کشمیری شاعری
شاعرِکشمیر مہجور۔۔۔۔۔۔۔۔۔وطن دوست سخن ورفطرت شناس انسان
تحریر:حمید اللہ حمید
شاعرِکشمیر مہجور۔۔۔۔۔۔۔۔۔وطن دوست سخن ورفطرت شناس انسان
تحریر:حمید اللہ حمید
کوئی کشمیری شاعر اپنی حین ِ حیات میں ہی اتنی مقبولیت حاصل
نہ کرسکا جتنی پیر زادہ غلام احمد مہجورؔ نے حاصل کی۔مہجور ؔ کی شاعری اتنی زبان
زد عام ہوگئی کہ وہ کشمیر کے عہد ساز شاعر مانے گئے۔مہجورؔ کی شاعری جہاں فطری
رومانوی ماحول اور کشمیری رعنائیوں کی عکاسی کرتی ہے ، وہیںاس میں انقلابی گیت اور
وطن کی محبت کے نغمے بھی گونج اٹھتے ہیں۔ان کی شاعری جاگیردارانہ نظام کے خلاف ایک
موثرآواز ہے اور یہ آزادی و انسانیت کا پیغام دیتی ہے۔ان کے گیتوں میں جوش
،ولولہ،اضطراب ،جنون اور نشاط ہے۔مہجورؔ نے اپنی شاعری میں کشمیری احساسات وجذبات
کی بھر پور ترجمانی کی ہے، اسی لئے وہ قومی شاعر کی حیثیت سے تسلیم کئے گئے اور
انہیں ’’شاعر کشمیر‘‘ کے خطاب ملا۔کشمیری زبان شعر و ادب میں غلام احمد مہجور ؔ کی
انفرادیت اورعظمت کا ڈنکا بجتا رہے گا ۔ان کے اشعار آج بھی پریشانی اور مایوسی
میں ڈوبے انسان کو حوصلہ اور ہمت بخش دیتے ہیں۔انہوں نے یگانگت اور رواداری پر
مبنی گیتوں کے ذریعے آپسی محبت واخوت کا درس دیا ؎
؎ نیائے تراوِو مائے تھاوِو پانہ وأنی( آپس میں
لڑناجھگڑناچھوڑ دو ، میل ملاپ و محبت قائم رکھو)
پؤز محبت بأگراوِو پانہ وأنی(سچی محبت آپس میں بانٹ دو)
مہجورؔ نے شاعری میں مروجہ لب و لہجہ کو اختیارکیا ۔انسانیت
،مردانگی ،لطافت ،نزاکت ،نیاز مندی اور انکساری کے ساتھ ساتھ ولولہ انگیزی ،خود
داری اور جوشیلے پن کو اپنے گیتوں میں اس طرح سمو دیا کہ ہر طرف ان کے نغمے گونج
اٹھے ؎
؎ ولوہا باغانو نو بہارک شان پیدا کر (آجا
اے باغبان !باغ میں نئی بہار کی شان پیدا کر)
پھولن گُل گتھ کَرن بُلبل تِتھی سامان پیدا کر(کھِل اُٹھیں
پھول کہ رقص کریں بُلبل ایسے ہی سامان پیدا کر)
مہجورؔکی ایک مشہور پیاری نظم ’’گریس کور‘‘(کسان کی بیٹی)
ہے۔کھیتوں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنے والی سیدھی سادی محنت کش کرداری کی
صورت میں لڑکی کو خوبصورت انداز میں پیش کرکے کشمیری نظم میں شاعری کو نئی وسعت
بخش دی ہے۔کشمیر کے قدرتی نظاروں،کوہساروں ،برف پوش پہاڑوں ،باغوں ،مرغزاروں اور
اچھلتی کودتی ندیوں ،آبشاروں و چشموں کو نغموں میں ڈھا ل کر مہجورؔ نے وطن عزیز
کی خوبصورت انداز میں منظر کشی کی ہے۔خوش گفتار ،خوش پوس ،خوش مزاج اور خوشنویس
مہجورؔ کے شعرآہ و فغان کے ساتھ کانوں میں راس گھولتے ہیں اور تراوت بخشتے ہیں
۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیری شاعری کا موجودہ دور جو بیسوی صدی سے شروع ہوتا
ہے ،مہجورؔ کی شاعری سے ہی شروع ہوا۔اس شاعر بے بدل نے کشمیر ی شاعری کو آسان
کشمیری کا ہم نوا بنایا اور دیگر شعراء سے ہٹ کر شعر وسخن کو حقایق اور زندگی کی
اصل صورت میں پیش کیا۔اس نے نظموں میں نہ صرف ترقی پسند خیالات کو پیش کیا بلکہ
فطرت کی رعنائیوں اور جلوہ گریوں کی خوشنما عکاسی کی ۔
1947کو شخصی حکومت سے نجات کے بعد عوامی دور سے لوگوں کو یہ
امیدیں وابستہ تھیں کہ ان کو راحت اور سہولتیں میسر ہوں گی مگر جب کہیں کہیں
ناانصافیاں دیکھنے کو ملیں تو مہجورؔ نے طنزیہ شاعری سے دل کی بھڑاس نکالی ۔مہجور
ؔ ہی وہ پہلے شاعر تھے جن کے گیت عام لوگنگاتے ،کھیت کھلیانوں ،شادی بیاہ اور اہم
تقاریب پر ٹولیوں کی صورت میں ساز اور آواز کے ساتھ ان کے نغمے گونج اٹھتے ۔ان کا
کلام 1930ء سے پہلے شائع ہوتا رہا،گرامو فون پر ریکارڈ ہوتا رہا ،سینکڑوں کی تعداد
