکر مار کر اپنے حریف کو بھگا دیتاتھا ۔ وہ جیت جاتا تھا اور مالک کی تعریف ہوتی تھی ۔ پھاگن کے مہینے میں سدھان ، ساتن، کاکل اور نکاس نام کے نو تہوار مقرر تھے ۔ پہلے نکاس تک عورتیں گھر سے باہر قدم نہیں نکالتی تھیں ۔ یہ تہوار دوسدھان ، ایک ساتھن ،تین کاکل اور تین نکاس کے دنوں پر مشتمل تھے ۔ ایک رسم بھوم جہوائی تھی۔ اس رسم کے مطابق اپنے اپنے کھیتوں میں کوئی چیز بڑے تھال میں پکا کرلے جاتے تھے اور بچوں میں تقسیم کردیتے تھے اور ایک نوکدار لکڑی کو جس پر اون ، کمول ، نرگس کے پھول اور پھلدار درختوں کے پتے لپیٹے ہوتے تھے ۔کھیت میں گاڑ دیتے تھے۔ یہ تہوار بھی موسمی تھے جو موسم سرما کے خاتمہ پر اور زمین کونئی فصل کے لئے تیار کرنے کے موقع پر منائے جاتے تھے ۔ یہ سب تہوار مقامی روایتوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ کشتواڑیوں کاقدیم لباس اونی ہوتا تھا۔ عورتیں اون کی ایک لمبی چادر جسم پر اوڑھتی تھیں جسے لمبی لمبی سوئیوں سے اٹکا لیاجاتاتھا۔ یہ لباس بڑی حد تک وادی کانگڑہ کے لوگوں سے ملتا جلتا تھا ۔ یہ عوام کے لباس کی بات ہے ورنہ خواص وقت کے فیشن سے مُتاثر رہتے تھے جو کشمیر اور جموں سے درآمد ہوتاتھا۔دراصل اہل کشتواڑ کی نمایاں خصوصیات مذہبی رواداری، انسانی بھائی چارہ ،صداقت شعاری اور حق پرستی رہی ہیں ۔اُن میں کشمیریوں کی فہم وزکاء ، ڈوگروں کی بے خوفی اور دلیری اور پہاڑی باشندوں کی جفاکشی اور قناعت پسندی پائی جاتی ہے ۔ مجموعی حیثیت میں وہ امن پسند ہیں بشرطیکہ اُن کی غیرت اور خودداری کو للکارا نہ جائے ۔وہ کشتواڑ پرستی اور مقامی حب الوطنی کے جذبہ سے سر شار رہے ہیں ۔وطن کے نام پر انہوں نے مغل شہنشاہیت سے ٹکر لی اور مغلوب ہوجانے پر جب بھی موقع ملا ،علم بغاوت بلند کیا۔چونکہ انیسویں صدی تک کشتواڑ کی اپنی ریاست قائم رہی ، اس لئے اُن کے کردار میں دوہری شخصیت ،منافقت ،مکاری اور شخصی مفاد پرستی کی وہ برائیاں پیدا نہیں ہوئیں جو ایسی قوم اور افراد میں پیداہوجاتی ہیں جو صدیوں تک غلامی استبداد اور مظلومیت کاشکار رہی ہوں اور جہاں ذاتی تحفظ و اقتدار ہی فلسفہ حیات بن چکاہو ۔ کشتواڑیوں نے اپنی تاریخ میں دو ہی راستے اپنائے ہیں ۔ مخالفت کی ہے تو اپنی پوری طاقت کے ساتھ اور حمایت میں کمر باندھی ہے تو پورے اخلاص اور وفا کے ساتھ ۔ ایک زبردستبغاوت کے بعد جب مہاراجہ گلاب سنگھ کا حلقہ اطاعت قبول کیا تو پھر مہاراجہ کے وزیر زورآور سنگھ کلہوریہ کے جھنڈے تلے لداخ،اسکردو او رپوریگ تک اپنی شجاعت ،سرفروشی اور نمک حلالی کا ڈنکہ بجاآئے۔کشتواڑ کی تاریخ میں جاگیرداریت کا دورہ دورہ رہاہے ،اس لئے حکمران خاندان اور اُس سے وابستہ سردار خوشحال رہے اور زندگی کی آسائشوں کا لطف اُٹھاتے رہے لیکن عوام پسماندہ ، مفلوک الحال اور ضعیف الاعتقاد رہے ،یہ ضعیف الاعتقادی اور اوہام پرستی کا نتیجہ ہے کہ کشتواڑ خاص اور علاقہ جات میں ڈینوں witches اور اُن کا تدارک کرنے والے’’ باروالوں‘‘ کا طوطی بولتارہا۔ کشتواڑ تو کشتواڑ وائن نے اپنے سفر نامہ میں جبکہ جنوری۱۹۳۹ ء میں وہ بھدرواہ پہنچا تھا ، بھدرواہ میں ایک ڈین کی گرفتاری کاحال درج کیا ہے ۔ انگلستان میں ولیم شکسپئر کے عہد میں ڈینوں کا جوزور و شور تھا وہ ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقوں میں انیسویں صدی تک جاری رہا۔اقتصادی حالت:۔جاگیر داریت اور راج شاہی میں عوام کی معاشی بہبودی اور خوشحالی کے امکانات تاریک رہے ہیں۔ظلم و ستم کے اس دور میں زندہ رہنا بڑی نعمت سمجھا جاتا تھا ۔ اگر راجہ انصاف پسند اور رعایا نواز ہوا تو عوام آرام کا سانس لیتے تھے اور ان کی زندگی کے ٹمٹماتے دئے جلتے رہتے تھے ورنہ خانہ جنگیوں اور لوٹ کھسوٹ کی قیامتیں ان پر اکثر ٹوٹتی رہتی تھیں۔اقتصادی لحاظ سے اہلِ کشتواڑ کادرجہ زیادہ بلند نہیں تھالیکن غذائی لحاظ سے وہ خود کفیل تھے ۔دراصل ماضی میں موجود تحصیل کشتواڑ چراگاہوں سے بھر پور اور مال مویشی سے معمور تھی ۔ آبادی کم تھی ، مزروعہ رقبہ کافی تھا۔ اراضی زرخیز تھی خشک سالی کی موجودہ تباہی نہیں تھی ۔ جنگلوں کی شادابی سے بارشیں خوب ہوتی تھیں ۔ اس لئے زرعی پیداوار کی افراط تھی۔ تاریخِ کشمیر میں درج ہے کہ کشتواڑ سے اکثر غلہ درآمد کیاگیا ۔ جب کبھی کشمیرمیں تباہ کن قحط پڑتا تھا توضلع اننت ناگ کے سرحدی دیہات کے باشندے کشتواڑمیں پناہ لیتے تھے ۔ چھاترو، دربیل اور مڑواہ کے باشندوں کی بیشتر آبادی ایسے خاندانوں پر مشتمل ہے جو قحط سالی میں کشمیر سے بھاگ کر کشتواڑ کے ان علاقوں میں آباد ہوگئے ۔ ظاہر ہے کہ کشتواڑ کی غذائی حالت اطمینان بخش نہ ہوتی تو کشمیر کے مہاجر یہاں آخر مستقل طور پر آباد نہ ہوتے لیکن جوں جوں آبادیبڑھتی گئی اور زمین اپنی زرخیزی کم کرتی گئی ۔ کشتواڑ ،خوراک کی کمی کا علاقہ بنتا گیا۔تحصیل ۱۸۰۶۷۲۰ ایکڑ یا ۲۸۲۳ مربع میلوں پر مشتمل ہے ۔ بندوبست نے ۴۱۴۲۰۱ ایکڑ یا ۶۴۷ مربع میلوں کی پیمائش کی تھی۔ اس تحصیل میں قابل کاشت رقبہ ۵۰ مربع میل ہے ۔ دیہات کی موجودہ تعداد ۱۵۶ ہے۔اس وقت زیر کاشت رقبہ تخمیناً ڈیوڑھا ہوگیا ہے ۔خصوصاً زیادہ خوراک پیدا کرو‘‘ اسکیم کے تحت نہ صرف قابل کاشت بلکہ آبادی سے ملحقہ چراگاہوں کا بیشتر رقبہ بھی آبادکرلیاگیاہے۔جس قدر بھی بندوبست عمل میں لائے گئے ، اگرچہ اُن سے شرحِ لگان میں تدریجاً اضافہ ہوتاگیالیکن ان تبدیلیوں کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کاشتکار اور زمینداروں کے حقوق متعین ہوگئے ،زمینوں کا مالیہ اور اُن کی حدود مقر ر ہوگئیں او راس قسم کاامکان کم ہوگیا کہ لاٹھی والا بھینس کامالک ہوگا۔ راجاؤں کے وقت میں راجہ کی خوشنودی پر زمین کی ملکیت برقرار رہتی تھی او رشاہانہ مزاج میں تلون کے ساتھ ساتھ ملکیت بھی بدلتی رہتی تھی ۔ امیروں اور جاگیرداروں کی جاگیریں اکثر تبدیلی اور کم و بیش ہوتی رہتی تھیں ۔ غریب کاشتکار تو کسی شمار و قطار ہی میں نہ تھا ۔ آخری بندوبست کے بعد عام کسان کم از کم یہ محسوس کرنے لگا کہ جس کھیت پر وہ اپنا خون پسینہ بہاتا ہے اُسے کوئی جابر و ظالم محض اپنا ہاتھ طاقتور ہونے کے سبب نہیں چھین سکتا ۔اس کی اقتصادی حالت میں بھی قدرے بہتر ی پیدا ہوئی او رکہیں کہیں اس کے بچے مولوی صاحبان ، مکتبوں ، پاٹھ شالوں اور سرکاری اسکولوں میں پڑھنے لگے دراصل تحفظِ ذات ہی ایک ایسی نعمت ہے جو شخصی حکومتوں اور جاگیدارانہ نظام میں عام نہ تھی ۔ راجگانِ کشتواڑ کے عہدمیں صرف دو ہی طبقے اس وقت کےء سماج میں پائے جاتے تھے ۔ یعنی طبقۂ اعلیٰ اور طبقۂ ادنےٰ ۔درمیانہ طبقہ بالکل نہ تھا۔خاص و عام کی ترکیب اُسی وقت کی یاد گار ہے ۔خاص میں جاگیردار،مصاحب ،منصبدار اورفوجی سردار تھے ، عام میں کسان ،مزدور ،کاریگر اور تاجر وغیرہ تھے ۔
اگرچہ ڈوگرہ حکومت بھی شخصی حکومت تھی لیکن مہاراجہ گلاب سنگھ کے ابتدائی قبضۂ کشتواڑ کے ایام کو چھوڑ کر نسبتاً باقی عرصہ عوام کے لئے بہتر تھاکیونکہ شعبہ جات مال ،پولیس ، جنگلات ، تعلیم تعمیراتِعامہ وغیرہ منظم ہوچکے تھے اور مقامی حاکم وقت تک ایک عام آدمی کی رسائی ممکن ہوچکی تھی ۔ صرف ایک نمایاں تبدیلی محسوس کی گئی اور وہ تھی غلے کی پیداوار میں کمی ، دراصل امن و امان کے مستقل ہوجانے سے عام آبادی میں اضافہ ہوا ۔ جنگلات کاکچھ حصہ ختم ہوجانے سے سالانہ بارش کی اوسط کم ہوگئی ۔دو ایک خوفناک قسم کے قحط پڑے ۔ مال مویشی کی کمی کے سبب زمین میں مناسب تعداد میں کھادکااستعمال نہ ہونے سے غلے کی عام پیداوار میں کمی واقع ہوئی اور کشتواڑ غلے کاخسارہ رکھنے والا علاقہ بن گیا۔عام آدمی کی عادتیں بھی بڑی حد تک بدل گئیں ۔ پرانے زمانے میں عام لوگ موٹاجھوٹا اناج خود کھاتے تھے اور اچھی قسم کاغلہ مثلاً چاول گندم فروخت کردیاکرتے تھے ۔چائے بالکل نہیں پیتے تھے ۔صرف دو وقت کھانا کھاتے تھے ۔ پہننے کے لئے گھروں میں لگی ہوئی کھڈیوں پر پٹو اور ادنیٰ کپڑے خود تیار کرلیاکرتے تھے اور بارہ مہینے گرم کپڑے پہنے رہتیے تھے ۔ آہستہ آہستہ پرانا طرزِ رہائش بدلتاگیا۔خاص تو خاص دور افتادہ دیہات میں رہنے والے عوام بھی دو وقت چائے پینے لگے۔ گرمیوں میں پٹو کے کپڑوں کی جگہ سوتی کپڑے پہننے لگے، گھروں میں چوب چراغ کی جگہ مٹی کاتیل جلنے لگا، چاول زیادہ کھائے جانے لگے جبکہ و ہ خاص خاص تہواروں ہی پر کھائے جاتے تھے ۔ ان بدلتی ہوئی عادتوں نے نئی نسل کو اس قدر محنتی اور دقت پسند رہنے نہیں دیا جس قدر پڑانی نسل کے لوگ تھے۔راجاؤں کے وقت میں جو مقامی صنعتیں تھیں وہ سرپرست نہ ہونے کے سبب ختم ہوگئیں ۔ کشتواڑ جموں سے ۱۴۰ میل کے فاصلے پر ہے۔ ذرایع آمد ورفت مشکل تھے ۔یہ بھی ممکن نہ تھا کہ مقامی صنعتیں جموں کی صنعتوں سے مقابلہ کرکے بازی لے جاتیں کیونکہ بار برداری کے اخراجات ہی اس قدر زیادہ ہوتے تھے کہ وہ مارکیٹ میں مہنگی پڑتی تھیں۔ ۱۹۵۶ ء سے پہلے بس سروس جموں سے ٹھاٹھری تک شروع ہوچکی تھی۔ ٹھاٹھری سے کشتواڑ صرف پندرہ میل ہے جبکہ جموں سے ٹھاٹھری ۱۲۵ میل کی مسافت پر ہے ۔ ۱۲۵ میل کا لاری کا فی من کرایہ اڑھائی روپے من تھا او رٹھاٹھری سے کشتواڑ تک ۱۵ میل کا پانچ روپے من
سڑکوں کا جال:۱۹۶۲ ء سے باقاعدہ جموں کشتواڑ بس سروس شرو ع ہوئی ۔اس وقت حسب ذیل موٹر روڈز زیر تعمیر ہیں اور جن کی تکمیل سے یقیناًعام آبادی کوفائدہ پہنچے گا۔
حرفِ آخر: تاریخ کشتواڑ ایک قرض تھا جو میں پچھلے دس برس سے اُتارنے کی کوشش کررہاتھا۔ مجھے مسرت ہے کہ اپنی زندگی کی بہترین پیشکش یہی کام ہے جسے کچھ حد تک مکمل کرسکاہوں ،تاریخ ایک عمل ہے جو جاری رہتا ہے اور جس کی تکمیل کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور ہر تاریخ تالیف پر اس کے مولف کے ذاتی ،اعتقادات و خیالات کی ہلکی یا گہری چھاپ پڑتی ہے ۔ تاریخ کشتواڑ کے اس لئے بہت سے گوشے دعوتِ تحقیق دیتے رہے ہیں نہ معلوم اس چمن میں ابھی کتنے بلبل نغمہ سرا ہوں گے ۔
حرفِ آخر کے بعد اعتراف کے عنوان سے مہتہ اوم پرکاش مرکزی وزیر اور ریاست کی اکادمی کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا ہے ۔
اعتراف: شکر گزار ہوں جناب مہتہ اوم پرکاش کا جنہوں نے اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود تاریخ کشتواڑ کے تعلق میں میری ہمیشہ حوصلہ افزائی فرمائی ۔ اگر ان کی عنایت شامل حال نہ ہوتی تو یہ تالیف منصہ شہود پر جلوہ نما نہ ہوئی ہوتی۔ ریاست کی اکادمی برائے کلچر اور زبان کا شکریہ گزار ہوں کہ اس نے تاریخ کشتواڑ کے اس صبر آزما کام کے لئے مجھے پونے دو صد روپے کی نقد امداد عطا فرماکر تاریخ نوازی کا ثبوت دیا۔
کثیر خرچ کے مقابلے میں حقیر امدادی رقم کی اہمیت اس لئے ہے کہ اکادمی کے ارباب اختیار چند برس تک میعادِ اشاعت میں توسیع دیتے رہے ۔ ان تمام حضرات کا بھی شکر گذار ہوں جنہوں نے کسی نہ کسی صورت میں اس کتاب کی تالیف میں میری رہنما ئی فرمائی۔
تاریخ کے شروع میں فیض احمد فیضؔ کے شعر میں ترمیم کرکے یوں لکھا گیا ہے
نثار میں تیرے گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلے وہ رسم کہ سب سر اُٹھاکے چلیں
اس شعر کے بعد موٹے حروف میں تاریخ کشتواڑ(ایک تقابلی مقابلہ)درج ہے پھر
’’مرتبہ ‘‘ عشرت کاشمیری ملنے کاپتہ ،مکتہ چاند جموںعشرتؔ کاشمیری کشتواڑ( جموں)سابق ممبر اسمبلی
قیمت ۳ روپے۔ مارچ ۱۹۷۳ ء کتبہ سید نور الدین
لیکن کتاب کے کور پر چار روپے درج ہے ۔
دوسرے صفحے پر انتساب سے پہلے یہ شعر درج ہے ۔
تمہاری ذات سے وابستہ اپنے خواب رہے
تمہارے فیض سے ہر سو کِھلے گلاب رہے
انتساب : میں یہ عبارت درج ہے۔
ماضی میں عظیم کشتواڑی مہتہ منگل نے نہ صرف کشتواڑ کے رستے زخموں پر ہمدردی اور عنایت کا مرہم لگایا بلکہ لداخ میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئے کہ اب تک اہل لداخ اس کی یاد میں سر عقیدت خم کرتے ہیں اور آج اسی مہتہ منگل کا پڑپوتا اور بلند مرتبت کشتواڑی اوم مہتہ اس پسماندہ دور افتادہ اور فلاکت زدہ دیار کے لئے عظیم اور تعمیری خدمات بجا لارہاہے ۔
اہل لداخ نے مہتہ منگل کے حضور میں سر جھکایا اور میں اہل کشتواڑ کی جانب سے جناب اوم مہتہ کی بار گاہ میں یہ قلمی نذارانہ پیش کرتاہوں۔
اگلے صفحے پر اوم مہتہ کی رنگین تصویر ہے جس کے نیچے انگریزی میں یہ حروف ہیں۔
Hon'ble Mehata,State Minister for Parliamentary Affairs and Housing Govt. of India
پیشِ لفظ جو حرف’’ض‘‘ پر ختم ہوتا ہے کُل اٹھائیس صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے بعد تاریخ کشتواڑشروع ہوتی ہے جو باب اول سے شروع ہوکر باب ہفتم صفحہ ۱۴۲ ء پر ختم ہوتی ہے ۔ صفحہ نمبر۱۴۳ پر کتب نما کے عنوان سے تاریخ کشتواڑ کی تیاری میں جن کتب سے مدد لی گئی اُس کا ذکر حسب ذیل ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کشتواڑ
پروفیسر فداؔ حسنین کی نظر میںپروفیسر فدا محمد حسنین نے عشرت کاشمیری کی تاریخ کشتواڑ کااس طرح جائزہ پیش کیا ہے ۔ عشرتؔ کشتواڑ کے رہنے والے تھے اور انہیں اس علاقے کے ساتھ انتہائی محبت تھی ۔وہ ادیب اور شاعر بھی تھے ۔ انھیں تمنا تھی کہ کشتواڑ کی تاریخ لکھی جاسکے۔ ظاہر ہے مصنف نے یہ تاریخ ٹھوس بنیادوں پر قلمبند کی ہے اور اس پر ان کے دلی جذبات کا گہرا اثر رہاہے ۔ کشتواڑ کے ساتھ جو مصنف کو لگاؤ پیدا ہوگیا تھا ،اسی نے انہیں کشتواڑ سے متعلق تحقیق کرنے کی تحریک دی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے کچھ ایسے معلومات بہم پہنچائے جو سنگ میل کی حیثیت رکھتے تھے ۔ مشہور بدھ عالم ناگسین کے بارے مین اس کی رائے یہ ہے کہ وہ کشتواڑ کا رہنے والا تھا ۔ بطورِ ثبوت وہ کہتا ہے کہ آج بھی کشتواڑ میں ایک ایساعلاقہ ہے جس کانام ’’ناگسون ‘‘ یا ناگ سین ہے۔
مذکورہ علاقے کی وجہ تسمیہ مشہور بدھ عالم ناگسین ہے ۔ کشمیر کی طرح کشتواڑ میں بھی بدھ مت عروج پر رہاہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کشمیر میں بدھ مت کے ماننے والوں پر ظلم و ستم بڑھنے لگے تو وہ شیو مت کے پیرو کاروں سے دور بھاگ کر پہاڑوں کی طرف چلے گئے ۔ کشتواڑ،لولاب ،اور دیگر ملحقہعلاقے بدھ مت کے پیروکاروں کی پناہ گاہ بنے ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قحط اور دوسرے آفات کے دوران کشمیری کشتواڑ میں پناہ لیتے تھے ۔’’ملہندہ پنہ‘‘ کے کشمیری میں لکھے جانے کی روایت موجود ہے اور منیندر کی حکومت میں قندہار کا سارا علاقہ پنجاب ، سنگھ اور کاٹھیاواڑ بھی اس کے ساتھ شامل تھے ۔اس طرح ناگسین کے بارے میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ وہ کشمیر ی تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کشتواڑی باشندہ ہو ۔ کیونکہ کشتواڑی زبان کشمیری زبان کا قدیم روپ ہے ۔ عشرتؔ کاشمیری نے کشتواڑ کے ساتھ محبت میں اور بھی دریافت کی ہے ۔ یعنی آگ پر رقص کرنا ۔ اٹھارہ بھوجہ والی دیوی کے استھان پر منعقد کی جانے والی ایک تقریب کے موقع پر آگ کے انگاروں پر ناچنا ۔ایسا یونان کے رقاص بھی کرتے تھے ۔ ممکن ہے سکندر اعظم کے واپس جانے کے بعد جب کشمیر اور کشتواڑ میں یونانی شہزادوں کی حکومت قائم ہوئی تو اُسی زمانے میں شاید اس ناچ کا رواج ہوا ہوگا۔مگر عشرتؔ کاشمیری کی کاوش قابل داد ہے جس نے تاریخی معلومات ہم تک پہنچائیں ۔اسی طرح اس نے کشتواڑ کے جنرل مہتہ منگل اور مہتہ بستی رام کابھی ذکر کیا ہے ۔ چونکہ مرحوم عشرتؔ کو ادب اور شاعری سے بھی کافی رغبت تھی ۔اس لئے ان کی تاریخ میں تاریخ کے علاوہ ادبیت کا رنگ بھی جھلکتا ہے ۔ عشرتؔ صاحب نے تاریخی واقعات پر اپنا اثر ڈالا ہے ۔ جس سے اس میں او ر بھی چاشنی پیدا ہوتی ہے ۔ اس لحاظ سے یہ کتاب لکھنے کے لئے دلچسپ کتابوں کی مدد حاصل کرکے تاریخ کشتواڑ کو ایک مستند تاریخ بنانے کی کوشش فرمائی ہے ۔ جس میں کچھ حد تک کامیاب بھی رہے ہیں ۔ کشتواڑ کی تاریخ پریہ اہم کوشش ہے ۔ لہذا اس کی تعریف بھی ضروری محسوس ہوتی ہے ۔ خاص کر یہ کتاب ایک ادیب نے تحریر کی ہے ۔ کسی تاریخ دان نے نہیں ۔ پھر بھی عشرت نے کوشش کی ہے کہ یہ تاریخ مکمل بن جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری ذات سے وابستہ اپنے خواب رہے
تمہارے فیض سے ہر سوکھلے گلاب رہے
( انتساب )
ماضی میں عظیم کشتواڑی مہتہ منگل نے نہ صرف کشتواڑ کے رِستے زخموں پر ہمدردی اور عنایت کا مرہم لگایا بلکہ لداخ میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئے کہ اب تک اہل لداخ اس کی یاد میں سرِعقیدت خم کرتے ہیں اور آج اسی مہتہ منگل کا پڑپوتا اور بلندمرتبت کشتواڑی اوم مہتہ اس پسماندہ ، دور افتادہ اور فلاکت زدہ دیار کے لئے عظیم اور تعمیری خدمات بجالارہاہے ۔ اہلِ لداخ نے مہتہ منگل کے حضور میں سرجھکایا اور میں اہل کشتواڑ کی جانب سے جناب اوم مہتہ کی بارگاہ میں یہ قلمی نذرانہ پیش کرتاہوں ۔
عقیدت کیش
عشرتؔ کاشمیری
کشتواڑکی خوبصورت وادی سطح سمندر سے ۵۳۰۰ فٹ بلند ہے ۔اس کا طول بلد مرقی ۴۶ء۷۵ درجے اور عرض بلد۱۸ء۳۳ درجے شمالی ہے ۔ آب و ہوا گرمیوں میں خوشگوار اور سرما میں سرد ہے۔ خاص کشتوار میں تیز اور تند ہوا چلتی ہے ۔ جو سردیوں میں ناقابل برداشت اور گرمیوں میں دھوپ کی حدّت کو اعتدال پر لاتی ہے ۔ مجموعی طور پر آب و ہوا صحت افزا ہے ۔
بحالتِ موجودہ تحصیل کشتواڑ ریاست کے تمام ضلعوں میں ماسوائے اضلاع لداخ ڈوڈہ بلحاظ رقبہ سب سے بڑہی تحصیل ہے ۔ ضلع ڈوڈہ کا کل رقبہ ۲ء۴۳۸۰ مربع میل ہے اور کشتواڑ تحصیل کا رقبہ ۹ء۳۰۱۶ مربع میل ہے ،تحصیل کشتواڑ شمال مشرق میں ہماچل پردیش ، شمال میں کشمیر ، مغرب میں ڈوڈہ اور جنوب میں تحصیل بھدرواہ سے ملتی ہے ۔ کل آبادی ۹۲۰۰۰ نفوس پر مشتمل ہے۔قدیم ریاست کشتواڑ میں تحصیلات ڈوڈہ ماسوائے مرمت اور رام بن کے علاقے شامل تھے ۔ضلع ڈوڈہ کی اس وقت کل آبادی ۲۶۸۴۰۳ ہے جبکہ قدیم ریاست کشتواڑ کی آبادی حسب ذیل ہے:
تحصیل کشتواڑ ۹۲۰۰۰
تحصیل ڈوڈہ ۵۴۱۸۰( تحصیل ڈوڈہ بشمول مرمت ۵۸۳۸۶ آبادی رکھتی ہے)
تحصیل رام بن ۷۱۲۲۶(تحصیل رام بن کی بشمول بٹوت ۷۳۶۴۸ آبادی ہے)
میزان کل ۲۱۷۴۰۶
گویا آج اگر ریاست کشتواڑ برقرار ہوتی تو دو لاکھ آبادی کا ایک راجواڑہ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیر نے اپنی تزک میں راجۂ کشتواڑ کو زمیندار پٹہ کشتواڑ لکھاہے ۔
معدنی لحاظ سے تحصیل کشتواڑ کے سینے میں بیش قیمت خزانے دفن ہیں ۔ ابرق، سیسہ، جپسم اور نیلم منظر عام پر آچکے ہیں اور دوسری پوشیدہ دولت کا سراغ ابھی تک نہیں لگایاگیا ہے ۔ پہاڑوں کی
