منگل، 21 ستمبر، 2021

تصاویر

0 تبصرے












مرحوم عبدالرشید لون صاحب


















پیر، 24 فروری، 2020

جمعہ، 5 جنوری، 2018

آخری آدمی—انتظار حسین

0 تبصرے
آخری آدمی—انتظار حسین
الیاسف اس قریے میں آخری آدمی تھا۔ اس نے عہد کیا تھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور میں آدمی ہی کی جون میں مروں گا۔ اور اس نے آدمی کی جون میں رہنے کی آخر دم تک کوشش کی۔
اور اس قریے سے تین دن پہلے بندر غائب ہو گئے تھے۔ لوگ پہلے حیران ہوئے اور پھر خوشی منائی کہ بندر جو فصلیں برباد اور باغ خراب کرتے تھے نابود ہو گئے۔ پر اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا کرتا تھا یہ کہا کہ بندر تو تمہارے درمیان موجود ہیں مگر یہ کہ تم دیکھتے نہیں۔ لوگوں نے اس کا برا مانا اور کہا کہ کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے اور اس نے کہا کہ بے شک ٹھٹھا تم نے خدا سے کیا کہ اس نے سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا اور تم نے سبت کے دن مچھلیوں کا شکار کیا اور جان لو کہ وہ تم سے بڑا ٹھٹھا کرنے والا ہے۔
اس کے تیسرے دن یوں ہوا کہ الیعذر کی لونڈی گجر وم الیعذر کی خواب گاہ میں داخل ہوئی اور سہمی ہوئی الیعذر کی جورو کے پاس الٹے پاؤں آئی۔ پھر الیعذر کی جورو خواب گاہ تک گئی اور حیران و پریشان واپس آئی۔ پھر یہ خبر دور دور تک پھیل گئی اور دور دور سے لوگ الیعذر کے گھر آئے اور اس کی خواب گاہ تک جا کر ٹھٹھک ٹھٹھک گئے کہ الیعذر کی خواب گاہ میں الیعذر کی بجائے ایک بڑا بندر آرام کرتا تھا اور الیعذر نے پچھلے سبت کے دن سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑی تھیں۔
پھر یوں ہوا کہ ایک نے دوسرے کو خبر دی کہ اے عزیز الیعذر بندر بن گیا ہے۔ اس پر دوسرا زور سے ہنسا۔ “تو نے مجھ سے ٹھٹھا کیا۔” اور وہ ہنستا چلا گیا، حتٰی کہ منہ اس کا سرخ پڑ گیا اور دانت نکل آئے اور چہرے کے خد و خال کھینچتے چلے گئے اور وہ بندر بن گیا۔ تب پہلا کمال حیران ہوا۔ منہ اس کا کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں اور پھر وہ بھی بندر بن گیا۔
اور الیاب ابن زبلون کو دیکھ کر ڈرا اور یوں بولا کہ اے زبلون کے بیٹے تجھے کیا ہوا ہے کہ تیرا چہرا بگڑ گیا ہے۔ ابن زبلون نے اس بات کا برا مانا اور غصے سے دانت کچکچانے لگا۔ تب الیاب مزید ڈرا اور چلا کر بولا کہ اے زبلون کے بیٹے! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، ضرور تجھے کچھ ہو گیا ہے۔ اس پر ابن زبلون کا منہ غصے سے لال ہو گیا اور دانت کھینچ کر الیاب پر جھپٹا۔ تب الیاب پر خوف سے لرزہ طاری ہوا اور ابن زبلون کا چہرہ غصے سے اور الیاب کا چہرہ خوف سے بگڑتا چلا گیا۔ ابن زبلون غصے سے آپے سے باہر ہوا اور الیاب خوف سے اپنے آپ میں سکڑتا چلا گیا اور وہ دونوں کہ ایک مجسم غصہ اور ایک خوف کی پوت تھے آپس میں گتھ گئے۔ ان کے چہرے بگڑتے چلے گئے۔ پھر ان کے اعضا بگڑے۔ پھر ان کی آوازیں بگڑیں کہ الفاظ آپس میں مدغم ہوتے چلے گئے اور غیر ملفوظ آوازیں بن گئے۔ پھر وہ غیر ملفوظ آوازیں وحشیانہ چیخ بن گئیں اور پھر وہ بندر بن گئے۔
الیاسف نے کہ ان سب میں عقل مند تھا اور سب سے آخر تک آدمی بنا رہا۔ تشویش سے کہا کہ اے لوگو! ضرور ہمیں کچھ ہو گیا ہے۔ آؤ ہم اس شخص سے رجوع کریں جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا ہے۔ پھر الیاس لوگوں کو ہمراہ لے کر اس شخص کے گھر گیا۔ اور حلقہ زن ہو کے دیر تک پکارا کیا۔ تب وہ وہاں سے مایوس پھرا اور بڑی آواز سے بولا کہ اے لوگو! وہ شخص جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا کرتا تھا آج ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اور اگر سوچو تو اس میں ہمارے لئے خرابی ہے۔ لوگوں نے یہ سنا اور دہل گئے۔ ایک بڑے خوف نے انہیں آ لیا۔