میں کتابیں چھپیں کہ دوسرے کشمیری شاعر کا کلام اتنی بار اور اتنے ایڈیشنوں میں
نہیں چھپا۔ہونہار محقق اور انقلابی شاعر عبدالاحد آزادؔ نے 1948ء سے پہلے لکھی
کتاب ’’کشمیری زبان اور شاعری ‘‘ میں غلام احمد مہجورؔ کی زندگی اور شاعری پر سب
سے پہلے تفصیل سے روشنی ڈالی جو 1961ء میں منظر عام پر آگئی۔جامع شخصیت کے مالک
مہجورؔ نے نہ صرف حساس وسنجیدہ شاعر تھے ،بلکہ مورخ ،قلم کار،صحافی اور خوشنویس
بھی تھے۔اپنے زمانے کی اہم شخصیات سے اس کا قریبی تعلق رہا۔ڈاکٹر سر محمد اقبال سے
وہ تاریخ ادبیات کشمیر کے متعلق خط و کتابت کرتے رہے۔رابند ناتھ ٹیگور کی فرمایش
پر حبہ خاتون کی زندگی کے حالات اور گیت انہیں بھیجتے رہے۔پروفیسر مجیب کو حبہ
خاتون ڈرامہ کے لئے مسودہ فراہم کرتے رے ،محمد امین فوق ؔ کو تاریخ اقوام کشمیر
کتاب کے سلسلے میں معلومات فراہم کر تے رہے ۔کشمیر کے معروف عوامی رہنمائوں کے
ساتھ بھی ان کی قربت رہی جو ان کے فن اور شاعری سے بے حد متاثر تھے۔ہمعصر سعرا و
ادباء کے ساتھ گہرے تعلقات تھے ۔فلم ایکٹر بلراج ساہنی اور دیویندرتیارتھی ان کے
گرویدہ تھے۔مہجورؔ صاحب کو کشمیری مرتب کرنے اور مخطوطات جمع کرنے کا بھی بڑا شوق
تھا۔ان کے فلمی سنخوں میں تاریخ کشمیر کا اردو ترجمہ پایا گیاکہ ان کی تاریخ سے
گہری دلچسپی معلوم ہوئی ۔غلام احمد مہجورؔ نے اپنے آبائی پیشہ کی بجائے سرکاری
ملازمت کو اس لئے اختیار کیا تاکہ مشقت سے روزگار کما سکے۔پٹواری کے طور ملازمت کے
دوران انہیں کئی بار معطل بھی ہوناپڑا اور لداخ کے دشوار گزار دور افتادہ علاقہ
میں دو سال تبدیل بھی ہونا پڑا۔انہیں اس لئے ترقی نہیں دی گئی کہ حق گوئی اختیار
کی ۔آپ نے قلم کو بے نواؤں ،مزدوروں ،غریب کسانوں کیلئے وقف
رکھا۔کشمیر کے پہلے شاعر مہجورؔ ہی ہیں جن کے حق میں ریاستی حکومت نے
حسن خدمت کا وظیفہ منظور کیا اور وفات سے ایک روز قبل انہوں نے اس کی پہلی قسط
وصول کی۔9اپریل 1952ء کو متری گام پلوامہ میں رحلت کے بعد 11اپریل کو خانقاہ معلی
سرینگر میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔پھر سرکاری اعزاز کے ساتھ اتھواجن برلب سرینگر
جموں شاہراہ پر سپرد خاک کیا گیا۔شاعر کشمیر مہجورؔ نام کی کشمیری اور اردو فیچر
فلمیں تیار کی گئیں جو اگست 1970ء میں پہلی بار سرینگر اور سوپور کے سینما ہالوں
میں پیش کی گئیں ۔کشمیر کے اس عظیم شاعرکی مختلف شعری تخلیقات کی اردو ،ہندی
،بنگالی ،پنجابی اور انگریزی میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ان کے گیت آج بھی مقبول عام ہیں
۔مہجور ؔ کشمیر کے پہلے وہ شاعر ہیں جن کی شعر و ادب پر زیادہ تعداد میں دانشوروں
،ادبا ء ،شعراء ،محققوں اور نقادوں نے مظامین لکھے۔کئی اخبارات اور رسائل نے ان کے
یاد گاری نمبر بھی نکالے ۔اس شاعر وطن کی یہ عوامی مقبولیت کی دلیل ہے کہ ان کے
نام پر مہجور پل‘،مہجور نگر،مہجور میموریل ہائر سکنڈری سکول پلوامہ اورکئی
نجی تجارتی ادارے اور شیر کشمیر میڈیکل انسٹی چیوٹ صورہ میں مہجور وارڈ قائم ہیں
۔ان کے نام پر بھارت نے 2013ء میں ڈاک ٹکٹ بھی جاری کی۔بے باک ،نڈر ہوکر شاعری
کرنے والے مہجورکو شاعر کشمیر کا خطاب دیا گیا کیونکہ انہوں نے کشمیریوں کے جذبات
،قومی شناخت اور وطن کی خوبصورتی کو شاندار طریقے میںزبان ِ شعر میں پیش کیا۔انہوں
نے کشمیر زبان ،ادب ،شاعری اور تاریخ کی بے لوث خدمت انجام دی جوبڑا قومی سرمایہ
ہے۔اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ دے(آمین)
.......................................................