ھلانوں میں چیل، پرتل ، دیودار او ردیگر عمارتی لکڑی کے جنگلات لہلہاتے ہیں ۔ ان جنگلوں میں ہر قسم کا چھوٹا بڑا شکار پایاجاتا ہے ۔ چنانچہ آج سے پچاس سال اوپر بھی انگریز شکاری دشوار گزار راستوں کو طے کرکے اندرونی علاقوں میں شکار کھیلنے آیا کرتے تھے ۔ ایک بدقسمت فرنگی شکاری کسی حادثہ کا شکار ہوکر خاص کشتواڑ میں دفن کیاگیا تھا ۔ قدیم زمانہ میں کشتواڑ کی طرف مغلوں اور کشمیری تاجداروں کو جو خراج دیاجاتا تھا ۔اس میں بازاور جرہ پرندے بھی شامل ہوتے۔ ایسے علاقے بہت کم ہیں جہاں آبپاشی کا خاطر خواہ انتظام ہوتا ہو۔اس لئے زیادہ تر پیداوار مکئی،جو گندم اور دالوں کی ہے ۔
کشتواڑی۔ کشمیر کی ہمسایگی نے نہ صرف تاریخ کے دھارے موڑے ہیں اور کشتواڑ کی ملکی سیاست کو زیر و زبر رکھا ہے بلکہ روایتوں میں بھی یکسانی پیدا کی ہے۔مثلاً کشمیر کے متعلق مہاراجہ گلاب سنگھ کے مصنف پنڈت سالگرام کول لکھتے ہیں ’’روایت ہے کہ جس وقت کشمیر کی سر زمین ایک جھیل کی حالت میں بلند کوہستان کی چوٹیوں تک پانی اور برف سے پُر ہوکر ’’ستی سر‘‘ کے نام سے ملقب تھی اُس وقت کیشب جی کشتواڑ میں بھی رہتے تھے اور یہاں ہی سے کشمیر کی طرف بڑھ کر اور کوثر ناگ کے پہاڑ پر بیٹھکر جھیل مذکور کاپانی نکالنے کے واسطے انہوں نے تپسیا کرنا شروع کی ۔ کیشب جی کا گذر چوں کہ پہلے کشتواڑ میں ہوا،اس واسطے اس سر زمین کانام کیشب وار یعنی کیشب جی کے رہنے کی جگہ پڑا۔‘‘
روایتوں نے کشمیر کی طرح کشتواڑ کو بھی جھیل کے شکم سے جنم دیاہے ۔ کشمیر میں وتستہ( جہلم) اور کشتواڑ میں چندربھاگا،وہاں ستی سر اور یہاں وسیع جھیل۔ ایک ہی کہانی کے دو روپ ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر میں جب ناگا برسر اقتدار آئے تو اُن کی ایک جماعت نے کشتواڑ کو بھی اپنے زیر نگین کیا ۔ چنانچہ ایسے متعداد مقامات ہیں جن کے ساتھ ناگ وابستہ ہے ۔ مثلاً ناگ ایشور ، گودرش ناگ ، کانی ناگ، گمانی ناگ ، ڈامر ناگ اور ناگ سین ، ناگاؤں کی تہذیب و تمدن کے دیئے ایسے بجھے کہ روشنی کی ایک کرن بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ صرف بیشمار صدیوں کے چکر میں ناگ نام رہ گیا ہے ۔
ناگاؤں کے بعد آریائی نسل کے قبیلے ان پہاڑوں میںآئے اور انہوں نے حکمران ناگ قبیلوں کو
شکست دے کر دور افتادہ پہاڑی وادیوں میں بھگا دیا اور بچی کھچی آبادی کو مطیع کرلیا۔ رفتہ رفتہ دونوں قوموں کو وقت نے ایک رنگ میں رنگ دیا ۔ چنانچہ صدیاں بیت جانے پر بھی رنگ ونسل کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ اکثر خالص آریائی نقش سرخ و سپید چہروں پر دکھائی دیتے ہیں اور کہیں کہیں خاص طور پر دیہات میں گندمی رنگ کرخت چہرے ، چھوٹی آنکھیں ،موٹی ناک غیر آریائی نسل کی طرف ذہن کو منتقل کردیتے ہیں ۔ ’’کشتواڑ میں قلم اور بندوق کے ساتھ کے مصنف مسٹر آٹودوتھ فیلڈ نے صفحہ ۱۷ پر سنتھن بنگلہ کے چوکیدار کا تعارف کرانے کے بعد لکھا ہے ۔’’ میرے لئے شاید اس خوش باش اور وحشی شخص کی عجیب تر چیز یہ تھی کہ وہ کس درجہ خلافِ امید ہندوستانی دکھائی دیتا تھا اور یہی حیرت مجھے دوسرے کشتواڑیوں کو دیکھ کر ہوئی ۔‘‘مصنف مذکور نے چوکیدار کا جو قلمی چہرہ بیان کیا ہے ۔وہ ایک مخلوط نسل کے فرد کا ہے ورنہ وہ اگر کسی سو فیصد کشتواڑی کو دیکھتے تو عش عش کر اُٹھتے اور اُنہیں اس کے چہرے پر سیاہی اور عجیب و غریب ناک نقشہ دکھائی نہ دیتا۔
جنگجو کشتواڑی:کشتواڑ کو کوئی کلہن نہیں ملا جو راج ترنگنی میں اُن کے کارنامے محفوظ کرتا اور اپنے شاعرانہ بیان سے روایتوں میں رنگینی پیدا کرتا اور اگر کوئی ہوا بھی ہو تو اُس کاکارنامہ دستبرد زمانہ سے نہیں بچا ہے ۔لیکن ایک حقیقت ظاہر ہے کہ شمالی اور وسطی ہند میں جو ں جوں انقلاب آتے گئے ۔وہاں کے جنگجو قبیلے امن و امان کی تلاش میں ان پہاڑوں میں وارد ہوتے گئے ۔آٹھویں دسویں صدی تک یہ سلسلہ جاری رہا،گوکشمیر سے سیاست وقت کے شکار ،جاگیرداریت کے مظلوم او رقحط سالی کے فاقہ کش مجبور اُنیسویں صدی تک کشتواڑ کی پناہ گاہ میں سکھ کا سانس لینے کے لئے آتے رہے۔
جو لوگ باہر سے آئے وہ زیادہ تر راجپوت اور ٹھکر تھے ،ان کے بعد ہریجنوں کی تعداد ہے اور سب سے کم براہمن فرقہ ہے ۔اس تعلق میں پاڈر کو مثال کے طور پیش کیاجاتاہے جہاں ٹھکرا ور ہریجن بیشتر تعداد میں ہیں اور براہمن بہت قلیل ہیں ۔یہ وہ خطہ ہے جو انقلابوں کی کم سے کم آماجگاہ رہاہے ۔
بہر حال ان جنگجو قبیلوں نے آزادی کی مشعل کو عرصۂ دراز تک روشن رکھا۔ اکبرِ اعظم نے کشمیر کو تو فتح کرلیاتھا لیکن کشتواڑ کو تابعِ فرمان بنانے کی حسرت اُسے بھی رہی۔درحالے کہ کشمیر کاآخری حکمران
اکبر کے جرنیلوں سے شکست کھا کر کشتواڑ میں پناہگزین ہواتھا اور یہاں سے بار بار کشمیر پر حملہ آور ہوتا تھا ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے نامور جرنیل وزیر زور آور سنگھ کلہوریہ نے جو کشتواڑ کے گورنر تھے۔اپنی مہم لداخ کی داغ بیل کشتواڑ میں ڈالی تھی ۔اُن کی فوج کے سرکردہ کمانداروں میں سابقہ مملکت کشتواڑ کے مہتہ بستی رام ،اوتم پڈیار ، وزیر کھوجہ بھونچہ،قطب شاہ ولد نور شاہ، دائم ملک اور ظفر لون ساکنان مڑواہ رانا ظالم سنگھ ساکن اڑنورہ (گھٹ ڈوڈہ) مرزارسول بیگ ساکن اُودیانپور(ڈوڈہ)وغیرہ شامل تھے۔ یہ جیالے فوجی نہ صرف جنگجو اور آزمودہ کار سپاہی تھے بلکہ ایک ایسے خطّے سے تعلق رکھتے تھے جوکامل فرقہ وارانہ اتحاد اور سیکولر فلسف�ۂ حیات رکھتاتھا ۔ یہاں یہ عرض کرنابھی بیجا نہ ہوگا کہ وزیر زورآور سنگھ کلہوریہ اچھے حکمران کی طرح جہاں شجاعت میں شیر تھا اور جنگی تدابیر میں بے نظیر تھا وہاں ملکی انتظام او رعام انتظامیہ میں سیکولر نظریہ رکھتاتھا ۔اُس نے اپنی فوج کے جہاں ہندو کمانداروں کو ان کی بہادری پر خصوصی انعامات سے نوازااور مہاراجہ گلاب سنگھ سے جاگیریں دلوائیں وہاں مسلم کمانداروں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک روا رکھا۔
خصوصی روایات: کشمیر کی طرح کشتواڑ بھی روادار اور اتحاد پر ور روایات کا علمبردار رہا۔ کشمیر میں تو مہر گل نے جوہن قوم سے تعلق رکھتا تھا بدھوں کو بے پناہ ظلم وستم کانشانہ بنایا ۔ چکوں کے عہدِ حکومت میں شیعوں اور سنیوں کے خوفناک فسادوں کی آگ بھڑکتی رہی ۔ لیکن کشتواڑ اس قسم کے مذہبی جنون سے آزاد رہا اور آج تک فرقہ وارانہ میل ملاپ کے جذبے سے کشتواڑ ی سرشار ہیں ۔رواداری اور احترام باہمی سے اُن کا ضمیر اٹھا ہے ۔
یہ عجیب بات ہے کہ کشتواڑ کی سرحدوں پر خاص طور پر شمالی سرحدوں پر کھاسلیہ کے راجپوت آباد تھے ۔ آج کھاسلیہ میں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں ہے ۔ کشمیر سے جابر و ظالم حکومتوں کے ستائے ہوئے ،قحط اور افلاس کے مارے ہوئے ان علاقوں میں جو ق در جوق آتے رہے اور فراخ دل راجپوت وقت کے ان مظلوموں کو آباد کرتے رہے اور پناہ دیتے رہے حتیٰ کہ مہمانوں کی تعدادمیزبانوں سے بڑھ گئی ۔ پاڈر میں مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وہ علاقہ انتہائی دشوار گذار اور دور دراز تھا ۔ کشمیرسے آنے والے وہاں تک نہ پہنچ سکے ۔ کشتواڑی راجے مسلمان ہونے کے باوجود مسلم و غیر مسلم رعایا سے یکساں سلوک کرتے تھے ۔ بلکہ راج دربار کے طور طریقے وہی تھے جو ہندو راجاؤں کے وقت میں رائج تھے ۔ مسلم راجے ہندووانہ اور اسلامی دونوں نام رکھتے تھے ۔مثلاً املوک سنگھ سعادتمند خان ، مہر سنگھ سعادتمند خان ، محمد تیغ سنگھ سیف اﷲ خان وغیرہ ، باقاعدہ پروہت مقرر تھے ۔ راجہ کی شادی کی تقریب یا کسی اور تقریب پر براہمنوں کو انعامات او رجاگیریں ملا کرتی تھیں ۔ ہندوؤں کے مذہبی مقامات کیلئے بھی جاگیریں وقف کی جاتی تھیں ۔ ایسے بیس پٹے ( فرمان) راقم کی نگاہ سے گذرے ہیں ۔جن میں براہمنوں کو مسلم راجاؤں نے اراضی بطور جاگیر عطا کی ہے ۔آخری تاجدارِ کشتواڑ راجہ محمد تیغ سنگھ نے اپنی حکومت کی طرف سے اپنی ریاست کے سرکردہ شہریوں ، حکومت کے ممتاز حاکموں اور مقدس مقامات کے لئے تیل اور تمباکو کا کوٹہ مقرر کیاتھا ۔ مقدس مقامات میں ہندو اور مسلمانوں کے متبرک آستانے اور ٹھاکر دوارے شامل تھے ۔
تیغ سنگھ کی حکومت کو ختم کرکے مہاراجہ گلاب سنگھ نے ریاستِ کشتواڑ کومہاراجہ رنجیت سنگھ کے نام پر جموں میں شامل کیا ۔اس وقت بھی اس روایت پرستی نے ایک او رمثال قائم کی تھی ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے خلاف سراج میں ایک زبردست بغاوت ہوئی یہ بغاوت راجہ محمد تیغ سنگھ کی حمایت میں تھی اور اس کا سرغنہ ایک ہندو راجپوت بھکم تھا۔ بھکم یا بکرم کے ساتھ سید محی الدین شاہ بھی علمِ بغاوت بلند کرنے میں شریک تھا۔مذہب:ضابطۂ اخلاق اور فلسفۂ حیات کانام مذہب ہے ۔وہ ہمدردی ، رحم ،عفو وکرم اور خدمت کے جذبات کو تحریک دیتاہے ۔ اہلِ کشتواڑ اس حقیقت پر عمل کرتے رہے کہ مذہب انسانیت کا معمار ہے ۔ قاتل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں مختلف مذہبی دور گزرے اورانقلاب آئے لیکن کشتواڑ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ نہ لگا اور اس سر زمین نے خاموشی سے وقت کی رفتارکو قبول کیا ۔ایک وقت تھا کہ ناگایاناگ قبیلے کشتواڑ میں آباد تھے ۔ پھر بدھ درھ م نے اپنی ہر دلعزیزی کے پرچم لہرائے ۔ کشتواڑ میںآج بھی موضع پوچھال کی طرح پتھر کے ستونMegalith پائے جاتے ہیں۔ پاڈر جہاں نیلم کی کانیں ہیں وہاں ابھی موضع کبن اور دیگر مقامات پر بدھ مت کے پیرو آباد ہیں ۔ مذہبی مقامات کی ساخت Stupa طرز کی ہے ۔پروفیسر غلام محی الدین حاجنی نے اپنی کتاب’’ ک�أشری شاعری‘‘ کے تعارف میں لکھا ہے کہ مشہور بدھ عالم ناگسین نے اپنی تصنیف ’’ملندہ پنہ‘‘ Malinda Panha کشتواڑ ی زبان میں سوال و جواب کے پیرایہ میں لکھی تھی جس کا ترجمہ پالی اور سنہالی میں بھی ہواتھا۔ پروفیسر صاحب کا قیاس ہے کہ ناگسین کشمیری تھا۔ اگر یہ قیاس درست ہے تو یہ بدھ عالم یقیناًکشتواڑی تھا او ل تو اس نے کشتواڑی میں اپنی کتاب لکھی اور دوسرے یہ کہ آج بھی کشتواڑ کے علاقے کانام ناگسون یا ناگسین ہے ۔ جناب S.Radhakrishnan بدھ مت کے ۲۵۰۰ سال میں لکھتے ہیں۔ہندی یونانی بادشاہ میناڈر بدھ مت کا بڑا سرپرست اور حامی تھا۔ میناڈرManader پالی کتاب مالندہ پنہ Malanda panha کے سوالات کے کرداروں میں سے ایک ہے ۔ اس کے (یونانی بادشاہ میناڈر) کے شکوک قابل احترام ناگسین نے دور کردئے تھے ۔میناڈر کی حکومت میں پشاور، کابل، کی بالائی وادی ،پنجاب ، سندھ ، کاٹھیاواڑ ،ایسا دور دراز علاقہ اس کی مملکت میں شامل تھے ۔ تو کشتواڑ نسبتاً ہمسائیگی میں تھا۔ ناگسین اور بادشاہ کی ملاقات کے تعلق میں S.Radhakrishna ایس رادھا کرشنا صاحب (۱)بیان فرماتے ہیں یہ ایک خوش کُن اتفاق تھا کہ ایک دن بدھ بادشاہ بدھ بکشو ناگسین نام کو دیکھا ۔ جو بکھشا مانگنے جارہاتھا ۔ اس کامیاب مقالمہ پر جو بادشاہ اور بکھشو کے درمیان ہوا ۔ ملندہ پنہ کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ جو ابتدائی بدھ مت کے پالی ادب کی بے حد قابل ذکر کتاب ہے اور جسے بدھ گوشاپانچویں صدی عیسوی میں پالی سکالر تھااس نے وسو دی مارگ کتاب لکھی ہے جسے بدھ گوش نے سند ماناہے اور تسلیم کیا ہے ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ جب کشمیر میں بدھوں کا ستارہ اقبال غروب ہوگیا اور مہایان فرقہ بھی اپنی کوششوں کے باوجود بدھ مت کے زوال کو نہ روک سکا ۔تو کشتواڑ میں بھی ہندو دھرم کا سکہ پھر سے جاری ہوگیا بلکہ کشمیر سے شیو فلسفہ کے عالم اس ریاست میں بھی آکر آباد ہوگئے اور انہوں نے علم و دانش کے چراغ روشن کئے۔ حکمرانوں کی طرف سے ،علماء و فضلاء کی قدر دانی بھی ہوتی رہی اور علم و ادب کے پرستاروں نے گوشۂ امن و عافیت میں بیٹھ کر تصنیف و تالیف کا شغل اختیار کیا ماضی کے یہ انمول خزانے بھی پورے طور پر دریافت نہیں ہوئے ہیں ورنہ کشتواڑ کے براہمنوں نے علم کے چمن میں جو پھول کھلائے تھے اُن کی خوشبو سے اہلِ نظر شادکام ہوتے۔سنگیت سنگرہ: کشتواڑ کے راجہ نریندر سین(۷۵۱۔۷۴۶ء) کے عہد میں یہ کتاب لکھی گئی ہے جو علم موسیقی سے تعلق رکھتی ہے ۔ کتاب کے مصنف شری وک ہیں ۔پورانام معلوم نہیں ہوسکا۔ قابل مصنف آغازِ کتاب میں بیان کرتا ہے ۔’’اورجوبھی علم موسیقی کے ماہر ہیں اُن سب کو پہلے نمسکار کرتاہوں اور کشتواڑ کے راجہ نریندر سین کی اجازت سے شغل کے لئے شری وک دلچسپ عنوانات سے اسی دلکش کتاب کو مزین کرتاہے ۔۔۔۔ اس میں ایسے نغمے ہیں جو رسیلے اور فطری ہیں اور اصلی راگوں سے ڈھالے گئے ہیں ۔اس کتاب میں تشبیہات و استعارات ہیں ۔۔۔کشتواڑ کی دھرتی کابڑا اندر جو نریندر سین نام کا ہے ۔اس کی جے جے کارہو۔‘‘امرکوش کی تشریحات:۔راج ترنگنی کے مترجم مسٹر ایم ۔اے سٹین جلد اول کے صفحہ ۴۷ پر لکھتے ہیں۔’’ راجنک رتن کنٹھ کی یاد ابھی تک کشمیری پنڈتوں کی روایات میں زندہ ہے ۔ ایک بڑے عالم اور بہت تیز لکھنے والے کے طور پر ۔ میں نے خود سرینگر میں مندرجہ ذیل مسودّوں کی نقلیں جو اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں حاصل کی ہیں ۔۱۔ امر کوش پر رائے مکت کی تشریحات ۔یہ کتاب کشتواڑ یا کشتواڑ میں ساکاس ۱۵۷۷ ء یا ۵۶۔۱۶۵۵ بکرمی میں لکھی گئی تھی۔۲۔ سری کنٹھ کرت پر جون راجہ کی تشریحات ۔میرے رائے مکت کے مسودہّ سے جو کشتواڑ میں ۱۶۵۵ ء میں لکھا گیا ۔اندازہ لگاتے ہوئے عیاں ہوتا ہے کہ رتن کنٹھ باہر سفر کرتے ہوئے بھی مسودّوں کی نقلیں کرناجاری رکھتا تھا۔‘‘ علاوہ ازیں کتاب بھون کوش جوٹاپو گرافی پرمعلومات فراہم کرتی ہے کشتواڑ کے اُس علمی خزانے میں پائی گئی جو منظرِ عام پر آکرمحفوظ ہوچکاہے ۔ ایک اور کتاب بھوگل پران کا سراغ پلماڑ میں ملا ہے ۔آج سے تین سو سال پہلے امرکوش کی تشریحات کا کشتواڑ میں لکھا جانا اُسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جبکہ یہاں مسندِ علم پر سنسکرت کے عالم مبتحر جلوہ افروز تھے اور ایسے ہی علم کے شیدائیوں کی کاوشوں کی تلاش میں رتن کنٹھ کو سرینگر سے کشتواڑ آنا پڑا تھا ۔ رتن کنٹھ کو بھان کی ہرش چرت کا مسودہ بھی کشتواڑ میں دستیاب ہوا تھا ۔ علم جوتش پر کشتواڑ میں متعدد بلندپایہ کتابیں لکھی گئی تھیں اور اُن میں سے چند ایک آج بھی باقی ہیں ۔اس علم میں کشتواڑی براہمنوں کو بڑا بلند مقام حاصل تھا کیونکہ کشتواڑی حکمران اکثر اُن سے اپنے مستقبل کے بارہ میں رائے لیا کرتے تھے ۔ جوتش کے علاوہ علمِ کیمیا میں راج پروہت کمال رکھتے تھے ۔ چنانچہ ایک بار تاریخ غلط بتانے کے سبب اور اپنی بات منوانے کے لئے ایک سرکردہ پروہت نے ایران کے ماہِ نخشب کی طرح آسمان پر ایک مصنوعی چاند کو اپنے علم سے زمین پر اتار لیا تھا ۔ سنسکرت کے علوم کا زوال ریاستِ کشتواڑ کے کشمیر اور دہلی کے مسلم حکمرانوں کے زیر اثر آنے سے شروع ہوا۔ خود کشتواڑ کے راجے بھی سترھویں صدی کے وسط میں دائرہ اسلام میں آگئے اور رفتہ رفتہ نیا مذہب کشتواڑ کے اطراف میں پھیل گیا ۔ اسلام کی اشاعت کی حسبِ ذیل وجوہات تھیں:۔۱۔ کشمیر حلقہ بگوش اسلام ہوچکاتھا۔وہآں جب جب قحط سالی نے عوام کو لقمۂ اجل بنانا شروع کیا ۔ تحصیل اننت ناگ کی آبادی کا کچھ حصہ سنگپورہ چھاترو اور واڑون منتقل ہوتا رہا۔ یہ مہاجران سرحدی علاقوں میں مستقل طور پر آباد ہوگئے اور کشتواڑ خاص کی طرف بڑھتے گئے ۔واڑون سے دچھن کی طرف مسلم مہاجروں کے قدم تیز تیز نہ بڑھ سکے اس لئے کہ کشمیر سے جہاں وہ کلچرل لحاظ سے وابستہ تھے۔دُور ہوجاتے تھے اور دچھن میں نئی آبادیاں قائم کرنے کی گنجائش کم تھی۔۔ غیر مسلم اہلِ کشتواڑ نے رواداری اور بھائی چارہ کا ثبوت دیا۔ بونجواہ آخر وقت تک ایک ہندو جاگیررہا لیکن آبادی کا بیشتر حصہ مسلمان ہے ۔ سنگپور کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ قدیم کھاسلیہ کاموضع ہے جہاں راجپوت رہتے تھے۔ لیکن آج وہاں بھی مسلمان اکثریت میں ہیں ۔ سنگپور کا ذکر جہانگیر نے بھی اپنی سوانح عمری تزک جہانگیر میں کیا ہے ۔۳۔ مسلم صوفیاء نے اپنے اخلاقِ حسنہ، انسان نوازی اور خدا دوستی کے سبب خاموش انقلاب پیدا کیا ۔ کشمیر کے سرخیلِ طائفہِ ریشیاں حضرت شیخ نو ر الدین ولی قدس سرہ کاخاندان سرتھل کشتواڑ سے ہجرت کرکے کشمیر گیاتھا ۔ ان کے بلند مرتبہ مردی حضرت زین الدین ؒ جو عیش مقام میں مدفون ہیں بھنڈارکوٹ کے رہنے والے نومسلم راجپوت تھے۔پھر جنوب کی طرف سے حضرت سید شاہ محمد فریدالدین قادری قدس سرہٗ العزیز کشتواڑ میں تشریف فرماہوئے ۔اُن کی اور ان کے چاروں خلفاء کی پاکیزگی نفس انسان دوستی اور کشف و کرامات سے اہل کشتواڑ متاثر ہوئے اور آج تک اُن کا آستانہ مرجع خاص و عام ہے ۔ حضرت شاہ صاحب ؒ کے عالی مقام صاحبزادوں یعنی حضرت سید شاہ محمد اسرار الدین قدس سرہٗ ،حضرت سید اخیار الدین قدس سرہٗ نے بھی اپنے روحانی تصرفات سے کشتواڑ کو متاثر کیاتھا۔
۴۔ آخری دور کے راجاؤں کے اسلام قبول کرنے سے اُن کے حلقۂ اثر کے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔فارسی ادب: ریاست کشتواڑ میں مسلمانوں کے اثرو رسوخ کے بڑھ جانے سے نیز کشمیر اور مغلیہ سلطنت کے ساتھ تعلقات کے سبب اسلامی علوم فنون کو فروغ حاصل ہوا فارسی زبان کا دائرہ اثر بڑھتا گیا حتیٰ کہ غیر مسلم راجے بھی فارسی میں اتنی مہارت رکھتے تھے کہ اس زبان میں شعر گوئی کرتے تھے ۔ راجہ بہادر سنگھ (۱۵۷۰ء لغایت ۱۶۰۵ء) کے عہد سے فارسی نے راج دربار میں اپنے قدم جمانے شروع کئے تھے۔ بہادر سنگھ کے کشمیر کے چک حکمرانوں سے قرابت کے تعلقات تھے ۔یعقوب شاہ کی بیوہ شنکر خاتون نے اپنی زندگی کا آخری حصہ اپنے وطن مالوف کشتواڑ میں بسر کیاتھا ۔ وہ علماء و فضلاء کی بڑی قدر دان تھی اور اس کے ذاتی ملازموں میں شاعر،حافظ اور عالمِ دین شامل تھے ۔ چک خاندان کے بہت سے افراد کشتواڑ میں رہتے تھے اور یہ سب کشمیری اور فارسی بولتے تھے ۔تاریخ میں جس راجہ کے سر پر فارسی علم و ادب میں کمال حاصل کرنے کا تاج رکھاگیا ہے وہ راجہ مہاسنگھ عرف مہاجان (۷۴۔۱۶۶۱ء) ہے ۔ کشتواڑ کی تمام تاریخیں متفق ہیں کہ وہ نہایت عادل اور سخی تھا۔ سنسکرت اور فارسی کے فن شاعری میںمہارتِ کامل رکھتاتھا۔حضرت سید شاہ محمد فرید الدین قادری بغدادی علیہ الرحمہ نے اپنے خلیفہ شاہ محمد درویش کو تبرکات اپنی کلاہ دی تھی ۔اس کے بارہ میں حضرت شاہ صاحب کے اپنے دست مبارک کی تحریر خاکسار عشرت کے پاس موجود ہے جو فارسی میں ہے مضمون حسبِ ذیل ہے:
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
امابعد
بنابریاد آاوری بااعتماد ووثوقِ اہل اسلام این چند حروف تحریر مے شوند۔کہ یک عدد کلاہ برنگ سرنگ خط دار سفید بطور تبرک بہ خلیفۂ خاص خود شاہ محمد درویش دارم۔ خلیفۂ مذکورہ تبرکاَّ وتیمنا نزدِ خود موجود نہادن خواہد۔والسلام۔
سید شاہ فرید الدین قادری بغدادی
مہر
سید فرید الدین قادری
یہاں شاہ صاحب کا شجر�ۂ نسب بھی درج کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔یہ فارسی میں حضرت شاہ صاحب کے بارہ میں تصنیف ’’روضۃ العارفین‘‘ سے لیاگیا ہے:فرید الدین بن سید مصطفےٰ بن سید عبداﷲ بن شیخ یحیٰ طاہر بن سید عبدالرزاق بن سید عبدالقادر ثانی بن سید حسین بن سید علی بن سید محمد بن سید یحیٰ بن سید احمد بن شیخ محمد بن شیخ نصیر بن سید تاج الدین بن سید ابوبکر بن سید عبدالرزاق بن محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ علیہ ۔گویا حضرت شاہ صاحب چودہ واسطوں سے حضرت پیرانِ پیر عبدالقادر جیلانی سے وابستہ ہوجاتے ہیں ۔اس شجرۂ نسب سے بھی شاہ صاحب کا عہد معلوم کیاجاتاہے۔قاضی نیاز اﷲ اپنے وقت کے فقیہ اور عالم دین تھے۔ انہوں نے وقایہ کی شرح منظوم لکھی تھی ۔راجہ عنایت اﷲ کے قتل کی تاریخ ان سے یاد گار ہے ۔ قاضی نیاز اﷲ کشمیر کے مشہور عالم و صوفی حضرت ایشان شیخ یعقوب صرفی قدس سرہٗ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ کشتواڑ میں عہدہ ، قضا ان کے خاندان میں آج تک چلا رہا ہے ۔مولوی عبدالرسول پال راجہ عنایت اﷲ سنگھ کے عہد کے سر برآوردہ عالم اور جامع کمالات تھے ۔شعر و شاعری کا ذوق بھی رکھتے تھے ۔حضرت نصر الدین ناصر خاندانِ قاسمیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ان کے مورثِ اعلےٰ حافظ ابوالقاسم تھے جو راجہ کیرت سنگھ کے عہد میں (۱۷۶۴ ء) بقیدِ حیات تھے ۔ اس خاندان نے کشتواڑ میں مشعلِ علم و ادب کو فروزاں رکھا۔ یکے بعد دیگرے بہت سے حافظ عالم دین اور شاعر و ادیب ہوئے ۔آستانۂ حضرت سید محمد اسرار الدین رحمۃ اﷲ علیہ کی سجادہ نشینی اس خاندان میں ابھی تک برقرار ہے ۔ حضرت نصر الدین نے تاریخِ کشتواڑ(قلمی) کا ترجمہ سنسکرت سے پہلی بار فارسی میں کیاتھا۔
مصنف نے آگے صفحہ(م) پر ایک فارسی غزل کے چند اشعار بہ عنوان
بے کارم و باکرم چوں مد بحساب اندر
گویایم و خاموشم چوں خط بکتاب اندر
تحریر کی ہے جو نصر الدین ناصر کی تخلیق نہیں بلکہ حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کی تخلیق ہے ۔جو خاندان چشتیہ کے روشن چراغ بزرگ تھے اور حضرت نظام الدین اولیاء کے جانشین ہیں بمقام اودھ بے پیدا ہوئے ۔اپنے پیرو مرشد کے تیس سال بعد 18 رمضان ۷۵۷ ء کو رحلت فرما گئے ۔ یہ غزل ماھنامہ شبستان دہلی شمارہ 22 جون میں بھی چھپی ہے جو حسب ذیل ہے ۔
بے کارم و باکرم چوں مد بحساب اندر
گویایم و خاموشم چوں خط بکتاب اندر
اے زاہدِ ظاہر بیں از قُرب چہ می پُرسی
اودرمن ومن دروے چوں بوبہ گلاب اندر
دریااست پُر از چشمم لب ترنہ شود ہرگز
ایں طرفہ عجائب بیں تشنہ است بآب اندر
گہہ شادم و گہہ غم غین از حال خودم غافل
می گریم ومی خندم چوں طفل بخواب اندر
درسینہ نصیر الدین جز عشق نمی گنجد
ایں طرفہ عجائب بیں دریا بحباب اندر
________ تصحیح کار: فداؔ کشتواڑی
حضرت ناصر کے دونوں صاحبزادوں مولانا ضیاء الدین ضیاء اور مولانا سعد الدین نے بھی گلشنِ علم و ادب کی آبیاری کی ہے ۔ ضیاء صاحب کی روضۃ العارفین میں زیادہ تر حضرت سید شاہ محمد فرید الدین قدس سرہ العزیز اور اُن کے فلک مقام صاحبزادوں کے حالات اور اُن کے اقوال بیان کئے گئے ہیں ۔ کشتواڑ میں جو محفلِ شعر و سخن آراستہ تھی وہ راجہ تیغ سنگھ کی حکومت کا تختہ الٹ جانے پر درہم برہم ہوگئی۔ اہلِ فن سرپرست نہ ہونے کے سبب کہیں سے کہیں پہنچ گئے ۔ بعض گوشہ نشیں ہوکر گمنامی کی زندگی گذارنے لگے اور بعض نے ہند کی دوسری ریاستوں کا رُخ کیا ۔ جہاں جو ہر فن کی قدردانی ہوتی تھی ۔حاجی عطاء اﷲ عطا اور مولانا حمایت اﷲ نے دیار کشتواڑ کو خیر باد کہا۔ حاجی عطاء اﷲ عطا ہند کے مختلف شہروں کی سیاحت کرتے ہوئے حجاز تشریف لے گئے او رمدینہ منورہ میں مدفون ہیں ۔ مولانا حمایت اﷲ نواب بھوپال کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں وہ شاہی خاندان کے اتالیق مقرر ہوئے ۔ ان دو بھائیوں کے علاوہ مولوی کلیم اﷲ عالم و فاضل اور بُلند پایہ شاعر تھے لیکن اُن کے مزید حالات دریافت نہیں ہوسکے۔زبان: کشتواڑی زبان کے متعلق عام خیال یہی ہے کہ وہ قدیم کشمیری کا رُوپ ہے ۔ سنسکرت نے اس زبان کے دامن کو مالا مال کیا ہے ۔اس کو لہجہ (Dialect) نہیں کہاجاسکتا ۔ کیونکہ قدیم حالت میں برقرار رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس زبان کو راج دربار کی سرپرستی حاصل نہیں ہوسکی اور اس طرح ادیبوں اور شاعروں نے اس طرف کم توجہ دی کیونکہ اُنہیں حکمرانِ وقت سے صلہ میں کسی انعام یا جاگیر کے ملنے کیاُمید نہ تھی ۔جب فارسی چار سو سال تک درباری زبان رہی اس کے اثر سے یہ زبان پاک رہی کیونکہ ایسے شاعروں نے اس میں طبع آزمائی نہیں کی جو فارسی میں بھی شعر کہتے تھے اور عوام سے فارسی میں بات چیت نہیں ہوتی تھی۔ اس طرح اس میں فارسی کا ملاپ قابلِ ذکر حد تک نہیں ہوا ۔اس کے برعکس کشمیری پر فارسی کااثر غالب رہا اور سنسکرت کااثر کم ہوتاگیا ۔دربار کی سرپرستی سے محروم ہونے کے باوجود یہ زبان زندہ ہے کیونکہ اسے عوام کی سرپرستی ملتی رہی ۔
پروفیسر محی الدین صاحب حاجنی نے ’’کاشری شاعری‘‘ کے تعارف میں متعدد بار کشتوار کا ذکر کیا ہے ۔ صفحہ چار پرفرماتے ہیں ۔’’آج یہ بات بھی چلی ہے کہ بدُھوں کا بہت بڑا مذہبی علم ناگ سین بھی شاید کشمیری تھا۔ جس نے اپنی کتاب’’ملندہ پاہنہ‘‘ اُس زمانے کی کشتواڑی کشمیری میں سوال و جواب کی صورت میں کہی تھی جس کا پالی اور سنہالی میں ترجمہ ہو ا۔اصل گُم ہوگیا اور ترجمہ باقی رہا۔‘‘’’مہانے پرکاش‘‘ واحد کشمیری کتاب ہے جو اپنی صحیح حالت میں زمانے کے دستبرد سے محفوظ رہی ہے ۔اس کا مصنف شتی کنٹھ ہے کشمیری زبان کے محقق جارج گریسن کا خیال ہے کہ مصنف نے یہ کتاب پندرھویں صدی میں تحریر کی تھی لیکن پروفیسر حاجنی صاحب اسے تیرھویں صدی کی تصنیف سمجھتے ہیں۔اس کتاب میں شیو مت فلسفہ بیان کیاگیا ہے اور شاردارسم الخط میں اسے لکھاگیا ہے ۔اس کتاب کا آخری شعریہ ہے ۔
پأوِت یہ کموَ پیوس پساوے شِتہ کنٹھس گتہ زمہ کِتاتھو
تینہ مہ مہجن کھلہ تمہ سادے تے مارادے ۔مہتے پرماتھو
کشمیری میں ،فعلِ حال کے لئے چُھوبا اس کے مشتق استعمال کئے جاتے ہیں لیکن کشتواڑی کشمیری تُھو۔ شتی کنٹھ نے بھی تھو استعمال کیا ہے ۔اس سے کشتواڑی اور قدیم کشمیری جس پر سنسکرت سایہ فگن تھی ،کارشتہ ثابت ہوتاہے۔حاجنی صاحب صفحہ۱۳ پر لکھتے ہیں۔’’ لیکن کشتواڑ پر فارسی زبان کا اثر کم پڑا، اس لئے بہت سے وہ کشمیر ی الفاظ وہاں موجود رہےجنہیں یہاں (کشمیری )فارسی نے اپنے نیچے کچل دیا۔ علاو ہ ازیں بہت سے کشمیری الفاظ نے وقت کے ساتھ ساتھ دوسرا چہرہ بدل لیا ۔ مگر کشتواڑیوں نے پُرانا چہرہ ہی برقرار رکھا۔ مثلاً ہم کہتے ہیں۔’’وُنی پھاٹہ وَے کلہ‘‘ کشتواڑی اس جملے کو کہیں گے۔’’اُنئی ٹھانےَ شِیر‘‘غیر کشتواڑی کشمیری جب کشتواڑی زبان کو سُنے گا تو اُسے پورا مفہوم سمجھ میں نہیں آئے گا ۔وہ کشتواڑی کو کشمیری سے ملتی جلتی زبان تو سمجھ لے گا لیکن ایک ایسی زبان جس پر اُسے عبور نہ ہو ۔حاجنی صاحب فرماتے ہیں:۔’’کشمیری میں بلاضرورت سنسکرت یافارسی استعمال کرنے کے علاوہ ہمار ی زبان نے لہجہ اور اسلوب میں بھی کچھ کچھ مقامی طور طریقوں کو اپنا لیا ہے ۔اس لئے کشتواڑ کی اورکشمیروالوں کی کشمیری سرینگر کی کشمیری سے سوفیصد نہیں ملتی۔‘‘ یہ خیال حقیقت پر مبنی ہے کشتواڑی سرینگر کی کشمیری آسانی کے ساتھ بول سکتے ہیں لیکن سرینگر کے کسی باشندے کے لئے کشتواڑی کشمیری کا بولنا مشکل ہے کیونکہ کشتواڑی میں ایسے الفاظ ہیں جنہیں اُس نے پہلے کبھی نہ سُنا ہوگا اور جن کا تلفظ اتنا دُرشت ہے کہ اس کی زبان اُس کا ساتھ نہ دے سکے گی جب تک مہینوں ریاضت نہ کرے ۔
ذیل میں کشتواڑی کے چند ایسے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں جو کشمیری سے مختلف ہیں ۔ یہ نمونہ مشتے از خراوارے ہے اور انتخاب میں باقاعدگی نہیں ہے ۔تحقیق کے لئے یہ میدان کھلا ہوا ہے ۔
کشتواڑی کشمیری کشتواڑی کشمیری
دپُن ونُن تھُو چھُو
کیاہو ہتہ سأ کتہِ گیاکھ کوت گِیاکھ
شُنڈ بُتھ پنہ ادہ
شیرہ تھِم ہُلن کلس چھوم دوٗد ہیگری صبحن
کیا بھئے کیابنی زہن مِژ
ژوڑے زِیون باأھِ پتر
پائیں آب منج ژوچ
ککڑی منج مکائی ژوچی وہرسُن بٹھور وُشکی بٹھور
گوں بٹھور کنک بٹھور ژاہ لسی
ژھیل ساوج گبؤ گبؤ
گبڑ کٹھ ہنٹھو پکِیو
کاکرِ لآر وومنگل پیشن چائے
ناہری ناشتہ زونڈ کنن
مکوئی مکژ ڈال کدالی
چھوڑ اخروٹ ،ڈون کوژک آنچہ
انکار ژوئین بسان بستر
لُٹ کلہ تھونس اَینگٹ
مازن لسُل مندری پتج
تئکالن شامک دخ
اگرچہ کشتواڑی پر فارسی زبان اثر نہ ڈال سکی ۔ لیکن ڈوگری کاکچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑا ہے ککڑی۔ کاکر مکوئی، بسان ،ترکالن وغیرہ الفاظ ہمارے خیال کی تائید کرتے ہیں ۔ مہاراجہ رنجیت دیو (۱۷۲۵ ء ) کے عہد میں کشتواڑ جموں کے تخت سے براہ راست وابستہ ہوگیاتھا اور کچھ عرصہ وہاں کے کار دار یہاں حکومت کرتے تھے ۔اس تعلق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈوگری زبان نے اتنا اثرو رسوخ حاصل کرلیاتھا کہ آخری کشتواڑی راجوں کے بہت سے فرمان اور پٹے ڈوگری میں لکھے ہوئے ہیں ۔ ناگر پنڈت ، جلا پروہت جو راجہ امولک سنگھ اور راجہ مہر سنگھ کے وزیر تھے۔ منگل سین جوراجہ سبحان سنگھ کا وزیر تھا۔ راجہ تیغ سنگھ کے وزیر جٹوگور ، کھوجہ بھونچہ وغیرہ نے جو پٹے لکھے ہیں وہ سب ڈوگری میں ہیں ۔ڈوگرہ حکومت کے قیام کے بعد یہ اثر و رسوخ اور بھی بڑھا ۔مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد میں دفتری زبان ڈوگرہ رہی ۔ڈوگری میں تاجرانہ حسابوکتاب رکھنا قدرے آسان ہے ۔ مسلمان فارسی میں خط و کتابت کرتے تھے لیکن حساب وکتاب ڈوگری اعداد میں رکھتے تھے ۔رفتہ رفتہ عام کشتواڑی اور اپنی علاقائی زبانوں کے علاوہ ڈوگری بھی بولنے لگے۔ہر ماحول اپنے باشندوں پر اثر ڈالتا ہے اور اپنے مخصوص رنگ میں انہیں رنگ لیتا ہے ۔ یہی مخصوص رنگ کسی خطے کی تہذیب و تمدن کی نشاندہی کرتاہے کشمیر میں کشمیری پھرن یا پیراہن پہنتے ہیں، گول ٹوپی سر کی زینت بناتے ہیں اور چاول خور ہیں ۔ان کے مکان سلامی دار اور کئی منزلہ ہوتے ہیں ۔ لیکن یہی کشمیری جب ہجرت کرکے کشتواڑ میں آباد ہوئے تو پھرن کی جگہ کرتے یاانگرکھے نے لے لی ۔ گول ٹوپی سروں سے غائب ہوگئی اور اُس کے بجائے لداخیوں کی وضع کی کنٹوپ سروں پر دکھائی دینے لگی ۔ چاول صرف تہواروں اور بیاہ شادی کی تقریبوں میں استعمال ہونے لگے ۔ مکئی کی روٹی یا جو کے خمیرے دو وقت استعمال کئے جانے لگے اور سلامی دار کئی منزلہ مکان غائب ہوکر صرف چوڑی چھتوں کے کوٹھے رہ گئے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کی زبان کشمیری رہی لیکن اس کے لب و لہجہ میں بھی فرق آگیا ۔ بوڈ ہیو لڑکہ کے بجائے بوڈہیوبوکت(بڑالڑکا) کہنے لگے ۔رہنے سہنے اور کھانے پینے کے معاملے میں کشتواڑی کشمیر کی بہ نسبت اپنے جنوب کے خطوں سے متاثر رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیر کو راجہ کشتواڑ کا لباس اہلِ ہند کی طرح معلوم ہوا۔کشتواڑیوں کے ذہن کی تشکیل میں مختلف اور متضاد عناصر نے کام کیا ہے ۔زبان کشمیری ہے ،مقامی تہوار جنہیں جاترہ کہاجاتا تھا ۔عام طور پرموسمی تہوار تھے ۔ بہادون سے اسوج تک جگہ جگہ یہ میلے لگے تھے ۔ ہٹہ کے گاؤں میں جہاں دیوی اشٹ بھوجہ کامندر ہے سب سے پہلی جاترہ منعقد ہوتی تھی ۔یاترہ میں پروگرام پیش کرنے والے نقال اور بھانڈ مسلمان ہوتے تھے ۔ ممکن ہے مسلمانوں کی آمد سے پہلے کوئی دوسرا فرقہ یہ کام کرتاہو ۔ جاترہ مندر سری نیل کنٹھ کے سامنے ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ حضرت اسرار الدین اور حضرت فرید الدین رحمۃ اﷲ علیہم کے مزاروں پر بھی منعقد ہوتی تھیں۔چوگان کے وسط میں کٹک جاترہ کامیلہ ہوتا تھا ۔ جس میں ہاتھی کی شکل بنائی جاتی تھی ۔یہ جاترہ بسوہلی کے راجہ کی شکست کی یاد گار کے طور پرمنائی جاتی تھی ۔علاوہ ناچ او رگانے کے اس جاترہ میں بھیڈووں کا مقابلہ ہوتا تھا اور جوبھیڈوزبردست ٹکر مار کر اپنے حریف کو بھگا دیتاتھا ۔ وہ جیت جاتا تھا اور مالک کی تعریف ہوتی تھی ۔ پھاگن کے مہینے میں سدھان ، ساتن، کاکل اور نکاس نام کے نو تہوار مقرر تھے ۔ پہلے نکاس تک عورتیں گھر سے باہر قدم نہیں نکالتی تھیں ۔ یہ تہوار دوسدھان ، ایک ساتھن ،تین کاکل اور تین نکاس کے دنوں پر مشتمل تھے ۔ ایک رسم بھوم جہوائی تھی۔ اس رسم کے مطابق اپنے اپنے کھیتوں میں کوئی چیز بڑے تھال میں پکا کرلے جاتے تھے اور بچوں میں تقسیم کردیتے تھے اور ایک نوکدار لکڑی کو جس پر اون ، کمول ، نرگس کے پھول اور پھلدار درختوں کے پتے لپیٹے ہوتے تھے ۔کھیت میں گاڑ دیتے تھے۔ یہ تہوار بھی موسمی تھے جو موسم سرما کے خاتمہ پر اور زمین کونئی فصل کے لئے تیار کرنے کے موقع پر منائے جاتے تھے ۔ یہ سب تہوار مقامی روایتوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ کشتواڑیوں کاقدیم لباس اونی ہوتا تھا۔ عورتیں اون کی ایک لمبی چادر جسم پر اوڑھتی تھیں جسے لمبی لمبی سوئیوں سے اٹکا لیاجاتاتھا۔ یہ لباس بڑی حد تک وادی کانگڑہ کے لوگوں سے ملتا جلتا تھا ۔ یہ عوام کے لباس کی بات ہے ورنہ خواص وقت کے فیشن سے مُتاثر رہتے تھے جو کشمیر اور جموں سے درآمد ہوتاتھا۔دراصل اہل کشتواڑ کی نمایاں خصوصیات مذہبی رواداری، انسانی بھائی چارہ ،صداقت شعاری اور حق پرستی رہی ہیں ۔اُن میں کشمیریوں کی فہم وزکاء ، ڈوگروں کی بے خوفی اور دلیری اور پہاڑی باشندوں کی جفاکشی اور قناعت پسندی پائی جاتی ہے ۔ مجموعی حیثیت میں وہ امن پسند ہیں بشرطیکہ اُن کی غیرت اور خودداری کو للکارا نہ جائے ۔وہ کشتواڑ پرستی اور مقامی حب الوطنی کے جذبہ سے سر شار رہے ہیں ۔وطن کے نام پر انہوں نے مغل شہنشاہیت سے ٹکر لی اور مغلوب ہوجانے پر جب بھی موقع ملا ،علم بغاوت بلند کیا۔چونکہ انیسویں صدی تک کشتواڑ کی اپنی ریاست قائم رہی ، اس لئے اُن کے کردار میں دوہری شخصیت ،منافقت ،مکاری اور شخصی مفاد پرستی کی وہ برائیاں پیدا نہیں ہوئیں جو ایسی قوم اور افراد میں پیداہوجاتی ہیں جو صدیوں تک غلامی استبداد اور مظلومیت کاشکار رہی ہوں اور جہاں ذاتی تحفظ و اقتدار ہی فلسفہ حیات بن چکاہو ۔ کشتواڑیوں نے اپنی تاریخ میں دو ہی راستے اپنائے ہیں ۔ مخالفت کی ہے تو اپنی پوری طاقت کے ساتھ اور حمایت میں کمر باندھی ہے تو پورے اخلاص اور وفا کے ساتھ ۔ ایک زبردستبغاوت کے بعد جب مہاراجہ گلاب سنگھ کا حلقہ اطاعت قبول کیا تو پھر مہاراجہ کے وزیر زورآور سنگھ کلہوریہ کے جھنڈے تلے لداخ،اسکردو او رپوریگ تک اپنی شجاعت ،سرفروشی اور نمک حلالی کا ڈنکہ بجاآئے۔کشتواڑ کی تاریخ میں جاگیرداریت کا دورہ دورہ رہاہے ،اس لئے حکمران خاندان اور اُس سے وابستہ سردار خوشحال رہے اور زندگی کی آسائشوں کا لطف اُٹھاتے رہے لیکن عوام پسماندہ ، مفلوک الحال اور ضعیف الاعتقاد رہے ،یہ ضعیف الاعتقادی اور اوہام پرستی کا نتیجہ ہے کہ کشتواڑ خاص اور علاقہ جات میں ڈینوں witches اور اُن کا تدارک کرنے والے’’ باروالوں‘‘ کا طوطی بولتارہا۔ کشتواڑ تو کشتواڑ وائن نے اپنے سفر نامہ میں جبکہ جنوری۱۹۳۹ ء میں وہ بھدرواہ پہنچا تھا ، بھدرواہ میں ایک ڈین کی گرفتاری کاحال درج کیا ہے ۔ انگلستان میں ولیم شکسپئر کے عہد میں ڈینوں کا جوزور و شور تھا وہ ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقوں میں انیسویں صدی تک جاری رہا۔اقتصادی حالت:۔جاگیر داریت اور راج شاہی میں عوام کی معاشی بہبودی اور خوشحالی کے امکانات تاریک رہے ہیں۔ظلم و ستم کے اس دور میں زندہ رہنا بڑی نعمت سمجھا جاتا تھا ۔ اگر راجہ انصاف پسند اور رعایا نواز ہوا تو عوام آرام کا سانس لیتے تھے اور ان کی زندگی کے ٹمٹماتے دئے جلتے رہتے تھے ورنہ خانہ جنگیوں اور لوٹ کھسوٹ کی قیامتیں ان پر اکثر ٹوٹتی رہتی تھیں۔اقتصادی لحاظ سے اہلِ کشتواڑ کادرجہ زیادہ بلند نہیں تھالیکن غذائی لحاظ سے وہ خود کفیل تھے ۔دراصل ماضی میں موجود تحصیل کشتواڑ چراگاہوں سے بھر پور اور مال مویشی سے معمور تھی ۔ آبادی کم تھی ، مزروعہ رقبہ کافی تھا۔ اراضی زرخیز تھی خشک سالی کی موجودہ تباہی نہیں تھی ۔ جنگلوں کی شادابی سے بارشیں خوب ہوتی تھیں ۔ اس لئے زرعی پیداوار کی افراط تھی۔ تاریخِ کشمیر میں درج ہے کہ کشتواڑ سے اکثر غلہ درآمد کیاگیا ۔ جب کبھی کشمیرمیں تباہ کن قحط پڑتا تھا توضلع اننت ناگ کے سرحدی دیہات کے باشندے کشتواڑمیں پناہ لیتے تھے ۔ چھاترو، دربیل اور مڑواہ کے باشندوں کی بیشتر آبادی ایسے خاندانوں پر مشتمل ہے جو قحط سالی میں کشمیر سے بھاگ کر کشتواڑ کے ان علاقوں میں آباد ہوگئے ۔ ظاہر ہے کہ کشتواڑ کی غذائی حالت اطمینان بخش نہ ہوتی تو کشمیر کے مہاجر یہاں آخر مستقل طور پر آباد نہ ہوتے لیکن جوں جوں آبادیبڑھتی گئی اور زمین اپنی زرخیزی کم کرتی گئی ۔ کشتواڑ ،خوراک کی کمی کا علاقہ بنتا گیا۔تحصیل ۱۸۰۶۷۲۰ ایکڑ یا ۲۸۲۳ مربع میلوں پر مشتمل ہے ۔ بندوبست نے ۴۱۴۲۰۱ ایکڑ یا ۶۴۷ مربع میلوں کی پیمائش کی تھی۔ اس تحصیل میں قابل کاشت رقبہ ۵۰ مربع میل ہے ۔ دیہات کی موجودہ تعداد ۱۵۶ ہے۔اس وقت زیر کاشت رقبہ تخمیناً ڈیوڑھا ہوگیا ہے ۔خصوصاً زیادہ خوراک پیدا کرو‘‘ اسکیم کے تحت نہ صرف قابل کاشت بلکہ آبادی سے ملحقہ چراگاہوں کا بیشتر رقبہ بھی آبادکرلیاگیاہے۔جس قدر بھی بندوبست عمل میں لائے گئے ، اگرچہ اُن سے شرحِ لگان میں تدریجاً اضافہ ہوتاگیالیکن ان تبدیلیوں کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کاشتکار اور زمینداروں کے حقوق متعین ہوگئے ،زمینوں کا مالیہ اور اُن کی حدود مقر ر ہوگئیں او راس قسم کاامکان کم ہوگیا کہ لاٹھی والا بھینس کامالک ہوگا۔ راجاؤں کے وقت میں راجہ کی خوشنودی پر زمین کی ملکیت برقرار رہتی تھی او رشاہانہ مزاج میں تلون کے ساتھ ساتھ ملکیت بھی بدلتی رہتی تھی ۔ امیروں اور جاگیرداروں کی جاگیریں اکثر تبدیلی اور کم و بیش ہوتی رہتی تھیں ۔ غریب کاشتکار تو کسی شمار و قطار ہی میں نہ تھا ۔ آخری بندوبست کے بعد عام کسان کم از کم یہ محسوس کرنے لگا کہ جس کھیت پر وہ اپنا خون پسینہ بہاتا ہے اُسے کوئی جابر و ظالم محض اپنا ہاتھ طاقتور ہونے کے سبب نہیں چھین سکتا ۔اس کی اقتصادی حالت میں بھی قدرے بہتر ی پیدا ہوئی او رکہیں کہیں اس کے بچے مولوی صاحبان ، مکتبوں ، پاٹھ شالوں اور سرکاری اسکولوں میں پڑھنے لگے دراصل تحفظِ ذات ہی ایک ایسی نعمت ہے جو شخصی حکومتوں اور جاگیدارانہ نظام میں عام نہ تھی ۔ راجگانِ کشتواڑ کے عہدمیں صرف دو ہی طبقے اس وقت کےء سماج میں پائے جاتے تھے ۔ یعنی طبقۂ اعلیٰ اور طبقۂ ادنےٰ ۔درمیانہ طبقہ بالکل نہ تھا۔خاص و عام کی ترکیب اُسی وقت کی یاد گار ہے ۔خاص میں جاگیردار،مصاحب ،منصبدار اورفوجی سردار تھے ، عام میں کسان ،مزدور ،کاریگر اور تاجر وغیرہ تھے ۔
