منگل، 17 فروری، 2015

کشمیری افسانہ

0 تبصرے
کشمیری افسانہ
اقبال اور تحریک آزادی کشمیر 
   تحریر: غلام نبی خیال
                                                                  اقبال اکادمی پاکستان
حرفے چند
’’ اقبال اور کشمیر‘‘ کے عنوان سے میری نظروں سے آج تک تین تصانیف گذری ہیں جو ڈاکٹر صابر آفاقی۔ سلیم خان گمی اور جگن ناتھ آزاد کی تحریر کردہ ہیں۔ یہ تینوں کتابیں اتفاق سے ایک ہی سال کے دوران یعنی 1977ء میں اشاعت پذیر ہوئیں۔ اس کے علاوہ بھارتی اور پاکستانی رسائل و جرائد میں اکادکا مضامین تحریر کئے گئے جن میں پہلے ہی بیان کی گئی باتوں کو دہرایا جاتا رہا۔
آج سے تقریباً بیس سال قبل اس اہم موضوع کے حوالے سے خاطر خواہ طور پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہو اتھا لہٰذا مذکورہ تصانیف میں اقبال اور تحریک آزادی کشمیر کے تئیں ان کے عہد آفریں اور تاریخ ساز رول کے گوناگوں پہلوؤں پر بھی کماحقہ روشنی نہیں ڈالی جا سکی۔
یہی وجہ ہے کہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ اور جگن ناتھ آزاد کی طرف سے بیان کردہ ایسی باتوں کو بھی تاریخی حقیقت کی شکل دینے کی کوشش کی گئی جن کی صحت بہرحال مشکوک تھی۔
شیخ عبداللہ نے یہ مشتبہ انکشاف کیا کہ اقبال ہی نے انہیں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنے کی صلاح دی تھی۔ آزاد نے یہ مفروضہ قائم کر لیا کہ ’’ جاوید نامہ‘‘ میں شاعر مشرق نے شیخ عبداللہ اور میر واعظ احمد اللہ ہمدانی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ عبداللہ اور آزاد کے ان بیانات کو میں نے پہلی بار تواریخی حقائق و شواہد کی روشنی میں مکمل طور پر رد کرنے کی سعی کی ہے۔
اسی طرح ان میں سے ایک کتاب میں شاعر کشمیر غلام احمد مہجور کے بارے میں اس حد تک مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا کہ بقول مصنف’’ مہجور نے 1947ء میں ڈوگروں کی سنگینوں تلے میرا دل پاکستان کے ساتھ ہے کا نعرہ لگایا۔ ڈوگرہ حکومت نے اسے گرفتار کر کے جیل میں ٹھونس دیا اور وہ جیل ہی میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد اللہ کو پیارا ہوا۔‘‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مہجور اطمینان اور آسودہ حالی کی اچھی خاصی عمر گذار کر 9اپریل1952ء کو جنوبی کشمیر میں اپنے آبائی گاؤں میں فوت ہوئے۔
گذشتہ دو دہائیوں میں اقبال اور کشمیر کے تعلق سے اہم اور معتبر تحقیقی کارنامے بالخصوص پاکستان میں منظر عام پر آئے ہیں جن کی بدولت تحریک پاکستان اور تحریک حریت کشمیر کے بارے میں اقبال کی سرگرمیوں کے کئی تاریک گوشے روشن ہو چکے ہیں۔
’’ اقبال اور تحریک آزادی کشمیر‘‘ میری کم و بیش سات سال کی تحقیق و تلاش کا ماحصل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسے ہر حلقہ خیال میں پسند کیا جائے گا۔
غلام نبی خیال
راول پورہ ہاؤسنگ کالونی
سری نگر190005کشمیر
٭٭٭
پیش نامہ
جناب احمد ندیم قاسمی