نوٹ : مضمون نگار ـمحکمہ اطلاعات کے سابق آفیسر اور محفل بہار ادب شاہورہ پلوامہ
کے صدر ہیں ۔
+919858791812یاhuhamidshah@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حبہ خاتون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حبہ خاتون ۔۔۔۔۔۔۔ زون
کشمیری شاعری میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے وہ سولہویں صدی کے وسط میں پانپور کے چندرہار گاؤں میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئی ، نام زون تھا ، وہ حدرجہ خوبصورت تھی اور ساتھ ہی تحصیل علم کی شوقین تھی۔
اس کی شادی خاوند اور سسرال والوں کی زیادتیوں کی وجہ سے ناکام ہوئی ۔ ایک دن جب کہ وہ کھیت میں کام کرتے ہوئے کوئی کشمیری گیت گارہی تھی ،یوسف شاہ چک نے اسے دیکھا اور وہ جان و دل سے اس پر فریفتہ ہوگیا اوراس سے شادی کرکے اسے ملکہ بنا دیا۔ یوسف شاہ کو جب اکبر بادشاہ نے دربارمیں بلا کرقید کرلیا تو حبہ خاتون بے سہارا ہوگئی اور واپس میکے لوٹ کرکسمپرسی کی حالت میں رحلت کرگئی۔ اس کا مدفن اتھواجن میں ہے ۔ کچھ محقق کہتے ہیں کہ وہ بہار کے بسوک علاقے میں یوسف شاہ کے مزار میں مدفون ہے۔
حبہ خاتون نے اپنی شاعری میں ایک عورت کی داخلی زندگی کے جذبات واحساسات کی دردمندی ، نزاکت اور حسن کے ساتھ مرقع کاری کی ہے ۔ وہ شعرمیں طبقہ اناث کی ترجمانی میں ایک پیشرو کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی شاعری پر کئی مقالے لکھے گئے ہیں۔ امین کامل نے اس پر ایک کتابچہ شائع کیا ہے۔
آ،سہیلی پانی بھرنے جائیں
دنیا نیند اور خواب میں ہے
میں تیرے جواب کے منتظر میں ہوں
اے میرے پھول جیسے محبوب آجا
--------------- (ترجمہ)
میں سرِ کوہ چاند ہوں اٹکا ہوا
تیری آنکھ کہاں لگئی ہے
میں پل بھر ہوں ،سرک جائوں گی
محبوب ، تجھ پر میں سرفدا کروں
--------------- (ترجمہ)
سولہویں صدی کی مشہور کشمیری شاعرہ حبہ خاتون کی شاعری کا آزاد منظوم ترجمہ
آج پھر کسی کی یاد آنے لگی
میں اپنے ھاتھوں میں مہندی رچانے لگی
میرے محبوب، میری محبت میں سرشار آجا
دل کے ویرانوں میں بن کے بہار آجا
آ بھی جا کہ دل میں بے کلی بے سبب رہتی ہے
آبھی جا کہ میری جاں۔۔۔ جاں بلب رہتی ہے
آسماں پر گھٹائیں بہت، کوئی ماہتاب نہیں ہے
اور تیری فرقت کی مجھ میں تاب نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تیری یاد ہے
دور ویرانوں میں فصل بہار آئی ہے
اس کے ساتھ جو پھوار آئی ہے
یہ تیری یاد ہے
یا میری فریاد ہے
کوہسار کی جھیل کنارے پھول کھل رہے ہیں
ہوا کی مستی سے درخت ہِل رہے ہیں
یہ تیری یاد ہے
یا میری فریاد ہے
آ پہاڑ کے دامن میں مرغزار کی سیر کریں
اور اس کے ساتھ گرتی آبشار کی سیر کریں
پھر میں صرف تجھے یاد کروں
پھر کوئی نہ فریاد کروں
ایک کشمیری لوک شاعرہ حبہ خاتون کی شاعری کا آزاد منظوم ترجمہ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حبہ خاتون کی غزل ” ژولہمو روشے روشے ولو میانہ پوشے مدلو“ سے شاعر کشمیر مہجور اس قدر متاثر ہوا کہ اس زمین پر اپنی نظم ”پوشے متہ جانانو“ لکھی جس پر اسے عظیم شاعر ٹیگور سے بھی داد ملی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہار کے بسواک علاقہ میں یوسف شاہ چک اور حبہ خاتون کا مزار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حبہ خاتون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حبہ خاتون ((1541 –