اگرچہ ڈوگرہ حکومت بھی شخصی حکومت تھی لیکن مہاراجہ گلاب سنگھ کے ابتدائی قبضۂ کشتواڑ کے ایام کو چھوڑ کر نسبتاً باقی عرصہ عوام کے لئے بہتر تھاکیونکہ شعبہ جات مال ،پولیس ، جنگلات ، تعلیم تعمیراتِعامہ وغیرہ منظم ہوچکے تھے اور مقامی حاکم وقت تک ایک عام آدمی کی رسائی ممکن ہوچکی تھی ۔ صرف ایک نمایاں تبدیلی محسوس کی گئی اور وہ تھی غلے کی پیداوار میں کمی ، دراصل امن و امان کے مستقل ہوجانے سے عام آبادی میں اضافہ ہوا ۔ جنگلات کاکچھ حصہ ختم ہوجانے سے سالانہ بارش کی اوسط کم ہوگئی ۔دو ایک خوفناک قسم کے قحط پڑے ۔ مال مویشی کی کمی کے سبب زمین میں مناسب تعداد میں کھادکااستعمال نہ ہونے سے غلے کی عام پیداوار میں کمی واقع ہوئی اور کشتواڑ غلے کاخسارہ رکھنے والا علاقہ بن گیا۔عام آدمی کی عادتیں بھی بڑی حد تک بدل گئیں ۔ پرانے زمانے میں عام لوگ موٹاجھوٹا اناج خود کھاتے تھے اور اچھی قسم کاغلہ مثلاً چاول گندم فروخت کردیاکرتے تھے ۔چائے بالکل نہیں پیتے تھے ۔صرف دو وقت کھانا کھاتے تھے ۔ پہننے کے لئے گھروں میں لگی ہوئی کھڈیوں پر پٹو اور ادنیٰ کپڑے خود تیار کرلیاکرتے تھے اور بارہ مہینے گرم کپڑے پہنے رہتیے تھے ۔ آہستہ آہستہ پرانا طرزِ رہائش بدلتاگیا۔خاص تو خاص دور افتادہ دیہات میں رہنے والے عوام بھی دو وقت چائے پینے لگے۔ گرمیوں میں پٹو کے کپڑوں کی جگہ سوتی کپڑے پہننے لگے، گھروں میں چوب چراغ کی جگہ مٹی کاتیل جلنے لگا، چاول زیادہ کھائے جانے لگے جبکہ و ہ خاص خاص تہواروں ہی پر کھائے جاتے تھے ۔ ان بدلتی ہوئی عادتوں نے نئی نسل کو اس قدر محنتی اور دقت پسند رہنے نہیں دیا جس قدر پڑانی نسل کے لوگ تھے۔راجاؤں کے وقت میں جو مقامی صنعتیں تھیں وہ سرپرست نہ ہونے کے سبب ختم ہوگئیں ۔ کشتواڑ جموں سے ۱۴۰ میل کے فاصلے پر ہے۔ ذرایع آمد ورفت مشکل تھے ۔یہ بھی ممکن نہ تھا کہ مقامی صنعتیں جموں کی صنعتوں سے مقابلہ کرکے بازی لے جاتیں کیونکہ بار برداری کے اخراجات ہی اس قدر زیادہ ہوتے تھے کہ وہ مارکیٹ میں مہنگی پڑتی تھیں۔ ۱۹۵۶ ء سے پہلے بس سروس جموں سے ٹھاٹھری تک شروع ہوچکی تھی۔ ٹھاٹھری سے کشتواڑ صرف پندرہ میل ہے جبکہ جموں سے ٹھاٹھری ۱۲۵ میل کی مسافت پر ہے ۔ ۱۲۵ میل کا لاری کا فی من کرایہ اڑھائی روپے من تھا او رٹھاٹھری سے کشتواڑ تک ۱۵ میل کا پانچ روپے من
سڑکوں کا جال:۱۹۶۲ ء سے باقاعدہ جموں کشتواڑ بس سروس شرو ع ہوئی ۔اس وقت حسب ذیل موٹر روڈز زیر تعمیر ہیں اور جن کی تکمیل سے یقیناًعام آبادی کوفائدہ پہنچے گا۔
کشتواڑ پاڈر روڈ۔کشتواڑ سے اٹھولی (نیابت پاڈر کا صدر مقام) ۴۰ میل کی دور ی پر ہے ۔ گلہار تک جو کشتواڑ سے ۲۰ میل کی مسافت پر واقع ہے ۔سڑک بن چکی ہے ۔ پڈیارنہ تک ۱۹۶۸ ء سے بس سروس جارہی ہے ۔ کشتواڑ پاڈر روڈ کو ہماچل سے ملانے کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ مرکزی سرکار چاہتی ہے کہ اس کے جو ملازم پانگی اور پاڈر کی سرحد پر کام کرتے ہیں وہ سردیوں میں کشتواڑ سے شملہ پہنچیں اس سڑک کے مکمل ہونے سے پاڈر کی معدنی دولت بالخصوص نیلم کو زمین کے سینے سے نکالا جاسکے گا اور ایک خوبصورت علاقہ سارے ملک کے ساتھ براہ راست رابطہ پیدا کرے گا ۔یہ سڑک اب مکمل ہوچکی ہے ۔اور ٹریفک رواں دواں ہے۔
کشتواڑ سنتھن ڈکسم روڈ: یہ سڑک چھاترو تک جو کشتواڑ سے ۱۶ میل دور ہے قریب قریب مکمل ہوچکی ہے ۔اسے سنتھن درہ کی راہ سے مشہور صحت افزاء مقام ڈکسم (دیسو،کشمیر) سے ملانے کامنصوبہ ہے ۔ اصل منصوبہ یہ ہے کہ پٹھانکوٹ سے بسوہلی ، بسوہلی سے بنی ، سرتھل سے بھدرواہ یاچمبہ سے بھدرواہ اور وہاں سے ڈوڈہ کشتواڑ ہوتے ہوئے سیاح چھاترو دیکھتا ہوا۔ڈکسم پہنچے ، گویا پٹھانکوٹ سے کشمیر جانے کی یہ دوسری شاہراہ ہوگی ۔ نئے نئے مقامات منظر عام پر آئیں گے بلکہ کشتواڑ اور اننت ناگ کا بیشتر دیہی حصہ مستفید ہوگا کشتواڑ سے سرینگر کا فاصلہ سو میل سے بھی کم ہوگاجبکہ بحالتِ موجودہ براہ بٹوت ۱۶۵ میل ہے ۔اس سڑک پر آج چھوٹی بڑی گاڑیاں چلتی ہیں۔
کشتواڑ سرتھل روڈ: سرتھل کشتواڑ خاص سے ۱۲ میل کے فاصلے پر بجانب جنوب مشرق واقع ہے ۔یہاں دیوی اٹھارہ بھوجہ کامقدس استھان ہے ۔ ویشنو دیوی کی طرح یہاں بھی سارا سال یاتریوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ موٹر روڈ سے سرتھل کی وابستگی یاتریوں کو مزید آسانیاں بہم پہنچائے گی۔
کشتواڑکیشوان روڈ: یہ پندہ بیس میل کے قریب لمبی سڑک ہوگی۔ کیشوان اُدھر کے علاوہ یہ ناگین بال تک جائے گی ۔ اُدہر ڈوڈہ کی جانب سے ڈوڈہ بھرت روڈ بن رہی ہے او راس طرح کشتواڑ سے ڈوڈہ جانے کا ایک دوسرا متبادل راستہ تیار ہوجائے گا اور ان علاقوں کے گھنے جنگلات سے فائدہ اٹھایاجاسکے گا اور صحت افزا مقامات منظر عام پر آئیں گے ۔یہ روڈ بھی اب قابل استعمال ہے۔بونجواہ دوندی روڈ: بونجواہ تحصیل کشتواڑ کاعلاقہ ہے جوبھلیسہ کے متصل ہے ۔آباد اور زرخیز ہے۔ دودھ ، گھی ،شہد ،راجماش ،اخروٹ وغیرہ کی منڈی ہے ۔دوندی جوٹھاٹھری کلوتراں روڈ پر واقع ہے ۔ وہاں سے بونجواہ کے لئے اتصالی سڑک Approach Road بن رہی ہے جو کہ مکمل ہوچکی ہے۔
کوڑیہ پلماڑ روڈ:۔مڑواہ دچھن تحصیل کشتواڑ کی دورافتادہ نیابت ہے ۔ بھنڈار کوٹ کوڑیہ سے پلماڑ کے لئے موٹر روڈ زیر تعمیر ہے ۔ توقع یہی ہے کہ یہ سڑک دچھن مڑواہ تک وسیع ہوگی اور وہاں سے کشمیر کے اننت ناگ ضلع کی اُس سڑک کے ساتھ وابستہ ہوجائے گی جومرگن ٹاپ(واڑون) کی دوسری جانب دور تک مکمل ہوچکی ہے ۔ کشتواڑ مڑواہ روڈ یااننت ناگ مڑوہ روڈ انتہائی ضروری روڈ ہے ۔ اس روڈ کی تکمیل سے تحصیل کشتواڑ کاانتہائی غریب اور پسماندہ علاقہ کشتواڑ اور اننت ناگ سے وابستہ ہوجائے گا ۔ مڑوہ دچھن کی تجارت کو چار چاند لگیں گے ۔مڑوہ کے گرم پانی کے چشمے مشہور ہیں ۔ اخروٹ کے جنگل ہیں، صحت افزا مقامات ہیں ۔شکار گاہیں ہیں ، نون خون پہاڑ ہے ۔ اسی طرح دچھن میں قابل دید علاقے ہیں نتھ نالہ کی خوبصورتی اور سبزہ زار ہیں۔کشتواڑ سنتھن ڈکسم روڈ: یہ سڑک چھاترو تک جو کشتواڑ سے ۱۶ میل دور ہے قریب قریب مکمل ہوچکی ہے ۔اسے سنتھن درہ کی راہ سے مشہور صحت افزاء مقام ڈکسم (دیسو،کشمیر) سے ملانے کامنصوبہ ہے ۔ اصل منصوبہ یہ ہے کہ پٹھانکوٹ سے بسوہلی ، بسوہلی سے بنی ، سرتھل سے بھدرواہ یاچمبہ سے بھدرواہ اور وہاں سے ڈوڈہ کشتواڑ ہوتے ہوئے سیاح چھاترو دیکھتا ہوا۔ڈکسم پہنچے ، گویا پٹھانکوٹ سے کشمیر جانے کی یہ دوسری شاہراہ ہوگی ۔ نئے نئے مقامات منظر عام پر آئیں گے بلکہ کشتواڑ اور اننت ناگ کا بیشتر دیہی حصہ مستفید ہوگا کشتواڑ سے سرینگر کا فاصلہ سو میل سے بھی کم ہوگاجبکہ بحالتِ موجودہ براہ بٹوت ۱۶۵ میل ہے ۔اس سڑک پر آج چھوٹی بڑی گاڑیاں چلتی ہیں۔
کشتواڑ سرتھل روڈ: سرتھل کشتواڑ خاص سے ۱۲ میل کے فاصلے پر بجانب جنوب مشرق واقع ہے ۔یہاں دیوی اٹھارہ بھوجہ کامقدس استھان ہے ۔ ویشنو دیوی کی طرح یہاں بھی سارا سال یاتریوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ موٹر روڈ سے سرتھل کی وابستگی یاتریوں کو مزید آسانیاں بہم پہنچائے گی۔
کشتواڑکیشوان روڈ: یہ پندہ بیس میل کے قریب لمبی سڑک ہوگی۔ کیشوان اُدھر کے علاوہ یہ ناگین بال تک جائے گی ۔ اُدہر ڈوڈہ کی جانب سے ڈوڈہ بھرت روڈ بن رہی ہے او راس طرح کشتواڑ سے ڈوڈہ جانے کا ایک دوسرا متبادل راستہ تیار ہوجائے گا اور ان علاقوں کے گھنے جنگلات سے فائدہ اٹھایاجاسکے گا اور صحت افزا مقامات منظر عام پر آئیں گے ۔یہ روڈ بھی اب قابل استعمال ہے۔بونجواہ دوندی روڈ: بونجواہ تحصیل کشتواڑ کاعلاقہ ہے جوبھلیسہ کے متصل ہے ۔آباد اور زرخیز ہے۔ دودھ ، گھی ،شہد ،راجماش ،اخروٹ وغیرہ کی منڈی ہے ۔دوندی جوٹھاٹھری کلوتراں روڈ پر واقع ہے ۔ وہاں سے بونجواہ کے لئے اتصالی سڑک Approach Road بن رہی ہے جو کہ مکمل ہوچکی ہے۔
پیغام
(اپنے عہد شباب کی ایک مختصر نظم)
_________عشرت ؔ کاشمیری
اُٹھو وطن کے نام پر عزیز کشتواڑیوں عزیز کشتواڑیوں وطن کے نام پراُٹھو
نقابِ شب ہے چہرہء جہاں سے برملا اُٹھی دریچے نورکے کُھلے وہ صبح مسکرا اُٹھی
جو بے خبر ہیں سو رہے پیام انقلاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پر اُٹھو
وہ دوسروں کے منزلوں پہ جالگے ہیں کارواں
جنہیں وطن کی لاج ہے ،عزیز تر ہے اس کی شان
مگر ہیں حال مست ہم، اسیرِخوفِ جسم و جان
پِسے ہیں اور پس رہے ہیں زیرِ دور آسمان
یہ ضعف ،ضعفِ مرگ ہی ہے نعرۂ شباب دو
عزیزکشتواڑیو، وطن کے نام پر اُٹھو
ابھی ہیں فاقہ مستیاں ،ابھی ہیں آہ و زاریاں
ابھی ہیں سوگواریاں ،دکھوں کی زخم کاریاں
ابھی ہیں سینہ چاکیاں ، ابھی ہیں دل فگاریاں
عذاب ہی عذاب ہیں،غموں کی شعلہ باریاں
مسرتوں کی زندگی کو بڑھکے آب و تاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو
یہ رشوتوں پر رشوتیں، یہ آفتوں پہ آفتیں
کہیں پہ چیرہ دستیاں ،کہیں ذلیل حرکتیں
ہزارہا ہی سن چکے ہیں، ظلم کی روایتیں
وطن کے گوشہ گوشہ سے مٹاہی دینگے ظلمتیں
لوظالموں سے پوچھ لیں کہ آج تک جواب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو
اٹھو کہ اب وطن میں ہم ، بہار تازہ لائیں گے
ارادۂ جوان ہے عمل کے گیت گائیں گے
رکاوٹیں مٹائیں گے ، رکاوٹیں ہٹائیں گے
ہم آگے بڑھتے جائیں گے ،ہم آگے بڑھتے جائیں گے
پیامِ انقلاب دو ، پیامِ انقلاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو
ہمارا اپنا راج ہے ، ہمیں ہیں آج حکمران
نیا جہاں بنائیں گے نئے زمین و آسمان
ترقیوں کے چار سو لگے ہیں کھلنے گلستان
ہیں اپنے میرِکارواں ہی پاسبانِ مہرباں
عمل کو اپنے اب جِلا برنگِ آفتاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو۔
(اپنے عہد شباب کی ایک مختصر نظم)
_________عشرت ؔ کاشمیری
اُٹھو وطن کے نام پر عزیز کشتواڑیوں عزیز کشتواڑیوں وطن کے نام پراُٹھو
نقابِ شب ہے چہرہء جہاں سے برملا اُٹھی دریچے نورکے کُھلے وہ صبح مسکرا اُٹھی
جو بے خبر ہیں سو رہے پیام انقلاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پر اُٹھو
وہ دوسروں کے منزلوں پہ جالگے ہیں کارواں
جنہیں وطن کی لاج ہے ،عزیز تر ہے اس کی شان
مگر ہیں حال مست ہم، اسیرِخوفِ جسم و جان
پِسے ہیں اور پس رہے ہیں زیرِ دور آسمان
یہ ضعف ،ضعفِ مرگ ہی ہے نعرۂ شباب دو
عزیزکشتواڑیو، وطن کے نام پر اُٹھو
ابھی ہیں فاقہ مستیاں ،ابھی ہیں آہ و زاریاں
ابھی ہیں سوگواریاں ،دکھوں کی زخم کاریاں
ابھی ہیں سینہ چاکیاں ، ابھی ہیں دل فگاریاں
عذاب ہی عذاب ہیں،غموں کی شعلہ باریاں
مسرتوں کی زندگی کو بڑھکے آب و تاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو
یہ رشوتوں پر رشوتیں، یہ آفتوں پہ آفتیں
کہیں پہ چیرہ دستیاں ،کہیں ذلیل حرکتیں
ہزارہا ہی سن چکے ہیں، ظلم کی روایتیں
وطن کے گوشہ گوشہ سے مٹاہی دینگے ظلمتیں
لوظالموں سے پوچھ لیں کہ آج تک جواب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو
اٹھو کہ اب وطن میں ہم ، بہار تازہ لائیں گے
ارادۂ جوان ہے عمل کے گیت گائیں گے
رکاوٹیں مٹائیں گے ، رکاوٹیں ہٹائیں گے
ہم آگے بڑھتے جائیں گے ،ہم آگے بڑھتے جائیں گے
پیامِ انقلاب دو ، پیامِ انقلاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو
ہمارا اپنا راج ہے ، ہمیں ہیں آج حکمران
نیا جہاں بنائیں گے نئے زمین و آسمان
ترقیوں کے چار سو لگے ہیں کھلنے گلستان
ہیں اپنے میرِکارواں ہی پاسبانِ مہرباں
عمل کو اپنے اب جِلا برنگِ آفتاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں دن میں تین بار بہنے والا اور نیچے سے اُوپر کی جانب خشک ہونے والا چشمہ ہے جو ایک عجوبہ ہے ۔ پتھر کی گائے ہے جس کے تھنوں سے خاص وقت پر پانی بہتا ہے۔ جنگلات کی بے پایاں دولت ہے ۔ دیکھاجائے تو پاڈر روڈ اور دچھن مڑوہ روڈ کی تعمیر انتہائی ضروری ہے ۔ پاڈر روڈ مکمل ہوچکی ہے اور مڑواہ کشتواڑ روڈ ابھی نامکمل ہے جس پر کام جاری ہے ۔نہر نَے گڈھ: موٹر روڈ کی تعمیر سے کشتواڑ کی اقتصادی حالت یقیناًبہتر ہوگی لیکن اگر کسی کشتواڑ ی سے پوچھا جائے کہ اس کی تعمیر و ترقی کے بارہ میں تمنا کیا ہے تو اَن پڑھ سے ان پڑھ کشتواڑی سے لیکر بڑے سے بڑے سربراہ تک ایک ہی جواب ہوگا۔’’نہرنے گڈ‘‘ دراصل کشتواڑ بارانی علاقہ ہے ۔ مون سون فیل ہونے سے اکثر قحط سالی کاشکار رہتا ہے۔نہر کے بن جانے سے فصلوں کی کامیابی یقینی بن جائے گی ۔ دودھ ، گھی عام ہونگے ، سبزی ترکاری کاشت ہونگی اور کسانوں کی مالی حالت بہتر ہوگی ۔ نہر نے گڈ عام کسان اپنی فصلوں کی کامیابی کے لئے چاہتا ہے ۔نے گڈ ھ ایک نالہ ہے جو کشتواڑ سے ۱۵ میل کی دور ی پر ہے ۔ اس نہر کی تعمیر پر۳۲ لاکھ روپے صرف ہوئے تھے لیکن بعد میں منصوبہ ترک کردیاگیا ۔ اس تعمیر کے تعلق میں ٹھیکیداروں اور افسروں نے کافی گول مال کیاتھا ۔اب اس نہر کا پانی قصبہ کشتواڑ اور منڈل کے لوگوں کو پینے کے لئے فراہم کیاجاتا ہے۔پاور پروجیکٹ: ہند کی وزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی کشتواڑ ۱۹۷۱ ء میں بذریعہ ہیلی کاپٹر تشریف فرما ہوئیں ۔ریاست کے اُس وقت کے وزیراعلیٰ جناب قاسم صاحب ہمراہ تھے ۔ وزیراعلےٰ سے قبل مرکزی وزیر آبپاشی او ربجلی ڈاکٹر کے ایل راؤ اور وزیرمملکت برائے تعمیرات اور مکانات جناب او م مہتہ کشتواڑ تشریف آور ہوئے تھے ۔ڈاکٹر راؤ نے کشتواڑ پاور پروجیکٹ کے بارہ مین ایک جلسۂ عام میں اعلان کیا تھا ،ان کی انگریزی تقریر کا ترجمہ کرنے کا شرف خاکسار عشرتؔ کو حاصل ہواتھا ۔ ڈاکٹر راؤ نے کہاتھا۔’’ یہ پاور پراجیکٹ ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہوگا ۔اس کے مکمل ہونے پر جو بجلی پیداہوگی وہ سلال پروجیکٹ سے کئی گنا زیادہ ہوگی ۔اس پراجیکٹ پر لاگت کم آئے گی اور مکمل بھی جلد ہوگا ۔ علاو ہ ازیںکشتواڑ میں گرینائٹ کی جو چٹان پائی جاتی ہے ۔ویسی پختہ چٹان صرف جنوبی ہند میں پائی جاتی ہے ۔ڈول سے دریائے چناب کا پانی ایک سرنگ کے ذریعے قصبہ کشتواڑ کے نیچے نیچے سے جائے گا اور ہستی کے بالمقابل اُسے بلندی سے گرایا جائے گا اور بجلی کی ٹربائن چلائی جائے گی ۔‘‘ڈاکٹر راؤ نے مزید کہا۔’’کشتواڑ کانقشہ بدل جائے گا۔ یہ بجلی تمام شمالی ہند کو فراہم کی جاسکے گی ۔ ‘‘پانچویں پانسالہ پلان میں اس پراجیکٹ کو شامل کیاجارہاہے اور فی الواقعہ اس سے نہ صرف کشتواڑ اور ضلع ڈوڈہ کانقشہ بدل جائے گا بلکہ ریاست کو بھی بہت فائدہ پہنچے گا ۔اب یہ پروجیکٹ 2007 ء میں مکمل ہوچکاہے جس پر ابھی تک ۵۲۲۸ کروڑ روپے خرچ ہوگئے ہیں ۔وزیراعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس پراجیکٹ کو 26 اپریل2008 ء کو قوم کے نام منسوب کیا ۔یہ پروجیکٹ 130 میگاواٹ بجلی پیدا کررہاہے۔
حرف آخرتاریخ کشتواڑ ایک قرض تھا جو میں پچھلے دس برس سے اتارنے کی کوشش کررہاتھا ۔ مجھے مسرت ہے کہ اپنی زندگی کی بہترین پیش کش یہی کام ہے جسے کچھ حد تک مکمل کرسکاہوں ۔ تاریخ ایک عمل ہے جو جاری رہتا ہے اور جس کی تکمیل کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور ہر تاریخی تالیف پر اس کے مؤلف کے ذاتی اعتقادات و خیالات کی ہلکی یا گہری چھاپ پڑتی ہے ۔ تاریخ کشتواڑ کے اس لئے بہت سے گوشے دعوتِ تحقیق دیتے رہیں گے ۔ نہ معلوم اس چمن میں ابھی کتنے اور بلبل نغمۂ سرا ہوں گے۔عتراف:شکر گزار ہوں جناب مہتہ اوم پرکاش کا جنہوں نے اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود تاریخِ کشتواڑ کے تعلق میں میری ہمیشہ حوصلہ افزائی فرمائی ۔ اگر ان کی عنایت شاملِ حال نہ ہوتی تو یہ تالیف منصۂ شہودپر جلوہ نما نہ ہوتی۔ریاست کی اکیڈیمی برائے کلچراو رزبان کا شکر گذار ہوں کہ اس نے تاریخ کشتواڑ کے اس صبر آزماکام کے لئے مجھے پونے دو صد روپے کی نقد امداد عطافرماکر تاریخ نوازی کا ثبوت دیا ۔ کثیر خرچ کے مقابلہ میں حقیر امداد رقم کی اہمیت اس لئے ہے کہ اکیڈیمی کے اربابِ اختیار چند برس تک میعاد اشاعتمیں توسیع دیتے رہے۔
ان تمام حضرات کابھی شکر گذار ہوں جنہوں نے کسی نہ کسی صور ت میں اس کتاب کی تالیف میں میری رہنمائی فرمائی ہے ۔
عشرت کاشمیری
سابق ایم ۔ایل ۔اے
کشتواڑ
جموں۱۰ مارچ ۱۹۷۳ ء
خوشنویس: سید نورالدین کاملیؔ
مول:سرینگر
کمپیوٹرکتابت:عبدالجباربٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
با ب اول