نامور ادیب اور صحافی غلام نبی خیال نے ’’ اقبال اور تحریک آزادی کشمیر‘‘ لکھ کر دور حاضر کی تاریخ کا ایک نہایت اہم مطالبہ پورا کیا ہے۔ اقبال کے حوالے سے آزادی کشمیر کی تحریک کے متعلق بعض ایسی ’’ افواہیں‘‘ بھی تاریخی حقائق کی صورت میں تسلیم کی جاتی رہی ہیں جن کی تغلیظ اور اصل صورت حال سے آگاہی کا معاملہ غلام نبی خیال کے سے مصنف کا محتاج تھا۔ جنہوں نے اس تحریک کا نہ صرف مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے بلکہ وہ خود بھی اس حریت افروز تحریک کا ایک معروف کردار ہیں۔
غلام نبی خیال حیرت انگیز محنت اور کاوش سے اپنے موضوع کے ساتھ کامیابی سے نمٹے ہیں اور اس سلسلے میں کوئی بھی بات کسی مستند حوالے کے بغیر نہیں کی۔ میں ان کی دیدہ ریزی اور جان کا ہی کی دل کھول کر داد دیتا ہوں کہ اول تو اس موضوع پر سے افواہوں اور غلط بیانیوں کی گرد اڑانا ضروری تھا اور دوئم مستقبل کے مورخ کی صحیح رہنمائی ایک ایسے شخص کی طرف سے ناگزیر تھی جو خود بھی اس تحریک کا حصہ ہو۔
غلام نبی خیال کو یہ سب سہولتیں حاصل ہیں چنانچہ انہوں نے ’’ اقبال اور تحریک آزادی کشمیر‘‘ لکھ کر نہ صرف اس مبارک تحریک کو آگے بڑھایا ہے بلکہ میری نظر میں وہ خود بھی تاریخ و ادب کا ایک یادگار وجود قرار پا گئے ہیں۔
مجلس ترقی ادب
1کلب روڈ لاہور
٭٭٭
پہلا باب
تحریک حریت کشمیر


جس خاک کے ضمیر میں ہو آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند
سر زمین کشمیر کے سب سے اولین مورخ پنڈت کلہن نے اپنی راج ترنگنی میں بارہویں صدی عیسوی میں لکھا ہے کہ ’’ کشمیر وہ ملک ہے جسے روحانی اوصاف سے فتح کیا جا سکتا ہے مسلح افواج سے نہیں۔‘‘
کلہن کے اس آفاقی پیغام کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیر کی حسین وادی پر اس سے پہلے یا اس کے بعد باہر سے جو بھی نظر پڑتی اس میں ملک گیری کی ہوس اور حرص زیادہ کار فرما رہی ہے اس طرح سے کشمیر جارحوں، غاصبوں، لٹیروں اور ملک گیروں کے ہتھے چڑھتا رہا اور اس کے فطری حسن اور سادہ لوح مکینوں کی روح کو بیرونی غاصب صدیوں سے اپنے پاؤں تلے روند رہے ہیں۔
یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ اس ملک کی تاریخ ہر موڑ پر مسلح افواج کے ہاتھوں بہتے ہوئے انسانی خون سے رقم ہوتی رہی جب کہ اس کے محکوم اور مظلوم عوام اپنی آزادی کا پرچم بلند و بالا رکھنے کی غرض سے بے مثال جانی و مالی قربانیاں دیتے رہے اور آج بھی دے رہے ہیں۔
آگ اور خون کے سمندر سے گزرتی ہوئی کشمیر کی تحریک حریت کی تاریخ اتنی ہی طولانی ہے جتنی کہ کشمیری قوم کی داستان الم ہے۔
محمد بن قاسم نے سندھ اور پائینی پنجاب پر711ء اور 713ء کے عرصے میں قبضہ کر لیا اور اس کے بعد وہ ملتان سے روانہ ہو ااور اپنے اسلحہ خانے کو سلطنت کشمیر کی سرحدوں تک لے گیا۔ عربوں کی اس پیش رفت کے عمل سے خوف زدہ ہو کر کشمیر کے راجہ چندر پیڈا نے اپنا ایک سفیر چین کے بادشاہ کے پاس بھیج دیا تاکہ عربوں کے خلاف چینی امداد حاصل کی جا سکے۔ا دھر سے اگرچہ کوئی چینی امداد حاصل نہیں ہو سکی لیکن اس کے ساتھ ہی یہاں محمد بن قاسم کو دمشق کے خلیفہ سلیمان کا بلاوا آ گیا۔ اس طرح سے کشمیر پر عربوں کی یلغار کے منڈلاتے ہوئے بادل وقتی طور پر ٹل گئے۔