دہشت سے صورتیں ان کی چپٹی ہونے لگیں۔ اور خد و خال مسخ ہو تے چلے گئے۔ اور الیاسف نے گھوم کر دیکھا اور بندروں کے سوا کسی کونہ پایا۔ جاننا چاہئے کہ وہ بستی ایک بستی تھی۔ سمندر کے کنارے۔اونچے برجوں اور بڑے دروازوں والی حویلیوں کی بستی، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ کٹورا بجتا تھا۔ پر دم کے دم میں بازار ویران اور اونچی ڈیوڑھیاں سونی ہو گئیں۔ اور اونچے برجوں میں عالی شان چھتوں پر بندر ہی بندر نظر آنے لگے اور الیاسف نے ہر اس سے چاروں سمت نظر دوڑائی اور سوچا کہ میں اکیلا آدمی ہوں اور اس خیال سے وہ ایسا ڈرا کہ اس کا خون جمنے لگا۔ مگر اسے الیاب یاد آیا کہ خوف سے کس طرح اس کی صورت بگڑتی چلی گئی اور وہ بندر بن گیا۔ تب الیاسف نے اپنے خوف پر غلبہ پا یا اور عزم باندھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور آدمی ہی کی جون میں مروں گا اور اس نے ایک احساسِ برتری کے ساتھ اپنے مسخ صورت ہم جنسوں کو دیکھا اور کہا۔ تحقیق میں ان میں سے نہیں ہوں کہ وہ بندر ہیں اور میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں سے نفرت کی۔ اس نے ان کی لال بھبوکا صورتوں اور بالوں سے ڈھکے ہوئے جسموں کو دیکھا اور نفرت سے چہرہ اس کا بگڑنے لگا مگر اسے اچانک زبان کا خیال آیا کہ نفرت کی شدت سے صورت اس کی مسخ ہو گئی تھی۔ اس نے کہا کہ الیاسف نفرت مت کر کہ نفرت سے آدمی کی کایا بدل جاتی ہے اور الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا۔
الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا اور کہا کہ بے شک میں انہی میں سے تھا اور اس نے وہ دن یاد کئے جب وہ ان میں سے تھا اور دل اس کا محبت کے جوش سے منڈنے لگا۔ اسے بنت الاخضر کی یاد آئی کہ فرعون کے رتھ کی دودھیا گھوڑیوں میں سے ایک گھوڑی کی مانند تھی۔ اور اس کے بڑے گھر کے در سرو کے اور کڑیاں صنوبر کی تھیں۔ اس یاد کے ساتھ الیاسف کو بیتے دن یاد آ گئے کہ وہ سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے مکان میں عقب سے گیا تھا اور چھپر کھٹ کے لئے اسے ٹٹولا جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور اس نے دیکھا لمبے بال اس کی رات کی بوندوں سے بھیگے ہوئے ہیں اور چھاتیاں ہرن کے بچوں کے موافق تڑپتی ہیں۔ اور پیٹ اس کا گندم کی ڈیوڑھی کی مانند ہے اور پاس اس کے صندل کا گول پیالہ ہے اور الیاسف نے بنت الاخضر کو یاد کیا اور ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیر اور صندل کے گول پیالے کے تصور میں سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے گھر تک گیا۔ ساس نے خالی مکان کو دیکھا اور چھپر کھٹ پر اسے ٹٹولا۔ جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور پکارا کہ اے بنت الاخضر! تو کہاں ہے اور اے وہ کہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ دیکھ موسم کا بھاری مہینہ گزر گیا اور پھولوں کی کیاریاں ہری بھری ہو گئیں اور قمریاں اونچی شاخوں پر پھڑپھڑاتی ہیں۔ تو کہاں ہے؟ اے اخضر کی بیٹی! اے اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر آرام کرنے والی تجھے دشت میں دوڑتی ہوئی ہرنیوں اور چٹانوں کی دراڑوں میں چھپے ہوئے کبوتروں کی قسم تو نیچے اتر آ۔ اور مجھ سے آن مل کہ تیرے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ الیاسف بار بار پکارتا کہ اس کا جی بھر آیا اور بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا۔