کھاسل:کھش ہمالیہ کے دامن اور اس کی وادیوں میں آباد تھے ۔یہ لوگ زراعت پیشہ تھے ۔ تنگ نظری اور خود غرضی سے دُور تھے ۔ چنانچہ جہاں جہاں یہ لوگ آباد تھے وہاں باہر سے آئے ہوئے مصیبت زدہ اور دکھی انسان آباد ہوتے گئے ۔ انہیں کھشوں کی طرف سے زمینیں ملیں اور جو ممکن سہولیتیں آبادکاری کے لئے ضروری تھیں وہ مہیا کی گئیں ۔آج بھی بلاک عسر تحصیل ڈوڈہ میں کڈگراں کے متصل ایک موہڑہ کانام کھاسلؔ ہے اورجولوگ وہاں آباد ہیں وہ اپنے آپ کو راجپوت کہتے ہیں ۔وقت کی رفتار کے ساتھ پہاڑی علاقوں مین رہنے والے کھشؔ ،راجپوت اور ٹھکر سلسلوں سے منسوب ہوگئے ۔کشتواڑ کے فلک بوس پہاڑوں میں بسنے والوں کے بارہ میں پنڈت شیوہ جی در اپنی فارسی تاریخ ’’احوال ملک کشتواڑ‘‘ میں جو ۱۸۸۱ ء میں مرتب کی گئی ۔رقمطراز ہیں:۔’’اس سر زمین میں حکام سلف کے عہد سے پہلے جگہ جگہ راٹھی یعنی چھوٹے رانا حکومت کا جھنڈا لہراتے تھے اور ایک دوسرے سے تعاون نہ کرتے تھے ۔اس جگہ کے باشندوں کی بڑی تعداد ٹھکروں اور تھوڑی سی براہمنوں اور میگھوں(ہریجنوں) پرمشتمل تھی۔‘‘اسی ضمن میں تاریخ ریاست کشتواڑ کے پادری مؤلفین جے ہچی سن اور پی ۔ایچ دو گل لکھتے ہیں۔’’عام روایات اور لوک گیتوں میں زمانۂ قدیم کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں کے باب میں بے شمار اشارے پائے جاتے ہیں جو دوسرے مقامات کی طرح رانا یاٹھاکر کہلاتے تھے ۔خاص چندر بھاگا کی وادی میں راناؔ کاخطاب بہت کم مشہور ہے لیکن ناگسین ، کونتواڑہ ،سروڑ اور بونجواہ میں اُن کی حکمرانی کے آثار پائے جاتے ہیں ۔راج ترنگنی میں چندر بھاگا کے ٹھاکروں کے متعلق متعدد بار ذکر آتاہے ۔ گیارھویں اور بارھویں صدی میں یہ طبقہ علاقہ میں غالب دکھائی دیتا ہے جبکہ موجودہ وقت میں راناؤں کاکوئی سلسلہ باقینہیں ہے ۔ ان ٹھاکروں میں سے دونے ہرش کے پوتے بھکتاچرکی ۱۱۰۳ ء میں مدد کی تھی جبکہ اس نے کشمیر کے تخت کو واپس لینے کی جدوجہد کی ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاڈر،بونجواہ اورکونتواڑہ وغیرہ علاقہ جات میں مقامی راناؔ خاندان حکمران تھے ۔ رانا رتناپاسرچمبہ کی طرف سے پاڈر کاکاردار یاگورنر تھا ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے عہد میں جب پاڈر فتح ہوکر مملکتِ جموں کاحصہ بنا، تورتنا پاسر کو ناگسین اور کشتواڑ میں جاگیر دی گئی ۔آج بھی سرتھل ،کونتواڑہ ،پوہی وغیرہ میں رانا خاندان آباد ہیں۔تاریخ ریاست کشتواڑ کے پادری صاحبان کا یہ قیاس درست معلوم نہیں ہوتا کہ کشتواڑ جس سطح مرتفع پر واقع ہے وہ غالباً اپنے گردوپیش کی پہاڑی وادیوں کے مقابلہ میں دیر سے آباد ہوئی ۔ کشتواڑ خاص کا محل وقوع اس کی مرکزیت ،مزروعۂ اراضی کازرخیر اور ہموار ہونااور دریا کے سبب قدرتی دفاع کاموجود ہونا ایسے امکانات ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سطح مرتفع اگر پوری کی پوری نہیں تو بھی اس کا بڑا حصہ زمانۂ قدیم سے آباد چلاآتا ہے ۔پھر راج ترنگنی میں کشتواڑکاذکر ایک بار ہی نہیں بلکہ متعدد بار کیاجانا ایک او رواضح ثبوت ہے ۔مملکت کشتواڑ: کشتواڑخاص میں مرکزی حکومت قائم ہونے کے بعد جب طوائف الملوکی ختم ہوئی اور علاقے علاقے کے راناؤں کا راج ختم ہوا ۔تب اس ریاست میں حسب ذیل علاقے شامل تھے۔۱۔ ناگسین: کشتواڑ خاص کی مشرقی پہاڑی سے لیکر لدراری نالہ تک یہ علاقہ واقع ہے ۔ اس زمان�ۂ سلف میں لدراری نالہ حد فاضل تھا۔دوسری طرف چنبہ کے باج گذارپاڈر کے راناؤں کا علاقہ تھا ۔ ناگسین بدھ مت کا مشہور پرچارک ہوا ہے ۔جسکی کتاب ملندہ پنہہ بدھ ازم کی تفسیر ہے ۔کہتے ہیں وہ اسی علاقے کا باشندہ تھا۔۲۔ دچھن:۔ زبان اور طرزِ معاشرت کے لحاظ سے یہ علاقہ کشتواڑ کے ساتھ وابستہ رہاہے ۔ ہنزل اس کی آخری سرحدی چوکی تھی ۔ یہاں جو ٹھکر آباد تھے ۔ان کی ذات راتھر تھی او ران کی بعض مستورات مہاراجہ رنبیر سنگھ کی حرم سرا میں داخل تھیں چنانچہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کی جانب سے عطا کردہحسب ذیل پٹہ آنند ولد بھگوان ٹھکر راتھر ساکن ہنزل کے خاندان میں موجود ہے:
صحیح خاصارادت نشان لعلو شاہ تحصیلدار کشتواڑچوں دختر مسماۃ بھوانی ٹھکرانی ،ساکن موضع ہنزل پرگنہ دچھن علاقہ کشتواڑ درکنیز گان سرکار والا داخل شدہ است، لازم است کہ بقدر ہفت ہنہ روپیہ ضرب چلکی دروجہ مسماۃ مذکورہ تمام ازجمیع حساب نسلاً در نسلاً معاف وواگذار دارند، ایشاں قرار نوید مجرائی خواہدشد۔پروانہ بطور پٹہ نزدِ مذکورہ ماندن تاکید دانند۔ تحریر بتاریخ ۲۵ چیت ۱۹۲۸ ء بکرمیراجہ تیغ سنگھ کے عہد میں متا کے اوتم پڈیار پرگنۂ دچھن کے کاردار تھے کھاسل:کھش ہمالیہ کے دامن اور اس کی وادیوں میں آباد تھے ۔یہ لوگ زراعت پیشہ تھے ۔ تنگ نظری اور خود غرضی سے دُور تھے ۔ چنانچہ جہاں جہاں یہ لوگ آباد تھے وہاں باہر سے آئے ہوئے مصیبت زدہ اور دکھی انسان آباد ہوتے گئے ۔ انہیں کھشوں کی طرف سے زمینیں ملیں اور جو ممکن سہولیتیں آبادکاری کے لئے ضروری تھیں وہ مہیا کی گئیں ۔آج بھی بلاک عسر تحصیل ڈوڈہ میں کڈگراں کے متصل ایک موہڑہ کانام کھاسلؔ ہے اورجولوگ وہاں آباد ہیں وہ اپنے آپ کو راجپوت کہتے ہیں ۔وقت کی رفتار کے ساتھ پہاڑی علاقوں مین رہنے والے کھشؔ ،راجپوت اور ٹھکر سلسلوں سے منسوب ہوگئے ۔کشتواڑ کے فلک بوس پہاڑوں میں بسنے والوں کے بارہ میں پنڈت شیوہ جی در اپنی فارسی تاریخ ’’احوال ملک کشتواڑ‘‘ میں جو ۱۸۸۱ ء میں مرتب کی گئی ۔رقمطراز ہیں:۔’’اس سر زمین میں حکام سلف کے عہد سے پہلے جگہ جگہ راٹھی یعنی چھوٹے رانا حکومت کا جھنڈا لہراتے تھے اور ایک دوسرے سے تعاون نہ کرتے تھے ۔اس جگہ کے باشندوں کی بڑی تعداد ٹھکروں اور تھوڑی سی براہمنوں اور میگھوں(ہریجنوں) پرمشتمل تھی۔‘‘اسی ضمن میں تاریخ ریاست کشتواڑ کے پادری مؤلفین جے ہچی سن اور پی ۔ایچ دو گل لکھتے ہیں۔’’عام روایات اور لوک گیتوں میں زمانۂ قدیم کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں کے باب میں بے شمار اشارے پائے جاتے ہیں جو دوسرے مقامات کی طرح رانا یاٹھاکر کہلاتے تھے ۔خاص چندر بھاگا کی وادی میں راناؔ کاخطاب بہت کم مشہور ہے لیکن ناگسین ، کونتواڑہ ،سروڑ اور بونجواہ میں اُن کی حکمرانی کے آثار پائے جاتے ہیں ۔راج ترنگنی میں چندر بھاگا کے ٹھاکروں کے متعلق متعدد بار ذکر آتاہے ۔ گیارھویں اور بارھویں صدی میں یہ طبقہ علاقہ میں غالب دکھائی دیتا ہے جبکہ موجودہ وقت میں راناؤں کاکوئی سلسلہ باقینہیں ہے ۔ ان ٹھاکروں میں سے دونے ہرش کے پوتے بھکتاچرکی ۱۱۰۳ ء میں مدد کی تھی جبکہ اس نے کشمیر کے تخت کو واپس لینے کی جدوجہد کی ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاڈر،بونجواہ اورکونتواڑہ وغیرہ علاقہ جات میں مقامی راناؔ خاندان حکمران تھے ۔ رانا رتناپاسرچمبہ کی طرف سے پاڈر کاکاردار یاگورنر تھا ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے عہد میں جب پاڈر فتح ہوکر مملکتِ جموں کاحصہ بنا، تورتنا پاسر کو ناگسین اور کشتواڑ میں جاگیر دی گئی ۔آج بھی سرتھل ،کونتواڑہ ،پوہی وغیرہ میں رانا خاندان آباد ہیں۔تاریخ ریاست کشتواڑ کے پادری صاحبان کا یہ قیاس درست معلوم نہیں ہوتا کہ کشتواڑ جس سطح مرتفع پر واقع ہے وہ غالباً اپنے گردوپیش کی پہاڑی وادیوں کے مقابلہ میں دیر سے آباد ہوئی ۔ کشتواڑ خاص کا محل وقوع اس کی مرکزیت ،مزروعۂ اراضی کازرخیر اور ہموار ہونااور دریا کے سبب قدرتی دفاع کاموجود ہونا ایسے امکانات ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سطح مرتفع اگر پوری کی پوری نہیں تو بھی اس کا بڑا حصہ زمانۂ قدیم سے آباد چلاآتا ہے ۔پھر راج ترنگنی میں کشتواڑکاذکر ایک بار ہی نہیں بلکہ متعدد بار کیاجانا ایک او رواضح ثبوت ہے ۔مملکت کشتواڑ: کشتواڑخاص میں مرکزی حکومت قائم ہونے کے بعد جب طوائف الملوکی ختم ہوئی اور علاقے علاقے کے راناؤں کا راج ختم ہوا ۔تب اس ریاست میں حسب ذیل علاقے شامل تھے۔۱۔ ناگسین: کشتواڑ خاص کی مشرقی پہاڑی سے لیکر لدراری نالہ تک یہ علاقہ واقع ہے ۔ اس زمان�ۂ سلف میں لدراری نالہ حد فاضل تھا۔دوسری طرف چنبہ کے باج گذارپاڈر کے راناؤں کا علاقہ تھا ۔ ناگسین بدھ مت کا مشہور پرچارک ہوا ہے ۔جسکی کتاب ملندہ پنہہ بدھ ازم کی تفسیر ہے ۔کہتے ہیں وہ اسی علاقے کا باشندہ تھا۔۲۔ دچھن:۔ زبان اور طرزِ معاشرت کے لحاظ سے یہ علاقہ کشتواڑ کے ساتھ وابستہ رہاہے ۔ ہنزل اس کی آخری سرحدی چوکی تھی ۔ یہاں جو ٹھکر آباد تھے ۔ان کی ذات راتھر تھی او ران کی بعض مستورات مہاراجہ رنبیر سنگھ کی حرم سرا میں داخل تھیں چنانچہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کی جانب سے عطا کردہحسب ذیل پٹہ آنند ولد بھگوان ٹھکر راتھر ساکن ہنزل کے خاندان میں موجود ہے:
۳۔ پرگنہ اوڈیل: کشمیر کی سرحد سے لیکر کشتواڑ کے مغل میدان کے پل سنگمی تک یہ علاقہ پھیلا ہوا ہے ۔اس میں دو مشہور درّے ہیں ایک مربل جس کا دوسرانام سنگپور پہاڑ ہے ۔یہ ۱۱۵۷۰ فٹ بلند ہے اور کشتواڑ خاص سے ۳۰ میل کی مسافت پر واقع ہے ۔بڑا تاریخی درّہ ہے ۔کشتواڑ میں نہ صرف کشمیر سے آنے الے مہاجروں ،سیاسی پناہ گزینوں اور وقت کے ستم رسیدوں کے قافلے آتے رہے ۔بلکہ جب بھی کوئی حملہ ہوا تو اس راستے سے حملہ آوروں نے یلغاریں کیں ۔چنانچہ دلاور خان صوبیدار کشمیر نے جہانگیر کے عہد میں اسی پہاڑ کو عبور کرکے کشتواڑ کے راجہ پر حملہ کیاتھا اور چار ماہ دس دن تک بھنڈارکوٹ میں رُکے رہنے کے بعد کشتواڑ کو فتح کرلیاتھا۔ کشتواڑ کی متعدد تاریخوں میں خاص طور پر تاریخ حسن حصہ اول کے صفحات ۴۹ اور ۷۷ پر کتل مربل کا ذکر ہے ۔دوسرا درہ سنتھن ہے جو چنگام سے نومیل کے فاصلے پر ہے ۔ یہ درّہ نسبتاً کم مشہور اور کم بلند ہے ۔قدرے طویل ہونے کے سبب اس راہ سے زیادہ آمد و رفت نہیں ہوتی ہے ۔پرگنہ اوڈیل میں مربل کے علاوہ کوشر کوہل یاد ریائے چھاترو کا ذکر تاریخ فرشتہ اور دوسری تواریخ میں آیاہے ۔مربل عبور کرتے ہی اس کوہل کے کنارے اکثر لڑائیاں ہوئی ہیں ۔مرزا حیدر کاشغری کے بارہ میں تاریخ فرشتہ جلد چہارم (۱) میں درج ہے کہ کوشر کوہل کے کنارے وہ کشتواڑیوں سےنبرد آزما ہوا ۔ جہاز پور یعنی چھاترو ، ڈڈپیٹھ کی جگہ کوئی دوسرا نام فرشتہ نے تحریر کیا ہے ۔
قلعہ دہار: قلعہ دہار کا ذکر صاف ہے ۔جہاں لڑائی ہوتی تھی ۔جہانگیر نے اپنی تزک میں نرکوٹ کا ذکر کیا ہے ۔جہاں مغلیہ فوج اور راجۂ کشتواڑ کے لشکر کامقابلہ ہواتھا۔میرے خیال میں یہ جگہ چھاترو اور مغل میدان کے درمیان کہیں واقع تھی۔ موجودہ پاسر کوٹ اس لئے قرین قیاس نہیں ہیکہ اس جگہ سے صرف سنگپور کی طرف سے حملہ آور فوج کا مقابلہ کیاجاسکتاتھا۔سنتھن کی جانب سے جنگ آزمالشکر کو روکنا مشکل ہوجاتا۔ممکن ہے کہ کوٹ مغلمیدان کا پہلا نام ہو ۔کیونکہ یہ نام مغل فوج کی تباہی کے بعد پڑا ہے او ریہ مغل فوج وہ فوج نہیں تھی جو دلاور خان کی قیادت میں حملہ آور ہوئی تھی۔
۴۔پرگنہ کنتواڑہ: اس میں فلر ،پکالن ،دہڑبدان،سیرگواڑ،نار،سرانواں ،ہوڑنہ ،دھار ،کیشوان اورکونتواڑہ کے مواضعات شامل تھے ۔برشالہ جو آج تحصیل ڈوڈہ میں ہے وہ کونتواڑہ کا حصہ تھا ۔
۵۔پرگنہ سروڑ سرتھل: اس میں اگلے پچھلے سرور اور سرتھل کے دیہات شامل تھے۔
۶۔پرگنہ ڈوڈہ سراج: ڈوڈہ ریاست کشتواڑ کی سرمائی راجدھانی تھا ۔راجگان کشتواڑ موسم سرما ڈوڈہ کی کم سرد اور غیر برفانی آب و ہوا میں بسر کرتے تھے ۔ڈوڈہ سراج میں بانہال تک کاعلاقہ شامل تھا۔ بانہال کا پُرانا تاریخی نام مہابل تھا۔ ایک انگریز سیاح مسٹر فارسٹر ۱۷۸۳ ء میں جموں سے سرینگر درۂ بانہال عبور کرکے گئے تھے ۔ انہوں نے اپنے سفر نامہ میں تحریر کیاہے کہ وہ چناب عبور کرنے کے بعد (غالباً رام بن کے مقام پر ) راجۂ کشتواڑ کی عملداری سے گذرے ۔کریم بخش حاکم بانہال نے سرکشی کااظہار کیاتھا کہ راجہ سوجان سنگھ ۱۷۸۶ ء نے حملہ کرکے دوبارہ قبضہ کرلیا۔ سراج اور کنڈی کے کوتوالوں کااکثر ذکر آیاہے کہ انہوں نے مشکل وقت میں کشتواڑ کے حکمرانوں کی وفاداری کا ثبوت دیاتھا ۔راجہ عنایت اﷲ سنگھ کو قلعۂ باہو سے جہاں جموں کے راجہ رنجیت دیو نے اُسے قید کرکے رکھاتھا ۔ انہی کوتوالوں نے آزاد کرایا اور گدینشین کروایاتھا۔
۷۔پرگنہ خاص:۔ اس میں کشتواڑ خاص اور منڈل کے قر�ؤ شامل تھے ۔منڈل تھا،پوچھال، پلماڑ ،ڈول او رترگام کے مواضعات پر مشتمل تھا او رکشتواڑ خاص میں پچھلی لچھ گوہا، پچھلی لچھ غفار، اور بھنڈار کوٹ کے موضعے ۔معلوم ہوتاہے کہ لچھ خزانہ اور لچھ دیارام بعد میں بندوبست کے قریب نئے نام لکھے گئے ہوں گے ۔لچھ خزانہ کاپُرانا نام لچھ گوہا اور دیارام کالچھ غفار تھا۔
مندرجہ بالا پرگنہ جات کے علاوہ کچھ اور پرگنے بھی تھے جو ریاست کشتواڑ میں شامل تھے ۔یاباج گزار تھے ۔اُن کا ذکر حسب ذیل ہے :
پرگنہ جسکار: بقول شیوہ جی در ۔پرگنہ جسکاریازانسکار کے ۵۱ قر�أ ریاست کشتواڑ میں شامل تھے ۔درصاحب نے اپنی تاریخ میں قریوں کے نام بھی درج کئے ہیں ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ جسکار پاڈر اور لداخ کی فتح کے بعد کشتواڑ سے وابستہ کیاگیاتھا ۔ ریاست کشتواڑ کے خاتمہ کے بعد بھی کشتواڑ حاکم نشین شہر تھا اور یہ علاحدہ وزارت تھی جس میں بھدرواہ بھی شامل تھا ۔ چنانچہ کشتواڑ کے ایک وزیر وزارت شیوہ جی در کے نام مہاراجہ رنبیر سنگھ کی جانب سے تاریخ کشتواڑ مرتب کئے جانے کے متعلقہ مندرجہ ذیل خط موصول ہوا۔
’’نقل ارشادصحیح خاص ۱۴۸
از مہاراجہ صاحب بہادروالی جموں وکشمیر مشیر خاص قیصرہ ہند ، جنرل عساکر انگلشیہ ،اندر مہند سپر سلطنت انگلشیہ مہاراجہ صاحب رنبیر سنگھ جی بہادر ارشاد بنام پنڈت شیوجی وزیر وزارت کشتواڑ چوں درینوقت ارشاد والا بتاکیدتمام بنام شماصادر میگر دوکہ کاغذات راجگان پیشین قرار فہرست مشمولہ ارشاد ہذا معرفت واقفان تلاش کنانیدہ درمیعاددو ہفتہ تیار کردہ ارسالِ حضور انور سازند ،دریں باب تاکید مزید شناختہ حسب السطور بعمل آرندوتاپانزدہ یوم کاغذتمام ارسال داشتہ رسید بگیرند ،بنابراں اردلی ماموراست رسید دادہ باشند،تاکید است فقط ۔بتاریخ ۲۹ مگھر ۱۹۴۰ بپنڈت شیوہ جی در جو ہماری ریاست کی مشہور شخصیت جناب ڈی پی دھر کے جد ہیں اپنی وزارت کے بارہ میں خود رقم طراز ہیں۔
’’ من مسمی بہ پنڈت شیوہ جی دربن مہانند پنڈت در بن گنیش پنڈت درسکن�ۂ خطۂ کشمیر جنت نظیر از حضور سرکار نگردفوں اقتدار درسال ۱۹۳۸ بکرمی بخطاب وزیرری برحکمرانی ملک کشتواڑ و بھدرواہ مقررو مفخر شدم۔‘‘
۲۔ پرگنہ مڑوہ واڑون: اس پرگنہ کے بارہ میں تاریخ حسن حصہ اول کے صفحہ۲۴۰ پر حسب ذیل عبارت درج ہے :۔
’’ یک پرگنہ است درمیان دودرہ از کشمیر بطرف گوشۂ جنوب و مشرق بہ مسافت ۹۶میل، ہمیشہ شامل کشمیر بودہ است۔مردمانِ آنجا مسلمان و بزبان کشمیر تلفظ میسازند۔
لیکن پادر ی صاحبان نے مڑوہ واڑون کو ریاست کشتواڑ کی قلمرو میں دکھایاہے چوں کہ ان کا تاریخی مضمون’’ تاریخ ریاست کشتواڑ ‘‘ لاہور کی ’دی پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی کے رسالے میں ۱۹۱۶ ء میں شایع ہوا ہے ۔اس لئے یہ امر قرین قیاس ہے کہ انہوں نے وقت کے حالات کو مدِ نظر رکھا ہے ۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ مڑوہ واڑون کا علاقہ بفر سٹیٹ کے طور پر کشمیر اور کشتواڑ کے درمیان رہاہے ۔ وہاں کے مقامی زمیندار یعنی لون ملک وغیرہ وقت کے طاقت ور حاکم کے سامنے سراطاعت خم کرتے رہے ہیں ۔اس لئے کبھی کشتواڑ کے باج گزار رہے ہیں اور کبھی کشمیر کے جہاں تک زبان اورکلچر کے اثرات کاتعلق ہے ۔ظاہر ہے کہ کشمیر کے قریب ہے اور کشتواڑ دور،نیز واڑون کی چراگاہوں میں آج بھی موسم گرما میں اننت ناگ کے مشرقی اطراف کے مال مویشی وہاں کے باشندے بھیجتے ہیں۔
۳۔پاڈر: اسے مشہورڈوگرہ جنرل وزیر زورآور سنگھ کلہوریہ نے ۱۸۳۶ ء میں فتح کرکے مہاراجہ گلاب سنگھ کی مملکت میں شامل کیاتھا ۔اس سے پہلے یہ چنبہ کے زیرِنگین تھا اور راجگان چنبہ کی جانب سے مقامی رانے کا روبار حکومت چلایاکرتے تھے ۔راجہ عنایت اﷲ سنگھ نے ۱۷۸۳ ء پاڈر پر حملہ کیا او رمال و دولت لیکر قبضہ برقرار رکھے بغیر واپس کشتواڑ گیا ۔ اگر اس کا قبضہ پاڈر پر ہوتا تو وزیر زور آورسنگھ کو دوبارہپاڈر فتح کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی؟
۴۔ بونجواہ: راجہ عنایت اﷲ سنگھ نے بھدرواہ کو بھی پاڈر کی طرح تاخت و تاراج کیاتھا ۔اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسی راجہ کے عہد میں بونجواہ کشتواڑ کی ریاست میں شامل ہواتھا۔ بھدرواہ پر راجہ محمد تیغ سنگھ کے وزیر لکھپت پڈیار نے بھی حملہ کیاتھا ۔اور چنبہ کے وزیر نتھو کے لشکر کو بسنوتہ اور گالو گڑھ کے مقام پر فیصلہ کن شکست دی اور بھدرواہ کو فتح کرکے جلادیاگیاتھا ۔اسی کارنامہ کی بنا پر وزیر لکھپت کو بونجواہ کا علاقہ جاگیر میں دیاگیاتھا ۔ورنہ اس سے پیشتر وہاں مقامی رانے راجہ بھدرواہ کی اطاعت کا جو اگلے میں ڈالے حکومت کیاکرتے تھے ۔
روایات کے گرداب: کشتواڑ کو کوئی کلہن نہیں ملا ۔اگر ملا بھی ہو تو اس کا کرنامہ محفوظ نہیں رہا۔ راج ترنگنی بھی شاعرانہ پروازِخیال ،مبالغہ آرائی اور روایات پرستی سے خالی نہیں ہے لیکن کشتواڑ کی تاریخ راجہ رائے سنگھ ۱۵۴۷ ء تک روایات کے گرداب میں پھنسی رہی ۔ کہاوتوں ،قصوں اور بے سر و پاقصیدوں کے جھاڑ جھنکار میں چھپے ہوئے چنبیلی کے پھول مشکل سے ملتے ہیں ۔ تاریخ کے اوراق سنسکرت اور شاردا رسم الخط میں کسی کہنہ چوبی صندوق میں کاغذی کیڑوں کی نذ ر ہورہے ہیں ۔دھوئیں سے اٹے ہوئے ان چوبی صندوقوں یاالماریوں کے مالکوں کو اس قدر علم کی بصیرت نہیں ہے کہ وہ اپنے خزانے کو دیکھیں کہ وہ اینٹوں اور پتھروں پر مشتمل ہیں یا لعل و جواہرات سے مزین ہیں اور نہ ہی ظرف اتنا عالی ہے کہ اہل علم کو اُن سے راشناس کرائیں ۔بعض مخطوطے نظر سے گذرے جو مخصوص زاویہ نگاہ سے لکھے گئے ہیں ۔ جس راجہ نے مصنف یا اس کے بزرگوں کو اپنی فیاضی سے مطمئن اور مسرور کیا ہے ۔اس کی مدح میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں ۔اُسے کرن کی طرح دانی کہاگیا ہے ۔ پنڈت دینا ناتھ جوتشی کے پاس ایک مخطوطہ شاردا رسم الخط میں ہے ۔اس میں مندرجہ ذیل عبارت مرقوم ہے:
’’وجے کا بیٹا بلبھدر ہوا ہے ، جس بلبھدر کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے بارہ ہاتھی دان میں دئے۔‘‘ کشتواڑ میں ہاتھی ہوتا ہی نہیں ہے بلکہ آتاہی نہیں ہے ۔ آج سے صدیاں پہلے راستے بے حد دشوار گذار تھے ، ان ایام میں کسی ہاتھی کاآنا او ربھی ممکن نہ تھا ۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود تاریخ کشتواڑ میںتھی کا ذکر آتا ہے ۔ایک روایت ہے کہ راجہ سنگرام سنگھ کے عہد میں متا اور کلید کے درمیان ایک دیو پیداہوا تھا جو ہاتھی کی شکل میں ظاہر ہوتا تھا اور ارد گرد کے دیہات میں جب موقع ملتا کسی نہ کسی انسان کو اپنا شکار بنا لیتا ۔ کہاجاتا ہے کہ چوگان (کشتواڑ کامرغ زار) میں اگر گیارہ آدمی چل رہے ہوتے تو ایک آدمی خودبخود غائب ہوجاتا۔آخر راجہ نے ناگسین سے ایک بوڑھے ،تجربہ کار اور ماہر روحانیات براہمن کو بلایا جس نے اپنے علم کے زور سے دیو کو زندہ جلادیااور انعام میں سنگرام بھاٹا کے مقام پر جاگیر حاصل کی ۔ سنگرام بھٹا اُسی براہمن کا آباد کیاہوا موضع ہے ۔ دیو کے مار ے جانے کی خوشی میں بہادون یااسوج میں چوگان میں کٹک یاترا منعقد ہوتی تھی ۔ جس میں مقامی بھانڈاپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے او رہاتھی کی شکل (Effigy) بناتے تھے ۔چوگان میں ایک پتھر بھی تھاجوزمین میں گڑا ہوا تھا اور جو حصہ باہر تھا ،اس میں سوراخ تھا ،اسے ہستی گنڈ یعنی ہاتھی باندھنے کی جگہ کہتے تھے ۔