خلیفہ ہشام (724ء تا743ء ) کے دور میں سندھ کے عربوں نے اپنے حریص گورنر جنید کی سربراہی میںکشمیر کو ایک بار پھر للکارا۔ لیکن راجہ للتادتیہ نے (724ء تا 760ء ) جو اس وقت فرمان روائے کشمیر تھا جنید کو شکست فاش دی اور اس کی سلطنت کو بھی مغلوب کر کے اس کے کئی حصوں پر اپنی بالا دستی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔
جب خلیفہ منصور (754ء تا775ئ) کے عہد حکومت کے دوران ہشام بن امرات تغلیبی کو سندھ کا گورنر تعینات کیا گیا تو اس نے بھی وادی کشمیر پر ایک اور حملے کی کوشش کی اور وہ ہمالیہ کے جنوبی ڈھلوانوں تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوا۔ لیکن وادی میں داخل ہونے کے سلسلے میں اسے بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
یہ عربوں کی طرف سے کشمیر کو تسخیر کرنے کی آخری کوشش تھی۔ (1)
محمود غزنوی نے بھی جب1015ء میں کشمیر کو زیر کرنے کا ارادہ کر لیا تو اس نے جہلم کی طرف کوچ کیا جو دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر لاہور سے کوئی ایک سو میل شمال مغرب میں واقع ہے غزنوی توسہ میدان کے درے سے کشمیر کی وادی میں داخل ہونے کے لئے پر تولنے لگا مگر اس کی پیش قدمی کو اس درے کے پاس پونچھ کی حدوں میں واقع لوہار کوٹ کے سنگین قلعے کی وجہ سے رکاوٹ پیش آ گئی۔ محمود نے اس قلعے کو ایک ماہ تک اپنے قبضہ میں رکھا لیکن اس سے وہ کوئی عسکری فائدہ حاصل نہیں کر سکا۔ اسی دوران زبردست برف باری اور موسم کی خرابی نے اسے اپنا محاصرہ ختم کرنے پر مجبور کر لیا۔ واپس لوٹتے وقت غزنوی اپنا ہی راستہ بھول گیا اور اس ناگہانی آفت کے جال میں پھنس کر اس کے کئی فوجی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ خود محمود غزنوی بہ مشکل اپنی جان بچا سکا۔ بامزئی لکھتے ہیں کہ اس موقع پر کشمیریوں نے بھی اس کے خلاف اپنی طرف سے زبردست مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔ (2)
کشمیر کو فتح کرنے کی خواہش محمود کے دل میں اب بھی موجیں مار رہی تھی۔ وہ دوسری بار ستمبر اکتوبر1021ء میں غزنوی سے روانہ ہو کر اس ملک پر حملہ آور ہوا اور اپنا پرانا راستہ اختیار کر کے پھر لوہار کوٹ پہنچا۔ اسے پہلی ہی جیسی ناموافق اور جان لیوا صورت حال اور موسم کا سامنا کرنا پڑا۔ محمود ناچار واپس بھاگنے پر مجبور ہوا اور ان ناکام کوششوں کے بعد اس نے پھر کبھی کشمیر کو اپنے تسلط میں لانے کی جرأت نہیں کی ۔(3)
عرب حملہ آوروں کے ناکام حملوں کی زد سے اپنے آپ کو قطعی طور پر محفوظ پا کر اہل کشمیر نے پھر ایک بار اپنے حسین و جمیل ملک کی اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی زندگی کو رنگ روغن بخشنے کی کارروائیاں شروع کیں۔ اس طرح سے کم و بیش چار سو سال کے عرصے پر پھیلے ہوئے ایک خود مختار کشمیر میں امن اور آسودہ حالی کا بول بالا رہا۔ یہ اہل کشمیر کی خوش قسمتی تھی کہ اس دوران انہیں چند ایسے حکمران نصیب ہوئے جو اپنی رعایا کے ہر دکھ سکھ میں شریک ہونے کے ساتھ عام انسانوں کی فکری پرداخت اور ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی خاطر ان تھک کوشش کرتے رہے۔