1601)) : اصل نام زون تھا جس کے معنی چاند کے ہیں۔ کشمیر کے موضع چندن ہار میں
پیدا ہوئی۔ تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔ بعض نے 1553 بتائی ہے۔ پہلے ایک غیر معروف
شخص سے شادی ہوئی جو راس نہ آئی۔ لیکن اسی شخص حبہ لالہ کے نام کی مناسبت سے حبہ
خاتون مشہور ہوئی۔ چند سال تک سسرال میں بڑی مظلومی کی زندگی بسر کی پھر بادشاہ
وقت یوسف شاہ چک کی ملکہ بن گئی۔ وہ ریاست کے معاملات میں سلطان کو مشورہ دیتی تھی
اور اس کی قوت کا سرچشمہ تھی۔ لیکن جب مغلیہ فوج شاہ کو گرفتار کر کے لے گئی تو
حبہ خاتون نے باقی زندگی ترک دنیا میں گزاری۔ زندگی کی اس اونچ نیچ کا اثر اس
کشمیری شاعرہ کی شاعری میں صاف نظر آتا ہے۔
حبہ خاتون گیت کار اور موسیقار دونوں حیثیت سے شہرت رکھتی ہے۔ اس کی طویل نظمیں "وژُن"
حبہ خاتون گیت کار اور موسیقار دونوں حیثیت سے شہرت رکھتی ہے۔ اس کی طویل نظمیں "وژُن"
گیتوں میں ہیں جو کشمیری شاعری کی مقبول صنف ہے۔ لیکن اس
کی مقبولیت کا سبب اس کی غزلیں ہیں۔ اسے موجودہ کشمیری غزل کا بانی سمجھا جاتا ہے۔
جہاں تک اس کی ابتدائی نظموں اور گیتوں کا تعلق ہے، وہ اس کے دور مظلومیت کی
ترجمانی کرتے ہیں۔ اس کے عشقیہ گیت جو دور خوشحالی کی تخلیق ہیں بڑے ہی اثر آفریں
ہیں۔ آخری دور کی شاعری میں ایسا نظر آتا ہے کہ عشق مجازی نے عشق حقیقی کی صورت
اختیار کر لی ہے۔ مجموعی طور پر حبہ خاتون کی شاعری سولہویں صدی عیسوی کی نمائندہ
شاعری ہے۔ سادگی و سلاست کے باوجود زبان و بیان پر فارسی شاعری کا اثر غالب ہے۔ اس
میں عصری آگہیہ کا بھرپور عکس جلوہ گر ہے۔
ملکہ کشمیر حبہ خاتون
حبہ خاتون ۔۔۔۔۔۔۔ زون
کشمیری شاعری میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے وہ سولہویں صدی کے وسط میں پانپور کے چندرہار گاؤں میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئی ، نام زون تھا ، وہ حدرجہ خوبصورت تھی اور ساتھ ہی تحصیل علم کی شوقین تھی۔
اس کی شادی خاوند اور سسرال والوں کی زیادتیوں کی وجہ سے ناکام ہوئی ۔ ایک دن جب کہ وہ کھیت میں کام کرتے ہوئے کوئی کشمیری گیت گارہی تھی ،یوسف شاہ چک نے اسے دیکھا اور وہ جان و دل سے اس پر فریفتہ ہوگیا اوراس سے شادی کرکے اسے ملکہ بنا دیا۔ یوسف شاہ کو جب اکبر بادشاہ نے دربارمیں بلا کرقید کرلیا تو حبہ خاتون بے سہارا ہوگئی اور واپس میکے لوٹ کرکسمپرسی کی حالت میں رحلت کرگئی۔ اس کا مدفن اتھواجن میں ہے ۔ کچھ محقق کہتے ہیں کہ وہ بہار کے بسوک علاقے میں یوسف شاہ کے مزار میں مدفون ہے۔
حبہ خاتون نے اپنی شاعری میں ایک عورت کی داخلی زندگی کے جذبات واحساسات کی دردمندی ، نزاکت اور حسن کے ساتھ مرقع کاری کی ہے ۔ وہ شعرمیں طبقہ اناث کی ترجمانی میں ایک پیشرو کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی شاعری پر کئی مقالے لکھے گئے ہیں۔ امین کامل نے اس پر ایک کتابچہ شائع کیا ہے۔
آ،سہیلی پانی بھرنے جائیں
دنیا نیند اور خواب میں ہے
میں تیرے جواب کے منتظر میں ہوں
اے میرے پھول جیسے محبوب آجا
--------------- (ترجمہ)
میں سرِ کوہ چاند ہوں اٹکا ہوا
تیری آنکھ کہاں لگئی ہے
میں پل بھر ہوں ،سرک جائوں گی
محبوب ، تجھ پر میں سرفدا کروں
--------------- (ترجمہ)