بابِ دوم
گوردھن سر: کہاجاتا ہے کہ پُرانے وقتوں میں سنگھ پور سے ٹھاٹھری تک ایک لمبی چوڑی جھیل تھی ۔ یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ دریائے چناب۔دریائے مڑوہ اور کأشأ کوہل(چھاترونالہ) کی سطح اس قدر بلند ہوکہ ان سب کا پانی کشتواڑ کے اوپر سے ہوکر گذرتاہو۔ کشتواڑ کی سطح مرتفع کی موجودہ شکل نہ ہو بلکہ پانی کے نیچے ایک میدان ہو جب ہزاروں سال کے مسلسل عمل نے دریاؤں کی گذرگاہوں کو گہرا کردیاہو،کشتواڑ کی جھیل کے کنارے پانی کے زور سے یاکسی زلزلہ کے سبب گر کرٹوٹ چکے ہوں اور تمام پانی نشیب میں چیرہاڑ ،آرسی ،تیل مچھی ،سونہ درمن، ہڑیال اور شالہ مار کی طرف بہہ گیا ہو اور خشکی برآمد ہوگئی ہو جس پر دیودار کے درختوں کا جنگل اُگ آیاہو۔ جھیل کی جگہ رہتے رہتے صرف برائے نام پانی باقی رہ گیاہے۔ جسے بعد میں گودن سر کہاگیا اور آج تک کہاجاتاہے ۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جھیل کی روایات کشمیر کی تاریخ کی دیکھا دیکھی بنائی گئی ہو ۔وہاں جھیل کے پانی کو کشپ رشی نے نکالا اور کشمیر کو آباد کیا یہاں ہنگیت براہمن نے سب سے پہلی بستی بسائی۔ اصل میں علم تاریخ براہمنوں کے ہاتھ میں تھا۔وہ کشمیر سے آئے تھے ورنہ آثار وقرائن کسی جھیل کا پتہ نہیں دیتے ہیں۔
مہاکالی کنڈ یا مہاکال گڈھ: جب جھیل کاپانی خارج ہوگیا اور صرف گودن سر کا چھوٹاسا تالاب رہ گیا ۔تو عرصۂ دراز کے بعد کہیں سے ایک سادھو شری پال نامی آنکلا۔ اس نے پُر سکون جگہ دیکھ کر تالاب کے پاس ہی اپنی دھونی رمائی اور یاد الٰہی میں مصروف ہوگیا۔ رفتہ رفتہ سادھو کے روحانی کمالات کا شہر ہ عام ہوا ۔اور لوگ اس سے مستفید ہونے کے لئے آنے لگے ۔ کچھ معتقد ایسے بھی تھے جو وہیں آباد ہوگئے اور اس نئی آبادی کانام ’’مہاکالی کنڈ‘‘ پڑا۔غالباً شری پال کالی کاپُجاری تھا۔اس کانام بھی معلوم نہ ہوسکا۔ شری پال لقب ہے کیونکہ چیتے اس کے پاس دیکھے گئے تھے ۔ پادری ہچی سن اور درگل نےشری پال کی آبادی یا بستی کانام مہاکالی کندر رکھا ہے ۔ ہمارے خیال میں یہ مہاکالی کنڈ ہے کیونکہ یہ تالاب کے کنارے واقعہ تھی اور تالاب کو کنڈ کہاجاتا ہے ۔ نئی بستی میں دس پندرہ سال کے بعد ہی اخلاقی بُرائیاں پیدا ہوگئیں ۔ سادھو نے ناراض ہوکر بد دعا دی اور مہاکالی کنڈ تباہ ہوگیا۔ خیال یہی ہے کہ آبادی کسی وباکاشکار ہوکر مرکھپ گئی اور باقی ڈر کر بھاگ گئی ۔ سادھو جیسے پردۂ گمنامی سے نکلا تھا اسی طرح لاپتہ ہوگیا۔پوہی: پھر زمانہ نے ایک اور کروٹ لی۔ کشمیر سے ہنگپت نام کاایک براہمن چرواہا بھیڑ بکریوں کا ریوڑ لیکر آیا اور مڑپنیار کے میٹھے اور ٹھنڈے پانی کے چشمے اور قریب کے سرسبز و شاداب جنگل اور جھاڑیوں کو دیکھ کر اپنے تینوں لڑکوں رام داس روگھناتھ داس اور سری داس کے ساتھ وہیں رہ پڑا۔اس کا خاندان بڑھا اور پوہی کاگاؤں آباد ہوا۔ژیر ہاڑ اور زیور: پوہی کی آبادی کے بعد کشمیر سے یہاں چرواہے اور مسافر آتے جاتے رہے ۔ آہنگپت کے خاندان کی خوشحالی کے قصے کچھ قبیلوں نے جو کشمیر کی سرحد پر آباد تھے اور راتھر اور گنائی کہلاتے تھے ۔سُنے اور ان کے مُنہ میں پانی بھر آیا ۔ چنانچہ اُن دونوں قبیلوں نے مِل کر پوہی پر حملہ کیا اور غالب آنے کے بعد آہنگپت کے خاندان سے ان کی زرخیز چراگاہیں اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ چھین لئے ۔نئے حملہ آوروں نے پوہی کی ڈھلانوں پر رہنا پسند نہیں کیا کیونکہ وہ وادئ کشمیر کے میدانوں سے آئے تھے ۔اس لئے پہلے پہل وہ سب ڈانبرناگ میں آباد ہوئے کیونکہ وہاں پانی بھی زیادہ تھا اور کاشت کے لئے نسبتاً بہتراراضی دستیاب ہوسکتی تھی ۔ راتھر اور گنائیوں نے اُس نئی بستی میں خوبانی کے بے شمار درخت کاشت کئے اور کچھ عرصہ بعد وہاں بہتات سے خوبانیاں پیدا ہونے لگیں ۔ اس طرح اُس نئی بستی نام ژیر ہاڑ پڑا۔معلوم ہوتاہے کہ جب ان کی تعداد بڑھ گئی اور کشمیر سے اور بھی قافلے آتے گئے نیز دونوں قبیلوں میں پہلی سی محبت اور دوستی برقرار نہ رہی تو اُنہوں نے نئی بستیاں بسانے پر اتفاق کیا ۔روتریاراتھروں نے زیور کاگاؤں آباد کیا اور گنائی موجودہ قصبۂ کشتواڑ کی جگہ جہاں جنگل تھا اُسے صاف کرنے کے بعد بس گئے۔روتر یاراتھر،گنائی:یہ راٹھو اور گنائی قبیلے کشمیر کے جنگجو قبیلے تھے ۔ راٹھور بگڑتے بگڑتے روتر یا راتھر بن گیا اور گُن وانی ،گنائی ہوگئے ۔حضرت شیخ یعقوب صرفیؔ ؒ جنہوں نے اکبر اعظم کو کشمیر پر حملہ آور ہونے اور شعیہ چکوں کے ظلم و ستم سے اہل کشمیر کو بچانے کی دعوت دی تھی ۔اسی گنائی قبیلے کے فرد تھے ۔چھوٹے موٹے حکمران: راتھر اور گنائی سطح مرتفئ کشتواڑِ خاص کے حکمران تھے ۔ موجودہ تحصیل کشتواڑ کے باقی علاقوں میں دوسرے لوگ حکمران تھے ۔عام طور پر ایک ایک گاؤں کا راجہ ہوتاتھا اور کہیں کہیں علاقے کا بھی ۔ یہ حکمران رانے کہلاتے تھے ۔پاڈر ، بونجواہ ، کنتواڑہ ، ناگسین اور سروڑ میں ’’رانا‘‘ خاندان کے لوگ حکومت کرتے تھے ۔ جن کا دائرہ اختیار ان کی طاقت ، ہر دلعزیزی اور ذاتی شجاعت کی بنا پر گھٹتا بڑھتا رہتاتھا ۔ راناؤں کے علاوہ راٹھی لفظ بھی حکمرانی کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ یہ راٹھی بھی راٹھو ر یا ٹھاکر ہوں گے ۔ ہرش کا پوتا بھکشا چرجب تخت و تاج کے لئے ۱۱۴۲ ء میں کوشش کررہاتھا تو اس کی مدد کشتواڑ کے دو ٹھاکرکررہے تھے ۔ راج ترنگنی میں چندر بھاگا کے ٹھاکروں کے متعلق کئی بار ذکر ہوا ہے ۔ در اصل کشتواڑ میں مرکزی حکومت بہت بعد میں قائم ہوئی جس نے کشتواڑ کی ریاست کو جنم دیا۔بھوٹ نگر: ژیر ہاڑ، پوہی ،زیور اور کشتواڑ خاص کی خوشحالی اور اقتصادی اطمینان کے قصے دو ردور تک پھیلے ہوں گے تبھی تو سورو (لداخ ، زانسکار) کا حکمران کھری سلطان حملہ آور ہوا اور ٹھاٹھری تک تمام علاقے پر قابض ہوگیا ۔ کشتواڑ کانام بھوٹ نگر پڑا۔لداخیوں کو بھوٹ کہاجاتا ہے ۔اُس نسبت سے مقامی آبادی نے کشتوار کی راجدھانی کو بھوٹوں کی کثرت کے سبب بھوٹ نگر پکارنا شروع کیا ہو ورنہ ظاہر ہے کہ کھری سلطان اس نام کو خود کیسے تجویز کرتا ۔کھری سلطان ایک رعایا پر ور اور انصاف پسند ، حکمران تھا ۔ کشتواڑ او راس کے علاقہ جات سے فائدہ اٹھانے کے بعد وہ پھر اپنے آبائی وطن واپس چلاگیا ۔ کھری سلطان یاتری سلطان بقول کے ۔ایم ،پانیکر لداخ کے صوبہ پورگ کے حکمران تھے ، جن کی راجدھانی کھرسی تھی ۔ یہ علاقہ تحصیل کشتواڑ کے مڑوہ واڑون کے متصل ہے ۔ لفظ سلطان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان تھا جبکہ سورو اور کھرسی کے سردار پندرھویں صدی میں مسلمان ہوئے تھے ۔دائر�ۂ اسلام میں آنےسے پہلے کھرسی کے سردار اپنے تئیں کھری گیالپو کہلاتے تھے ۔دراصل جب بہت عرصہ بعد تاریخ کشتواڑ کسی شخص نے مرتب کی تو اس نے اس وقت کے کھر سی حکمرانوں کو جو کھری سلطان کہلاتے تھے ، مدِ نظر رکھ کر آٹھویں یا نویں صدی کے حکمران کو بھی کھری سلطان کے لقب سے موسوم کیاہے ۔ تاریخ حشمت میں صفحہ ۶۹۸ پر درج ہے ۔ ٹھی محمد سلطان ۱۷۴۶ ء اپنے باپ کی وفات پر راجہ ہوا۔ وہ بڑا مدبر اور بہادر راجہ تھا ۔ اس نے اپنے ملک سے باہر نکل کر کشتوار کو فتح کیا ۔ جہاں ٹھی سلطان کے نام کا شغرن آج تک موجود ہے۔‘‘ یہ بھی غلط ہے ۔ اٹھارھویں صدی میں کشتواڑ میں جو واقعات رونماہوئے وہ تاریخ میں درج ہیں ، کسی سلطان کے حملہ کاذکر نہیں ہے اور خود حشمت اﷲ نے کشتواڑ کی تاریخ میں اٹھارھویں صدی میں ایسا کوئی حملہ بیان نہیں کیا ہے ۔پنج ساسی: کشتواڑ کی تجارت کشمیر کے ساتھ بھی ہوئی تھی اورجنوب کے علاقہ جات جموں ، بسوہلی ، نورپور کانگڑہ وغیرہ کے ساتھ بھی ۔ذرایع آمدورفت مشکل تھے ۔ چوروں ، لٹیروں اور جنگلی درندوں کا خطرہ قدم قدم پر مسافروں کو پریشاں کرتاتھا ۔اُن ایام میں سفر قافلے کی صورت میں دلیر، جنگجو اور باہمت لوگ ہی کرسکتے تھے ۔اس لئے وہی لوگ تجارت میں پیش پیش تھے جو اپنی حفاظت خود بھی کرلیتے تھے ۔ ایسا ہی تجارت پیشہ فرقہ پنج ساسی تھا۔ یہ پنجاب سے آکر کشتواڑ میں کاروبار کے تعلق میں آبادہوگیا۔ وہ باہر سے کپڑے ، نمک ، گڑ ،آرائشی سامان وغیرہ کشتواڑ لاتے تھے اور یہاں سے ادویات ، گھی ،زیرہ ، گچھیاں ، راجماش، زعفران ،کمبل ،پٹو برآمد کرتے تھے چونکہ جنگجو تھے اس لئے ہتھیار جسم پر سجا کر رکھتے تھے ۔ شروع شروع میں مقامی آبادی کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ اور برادرانہ تھے لیکن جب وہ ہدری کے قریب آباد ہوگئے اور کھیتی باڑی کرنے لگے تو رفتہ رفتہ اُن کے تعلقات مقامی آبادی بالخصوص راتھر اور گنائیوں کے ساتھ کشیدہ ہوگئے ۔راتھر اور گنائی اپنے آپ کو کشتواڑ کاحکمران طبقہ سمجھتے تھے اور غریب ہونے کے باوجود پنج ساسیوں پر رعب جماتے تھے ۔ پنج ساسی ترکی بہ ترکی جواب دیتے تھے اور اُن سے مرعوب نہیں ہوتے تھے ۔ چونکہ وہ شہ زور اور فنونِ سپاہگری سے واقف تھے اس لئے راتھر اور گنائی ان کا کھلے مقابلے میں کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے ۔ ہاں اُنہوں نے کشتواڑ کے نام پر رشتہ داری اور دوستیکے ناطے مقامی آبادی کا بڑا حصہ پنج ساسیوں کے خلاف ابھار دیاتھا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنج ساسی کھیتی باڑی کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے اور تجارت کشتواڑ سے باہر کے علاقوں سے کرتے رہے۔ کشتواڑ کے لوگوں کاایک حصہ ان کا دوست تھا۔ان سے بھی اور ان کے ذریعے دوسروں سے تجارت کرتے رہے ۔ آج پنج ساسی تند اور پلماڑ میں آباد ہیں ۔صدیاں گذرنے کے باوجود اور مقامی آبادی سے رشتہ ناطہ کرنے کے باوصف ان کا مخصوص رنگ اور ناک نقشہ کہہ رہاہے ۔
ع اپنے اجداد کی میراث کے باقی ہیں نشانگوردھن سر: کہاجاتا ہے کہ پُرانے وقتوں میں سنگھ پور سے ٹھاٹھری تک ایک لمبی چوڑی جھیل تھی ۔ یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ دریائے چناب۔دریائے مڑوہ اور کأشأ کوہل(چھاترونالہ) کی سطح اس قدر بلند ہوکہ ان سب کا پانی کشتواڑ کے اوپر سے ہوکر گذرتاہو۔ کشتواڑ کی سطح مرتفع کی موجودہ شکل نہ ہو بلکہ پانی کے نیچے ایک میدان ہو جب ہزاروں سال کے مسلسل عمل نے دریاؤں کی گذرگاہوں کو گہرا کردیاہو،کشتواڑ کی جھیل کے کنارے پانی کے زور سے یاکسی زلزلہ کے سبب گر کرٹوٹ چکے ہوں اور تمام پانی نشیب میں چیرہاڑ ،آرسی ،تیل مچھی ،سونہ درمن، ہڑیال اور شالہ مار کی طرف بہہ گیا ہو اور خشکی برآمد ہوگئی ہو جس پر دیودار کے درختوں کا جنگل اُگ آیاہو۔ جھیل کی جگہ رہتے رہتے صرف برائے نام پانی باقی رہ گیاہے۔ جسے بعد میں گودن سر کہاگیا اور آج تک کہاجاتاہے ۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جھیل کی روایات کشمیر کی تاریخ کی دیکھا دیکھی بنائی گئی ہو ۔وہاں جھیل کے پانی کو کشپ رشی نے نکالا اور کشمیر کو آباد کیا یہاں ہنگیت براہمن نے سب سے پہلی بستی بسائی۔ اصل میں علم تاریخ براہمنوں کے ہاتھ میں تھا۔وہ کشمیر سے آئے تھے ورنہ آثار وقرائن کسی جھیل کا پتہ نہیں دیتے ہیں۔
مہاکالی کنڈ یا مہاکال گڈھ: جب جھیل کاپانی خارج ہوگیا اور صرف گودن سر کا چھوٹاسا تالاب رہ گیا ۔تو عرصۂ دراز کے بعد کہیں سے ایک سادھو شری پال نامی آنکلا۔ اس نے پُر سکون جگہ دیکھ کر تالاب کے پاس ہی اپنی دھونی رمائی اور یاد الٰہی میں مصروف ہوگیا۔ رفتہ رفتہ سادھو کے روحانی کمالات کا شہر ہ عام ہوا ۔اور لوگ اس سے مستفید ہونے کے لئے آنے لگے ۔ کچھ معتقد ایسے بھی تھے جو وہیں آباد ہوگئے اور اس نئی آبادی کانام ’’مہاکالی کنڈ‘‘ پڑا۔غالباً شری پال کالی کاپُجاری تھا۔اس کانام بھی معلوم نہ ہوسکا۔ شری پال لقب ہے کیونکہ چیتے اس کے پاس دیکھے گئے تھے ۔ پادری ہچی سن اور درگل نےشری پال کی آبادی یا بستی کانام مہاکالی کندر رکھا ہے ۔ ہمارے خیال میں یہ مہاکالی کنڈ ہے کیونکہ یہ تالاب کے کنارے واقعہ تھی اور تالاب کو کنڈ کہاجاتا ہے ۔ نئی بستی میں دس پندرہ سال کے بعد ہی اخلاقی بُرائیاں پیدا ہوگئیں ۔ سادھو نے ناراض ہوکر بد دعا دی اور مہاکالی کنڈ تباہ ہوگیا۔ خیال یہی ہے کہ آبادی کسی وباکاشکار ہوکر مرکھپ گئی اور باقی ڈر کر بھاگ گئی ۔ سادھو جیسے پردۂ گمنامی سے نکلا تھا اسی طرح لاپتہ ہوگیا۔پوہی: پھر زمانہ نے ایک اور کروٹ لی۔ کشمیر سے ہنگپت نام کاایک براہمن چرواہا بھیڑ بکریوں کا ریوڑ لیکر آیا اور مڑپنیار کے میٹھے اور ٹھنڈے پانی کے چشمے اور قریب کے سرسبز و شاداب جنگل اور جھاڑیوں کو دیکھ کر اپنے تینوں لڑکوں رام داس روگھناتھ داس اور سری داس کے ساتھ وہیں رہ پڑا۔اس کا خاندان بڑھا اور پوہی کاگاؤں آباد ہوا۔ژیر ہاڑ اور زیور: پوہی کی آبادی کے بعد کشمیر سے یہاں چرواہے اور مسافر آتے جاتے رہے ۔ آہنگپت کے خاندان کی خوشحالی کے قصے کچھ قبیلوں نے جو کشمیر کی سرحد پر آباد تھے اور راتھر اور گنائی کہلاتے تھے ۔سُنے اور ان کے مُنہ میں پانی بھر آیا ۔ چنانچہ اُن دونوں قبیلوں نے مِل کر پوہی پر حملہ کیا اور غالب آنے کے بعد آہنگپت کے خاندان سے ان کی زرخیز چراگاہیں اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ چھین لئے ۔نئے حملہ آوروں نے پوہی کی ڈھلانوں پر رہنا پسند نہیں کیا کیونکہ وہ وادئ کشمیر کے میدانوں سے آئے تھے ۔اس لئے پہلے پہل وہ سب ڈانبرناگ میں آباد ہوئے کیونکہ وہاں پانی بھی زیادہ تھا اور کاشت کے لئے نسبتاً بہتراراضی دستیاب ہوسکتی تھی ۔ راتھر اور گنائیوں نے اُس نئی بستی میں خوبانی کے بے شمار درخت کاشت کئے اور کچھ عرصہ بعد وہاں بہتات سے خوبانیاں پیدا ہونے لگیں ۔ اس طرح اُس نئی بستی نام ژیر ہاڑ پڑا۔معلوم ہوتاہے کہ جب ان کی تعداد بڑھ گئی اور کشمیر سے اور بھی قافلے آتے گئے نیز دونوں قبیلوں میں پہلی سی محبت اور دوستی برقرار نہ رہی تو اُنہوں نے نئی بستیاں بسانے پر اتفاق کیا ۔روتریاراتھروں نے زیور کاگاؤں آباد کیا اور گنائی موجودہ قصبۂ کشتواڑ کی جگہ جہاں جنگل تھا اُسے صاف کرنے کے بعد بس گئے۔روتر یاراتھر،گنائی:یہ راٹھو اور گنائی قبیلے کشمیر کے جنگجو قبیلے تھے ۔ راٹھور بگڑتے بگڑتے روتر یا راتھر بن گیا اور گُن وانی ،گنائی ہوگئے ۔حضرت شیخ یعقوب صرفیؔ ؒ جنہوں نے اکبر اعظم کو کشمیر پر حملہ آور ہونے اور شعیہ چکوں کے ظلم و ستم سے اہل کشمیر کو بچانے کی دعوت دی تھی ۔اسی گنائی قبیلے کے فرد تھے ۔چھوٹے موٹے حکمران: راتھر اور گنائی سطح مرتفئ کشتواڑِ خاص کے حکمران تھے ۔ موجودہ تحصیل کشتواڑ کے باقی علاقوں میں دوسرے لوگ حکمران تھے ۔عام طور پر ایک ایک گاؤں کا راجہ ہوتاتھا اور کہیں کہیں علاقے کا بھی ۔ یہ حکمران رانے کہلاتے تھے ۔پاڈر ، بونجواہ ، کنتواڑہ ، ناگسین اور سروڑ میں ’’رانا‘‘ خاندان کے لوگ حکومت کرتے تھے ۔ جن کا دائرہ اختیار ان کی طاقت ، ہر دلعزیزی اور ذاتی شجاعت کی بنا پر گھٹتا بڑھتا رہتاتھا ۔ راناؤں کے علاوہ راٹھی لفظ بھی حکمرانی کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ یہ راٹھی بھی راٹھو ر یا ٹھاکر ہوں گے ۔ ہرش کا پوتا بھکشا چرجب تخت و تاج کے لئے ۱۱۴۲ ء میں کوشش کررہاتھا تو اس کی مدد کشتواڑ کے دو ٹھاکرکررہے تھے ۔ راج ترنگنی میں چندر بھاگا کے ٹھاکروں کے متعلق کئی بار ذکر ہوا ہے ۔ در اصل کشتواڑ میں مرکزی حکومت بہت بعد میں قائم ہوئی جس نے کشتواڑ کی ریاست کو جنم دیا۔بھوٹ نگر: ژیر ہاڑ، پوہی ،زیور اور کشتواڑ خاص کی خوشحالی اور اقتصادی اطمینان کے قصے دو ردور تک پھیلے ہوں گے تبھی تو سورو (لداخ ، زانسکار) کا حکمران کھری سلطان حملہ آور ہوا اور ٹھاٹھری تک تمام علاقے پر قابض ہوگیا ۔ کشتواڑ کانام بھوٹ نگر پڑا۔لداخیوں کو بھوٹ کہاجاتا ہے ۔اُس نسبت سے مقامی آبادی نے کشتوار کی راجدھانی کو بھوٹوں کی کثرت کے سبب بھوٹ نگر پکارنا شروع کیا ہو ورنہ ظاہر ہے کہ کھری سلطان اس نام کو خود کیسے تجویز کرتا ۔کھری سلطان ایک رعایا پر ور اور انصاف پسند ، حکمران تھا ۔ کشتواڑ او راس کے علاقہ جات سے فائدہ اٹھانے کے بعد وہ پھر اپنے آبائی وطن واپس چلاگیا ۔ کھری سلطان یاتری سلطان بقول کے ۔ایم ،پانیکر لداخ کے صوبہ پورگ کے حکمران تھے ، جن کی راجدھانی کھرسی تھی ۔ یہ علاقہ تحصیل کشتواڑ کے مڑوہ واڑون کے متصل ہے ۔ لفظ سلطان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان تھا جبکہ سورو اور کھرسی کے سردار پندرھویں صدی میں مسلمان ہوئے تھے ۔دائر�ۂ اسلام میں آنےسے پہلے کھرسی کے سردار اپنے تئیں کھری گیالپو کہلاتے تھے ۔دراصل جب بہت عرصہ بعد تاریخ کشتواڑ کسی شخص نے مرتب کی تو اس نے اس وقت کے کھر سی حکمرانوں کو جو کھری سلطان کہلاتے تھے ، مدِ نظر رکھ کر آٹھویں یا نویں صدی کے حکمران کو بھی کھری سلطان کے لقب سے موسوم کیاہے ۔ تاریخ حشمت میں صفحہ ۶۹۸ پر درج ہے ۔ ٹھی محمد سلطان ۱۷۴۶ ء اپنے باپ کی وفات پر راجہ ہوا۔ وہ بڑا مدبر اور بہادر راجہ تھا ۔ اس نے اپنے ملک سے باہر نکل کر کشتوار کو فتح کیا ۔ جہاں ٹھی سلطان کے نام کا شغرن آج تک موجود ہے۔‘‘ یہ بھی غلط ہے ۔ اٹھارھویں صدی میں کشتواڑ میں جو واقعات رونماہوئے وہ تاریخ میں درج ہیں ، کسی سلطان کے حملہ کاذکر نہیں ہے اور خود حشمت اﷲ نے کشتواڑ کی تاریخ میں اٹھارھویں صدی میں ایسا کوئی حملہ بیان نہیں کیا ہے ۔پنج ساسی: کشتواڑ کی تجارت کشمیر کے ساتھ بھی ہوئی تھی اورجنوب کے علاقہ جات جموں ، بسوہلی ، نورپور کانگڑہ وغیرہ کے ساتھ بھی ۔ذرایع آمدورفت مشکل تھے ۔ چوروں ، لٹیروں اور جنگلی درندوں کا خطرہ قدم قدم پر مسافروں کو پریشاں کرتاتھا ۔اُن ایام میں سفر قافلے کی صورت میں دلیر، جنگجو اور باہمت لوگ ہی کرسکتے تھے ۔اس لئے وہی لوگ تجارت میں پیش پیش تھے جو اپنی حفاظت خود بھی کرلیتے تھے ۔ ایسا ہی تجارت پیشہ فرقہ پنج ساسی تھا۔ یہ پنجاب سے آکر کشتواڑ میں کاروبار کے تعلق میں آبادہوگیا۔ وہ باہر سے کپڑے ، نمک ، گڑ ،آرائشی سامان وغیرہ کشتواڑ لاتے تھے اور یہاں سے ادویات ، گھی ،زیرہ ، گچھیاں ، راجماش، زعفران ،کمبل ،پٹو برآمد کرتے تھے چونکہ جنگجو تھے اس لئے ہتھیار جسم پر سجا کر رکھتے تھے ۔ شروع شروع میں مقامی آبادی کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ اور برادرانہ تھے لیکن جب وہ ہدری کے قریب آباد ہوگئے اور کھیتی باڑی کرنے لگے تو رفتہ رفتہ اُن کے تعلقات مقامی آبادی بالخصوص راتھر اور گنائیوں کے ساتھ کشیدہ ہوگئے ۔راتھر اور گنائی اپنے آپ کو کشتواڑ کاحکمران طبقہ سمجھتے تھے اور غریب ہونے کے باوجود پنج ساسیوں پر رعب جماتے تھے ۔ پنج ساسی ترکی بہ ترکی جواب دیتے تھے اور اُن سے مرعوب نہیں ہوتے تھے ۔ چونکہ وہ شہ زور اور فنونِ سپاہگری سے واقف تھے اس لئے راتھر اور گنائی ان کا کھلے مقابلے میں کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے ۔ ہاں اُنہوں نے کشتواڑ کے نام پر رشتہ داری اور دوستیکے ناطے مقامی آبادی کا بڑا حصہ پنج ساسیوں کے خلاف ابھار دیاتھا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنج ساسی کھیتی باڑی کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے اور تجارت کشتواڑ سے باہر کے علاقوں سے کرتے رہے۔ کشتواڑ کے لوگوں کاایک حصہ ان کا دوست تھا۔ان سے بھی اور ان کے ذریعے دوسروں سے تجارت کرتے رہے ۔ آج پنج ساسی تند اور پلماڑ میں آباد ہیں ۔صدیاں گذرنے کے باوجود اور مقامی آبادی سے رشتہ ناطہ کرنے کے باوصف ان کا مخصوص رنگ اور ناک نقشہ کہہ رہاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب سوم