پندرھویں صدی عیسوی کے آس پاس کشمیر میں سنی اور شیعہ فرقوں میں چند فروعی مسائل پر اختلافات نے ایک تشویشناک شکل اختیار کر لی۔ اس وجہ سے ملک میں سارا انتظامیہ کم و بیش مفلوج ہو کر رہ گیا اور دونوں فرقوں کے حکام۔ علماء اور اکابرین ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گئے۔ ان سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں کشمیر سے باہر کی قوتوں کو یہاں کے مقامی امور میں مداخلت یا فوجی یا سیاسی حمایت کی جو دعوتیں بار بار دی جاتی رہیں ان کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ کشمیر اپنی آزادی اور خود مختاری سے محروم ہو گیا۔
اکبر اعظم نے 20دسمبر1585ء کو راجہ بھگوان داس کی کمان میں پانچ ہزار گھوڑ سواروں پر مشتمل فوج کو اٹک سے ہوتے ہوئے وادی جہلم کے راستے کشمیر پر یلغارکرنے کے احکامات صادر کئے۔ ادھر شہزادہ یعقوب اور دیگر درباریوں نے سلطان یوسف شاہ کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ سختی کے ساتھ مقابلہ کرے لیکن یوسف شاہ غالباً اپنی کم ہمتی کے سبب اس معرکے کے منفی انجام سے خوف زدہ تھا۔ شہزادہ یعقوب نے اپنے والد کے ساتھ اختلاف کرتے ہوئے مغل حملہ آوروں کا بے جگری سے مقابلہ کیا جب وہ کشمیر کی وادی کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ یعقوب شاہ نے اپنی حب الوطنی سے سرشار جذبات کو اپنی جوان مردی کی آنچ دے کر مغل فوج کا ایسا مقابلہ کیا کہ راجہ بھگوان داس کو اپنی ہزیمت سامنے نظر آئی اور اس نے یوسف شاہ اور اس کے محب وطن فرزند سے مصالحت کی پیش کش کی۔
اس صلح نامہ کی رو سے مغل اپنی ساری فوج واپس لینے پر آمادہ ہوئے۔ یوسف شاہ کو بدستور تاج و تخت کا والی تسلیم کیا گیا لیکن مغلوں کو یہ مراعت دینا قرار پایا کہ سکو ںپر اور خطبات میں شہنشاہ اکبر کے نام کا استعمال کیا جائے گا۔
بھگوان دا س نے یوسف شاہ کو ترغیب دی کہ وہ اس کے ساتھ شہنشاہ سے ملاقات کی غرض سے اٹک جائے جہاں اکبر نہ صرف اس کی تعظیم و تکریم کرے گا بلکہ اس عہد نامہ مالحت کی توثیق بھی کرے گا۔ یعقوب شاہ نے اپنے والد کو اس سفر کے خلاف مشورہ دیتے ہوئے اس کے تشویش ناک انجام سے پہلے ہی خبردار کیا تھا۔
بہرحال یوسف شاہ کو 28مارچ1586ء کو اٹک میں اکبر کے سامنے پیش کیا گیا لیکن ایک مکار مغل بادشاہ نے نہ صرف یہ کہ عہد نامہ پر مہر تصدیق ثبت کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس نے سلطان یوسف شاہ کو بھی قید خانے میں ڈال دیا۔
ایک غیرت مند راجپوت ہونے کے ناطے راجہ بھگوان داس نے اکبر کی اس فریب کاری کو اپنے لیے زبردست توہین تصور کر کے خود کشی کرنے کی کوشش کی۔ جب اکبر لاہور پہنچا تو اس نے یوسف شاہ کو توڈدرمل کی تحویل میں دے دیا۔ ڈھائی سال حراست میں رہنے کے بعد راجہ مان سنگھ کی مداخلت سے یوسف شاہ کو رہائی نصیب ہوئی۔ مان سنگھ یوسف شاہ کو اپنے ساتھ بہار کے صوبے میں لے گیا جہاں کشمیر کے اس آخری سلطان نے اپنی محبوبہ حبہ خاتون کی یاد اور جدائی کا کرب سہتے سہتے ایک عالم بے بسی میں14 ذی الحج1000ھ مطابق22ستمبر1592ء کو وفات پائی اور اسے پٹنہ ضلع میں بسوک نامی ایک ویران گاؤں میں سپرد خاک کیا گیا۔