سولہویں صدی کی مشہور کشمیری شاعرہ حبہ خاتون کی شاعری کا آزاد منظوم ترجمہ
آج پھر کسی کی یاد آنے لگی
میں اپنے ھاتھوں میں مہندی رچانے لگی
میرے محبوب، میری محبت میں سرشار آجا
دل کے ویرانوں میں بن کے بہار آجا
آ بھی جا کہ دل میں بے کلی بے سبب رہتی ہے
آبھی جا کہ میری جاں۔۔۔ جاں بلب رہتی ہے
آسماں پر گھٹائیں بہت، کوئی ماہتاب نہیں ہے
اور تیری فرقت کی مجھ میں تاب نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تیری یاد ہے
دور ویرانوں میں فصل بہار آئی ہے
اس کے ساتھ جو پھوار آئی ہے
یہ تیری یاد ہے
یا میری فریاد ہے
کوہسار کی جھیل کنارے پھول کھل رہے ہیں
ہوا کی مستی سے درخت ہِل رہے ہیں
یہ تیری یاد ہے
یا میری فریاد ہے
آ پہاڑ کے دامن میں مرغزار کی سیر کریں
اور اس کے ساتھ گرتی آبشار کی سیر کریں
پھر میں صرف تجھے یاد کروں
پھر کوئی نہ فریاد کروں
ایک کشمیری لوک شاعرہ حبہ خاتون کی شاعری کا آزاد منظوم ترجمہ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حبہ خاتون کی غزل ” ژولہمو روشے روشے ولو میانہ پوشے مدلو“ سے شاعر کشمیر مہجور اس قدر متاثر ہوا کہ اس زمین پر اپنی نظم ”پوشے متہ جانانو“ لکھی جس پر اسے عظیم شاعر ٹیگور سے بھی داد ملی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہار کے بسواک علاقہ میں یوسف شاہ چک اور حبہ خاتون کا مزار
برصغیر میں بادشاہت کی
طویل تاریخ اور روایت میںمحض چند ہی شاہی جوڑے ایسے مشہور ہوئے ہیں جنہوں نے سیاست
اور سلطنت کو دلوں کے معاملات پر حاوی ہو نے نہیں دیا۔ ان شاہی جوڑوں میں ملک
کشمیر کی تاریخ میں یوسف شاہ چک اور حبہ خاتون واحد ایسا جوڑاہے جو اپنے شاہی
اوصاف کے مقابلہ میں زیادہ رو مان، اور شعر و ادب اور موسیقی کے پس منظر میں یاد
کئے جاتے ہیں ۔کشمیر ی لوک گیتوں کے علاوہ اس جوڑے کی رومانی داستان ماضی قریب تک
اس قدر لوگوں کے حافظے میں رچی بسی تھی کہ تاریخ اور افسانے کے تانے بانے سے بنی
ہوئی ان کی کہانی گھر گھر میں داستان کے بطور بھی سنائی جاتی رہی۔حبہ خاتون، جو
بنیادی طور ایک شاعر ہ تھیں، کشمیری موسیقی میں بھی زبردست دسترس رکھتی تھیں اور
کشمیری صوفیانہ موسیقی کا مشہور مقام ’’راست کشمیری‘‘ ان کی ہی دین ہے۔ ان کی محبت
کی ابتداء اگر چہ شاہانہ تزک و احتشام سے ہو ئی لیکن اس کا اختتام دیارِ غیر میں
قید و بند کی صعوبتوں کے ساتھ ہی ہوا اور بالآخر یہ شاہی جوڑا اپنے وطن عزیز سے
ہزاروں میل کی دوری پر صوبہ بہار کی تپتی ہوئی زمین میں پیوند خان ہوا اور موجودہ
بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے35کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بسواک میں انکی قبریں
کشمیری قوم اور حکومت کی عدم توجہی کی دہائی دے رہی ہیں۔کشمیری چک کے نام سے معروف
اس مخصوص مقام پر بغل در بغل موجود یہ دونوں قبریں کسی ایسے حکمران کے انتظار میں
ہیں، جو انہیں وہ مرتبہ عطا کردے جس کی یہ حقدار ہیں۔اگرچہ حبہ خاتوں کی قبر کے
بارے میں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کشمیر میں ہی مدفون ہے لیکن اب تک کسی ایسی
قبر کی نشاندہی نہیں کی گئی جو ملکہ سے منسوب ہو۔ معروف صحافی اور مصنف غلام نبی
خیال کا کہنا ہے کہ ’’ بہت عرصہ پہلے ایک ٹیم نے اتھوان میں مہجورؔ کی قبر کے شمال