کشتواٹ: گنائیوں نے موجودہ قصبہ کو آباد کیا تھا ۔ راج ترنگنی میں جب بھی ذکر آیا ہے ۔ کشتواٹ نام دیاگیا ہے ۔ہچی سن نے اس کا مطلب باغِ دشت بتایا ہے اور اسے سنسکرت کامرکب قرار دیاہے جو بجا ہے ۔ تاریخ بہارستان شاہی میں جو چک عہد کی تاریخ ہے کشتواڑکو کاٹھوار کہاگیا ہے ۔ کشتواڑ کے معانی بھی مختلف بیان کئے گئے ہیں ۔ بقول سید نجم الدین مؤلفّ تاریخ کشتواڑ ، کشٹہ خوبانی کے چھلکے کو کہتے ہیں اور واڑ جگہ کو ۔دوسرے معنی ہیں دُکھ کی جگہ ۔ یہی معنی زیادہ مستعمل ہیں۔
کشٹ رنج آمدبہ ہندی جائے وار
جائے رنج آمد بمعنے کشٹوار
ہرکہ ساکن مے شود رر کشتوار
کردباید ایں دوچیزش اختیار
روزداردنفس رادرسوزِ جوع
شب ز سرما با پدش ترک ہجوع
یعنی ہندی میں کشٹ کے معنی رنج ہیں اور دار ،جگہ کو کہتے ہیں ۔اس لئے کشتواڑ کے معنی ہوئے دُکھ کی جگہ ۔جوکوئی کشتواڑ میں رہ جاتا ہے وہ دوباتیں اختیار کرتاہے ۔ دن کے وقت بھوک کی آگ میں جلتا ہے اور رات کو سردی اُسے سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ اسی مفہوم کو ایسے بھی بیان کیاگیا ہے۔
کشتواڑ ، کشٹ کا بھانڈا دن کو بھوکا رات کو ٹھانڈا
جوکوئی آئے ،جب وہ جائے وہ ہے گوڑ گاؤں کا جھانڈا۔اج ترنگنی کا مترجم سٹائن جلد دو م کے صفحہ ۴۳۱ پر لکھتا ہے ۔
تاریخ حسن کے جلد اول کے صفحہ ۲۴۳ پر یہ عبارت کشتواڑ کے بارہ میں درج ہے ۔
’’کشتواڑ ایک درہ کے درمیان ہے ۔ کشمیر سے جنوب کی طرف مڑوہ کے راستے ۱۲۰ میل کی مسافت پر ہے ۔سطح سمندر سے اس کی بلندی ۵۴۵۰ فٹ ہے ۔ وہاں کی آب وہوا اچھی ہے ۔وہاں کے درخت اور پھل مرغوب ہیں ۔ برف قلیل پڑتی ہے ۔فوراً پگھل جاتی ہے ۔ وہاں کے اصلی باشندے ٹھکر اور گدی قوم سے ہیں ۔اُس جگہ بہت سے کشمیری بھی شال بافی کاکام کرتے ہیں ۔اس سے پہلے وہاں کی عورتیں سحر اور جادوگری میں مشہور تھیں ۔انہیں’’ڈین‘‘ کہتے تھے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے ان کا مناسب تدارک کیا اور ان کا عمل معدوم ہوگیا ۔اُس جگہ کے راجہ راجپوت قوم سے تھے اور خودمختیارانہ حکومت کرتے تھے ۔۹۰۰ ہجری میں سید شاہ فرید ؒ نے جو روشن دل درویش تھے ۔راج�ۂ کشتواڑ کو مسلمان کرکے مرید بنالیا۔اور عالمگیر کے عہد میں وہ راجہ سعادت یار خاں کے لقب سے ملقب ہوا۔آخری راجہ تیغ سنگھ جو سیف خان کے نام سے بھی مشہور تھا وہاں کی حکومت کی مسند پر بیٹھا۔وزیر لکھپت رائے جو راجہ کامقرب اور خاص الخاص محرم تھاکسی وجہ سے اُس سے ناراض ہوگیا۔مہاراجہ گلاب سنگھ کو تسخیر کشتواڑ کی ترغیب و تحریص دی ۔حتےٰ کہ مہاراجہ نے ۱۸۷۷ بکرمی میں اس کی تسخیر کے لئے فوجِ جرار متعین کی ۔وہاں کے راجہ نے تاب مقابلہ نہ پاکر لاہور کی طرف فرار اختیار کیا اور مہاراجہ گلاب سنگھ نے علاقۂ کشتواڑ اور بھدرواہ پر قبضہ و اقتدار حاصل کیا۔‘‘
مندرجہ بالا بیان میں شالبافی کاذکر کیاگیا ہے ۔اس بارہ میں ایک انگریز سیاح جی ٹی وائن(G.T.Vigne) کابیان دلچسپی سے خالی نہ رہے گا۔ جس نے ۱۸۳۹ ء میں یعنی راجہ تیغ سنگھ کی حکومت کے خاتمہ کے صرف انیس ۱۹ سال بعد اس خطہ کی سیاحت کی تھی ۔وہ اپنے سفر نامہ کے صفحہ ۲۰۵ پر لکھتاہے ۔
’’اب قصبہ میں سو کے قریب چھوٹے گھر یاجھونپڑے ہیں ۔ان کی چھتیں اس طرح کی نہیں جس طرح کشمیر میں ہوتی ہیں بلکہ چوڑی اور عام طور پر ایک منزلہ ۔ان کے صحنوں میں میوہ دار درخت لگے ہوئے ہیں ۔بازار میں پندرہ سے بیس تک دوکانیں شال تیار کرنے کی ہیں۔یہاں موٹے کمبل بھی تیار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ دریائے چناب ، کشمیر جاتے ہوئے بڑا گہرا دکھائی دیتا ہے ۔اس پر جھُولا پل ہے جو صرف ۲۵ گز لمباہے ۔
پُرانے زمانے میں جب راجوں کی حکومت تھی ۔ کشتواڑ ہر لحاظ سے خود کفیل تھا ۔شالبافی کی کھڈیوں کا ہونا تعجب خیز نہیں ہے کیونکہ یہ صنعت بسوہلی اور بھدرواہ میں بھی پائی جاتی تھی ۔ رفتہ رفتہ قدردان اور گاہک نہ ملنے پر اور کشمیر کے مقابلہ میں سستے نہ ہونے کے سبب شالوں کا کاروبار بند ہوگیا اور ان کی جگہ باریک، نفیس اور دلکش کمبلوں کی صنعت نے لے لی ۔رہا ڈینوں کا معاملہ وہ عہدِ جہالت کی یاد گار ہے اور خود شکسپئیر کے عہد میں انگلستان بھی اس بیماری کاشکار تھا ۔اس کا ڈرامہ ’’ تین ڈینیں اور بادشاہ لایر‘‘ مشہور ہے ۔ عام تعلیم اور نور تہذیب پھیلنے کے سبب اب کشتواڑ میں بھی کالے جادو کے اثرات بڑی حد تک کم ہوچکے ہیں ۔ ایک تحقیق کی رو سے کشتواڑ کی سطح سمندر سے بلندی ۵۳۰۰ فٹ ہے ۔
کشتواڑ کاطولِ بلد شری ۴۶ء۷۵ درجہ ہے ۔اور عرض بلد۱۸ء۳۳ درجے ہے ۔مجموعی حیثیت میں کشتواڑ کی آبو ہوا سرد ہے ۔ مون سون ہوائیں یہاں تک پہنچتے پہنچتے اپنی نمی بڑی حد تک کھو بیٹھتی ہیں ۔دوسرے سطح مرتفع کے ساتھ جانب شمال کوئی اونچی پہاڑی نہیں ۔اس لئے ہوائیں آکر اوپر سے گذر جاتی ہیں ۔ بارش اسی وقت برستی ہے جبکہ وہ عالمگیر ہو ۔ مقامی بارش بہت کم ہوتی ہے ۔پیداوار میں بیشتر مکی پھر جو اور گندم ،دالیں ،کودرا ، کنگنی وغیرہ شامل ہیں ۔چاول بہت کم پیدا ہوتے ہیں ۔بیشتر علاقہ بارانی ہے ۔کشتواڑی اقتصادی لحاظ سے غریب ہیں کیونکہ کاشتکاری اور جنگلاتی فرموں میں چرائی ،ڈھلائی اور بہائی(مہان) کے علاوہ کوئی قابل ذکر صنعت نہیں ہے ۔ ویسے حسبِ ضرورت دیہاتی اپنا موٹا چھوٹا کپڑا خود سی لیتے ہیں ۔ کمبل کشتواڑ اور پاڈر میں اعلےٰ درجے کے بنتے ہیں ۔ کشتواڑمیں مختلف فرقوں کے مابین بھائی چارہ ، باہمی احترام او ردوستی قائم ہے ۔غریبی کے باوجود محبت اور اتفاق فراواں ہیں۔
’’اب قصبہ میں سو کے قریب چھوٹے گھر یاجھونپڑے ہیں ۔ان کی چھتیں اس طرح کی نہیں جس طرح کشمیر میں ہوتی ہیں بلکہ چوڑی اور عام طور پر ایک منزلہ ۔ان کے صحنوں میں میوہ دار درخت لگے ہوئے ہیں ۔بازار میں پندرہ سے بیس تک دوکانیں شال تیار کرنے کی ہیں۔یہاں موٹے کمبل بھی تیار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ دریائے چناب ، کشمیر جاتے ہوئے بڑا گہرا دکھائی دیتا ہے ۔اس پر جھُولا پل ہے جو صرف ۲۵ گز لمباہے ۔
پُرانے زمانے میں جب راجوں کی حکومت تھی ۔ کشتواڑ ہر لحاظ سے خود کفیل تھا ۔شالبافی کی کھڈیوں کا ہونا تعجب خیز نہیں ہے کیونکہ یہ صنعت بسوہلی اور بھدرواہ میں بھی پائی جاتی تھی ۔ رفتہ رفتہ قدردان اور گاہک نہ ملنے پر اور کشمیر کے مقابلہ میں سستے نہ ہونے کے سبب شالوں کا کاروبار بند ہوگیا اور ان کی جگہ باریک، نفیس اور دلکش کمبلوں کی صنعت نے لے لی ۔رہا ڈینوں کا معاملہ وہ عہدِ جہالت کی یاد گار ہے اور خود شکسپئیر کے عہد میں انگلستان بھی اس بیماری کاشکار تھا ۔اس کا ڈرامہ ’’ تین ڈینیں اور بادشاہ لایر‘‘ مشہور ہے ۔ عام تعلیم اور نور تہذیب پھیلنے کے سبب اب کشتواڑ میں بھی کالے جادو کے اثرات بڑی حد تک کم ہوچکے ہیں ۔ ایک تحقیق کی رو سے کشتواڑ کی سطح سمندر سے بلندی ۵۳۰۰ فٹ ہے ۔
کشتواڑ کاطولِ بلد شری ۴۶ء۷۵ درجہ ہے ۔اور عرض بلد۱۸ء۳۳ درجے ہے ۔مجموعی حیثیت میں کشتواڑ کی آبو ہوا سرد ہے ۔ مون سون ہوائیں یہاں تک پہنچتے پہنچتے اپنی نمی بڑی حد تک کھو بیٹھتی ہیں ۔دوسرے سطح مرتفع کے ساتھ جانب شمال کوئی اونچی پہاڑی نہیں ۔اس لئے ہوائیں آکر اوپر سے گذر جاتی ہیں ۔ بارش اسی وقت برستی ہے جبکہ وہ عالمگیر ہو ۔ مقامی بارش بہت کم ہوتی ہے ۔پیداوار میں بیشتر مکی پھر جو اور گندم ،دالیں ،کودرا ، کنگنی وغیرہ شامل ہیں ۔چاول بہت کم پیدا ہوتے ہیں ۔بیشتر علاقہ بارانی ہے ۔کشتواڑی اقتصادی لحاظ سے غریب ہیں کیونکہ کاشتکاری اور جنگلاتی فرموں میں چرائی ،ڈھلائی اور بہائی(مہان) کے علاوہ کوئی قابل ذکر صنعت نہیں ہے ۔ ویسے حسبِ ضرورت دیہاتی اپنا موٹا چھوٹا کپڑا خود سی لیتے ہیں ۔ کمبل کشتواڑ اور پاڈر میں اعلےٰ درجے کے بنتے ہیں ۔ کشتواڑمیں مختلف فرقوں کے مابین بھائی چارہ ، باہمی احترام او ردوستی قائم ہے ۔غریبی کے باوجود محبت اور اتفاق فراواں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب چہارم
راجگان کی آمد
کشتواڑ میں جب ایک طرف راتھر اور گنائی فرقوں کا گٹھ جوڑتھااور دوسری طرف پنج ساسی مقابلے پر ڈٹے ہوئے تھے اور کشتواڑ ملکی اور غیر ملکی کے سوال پر بٹا ہواتھا ۔ کوئی طاقتور مرکزی حکومت نہ تھی ۔ہر علاقے کا طاقتور خاندان یا شخص وہاں کا حکمران تھا۔حتےٰ کہ کشتواڑہ کابھی ایک علاحدہ راجہ تھا ۔ ایسے طوائف الملوکی کے عالم میں جنوب کی طرف سے ایک قافلہ آیا جوکہیں سے امرناتھ جانے کے لئے آیاتھااور کاندنی کے مقام پر سفر کی تھکاوٹ دور کررہاتھا۔کاہن پال: مسافروں کے اس قافلے میں کاہن پال نام کاشخص بھی تھا جو دراصل میرِ کارواں تھا ۔اس کے ساتھ جنگجو اور بہادر جیالوں کی مٹھی بھر تعداد ، چند براہمن اور چند بروالے ہریجن تھے ۔ اگرچہ مشہور یہی تھا کہ یاتریوں کی یہ جماعت امرناتھ کے پوتر تیرتھ کے درشن کے لئے جارہی تھی لیکن یہ فقط ایک چال تھی تاکہ کشتواڑ کے لوگ قبل از وقت خبردار نہ ہوجائیں ۔راتھر گنائی اور پنج سانسی بیرونی خطرے سے ڈر کر متحدہوکر حملہ آوروں کا مقابلہ نہ کریں ۔ایسامعلوم ہوتاہے کہ کاہن پال نے کشتواڑ کے حالات اچھی طرح دریافت کرلئے تھے او رحملہ کرکے فتح کرنے کا منصوبہ بناچکاتھا ۔وہ صرف موزون وقت کامنتظر تھا اور کاندنی میں ٹھہر کروقت گذار رہاتھا۔بکرما جیت:کاہن پال کے بارہ میں کہاجاتا ہے کہ وہ راجہ بکرماجیت کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔مجھے جو نسب نامہ ملا ہے وہ یوں ہے :’’نسب نامہ راجہ ہائے کشتواڑ آمدہ ملک اوجین کہ معروف گوربنگال است در علاقۂ کوہستال کشتواڑ آمدہ تسخیرحکمران خاندان کو (۱۲۰۰ ء کے قریب ) مسلمانوں نے ملک بدر کردیا، وہ پنجاب بھاگ گئے اور تیسرے پشت میں ستلج کے مشرق میں واقع پہاڑیوں میں پناہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے ۔تین بھائیوں میں سے جن پر خاندان مشتمل تھا ایک نے سکیت کی ، دوسرے نے کھتل کی اور تیسرے نے کشتواڑ راج کی بنیاد ڈالی۔ کشتواڑ کے سلسلے میں بانی سلسلہ کانام سکیت کے نسب نامہ کے ساتھ نہیں ملتا ہے لیکن جیسا کہ پہلے ذکر کیاگیاہے کہ خاندان کا یہ دعوے ٰکہ وہ راجگان گوڑ کے جانشین میں واضح طور پر کیاگیا ہے ۔ یہ غالباً بہت سے وجوہات کی بناپر ہے کہ بنگال میں اصل شاخ سے خاندان کی علاحدگی مفروضہ وقت سے بہت عرصہ پہلے ہوئی ۔غالباً آٹھویں اور نویں صدی میں۔شیوہ جی در نے ’’ واقعات کشتواڑ‘‘ میں صفحہ ۲۳ پر ہری پال کا بیٹا دیانک پال اور پھر اس کا بیٹا مانک پال بیان کیا ہے ۔ لیکن اس تعلق میں حشمت اﷲ خان اور سید نجم الدین نے ایک بات یکساں طور پر بیان کیا ہے کہ راجہ کاہنپال گور بنگال سے تعلق رکھتاتھا ۔ چنانچہ حشمت اﷲ خان اپنی تاریخ جموں کے صفحہ ۱۴۰ پر لکھتاہے ۔’’راجگانِ گوڑ بنگال تعلقۂ اوجین میں سے ایک سورج بنی، راجہ اسمی، کاہن پال ،جو مہاراجہ بکر ما جیت کی نسل سے تھا۔۔۔۔ یہ شخص کچھ فوج لیکر اور بقول بعض امرناتھ کی جاترا کے قصد سے اوجین سے روانہ ہوا۔گوڑ بنگال اور اجین: انگریز پادری صاحبان ہچی سن اور دوگل نے پھر بھی کسی ڈھنگ سے بات کی ہے ، کاہن پال کو راجگان گوڑ بنگال کی نسل سے بیان کیا ہے لیکن حشمت اﷲ خان نے جو وزیر وزارت اودھمپور یعنی ڈپٹی کمشنر بھی تھے، بالکل بے سر و پا بات کہی ہے ،یعنی گوربنگال کو جین کاتعلق بیان کیا ہے ۔دراصل انہوں نے شیوہ جی در کی نقل کی ہے اور جغرافیہ کو بھلا دیا ہے کہ گوڑ اور اجین میں زمین اور آسمان کا فرق ہے ۔ ایک بنگال میں ہے تو دوسرا مالوہ میں ۔یہ غلطی اس لئے ہوئی کہ کشتواڑ کی تاریخ کا علم بھی دیگر علوم کی طرح براہمنوں کی تحویل میں تھا۔اُن میں جو لوگ راجہ اوّل کے ساتھ کشتواڑ آئے تھے وہ گوڑ براہمن کہلاتے تھے ۔اور آج بھی ان کی نسل پائی جاتی ہے ۔ان میں سے جٹو جو راجہ تیغ سنگھ کاوزیر تھا ، گوڑ یہ براہمن تھا۔یہ گوڑ براہمن ممکن ہے کہ گوڑ سے آئے ہوں ۔ لیکن وہ اجین میں آباد تھے جو راجہ کاہنپال او راس کے بزرگوں کا اصلی وطن ہے ۔ براہمن چونکہ گوڑ بنگال سے اپنے آپ کو وابستہ سمجھتے تھے ۔اس لئے بعد میں عرصہ دراز کے بعد کسی نے غلطی سے راجو کوبھی گوڑبنگال کا باشندہ سمجھ لیاتھا اور تاریخ میں لکھدیاکہ وہ گوڑ بنگال پر گنۂ اوجین سے تعلق رکھتاتھا ۔اوجین: مالوہ کا مشہور تاریخی شہر ہے اس کے بارہ میں آج بھی کشتواڑ کے گوڑیے براہمنوں میں مشہور ہے ۔
اوجین نگری سپرا تیرۃ، ارس پڑس کے گھاتا
کاتیانی سوتر،متندنی شاکھا، جانکادیوی ماتا
تاریخ ہندوستان مولفۂ مولوی زکاء اﷲ کی جلد پنجم کے صفحہ ۱۰۱۱ پر تحریر ہے ۔
’’اوجین ایک بزرگ شہر ، ساحل سپرا پر ہے ۔ہندوؤں کی بڑی پرستش گاہ ہے۔‘‘
بکرم بھوج
بکرم بھوج دُج تھے بھاری امیر بڑے بڑے مایادھاری
تمرناشک میں لکھاہے کہ بکرم آٹھ ہوئے ہیں ۔ان میں سے بیشتر کے ساتھ افسانے منسوب ہیں اور خود اُن کا وجود بھی افسانوی حیثیت رکھتاہے جس بکرم یابکرما جیت نے بکرمی سموات جاری کیا ہے ، تاریخ میں اس کی حیثیت بھی واضح نہیں ہے ،عام طور پر چندر گپت بکرما جیت جس کا عہد حکومت ۴۱۴۔۳۷۵ ء ہے اور جو گپتا خاندان کا نامور حکمران ہوا ہے وہ چند گپت کہاجاتا ہے جس کے نورتنوں میں کالیداس بھی شامل تھا۔
آر۔سی ۔موزمدار ،’قدیم ہند‘‘ کے صفحہ ۲۹۸ پر لکھتے ہیں۔ ’’ بکرم سموات اور مہاراجہ بکرما دتیہ کے عہدِ حکومت کا تعین ہندوستان کی تاریخ کے ناقابل حل مسایل سمجھے جانے چاہئیں۔
دراصل بکرما جیت ایک لقب ہے جو تاریخ قدیم کے نامور حکمرانوں نے اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لئے اختیار کیاتھا۔ گپت خاندان میں چندر گپت بکرما جیت کے علاوہ اس کا پوتا پوروگپتا ۷۳۔۴۶۷ ء بھی اپنے آپ کو وکرم دت کہلاتاتھا او رایسا اس کے عہد کے سکول سے ظاہر ہے ۔
کاہن پال کا جد: بعض موؤخین نے حکمران کااصلی نام بیان نہیں کیا ہے بلکہ اس کا لقب بکرما جیت یا بکرم دت لکھاہے۔ اور آنے والے مورخوں نے بھی اصل نام دریافت کرنے کے بجائے لقب ہی لکھنے پر اکتفا کیاہے ۔ کاہن پال کے جدبکرماجیت کانام بھی معلوم ہوا ہے ۔وہ اجین کا ہرش بکرما دت ہے لیکن اجین کے راجوں کے سلسلے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور کاہن پال کا جوممکن عہدِ حکومت ہوسکتاہے ۔اس کا قیاس کرتے ہوئے یہ بکرما جیت وہی ہے جس کے بیٹے شلادتیہ پرتاپ شیل ۶۰۰۔۵۵۰ ء کو سری نگر شہر کے بانی راجہ پرورسین نے اجین جاکر شکست دی تھی ۔ راج ترنگنی کے مترجم سٹائن اس تعلق میں لکھتے ہیں ۔اوجین کے ہرش بکرما دت کو کلہن خود راجہ سلادت پرتاپ شل کا والد بیان کرتاہے ۔جس کیے بارہ میں چینی سیاح ہیون سانگ کے بیان سے ہم جانتے ہیں کہ وہ مالوہ کے حکمران کے طورپر۵۰ سال حکومت کرتارہا۔ اس کے باپ بکرمادت کی اصل تاریخ چھٹی صدی کے پہلے نصف حصے سے وابستہ ہوتی ہے ۔‘‘
پروفیسر ایم ، مُلر اپنی تاریخ ہند کے صفحہ ۲۸۹ پر سلادت یا سلادتیہ کا عہدِ حکومت ۶۰۰۔۵۰۰ تک مقرر کرتے ہیں ۔تواریخ گلدستہ کشمیر حصہ دوم کے صفحہ ۴۲ پر مرقوم ہے ۔’’ ایک بڑا بکرم ۵۰۰ اور ۶۰۰ ء کے درمیان میں ہوا ہے جس نے ماتر گپت کو کشمیر بھیجا اور پرورسین نے اس کے بیٹے شیلا دت سے سنگھاسن ۳۳ پتلیوں والا چھین کر کشمیر میں پہنچایا۔‘‘
تاریخ کشتواڑ میں بکرما جیت کے والد کانام گندھرب سین دیا ہوا ہے ۔ضمیمہ تواریخ گلدستہ کشمیر کے حصہ سویم کے صفحہ ۵۸ پر حسب ذیل عبارت درج ہے ۔
نمبر شمار نام فرمان روا ولدیت سال جلوس مقام سلطنت عہد حکومت
۷۱ بکرما جیت والی اوجین گندھرب سین ۳۸۶ ک اوجین ۹۳ سال
۳۱۱۰ بدھشٹری
۴۲ ب
اس سے طاہر ہوتاہے کہ کاہن پال کے بزرگ محض زیبِ داستان کے لئے نہیں بڑھائے گئےتھے بلکہ ان کی کچھ حقیقت بھی ہے۔
پرمار یا پوار: تاریخ حسن حصہ دوم کے صفحہ ۴۷ پر تحریر ہے :۔
’’مؤرخان ہندمے نگارند کہ راجہ بکرما جیت از قوم پوعار بود ودر اوصافِ حمیدہ واطوارِ پسندیدہ اوقصص وحکایات بسیار درتواریخ ہنود بطور افسانہ مذکور ومشہور است۔‘‘
یعنی ہند کے تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ راجہ بکرما جیت پوا ر قوم کا تھا ۔اس کے اخلاق بہت اچھے تھے ۔اس کے بارہ میں ہندوؤں کی تواریخ میں بہت سے قصے کہانیاں مشہور ہیں ۔ پوار کے بارہ میں ہند قدیم(Ancient India) کے صفحات ۱۲۔۳۱۱میں آر سی موزمدار لکھتے ہیں۔
’’ اُن کے مغرب میں مولوہ کے حکمران پر مارتھے ۔ بعد میں پرماروں کو پوار راجپوت کہاجانے لگا اور ان کے بارہ میں اگنی کل راجپوتوں کی کہانی بیان کی گئی ۔لیکن پرانے ریکارڈ کے مطابق پرمار حکمران راشٹرکوٹ خاندان سے پیداہوئے ۔اس کاامکان بھی ہے ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ کرشنا راجہ ،پرمار خاندان کا بانی ، پہلے پہل مالوہ کا گورنر ، شہنشاہ (راشٹر کوٹ ) گوبند iiiکی جانب سے مقرر ہوا تھا جبکہ شہنشاہ نے اس صوبہ کو ناگ بھٹ دوم سے فتح کیاتھا۔
کاہن پال کا عہد: اب دیکھنا یہ ہے کہ کاہن پال کس صدی میں کشتواڑ پر قابض ہوا۔ کاہن پال بکرما جیت کی پانچویں پشت میں ہوا ہے ۔اب اگر ہر شخص کی اوسط عمر ۴۰ برس قرار دے دی جائے تو بھی بکرما جیت اور کاہن پال میں دو سو برس کا فرق ہونا چاہئیے ۔اس طرح کاہن پال کا زمانہ آٹھویں کااختتام یا نویں صدی کاآغاز قرارپاتاہے ۔ بکرما جیت ۵۵۰ ء سے قریب اوجین پر حکومت کرتاتھا ۔دو سو برس ملاکر ۷۵۰ ء کاہن پال کا عہد ہوسکتا ہے چونکہ ہر نسل کے لئے صرف ۴۰ سال فرض کئے گئے ہیں ۔اس لئے اوسط بڑھ بھی سکتی ہے بجائے ۷۵۰ ء کے کاہن پال کا دور ۸۰۰ یا ۸۱۰ ء ہوسکتا ہے۔