پروفیسر حسن عسکری بسوک اور یوسف شاہ اور یعقوب شاہ کی خستہ حال قبروں کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں بسوک کی جگہ پٹنہ ضلع کے اسلام پور سے شمال مشرق میں تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس گاؤں کے نزدیک ایک ٹیلا ہے جس کے بارے میں کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں ہے کہ وہاں اصل میں کیا تھا۔ اس جگہ کان کنوں کو اکثر سونے اور تانبے کے سکے ملے ہیں جن میں شاہجہانی عہد کے سونے کے سکے بھی شامل ہیں۔
یہاں پر دو قبریں ہیں جو مبینہ طور پر شاہ یعقوب اور یوسف شاہ کی بتائی جاتی ہیں۔ گاؤں کے لوگ ان دو شخصیتوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے البتہ بسوک سے تھوڑے سے فاصلے پر ایک اور گاؤں کشمیری چک کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جواب محض کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ (4)
کشمیر پر مغلوں کی پر فریب گرفت اور یوسف شاہ کی پسپائی کے بارے میں مورخ ڈیو جارک لکھتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں یہ سلطنت (کشمیر) اس خطے میں سب سے زیادہ ناقابل تسخیر تھی اور یہ کہ مغل اعظم کسی بھی صورت میں اسے مغلوب نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن کشمیر کے باشندوں کے درمیان جو گروہی اختلافات موجود تھے وہی اس غلبے کا باعث بنے۔ (5)
مغل ابدشاہ عیش و نشاط کے متوالے تھے۔ اپنے جاہ و جلال کے خمار میں سرمست ہو کر وہ کشمیر کو بھی اپنی ایک سیر گاہ کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ اس طرح سے اگرچہ مقامی آبادی پر ان کے ظلم و ستم کی کوئی کہانی تخلیق نہیں ہوئی لیکن انہوں نے کشمیری زبان اور یہاں کی مقامی تہذیب اور ثقافت کو پہننے سے روکنے کی خاطر براہ راست فارسی زبان اور اس کے فن اور تمدن کو فروغ دیا۔
سلطنت مغلیہ کا سورج مغلوں کے دبدبہ شاہی اور تفنن طبع کی روشنی کو عام کرنے کے لیے کشمیر پر ڈیڑھ سو سال تک چمکتا رہا اور پھر ڈوب بھی گیا۔
کشمیر پر افغان1752ء سے 1819ء تک یعنی 67سال قابض رہے۔ یہی وہ دور ابتلا ہے جب اہل کشمیر پر نکہت و افلاس۔ غلامی اور استحصال کے سارے جہنم کھول دئیے گئے۔ اس موقع پر ایک شاعر نے جاہل، بے رحم اور وحشی افغانوں کے ہاتھوں سر زمین کشمیر کے لٹنے کا یوں نقشہ کھینچا ہے:
پرسیدم از خرابی گلشن زباغبان
افغاں کشید و گفت کہ افغاں خراب کرد
(میں نے باغباں سے باغ کی تباہی و بربادی کا سبب دریافت کیا تو اس نے ایک آہ کھینچ کر کہا کہ اسے افغان نے تہہ و تاراج کر لیا ہے)
افغان یعنی پٹھان حکمران کشمیر میں عام طور پر اپنے ظلم اور بے رحمی کی وجہ سے یاد کئے جائیں گے۔ ان کے بارے میں یہ حکایت بھی زبان زد خاص و عام رہی ہے کہ:
سر بریدن پیش ایں سنگین دلان گل چیدن است
یعنی ان سنگدلوں کے نزدیک کسی کا سر کاٹنا بھی ایک پھول توڑنے کے مترادف تھا۔ (6)
افغان حاکم عبداللہ خان اشک اقاسی نے کشمیر کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی یہاں دہشت و بربریت کا بازار گرم کیا۔ اس کے لٹیرے سپاہی کشمیریوں کو لوٹتے اور قتل کرتے رہے اور انہوں نے ہر جائز اور ناجائز طریقے سے روپیہ پیسہ بٹورنا اپنا فرض منصبی تصور کیا۔