کی جانب میں دو قبریں دریافت کی تھیں اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان میں سے ایک قبر
حبہ خاتون کی ہے لیکن ان پر کندہ تمام عبارتیں زائل ہوچکی تھیں لہٰذا قطعیت کے
ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ حبہ خاتون کی قبر ہے‘‘۔ موریخ جی ایم ڈی صوفی نے بھی
اس پس منظر میں حبہ خاتون کی قبر کو مہجور کی آخری آرم گاہ کے آس پاس لکھا ہے لیکن
موصوف نے آخر میں تحریر کیا ہے کہ ’’یقین کے ساتھ اس بات کی تصدیق کرنا کہ ملکہ
کشمیر وادی میں مدفون ہیں غلط ہوگا ‘‘۔ معروف محقق غلام رسول بٹ کا کہنا ہے
’’تواریخ کے مطالعہ سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ ہندوستان کے شہنشاہ
اکبر کی قیدسے یوسف شاہ چک کی رہائی کے اڑھائی سال بعد حبہ خاتون نے بہار میں
کشمیر کے جلا وطن بادشاہ کے ساتھ رہ کر زندگی کے آخری ایام گزارے ہیں‘‘۔ حوالہ
دیتے ہوئے انہوں نے کہا’’ جیساکہ تواریخ میں درج ہے کہ اکبر نے 993ھ میں کشمیر کے
آخری آزادحکمران یوسف شاہ چک کوبہار میں قید رکھ کر ،بعد میں رہا کرکے اُن کو
جلا وطنی کی حالت میں ِبہارجا گیریں دیں، جہاں انہوں نے اپنے اہل عیال کے ساتھ
زندگی کے باقی دن گذار دیئے ‘‘ ۔یاد رہے کہ اس بات کا ذکر کشمیر کی مختلف تواریخوں
کے علاوہ اکبر بادشاہ کے درباری مورخین نے بھی کیا ہے۔جن میں اکبر نامہ کا مؤلف
ابوالفضل، مشہور مورخ محمد قاسم فرشتہ اور ماثر الامراء کے مؤلف بھی ہیں ۔اس پر
مزید تبصرہ کر تے ہو ئے محمد یوسف ٹینگ نے کہا ہے کہ’’میں1977 میں بحیثیت سکریڑی
کلچر ل اکیڈیمی بسواک بہار گیا جہاں میں نے یوسف شاہ چک اور حبہ خاتون کا مزار
دیکھا ہے ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے بھی بہار کا
دورہ کرکے اس تاریخی مزار کا جائز لیا اور اس کی خستہ حالی دیکھ کر انہوں نے مزار
کی تعمیر نو کے احکامات جاری کئے اور یوسف شاہ چک و حبہ خاتون کے مزار کی تعمیر
کلچرل اکیڈیمی نے کی‘‘۔ تاریخ کشمیر کی تاریخ ’’گوہر عالم‘‘ کے مشہور مؤلف محمد
اسلم منعمی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ ’’میں 1188ھ میں اتفاقاً دارالخلافہ چلا
گیاتھا،جہاں میری ملاقات چک خاندان کے آخری بادشاہ یعقوب چک کے پسماندگان اولادوں
سے ہوئی ،اور ان سے میں نے ’’نور نامہ‘‘ جو حضرت شیخ نورالدین ولی ؒ کے کلام کا
مجموعہ تھا ، اور جس کا ترجمہ سلطان زین العابدین (823-874ھ) کے دور مشہور مورخ
وشاعر مولانا احمد علامہ کشمیری نے بزبان فارسی کیا تھا اور جن کا نام اس نے
’’مراۃ الاولیائ‘‘ رکھا تھا ، حاصل کیا اور اس کی نقل میں نے خود کی‘‘۔
حبہ خاتون سے پہلی ملاقات
حبہ خاتون ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور اُن کا اصلی نام زون تھا۔ ان کا پہلا نکاح تاریخی حوالوں کے مطابق عزیز لون نامی ایک کسان کے ساتھ ہوا تھالیکن سسرال والوں کے ظلم وستم سے حبہ خاتون اکثر پریشان رہتی تھی ۔ کہاجاتاہے کہ ایک روز حبہ خاتون اپنی گھریلو زندگی کے دکھڑوں کو ترنم کی صورت میں گارہی تھی کہ وہاں سے سلطان یوسف شاہ چک کا گذر ہوا اورجوں ہی انہوں نے حبہ خاتون کوبلایا اور اس نے اپنی آپ بیتی سنائی۔تاریخ میں درج ہے کہ یوسف شاہ چک نے حبہ خاتون کے شوہر کو طلب کر کے طلاق حاصل کی اور پھر حبہ خاتون کے ساتھ خود نکاح کیا۔