پروفیسر ایم ، مُلر اپنی تاریخ ہند کے صفحہ ۲۸۹ پر سلادت یا سلادتیہ کا عہدِ حکومت ۶۰۰۔۵۰۰ تک مقرر کرتے ہیں ۔تواریخ گلدستہ کشمیر حصہ دوم کے صفحہ ۴۲ پر مرقوم ہے ۔’’ ایک بڑا بکرم ۵۰۰ اور ۶۰۰ ء کے درمیان میں ہوا ہے جس نے ماتر گپت کو کشمیر بھیجا اور پرورسین نے اس کے بیٹے شیلا دت سے سنگھاسن ۳۳ پتلیوں والا چھین کر کشمیر میں پہنچایا۔‘‘
تاریخ کشتواڑ میں بکرما جیت کے والد کانام گندھرب سین دیا ہوا ہے ۔ضمیمہ تواریخ گلدستہ کشمیر کے حصہ سویم کے صفحہ ۵۸ پر حسب ذیل عبارت درج ہے ۔
نمبر شمار نام فرمان روا ولدیت سال جلوس مقام سلطنت عہد حکومت
۷۱ بکرما جیت والی اوجین گندھرب سین ۳۸۶ ک اوجین ۹۳ سال
۳۱۱۰ بدھشٹری
۴۲ ب
اس سے طاہر ہوتاہے کہ کاہن پال کے بزرگ محض زیبِ داستان کے لئے نہیں بڑھائے گئےتھے بلکہ ان کی کچھ حقیقت بھی ہے۔
پرمار یا پوار: تاریخ حسن حصہ دوم کے صفحہ ۴۷ پر تحریر ہے :۔
’’مؤرخان ہندمے نگارند کہ راجہ بکرما جیت از قوم پوعار بود ودر اوصافِ حمیدہ واطوارِ پسندیدہ اوقصص وحکایات بسیار درتواریخ ہنود بطور افسانہ مذکور ومشہور است۔‘‘
یعنی ہند کے تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ راجہ بکرما جیت پوا ر قوم کا تھا ۔اس کے اخلاق بہت اچھے تھے ۔اس کے بارہ میں ہندوؤں کی تواریخ میں بہت سے قصے کہانیاں مشہور ہیں ۔ پوار کے بارہ میں ہند قدیم(Ancient India) کے صفحات ۱۲۔۳۱۱میں آر سی موزمدار لکھتے ہیں۔
’’ اُن کے مغرب میں مولوہ کے حکمران پر مارتھے ۔ بعد میں پرماروں کو پوار راجپوت کہاجانے لگا اور ان کے بارہ میں اگنی کل راجپوتوں کی کہانی بیان کی گئی ۔لیکن پرانے ریکارڈ کے مطابق پرمار حکمران راشٹرکوٹ خاندان سے پیداہوئے ۔اس کاامکان بھی ہے ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ کرشنا راجہ ،پرمار خاندان کا بانی ، پہلے پہل مالوہ کا گورنر ، شہنشاہ (راشٹر کوٹ ) گوبند iiiکی جانب سے مقرر ہوا تھا جبکہ شہنشاہ نے اس صوبہ کو ناگ بھٹ دوم سے فتح کیاتھا۔
کاہن پال کا عہد: اب دیکھنا یہ ہے کہ کاہن پال کس صدی میں کشتواڑ پر قابض ہوا۔ کاہن پال بکرما جیت کی پانچویں پشت میں ہوا ہے ۔اب اگر ہر شخص کی اوسط عمر ۴۰ برس قرار دے دی جائے تو بھی بکرما جیت اور کاہن پال میں دو سو برس کا فرق ہونا چاہئیے ۔اس طرح کاہن پال کا زمانہ آٹھویں کااختتام یا نویں صدی کاآغاز قرارپاتاہے ۔ بکرما جیت ۵۵۰ ء سے قریب اوجین پر حکومت کرتاتھا ۔دو سو برس ملاکر ۷۵۰ ء کاہن پال کا عہد ہوسکتا ہے چونکہ ہر نسل کے لئے صرف ۴۰ سال فرض کئے گئے ہیں ۔اس لئے اوسط بڑھ بھی سکتی ہے بجائے ۷۵۰ ء کے کاہن پال کا دور ۸۰۰ یا ۸۱۰ ء ہوسکتا ہے۔
پنڈت دینا ناتھ:جس کی تاریخ کشتواڑ غیر مطبوعہ ہے اور جو مصنف نے بھادون ۹۴۳ بکرمی مطابق اگست ۱۸۸۵ ء میں مکمل کی تھی ۔اس کا ترجمہ ۱۹۱۸ ء میں حشمت اﷲ خان نے اپنی تاریخ جموں کے لئے کروایاتھا ۔ لیکن اس تاریخ میں جہاں بہت سے واقعات خلاف قیاس او رافسانوی رنگ لئے ہوئے ہیں ۔وہاں بعض اچھوتے معاملات پر روشنی بھی پڑتی ہے ۔مثلاً اس دینا ناتھ براہمن ولد شتاولد رام کرشن نے راجاؤں کے بارہ میں لکھاہے ۔
’’پہلے اکثر اُن دنوں میں اوجین ہی میں رہاکرتے تھے اور اوجین ہی سے آکر ادھر آباد ہوگئے۔‘‘
راجہ کاہن پال اوربکرما جیت کے درمیان دو سو سال کا فاصلہ ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس درمیانی عرصے کا بڑا حصہ راجاؤں کے خاندان نے اوجین ہی میں گذارا جب خانہ جنگی ، باہمی آویزش اور پھوٹ کے سبب خاندان کاایک حصہ قسمت آزمانے کے لئے پنجاب اور کشمیر کے پہاڑوں کی طرف نکل پڑا ۔ اوجین سے نکلنے والا راجہ حشمت اﷲ خان نے کاہن پال ہی کو ظاہر کیا ہے ۔’’ مانک پال کا راج پہلے کاہن پال کو تکالیف و مصائب میں مبتلا ہوناپڑا۔ ان سے اپنی جان بچانے کی خاطر کاہن پال کو اپنے باپ دادا کا ملک چھوڑنا پڑا۔‘‘ تاریخ حشمت صفحہ ۱۴۰ کاہن پال کے خاندان میں۔
اکتیسواں راجہ رائے سنگھ ۱۵۴۷ ء میں کشتواڑ کی گدی پر بیٹھا۔ اس راجہ کے بعد واقعات سال اور تاریخ و سن کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ کاہن پال ۸۱۰ ء میں کشتواڑ پر قابض ہو ا او راس کے بعد کے راجاؤں کو رائے سنگھ کی مسند نشینی تک ۲۴ سال اوسطاً ہر راجہ کو ایام راجگی کے طور پر تفویض کریں تو کاہن پال کا عہد حکومت ۸۱۰ ء متعین ہوجاتا ہے ۔علاوہ ازیں کشمیر کے حکمران راجہ کلشدیو ۸۸۔۱۰۸۷ ء نے پہاڑی راجاؤں کاجو دربار منعقد کیاتھا اور جس میں کشتواڑ کا اوتم راجہ بھی شامل ہوا تھا ۔کاہن پال سے کلش دیو تک کے عہد میں آٹھ راجے گدی نشین ہوئے تھے اور اس وقت کشتواڑ کا فرنا روا’’اودت راجہ‘‘ تھا جسے اوتم راجہ کہاگیا ہے ۔اوتم راجہ در اصل لقب ہے ۔اس لقب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشتواڑ میں اور بھی چھوٹے چھوٹے راجہ تھے لیکن کشتواڑ خاص کا راجہ بڑا راجہ تھا اور اُسے ہی کلشدیو کے دربار میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی او راس طرح ان آٹھ راجاؤں کا عہدِ حکومت اوسطاً ۳۵ سال بنتا ہے۔ جو مناسب ہے ۔بہر حال نویں صد ی میں دس بیس سال ادھر یا اودھر کاہن پال کی درآمد کاعہد مقرر کیاجاسکتا ہے ۔
کاہن پال کے حملے کے وقت کشتواڑ کی حالت: قبل ازیں بیان کیا جا چکاہے کہ کشتواڑ خاص دو حصوں میں بٹا ہواتھا ۔ایک طرف راتھر اور گنائی تھے جو تعداد میں زیادہ تھے اور دوسری طرف پنج ساسی تھے جن کے ہاتھ میں فوجی قوت تھی اور چونکہ لاٹھی ان کے پاس تھی ۔اس لئے بظاہر کشتواڑ کاکنٹرول ان کے قبضے میں تھا ۔ انہیں شکست دینا کشتواڑ کے مالکوں کو شکست دینے کے مترادف تھا ۔اس لئے کاہن پال نے کاندنی میں بیٹھ کر صرف پنج ساسیوں سے سیاسی قوت لینے کا منصوبہ تیار کیا ۔کیونکہ کشتواڑ خاص پر قابض ہونے کامطلب ریاست کشتواڑ کی مملکت پر قبضہ کرنے کے برابر تھا۔
کاہن پال کا منصوبہ: کاہن پال ایک ہوشیار اور معاملہ فہم حملہ آور کی طرح کاندنی سے کشتواڑ پر کھلم کھلا حملہ نہیں کرسکتاتھا کیونکہ نئے ملک کے جغرافیائی حالات ، فوجی طاقت او ررعایا کی راج پرستی کے جذبہ کی پختگی یا کمزوری سے واقف نہ تھا ۔علاوہ ازیں اس کی اپنی فوجی قوت محدود تھی ۔اگر وہ کمزور نہ ہوتا تو امرناتھ جی کی یاترا پر جانے کاپروپیگنڈ ا نہ کرتااو رچُھپ کر حملہ کرنے کا منصوبہ نہ بناتا۔
اس نے کسی پنج ساسی عورت کو بھاری رشوت دے کر اپنے ساتھ گانٹھ لیا اور اس نے پنج ساسیوں کے سب حالات معلوم کرلئے۔ راجہ کو بتایاگیا کہ پنج ساسی ہر وقت مسلح رہتے ہیں ۔صرف بھاگن کے مہینے کی خاص تاریخ کو وہ چشمہ ھُدری پر جشن منانے اور پوجا پاٹ کرنے کے لئے ہتھیاروں کے بغیر جمع ہوتے ہیں ۔ کاہن پال خفیہ تیاریاں کرتارہا اور مقررہ تاریخ سے پہلے شام کو اندھیرے میں کاندنی سے روانہ ہو ا۔شالہ مار سے رات کو دیر سے چلا اور چشمہ ھُدری کے پاس چُھپ کر بیٹھ گیا ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس وقت ہدری چشمے کے جنوب میں خرشوکاجنگل ہوگا اور وہ بھی گھنا جنگل جس کے تاریک سائے میں راجہ او راس کے ہمراہی چھپ کر بیٹھے ہوں گے اور پھر اُس رات برف باری بھی ہوئی اس لئے درختوں اور جھاڑیوں کی آڑ میں حملہ آور چھپ گئے ہوں گے ۔اس زمانے میں لوگ توہم پرست تھے اس لئے شام کے بعد ہی مکانوں کے دروازے بند کرکے خانہ نشین ہوجاتے تھے او راس سبب سے راجہ اور اس کے ہمراہیوںکی آمد کاکسی کو پتہ نہ چلاہوگا۔
کشتواڑ کی فتح:۔ صبح کے وقت پنج ساسی عورتیں ، مرد ، بچے سب ہی چشمے پر آئے اور بغیر ہتھیار لگائے باری باری نہانے لگے۔ کاہن پال موقعہ کی تاک میں تھا ۔ان سب کے وہاں جمع ہوتے ہی وہ اپنی فوج لیکر پنج ساسیوں پر ٹوٹ پڑا۔ راستے پہلے ہی روک لئے تھے ۔ پنج ساسیوں پر نفسیاتی اثر بھی تھا ، انہیں روتر اور گنائیوں کے حملے کاخوف بھی دامن گیر رہتاتھا ۔اس لئے وہ بدحواس ہوگئے اور اپنی اپنی جان بچانے کی کوشش کرنے لگے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ سب کے سب مارے گئے ۔ماسوائے چند ایک کے جو باہر گئے ہوئے تھے ۔عورتیں او ربچے کچھ مار ے گئے کچھ غلام بنا لئے گئے اور اوجین میں جو ستارۂ اقبال ڈوبا تھا وہ چشمہ ھُدری کے قریب پھر جگمگانے لگا ۔ تُند پر قابض ہونے کے بعد کاہن پال نے کشتواڑ اور منڈل کے لوگوں کو اپنا مطیع اور باج گذار بنالیااور اس طرح کشتواڑ کاپہلا راجہ راجگی کے تخت پر بیٹھا۔’’پہلے اکثر اُن دنوں میں اوجین ہی میں رہاکرتے تھے اور اوجین ہی سے آکر ادھر آباد ہوگئے۔‘‘
راجہ کاہن پال اوربکرما جیت کے درمیان دو سو سال کا فاصلہ ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس درمیانی عرصے کا بڑا حصہ راجاؤں کے خاندان نے اوجین ہی میں گذارا جب خانہ جنگی ، باہمی آویزش اور پھوٹ کے سبب خاندان کاایک حصہ قسمت آزمانے کے لئے پنجاب اور کشمیر کے پہاڑوں کی طرف نکل پڑا ۔ اوجین سے نکلنے والا راجہ حشمت اﷲ خان نے کاہن پال ہی کو ظاہر کیا ہے ۔’’ مانک پال کا راج پہلے کاہن پال کو تکالیف و مصائب میں مبتلا ہوناپڑا۔ ان سے اپنی جان بچانے کی خاطر کاہن پال کو اپنے باپ دادا کا ملک چھوڑنا پڑا۔‘‘ تاریخ حشمت صفحہ ۱۴۰ کاہن پال کے خاندان میں۔
اکتیسواں راجہ رائے سنگھ ۱۵۴۷ ء میں کشتواڑ کی گدی پر بیٹھا۔ اس راجہ کے بعد واقعات سال اور تاریخ و سن کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ کاہن پال ۸۱۰ ء میں کشتواڑ پر قابض ہو ا او راس کے بعد کے راجاؤں کو رائے سنگھ کی مسند نشینی تک ۲۴ سال اوسطاً ہر راجہ کو ایام راجگی کے طور پر تفویض کریں تو کاہن پال کا عہد حکومت ۸۱۰ ء متعین ہوجاتا ہے ۔علاوہ ازیں کشمیر کے حکمران راجہ کلشدیو ۸۸۔۱۰۸۷ ء نے پہاڑی راجاؤں کاجو دربار منعقد کیاتھا اور جس میں کشتواڑ کا اوتم راجہ بھی شامل ہوا تھا ۔کاہن پال سے کلش دیو تک کے عہد میں آٹھ راجے گدی نشین ہوئے تھے اور اس وقت کشتواڑ کا فرنا روا’’اودت راجہ‘‘ تھا جسے اوتم راجہ کہاگیا ہے ۔اوتم راجہ در اصل لقب ہے ۔اس لقب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشتواڑ میں اور بھی چھوٹے چھوٹے راجہ تھے لیکن کشتواڑ خاص کا راجہ بڑا راجہ تھا اور اُسے ہی کلشدیو کے دربار میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی او راس طرح ان آٹھ راجاؤں کا عہدِ حکومت اوسطاً ۳۵ سال بنتا ہے۔ جو مناسب ہے ۔بہر حال نویں صد ی میں دس بیس سال ادھر یا اودھر کاہن پال کی درآمد کاعہد مقرر کیاجاسکتا ہے ۔
کاہن پال کے حملے کے وقت کشتواڑ کی حالت: قبل ازیں بیان کیا جا چکاہے کہ کشتواڑ خاص دو حصوں میں بٹا ہواتھا ۔ایک طرف راتھر اور گنائی تھے جو تعداد میں زیادہ تھے اور دوسری طرف پنج ساسی تھے جن کے ہاتھ میں فوجی قوت تھی اور چونکہ لاٹھی ان کے پاس تھی ۔اس لئے بظاہر کشتواڑ کاکنٹرول ان کے قبضے میں تھا ۔ انہیں شکست دینا کشتواڑ کے مالکوں کو شکست دینے کے مترادف تھا ۔اس لئے کاہن پال نے کاندنی میں بیٹھ کر صرف پنج ساسیوں سے سیاسی قوت لینے کا منصوبہ تیار کیا ۔کیونکہ کشتواڑ خاص پر قابض ہونے کامطلب ریاست کشتواڑ کی مملکت پر قبضہ کرنے کے برابر تھا۔
کاہن پال کا منصوبہ: کاہن پال ایک ہوشیار اور معاملہ فہم حملہ آور کی طرح کاندنی سے کشتواڑ پر کھلم کھلا حملہ نہیں کرسکتاتھا کیونکہ نئے ملک کے جغرافیائی حالات ، فوجی طاقت او ررعایا کی راج پرستی کے جذبہ کی پختگی یا کمزوری سے واقف نہ تھا ۔علاوہ ازیں اس کی اپنی فوجی قوت محدود تھی ۔اگر وہ کمزور نہ ہوتا تو امرناتھ جی کی یاترا پر جانے کاپروپیگنڈ ا نہ کرتااو رچُھپ کر حملہ کرنے کا منصوبہ نہ بناتا۔
اس نے کسی پنج ساسی عورت کو بھاری رشوت دے کر اپنے ساتھ گانٹھ لیا اور اس نے پنج ساسیوں کے سب حالات معلوم کرلئے۔ راجہ کو بتایاگیا کہ پنج ساسی ہر وقت مسلح رہتے ہیں ۔صرف بھاگن کے مہینے کی خاص تاریخ کو وہ چشمہ ھُدری پر جشن منانے اور پوجا پاٹ کرنے کے لئے ہتھیاروں کے بغیر جمع ہوتے ہیں ۔ کاہن پال خفیہ تیاریاں کرتارہا اور مقررہ تاریخ سے پہلے شام کو اندھیرے میں کاندنی سے روانہ ہو ا۔شالہ مار سے رات کو دیر سے چلا اور چشمہ ھُدری کے پاس چُھپ کر بیٹھ گیا ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس وقت ہدری چشمے کے جنوب میں خرشوکاجنگل ہوگا اور وہ بھی گھنا جنگل جس کے تاریک سائے میں راجہ او راس کے ہمراہی چھپ کر بیٹھے ہوں گے اور پھر اُس رات برف باری بھی ہوئی اس لئے درختوں اور جھاڑیوں کی آڑ میں حملہ آور چھپ گئے ہوں گے ۔اس زمانے میں لوگ توہم پرست تھے اس لئے شام کے بعد ہی مکانوں کے دروازے بند کرکے خانہ نشین ہوجاتے تھے او راس سبب سے راجہ اور اس کے ہمراہیوںکی آمد کاکسی کو پتہ نہ چلاہوگا۔
کاہن پال کی فتوحات اور حکمت عملی: ۔ اس نے کشتواڑاور منڈل میں اپنی حکومت مضبوط کی ۔ راجگی کاخٰون اس کی رگوں میں دوڑ رہاتھا ۔ حکومت کے طور طریقے جانتاتھا ۔مقامی آبادی بالخصوص راتھر اور گنائیوں سے حُسن سلوک سے پیش آیا۔وہ لوگ پنج ساسیوں کے ستائے ہوئے تھے ۔ راجہ کی مہربانی اور عنایت سے خوش ہوئے اور اس کے مطیع بن گئے ۔راجہ نے اپنے ساتھیوں کو انعام و اکرام اور جاگیرات سے نوازااور انہیں مقامی آبادی سے گھل مل جانے اور قرابت داری کرنے کی ہدایت کی ۔جب کاہن پال نے دیکھا کہ کشتواڑ میں اس کے قدم مضبوطی سے جم گئے ہیں او راس کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔اس نے اپنی مملکت کی حدود کو وسیع کرنے کی طرف دھیان دیا ۔وہ ایک مضبوط فوج لیکر نکلا اور کاندنی سے سی گھٹ کے راستے کونتواڑہ کے راٹھیوں پر حملہ آور ہوا ۔وہاں کے راناؤں نے مقابلہ کیا ۔لیکن کاہن پال کی چالوں اور زبردست طاقت کے سامنے انھیں جھکنا پڑا اور طوقِ اطاعت گلے میں ڈالنا پڑا۔ کونتواڑہ سے ٹھاکرائی جاکر وہاں کے زمینداروں کو اپنا مطیع بنایا اور ٹھاکرائی سے اوڈیل کے تمام علاقے پر اپنا پرچم لہراتا ہوا بھنڈار کوٹ کے راستے کشتواڑ واپس آیا ۔ فتوحات کے سبب راجہ کیجاگیر کے ایک مقام پر اپنے نام پر ایک گاؤں آباد کیا اور خود بھی وہاں رہنے لگا ۔اُس گاؤں کو آج کل متا کہتے ہیں ۔دوسرے بیٹے دیو سین نے دیکھا کہ وہ کیوں پیچھے رہے ۔چنانچہ وہ کچھ فوج لیکر دچھن اور مڑوہ گیا اور ان علاقوں پر قابض ہوگیا ۔اس طرح تینوں بھائی اپنی اپنی جگہ مطمئن ہوکر رہنے لگے اور جس خانہ جنگی کا نمونہ ان کے بزرگ اوجین میں دیکھ چکے تھے اس سے بچ گئے ۔دیو سین کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ ایک بار بھائی سے ملنے مڑواہ سے آیا ۔یہاں بڑے بھائی مہمان نوازی کالطف اٹھارہاتھا کہ دھندراٹھ اور ہدار میں بعض زمینداروں نے سرکاری کارندوں کے ساتھ کچھ زیادتی کی ۔دیو سین خود فوج لیکر گیا اور ان علاقوں کو فتح کرکے اور اپنے بھائی کا جھنڈا لہر ا کر واپس آگیا ۔ پھر مڑوہ اپنی جاگیر پر چلاگیا۔مہاسین: گندھرب سین کے بعد اس کا بیٹا مہاسین گدی نشین ہوا ۔ اس کے عہد حکومت میں امن و امان رہا۔کشتواڑ خوشحال او رآباد تھا ۔راجہ مہاسین نے عیش وعشرت کی زندگی گذاری اور لمبے عرصے تک حکومت کرنے کے بعد ۸۰ برس کی عمر میں عدم کو سُدھارا۔مہاسین کے بعد رام سین ، کام سین ، مدن سین ، برہم سین راجے ہوئے لیکن ان کے دور کاکوئی خاص واقعہ قابل ذکر نہیں ہے ۔ صرف برہم سین بڑاعالم و فاضل اور شاعر تھا ۔ سنسکر ت میں مہارت کامل رکھتا تھااور دربار کے علما کو علمی بحث میں عاجز کردیاکرتاتھا۔اودت دیو: یہ وہی راجہ ہے جسے راجہ کلش دیونے پہاڑی راجاؤں کے ساتھ اپنے دربار میں کشمیر بلایاتھا اور جس کاذکر راج ترنگنی میں اوتم راجہ کے لقب سے کیاگیا ہے ۔یہ دربار ۸۸۔۱۰۸۷ ء میں منعقد ہواتھا۔اس راجہ کے بعد کشتواڑ کی گدی پر چودہ راجے ایسے بیٹھے جن کے نام کے ساتھ دیو لاحقہ لگاہوا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راجاؤں نے اپنے نام کے ساتھ لاحقے وقت کے فیشن کے طور پر لگالئے تھے ۔ مثلاً کاہن پال سے پہلے چار راجے ایسے ہوئے ہیں جو اپنے نام کے ساتھ پال لاحقہ رکھتے تھے ۔ جیسے ہری پال ،دمانگ پال ، مانک پال وغیرہ ،کاہن پال کے بعد جس قدرے راجے اودت دیو تک گدی نشین ہوئے وہ اپنے نام کے ساتھ سین لکھتے تھے ۔ تیسواں راجہ سنگرام سنگھ ہوا ہے جس نے سب سے پہلے اپنےنام کے ساتھ سنگھ کا لاحقہ چسپان کیا او راس کے بعد آنے والے تمام راجاؤں نے سنگھ ہی کو اپنے نام کاآخری جزو بنایا۔راجہ اودت دیو کے بعد پیتادیو یا پرتھی دیو راجہ ہوا ۔اس کاایک نام پرتھو دیو بھی ہے ۔اس کے عہد میں ناگسین او رڈول کے مابین پہاڑ پر(ڈول دھار) ایک دیو ظاہر ہوا ۔جس نے مسافروں کے لئے چلنا دوبھر کردیاتھا۔ راجہ نے اُسے حکمت عملی سے مروادیا۔خیال یہی ہے کہ کوئی ڈاکو یا جابرشخص ہوگا جو عوام کو لوٹتا ہوگا ۔اس کے بعد گنگا دیو راج گدی پر بیٹھا۔ اس راجہ نے کشتواڑ کے مشرق کی جانب اپنی توجہ مبذول کی ۔اس نے پُلر اور ناگسین کے علاقوں کو فتح کرکے سب سے پہلی بار کشتواڑ کی مرکزی حکومت کے ساتھ انہیں وابستہ کیا۔گنگا دیو کے بعد یکے بعد دیگر ے گوڑ دیو ، سنگھدیو ، رگھودیو، آنند دیو ، اوتار دیو اور بھاگ دیو نے مسند راجگی کو زینت بخشی لیکن ان کے خاص کارنامے نہیں ہیں ۔اس لئے تاریخ میں ان کے صرف نام محفوظ ہیں ۔رائے دیو: اس راجہ کا وزیر منگل رائے تھا ۔اس راجہ نے پاڈر پر حملہ کیا او رجاڑ کدیل تک کا علاقہ فتح کر لیا ۔ راجہ پاڈر سے چوبیس ہزار روپے نقب اور ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ بکری ، چنور (سُراگائے) اور گائیں لایا۔ پاڈر پر یہ دوسرا حملہ تھا۔ اس سے پہلے مہا سین کے ایک بیٹے نے پیاس تک کا علاقہ پاڈر کے راناؤں سے چھین کر ریاست کشتواڑ میں شامل کرلیاتھا ۔راجہ رائے دیو بڑا لالچی اور جابر حکمران تھا ۔اس کی زبان درازی اور ستمگری سے تنگ آکر راتھر، گنائی اور پنج ساسی جن کی اب کچھ تعداد ہوگئی تھی ۔آپس میں مل گئے تینوں فرقوں نے ملکر سازش کی اور ایک اندھیری رات میں بغاوت کردی ۔ راجہ رائے دیو بڑی مشکل سے اپنی اور اپنے قریبی رشتہ داروں کی جان بچا کر بھاگا۔ بھنڈار کوٹ اور سی گھٹ پر باغیوں نے پہلے ہی پہرے بٹھارکھے تھے تاکہ جونہی راجہ اُس راہ سے گذرنے لگے تو اُسے پکڑ کر کشتواڑ لایاجائے ۔راجہ کو اس سکیم کا بھی علم ہوگیاتھا ۔اس لئے شمال اور جنوب کی طرگ بھاگنے کے بجائے
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