اس سلسلے میں کہا جات اہے کہ ایک موقع پر کشمیر کے ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والے آسودہ حال اور معزز بیوپاریوں اور تاجروں کو شاہی محل میں بلوا کر ان سے کہا گیا کہ وہ اپنا سارا مال و متاع سرکار کے حوالے کر دیں ورنہ انہیں موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس حکم کی خلاف ورزی کرنیوالے تاجروں کے سر قلم کئے گئے اور ان کے قرابت داروں کو بھی تہہ تیغ کیا گیا۔ ایک متمول شہری جلیل کا جسم لوہے کی گرم سلاخوں سے داغا گیا۔ ایک اور ذی عزت شہری قاضی خان سے پانچ لاکھ روپے جبراً وصول کئے گئے۔ حکام کو جب یہ شک ہوا کہ قاضی نے اپنی ساری دولت سرکار کے حوالے نہیں کی ہے تو اس کے بیٹے کو اس حد تک جسمانی اذیتیں دی گئیں کہ وہ بے چارہ دریا میں ڈوب کر خود کشی کرنے پر مجبور ہو گیا۔ جب ظالم و جابر اشک اقاسی کو یہ پتہ چلا کہ اب اسے دینے کے لئے لوگوں کے پاس کچھ نہیں بچا تو وہ کشمیر پر پانچ ماہ تک تانا شاہی چلا کے وادی سے واپس چلا گیا اور ایک کروڑ روپے کی مالیت سے زیادہ کی دولت اور قیمتی اشیاء اپنے ساتھ لے گیا۔
کشمیر پر سکھوں کی حکومت1819ء سے 1846ء تک یعنی27سال کے عرصے پر حاوی رہی۔
1819ء سے 1846ء تک جب انگریزوں نے ریاست کشمیر کو گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کیا۔ سکھوں کے دور حکومت میں کشمیر پر دس گورنر راج کرتے رہے جنہوں نے اہل کشمیر پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا اور بقل ینگ ہسبنڈوہ کشمیریوں پر سخت گیر اور زبردست حاکموں کی طرح حکومت کرتے رہے۔ (7)
دیوان موتی رام نامی ایک گورنر نے کشمیری مسلمانوں کو جذباتی طور پر پریشان کرنے کی ایک ناکام کوشش میں سب سے پہلے سری نگر کی جامع مسجد پر تالا چڑھایا اور اہل اسلام کے لیے وہاں نماز پڑھنے پر پابند عائد کی گئی۔ موتی رام کو یہ خدشہ تھا کہ مسجد میں نمازوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اجتماعات میں سکھ راج کی مخالفت ہوتی رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو اذان دینے سے باز رکھنے کی بھی حکومتی طور پر ہدایت کی گئی۔ (8)
ایک اور حاکم پھولا سنگھ شہر سری نگر میں خانقاہ معلی کے مقابل دریائے جہلم کے دوسرے کنارے پر اپنی توپیں لیکر آیا اور اس نے نخوت کے عالم میں اعلان کیا کہ وہ اس زیارت گاہ کو بارود سے اڑا دے گا۔ کیونکہ اس کے بقول مسلمانوں کی یہ خانقاہ ایک ہندو مندر کے اوپر تعمیر کی گئی تھی۔ اس نازک صورتحال کو ابتر ہونے سے بچانے کی خاطر شہر کی ایک معزز شخصیت پنڈت بیر بل دھر نے مداخلت کی اور اس تاریخی عمارت کو مسمار ہونے سے بچا لیا۔ ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی کے قبولؒ یہ سہرا بیر بل دھر کے سر ہے کہ جب مسلمانوں کا ایک وفد سید حسین شاہ قادری خانیاری کی قیادت میں ان سے ملاقی ہوا اور ان سے التجا کی کہ وہ سکھوں کو خانقاہ معلی کی تباہی کے اقدام سے روکیں تو انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لا کر اس عمارت کو منہدم ہونے سے بچا لیا ۔ (9)
اس سکھ حکمران نے البتہ کئی اور مساجد میں نماز ادا کرنے پر پابندی عائد کر دی اور سری نگر کے وسط میں واقع شاہی مسجد یا پتھر مسجد کو سرکاری ملکیت میں شامل کر لیا۔ مسلمانوں کے لئے گائے کے ذبیحہ پر بھی پابندی عائد کی گئی اور اس کے لئے سزائے موت مقرر کی گئی۔ چنانچہ اس سلسلے میں کئی مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کی پاداش میں سر عام پھانسی پر لٹکایا گیا۔ (10)
سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ 1839 میں مر گیا اور اس کے ساتھ ہی کشمیر پر اس دور استبداد کی گرفت خود بخود ڈھیلی پڑتی گئی کیونکہ رنجیت سنگھ کی پنجاب کی اپنی سلطنت بھی افراتفری اور خانہ جنگی کا شکار ہو رہی تھی۔
رنجیت سنگھ کے ایک ملازم گلاب سنگھ ڈوگرہ نے اپنے بہادرانہ کارناموں سے مہاراجہ کا دل جیت لیا تھا اور جب مہاراجہ نے دم توڑ دیا تو گلاب سنگھ اس وقت تک سارے جموں کا فرمان روا بن چکا تھا۔
16مارچ1846ء کو پنجاب کے شہر امرتسر میں انگریز اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین بیع نامہ امرتسر طے پایا۔ اس معاہدہ کی رو سے انگریزوں نے گلاب سنگھ کو دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب کے تمام علاقے جن میں ریاست جموں و کشمیر کے انسان اور حیوان اور چرند و پرند بھی شامل تھے بیچ ڈالے۔ یہ سودا محض پچھتر لاکھ روپے کے عوض طے ہوا جو آج کے پچاس لاکھ روپے کے برابر ہوتے ہیں۔ گلاب سنگھ کے پاس اس وقت چونکہ ساری رقم موجود نہیں تھی لہٰذا اس نے بقیہ پچیس لاکھ اس سال اکتوبر کی پہلی تاریخ تک ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ اس طرح سے انگریزوں نے چند روپے فی کشمیر کے حساب سے ایک پوری قوم کو ڈوگرہ راج کے چنگل میں دے دیا۔
گلاب سنگھ نے اس سودا بازی میں اپنے اور اپنی اولاد نرینہ کے حق میں عمر بھر کے لئے ریاست کو خرید کر لیا تھا جس کے مطابق یہ بھی طے پایا کہ وہ ہر سال تنومند اسپ تازی۔ چھ پشم دار بکرے اور چھ بکریاں اور تین جوڑے کشمیری جامہ دار شالوں کا تحفہ خراج کے طور پر انگریز حاکموں کو ادا کرتا رہے گا۔
اس بہیمانہا ور غیر انسانی فعل کے شرم ناک پہلوؤں پر مقبول عام شاعر حفیظ جالندھری نے یہ طنز کیا:
وادیاں کہسار جنگل پھول پھل اور سب اناج
ڈھور ڈھنگر آدمی ان سب کی محنت کام کاج
یہ مویشی ہوں کہ آدم زاد ہیں سب زر خرید
ان کے بچے بچیاں اولاد ہیں سب زر خرید
یہی وہ رسوائے زمانہ عہد نامہ ہے جسے مہاتما گاندھی نے ’’ بکری پتر‘‘ کا نام دیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اسے ریاستی عوام کی غلامی کی دستاویز کہا۔ کشمیر کی تحریک حریت کے ایک سر کردہ سپاہی سردار بدھ سنگھ نے اس معاہدے کو دو ڈاکوؤں کے درمیان خرید و فروخت کا نام دیا۔ مولانا محمد سعید مسعودی نے اسے ’’ نیلامی کے مال کا سند نامہ‘‘ کہا اور مولانا غلام رسول مہر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ’’ 1846ء میں انگریزوں نے کشمیر کو اس طرح فروخت کیا کہ امریکی آباد کاری کے ابتدائی دور میں حبشی غلام بھی شاید اس طرح بکے ہوں۔‘‘ (11

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

اردو ہے جس کا نام.
سُخن ورانِ کشتواڑ ..!

سُخن ورانِ کشتواڑ۔مرحومین ..!

سُخن ورانِ کشتواڑ۔مرحومین ..!

سُخن ورانِ کشتواڑ۔مرحومین ..!


اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

..!

..!

.........................................!