بتایا جاتا ہے کہ سلطان حبہ خاتون کی ذہانت سے اس قدر متاثر تھا کہ نجی زندگی کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی امور میں بھی حبہ خاتون کا عمل دخل رہتا تھا۔ سلطان خود بھی موسیقی کا دلدادہ تھا اور حبہ خاتون کی شعری صلاحیتوں سے یہ دو آتشہ بن گیا۔ مورخ حید ملک کے مطابق یوسف شاہ چک نے اپنے دور اقتدا میں کئی پل ملکہ کے نام سے تعمیر کئے تھے ، جن میں حبہ کدل آج بھی مشہور ہے۔ گریز میں بھی ایک پہاڑ حبہ خاتون کے نام سے آج بھی منسوب ہے۔جس سے یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ حبہ خاتون گریز سے تعلق رکھتی تھیں۔
سلطان کی گرفتاری
مبصرین کہتے ہیں کہ دراصل یوسف شاہ چک فطرت کا دلدادہ تھا اور شعر و سخن اور موسیقی کارسیا تھا جس کی وجہ سے بطور ایک سیاسی سربراہ کے وہ معاملات کی جانب فکر مندی کے ساتھ متوجہ نہ ہوا۔نتیجتاً میں عمائیدین سلطنت، جن میں ان کے قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے، نے حکومت کی عملی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی اور اپنی نااہلی کی وجہ سے کشمیر کی سیاسی صورتحال کو سنبھالنے میں ناکام ہوئے ۔ ایسے حالات میں مغلوں کو ، جو برسہا برس سے تاک میں بیٹھے ہوئے تھے، کشمیر پر ہاتھ ڈالنے کا موقع ملا اور کئی ناکام حملوں کے بعد مغل بادشاہ اکبر نے یوسف شاہ چک کو اپنے سپہ سالار بھگوان داس کے ذریعے اکبر آباد بلا کر قید کیا اور کشمیر پر قابض ہوا۔طویل قید کے بعد جب سلطان یوسف کو رہا ئی نصیب ہوئی توا نہیں بہار میں جاگیر دے کر ان کے عیال کو بھی بہار بلوایا گیا۔ ’’حبہ خاتون -تواریخ کے آئینے میں‘‘غلام رسول بٹ لکھتے ہیں کہ یوسف شاہ بادشاہ کشمیر کے اپنے دورِ حکومت میں جب اکبربادشاہ نے جلال آباد سے مرزا طاہر اور صالح عاقل کو سفیر بناکر کشمیر بھیجا تاکہ وہ یوسف شاہ کو اکبر کے دربار میں پیش کریں اور یوسف شاہ اکبر کے حضورمیں اپنی اطاعت گذاری کا ثبوت دے ۔ یوسف شاہ نے اس سلسلے میں اپنے وزیروں اور امراء کے مشورے کے خلاف اپنے سب سے چھوٹے لڑکے حیدرخان کو مرزا طاہر اور صالح عاقل کے ساتھ اکبر کی خدمت میں بھیج دیا ۔لیکن وفاداری کے یہ تمام دعوے اکبر کو مطمئن نہ کرسکے او ر وہ باربار یوسف شاہ کو دربار میں حاضر ہونے پر اصرار کرتارہا اور راجہ مان سنگھ نے اکبر کے کہنے کے مطابق تیموربیگ کو یوسف شاہ کے نام اکبر کے فرمان کے ساتھ مغل سفیر بناکر کشمیر روانہ کیا ۔ اس اصرار طلبی سے یوسف شاہ ڈر گیا ،اس لئے اُس نے تیمور بیگ سفیر کے ساتھ اپنے سب سے بڑے لڑکے شہزادہ یعقوب کواور اکبر کے لئے کشمیر کی قیمتی ،عمدہ اور نادرچیزیں روانہ کیں ،گویا یوسف شاہ جب کشمیر کا بادشاہ بن گیا تو اُس وقت اُس کے تین لڑکے تھے ، جو پہلی بیوی کے بطن سے تھے، جن میں سب سے بڑا یعقوب چک ، دوسرا میرزا ابراہیم چک اور تیسرا سب سے چھوٹا حیدرخان تھا۔اس کے بعد بھگوان داس کے ذریعے اُسے بلا کر بہار میں قید کیا گیا۔
حبہ خاتون سے پہلی ملاقات
حبہ خاتون ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور اُن کا اصلی نام زون تھا۔ ان کا پہلا نکاح تاریخی حوالوں کے مطابق عزیز لون نامی ایک کسان کے ساتھ ہوا تھالیکن سسرال والوں کے ظلم وستم سے حبہ خاتون اکثر پریشان رہتی تھی ۔ کہاجاتاہے کہ ایک روز حبہ خاتون اپنی گھریلو زندگی کے دکھڑوں کو ترنم کی صورت میں گارہی تھی کہ وہاں سے سلطان یوسف شاہ چک کا گذر ہوا اورجوں ہی انہوں نے حبہ خاتون کوبلایا اور اس نے اپنی آپ بیتی سنائی۔تاریخ میں درج ہے کہ یوسف شاہ چک نے حبہ خاتون کے شوہر کو طلب کر کے طلاق حاصل کی اور پھر حبہ خاتون کے ساتھ خود نکاح کیا۔بتایا جاتا ہے کہ سلطان حبہ خاتون کی ذہانت سے اس قدر متاثر تھا کہ نجی زندگی کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی امور میں بھی حبہ خاتون کا عمل دخل رہتا تھا۔ سلطان خود بھی موسیقی کا دلدادہ تھا اور حبہ خاتون کی شعری صلاحیتوں سے یہ دو آتشہ بن گیا۔ مورخ حید ملک کے مطابق یوسف شاہ چک نے اپنے دور اقتدا میں کئی پل ملکہ کے نام سے تعمیر کئے تھے ، جن میں حبہ کدل آج بھی مشہور ہے۔ گریز میں بھی ایک پہاڑ حبہ خاتون کے نام سے آج بھی منسوب ہے۔جس سے یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ حبہ خاتون گریز سے تعلق رکھتی تھیں۔
سلطان کی گرفتاری
مبصرین کہتے ہیں کہ دراصل یوسف شاہ چک فطرت کا دلدادہ تھا اور شعر و سخن اور موسیقی کارسیا تھا جس کی وجہ سے بطور ایک سیاسی سربراہ کے وہ معاملات کی جانب فکر مندی کے ساتھ متوجہ نہ ہوا۔نتیجتاً میں عمائیدین سلطنت، جن میں ان کے قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے، نے حکومت کی عملی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی اور اپنی نااہلی کی وجہ سے کشمیر کی سیاسی صورتحال کو سنبھالنے میں ناکام ہوئے ۔ ایسے حالات میں مغلوں کو ، جو برسہا برس سے تاک میں بیٹھے ہوئے تھے، کشمیر پر ہاتھ ڈالنے کا موقع ملا اور کئی ناکام حملوں کے بعد مغل بادشاہ اکبر نے یوسف شاہ چک کو اپنے سپہ سالار بھگوان داس کے ذریعے اکبر آباد بلا کر قید کیا اور کشمیر پر قابض ہوا۔طویل قید کے بعد جب سلطان یوسف کو رہا ئی نصیب ہوئی توا نہیں بہار میں جاگیر دے کر ان کے عیال کو بھی بہار بلوایا گیا۔ ’’حبہ خاتون -تواریخ کے آئینے میں‘‘غلام رسول بٹ لکھتے ہیں کہ یوسف شاہ بادشاہ کشمیر کے اپنے دورِ حکومت میں جب اکبربادشاہ نے جلال آباد سے مرزا طاہر اور صالح عاقل کو سفیر بناکر کشمیر بھیجا تاکہ وہ یوسف شاہ کو اکبر کے دربار میں پیش کریں اور یوسف شاہ اکبر کے حضورمیں اپنی اطاعت گذاری کا ثبوت دے ۔ یوسف شاہ نے اس سلسلے میں اپنے وزیروں اور امراء کے مشورے کے خلاف اپنے سب سے چھوٹے لڑکے حیدرخان کو مرزا طاہر اور صالح عاقل کے ساتھ اکبر کی خدمت میں بھیج دیا ۔لیکن وفاداری کے یہ تمام دعوے اکبر کو مطمئن نہ کرسکے او ر وہ باربار یوسف شاہ کو دربار میں حاضر ہونے پر اصرار کرتارہا اور راجہ مان سنگھ نے اکبر کے کہنے کے مطابق تیموربیگ کو یوسف شاہ کے نام اکبر کے فرمان کے ساتھ مغل سفیر بناکر کشمیر روانہ کیا ۔ اس اصرار طلبی سے یوسف شاہ ڈر گیا ،اس لئے اُس نے تیمور بیگ سفیر کے ساتھ اپنے سب سے بڑے لڑکے شہزادہ یعقوب کواور اکبر کے لئے کشمیر کی قیمتی ،عمدہ اور نادرچیزیں روانہ کیں ،گویا یوسف شاہ جب کشمیر کا بادشاہ بن گیا تو اُس وقت اُس کے تین لڑکے تھے ، جو پہلی بیوی کے بطن سے تھے، جن میں سب سے بڑا یعقوب چک ، دوسرا میرزا ابراہیم چک اور تیسرا سب سے چھوٹا حیدرخان تھا۔اس کے بعد بھگوان داس کے ذریعے اُسے بلا کر بہار میں قید کیا گیا۔
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