الیاسف بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا مگر اچانک الیعذر کی جورو یاد آئی جو الیعذر کو بندر کی جون میں دیکھ کر روئی تھی۔ حالانکہ اس کی ہڑکی بند ھ گئی اور بہتے آنسوؤں میں اس کے جمیل نقوش بگڑتے چلے گئے۔ اور ہڑکی کی آواز وحشی ہوتی چلی گئییہاں تک کہ اس کی جون بدل گئی۔ تب الیاسف نے خیال کیا۔ بنت الاخضر جن میں سے تھی ان میں مل گئی۔ اور بے شک جو جن میں سے ہے وہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا کہ اے الیاسف ان سے محبت مت کر مبادا تو ان میں سے ہو جائے اور الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا اور الیاسف نے ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کو فراموش کر دیا۔
الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور اپنے ہم جنسوں کی لال بھبوکا صورتوں اور کھڑ ی دم دیکھ کر ہنسا اور الیاسف کو الیعذر کی جورو یاد آئی کہ وہ اس قریے کی حسین عورتوں میں سے تھی۔ وہ تاڑ کے درخت کی مثال تھی اور چھاتیاں اس کی انگور کے خوشوں کی مانند تھیں۔ اور الیعذر نے اس سے کہا تھا کہ جان لے کہ میں انگور کے خوشے توڑوں گا اور انگور کے خوشوں والی تڑپ کر ساحل کی طرف نکل گئی۔
الیعذر اس کے پیچھے پیچھے گیا اور پھل توڑا اور تاڑ کے درخت کو اپنے گھر لے آیا اور اب وہ ایک اونچے کنگرے پر الیعذر کی جوئیں بن بن کر کھاتی تھی۔ الیعذر جھری جھری لے کر کھڑا ہو جاتا اور وہ دم کھڑی کر کے اپنے لجلجے پنجوں پر اٹھ بیٹھی۔ اس کے ہنسنے کی آواز اتنی اونچی ہوتی کہ اسے ساری بستی گونجتی معلوم ہوئی اور وہ اپنے اتنی زور سے ہنسنے پر حیران ہوا مگر اچانک اسے اس شخص کا خیال آیا جو ہنستے ہنستے بندر بن گیا تھا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا۔ اے الیاسف تو ان پر مت ہنس مبادا تو ہنسی کی ایسا بن جائے اور الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔
الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔ الیاسف محبت اور نفرت سے غصہ اور ہمدردی سے رونے اور ہنسنے سے ہر کیفیت سے گزر گیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا۔ ان کا درختوں پر اچکنا، دانت پیس پیس کر کلکاریاں کرنا، کچے کچے پھلوں پر لڑنا اور ایک دوسرے کو لہو لہان کر دینا۔ یہ سب کچھ اسے آگے کبھی ہم جنسوں پر رلاتا تھا، کبھی ہنساتا تھا۔ کبھی غصہ دلاتا کہ وہ ان پر دانت پیسنے لگا اور انہیں حقارت سے دیکھتا اور یوں ہوا کہ انہیں لڑتے دیکھ کر اس نے غصہ کیا اور بڑی آواز سے جھڑکا۔ پھر خود اپنی آواز پر حیران ہوا۔ اور کسی کسی بندر نے اسے بے تعلقی سے دیکھا اور پھر لڑائی میں جٹ گیا۔ اور الیاسف کے تئیں لفظوں کی قدر کی جاتی رہی۔ کہ وہ اس کے اور اس کے ہم جنسوں کے درمیان رشتہ نہیں رہے تھے اور اس کا اس نے افسوس کیا۔ الیاسف نے افسوس کیا اپنے ہم جنسوں پر، اپنے آپ پر اور لفظ پر۔ افسوس ہے ان پر بوجہ اس کے وہ اس لفظ سے محروم ہو گئے۔ افسوس ہے مجھ پر بوجہ اس کے لفظ میرے ہاتھوں میں خالی برتن کی مثال بن کر رہ گیا۔ اور سوچو تو آج بڑے افسوس کا دن ہے۔ آج لفظ مر گیا۔ اور الیاسف نے لفظ کی موت کا نوحہ کیا اور خاموش ہو گیا۔
الیاسف خاموش ہو گیا اور محبت اور نفرت سے، غصے اور ہمدردی سے، ہنسنے اور رونے سے در گزرا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے کنارہ کیا اور اپنی ذات کے اندر پناہ لی۔ الیاسف اپنی ذات کے اندر پناہ گیر جزیرے کے مانند بن گیا۔ سب سے بے تعلق، گہرے پانیوں کے درمیان خشکی کا ننھا سا نشان اور جزیرے نے کہا میں گہرے پانیوں کے درمیان زمین کا نشان بلند رکھو ں گا۔
الیاسف اپنے تئیں آدمیت کا جزیرہ جانتا تھا۔ گہرے پانیوں کے خلاف مدافعت کرنے لگا۔ اس نے اپنے گرد پشتہ بنا لیا کہ محبت اور نفرت، غصہ اور ہمدردی، غم اور خوشی اس پر یلغار نہ کریں کہ جذبے کی کوئی رو اسے بہا کر نہ لے جائے اور الیاسف اپنے جذبات سے خوف کرنے لگا۔ پھر جب وہ پشتہ تیار کر چکا تو اسے یوں لگا کہ اس کے سینے کے اندر پتھری پڑ گئی ہے۔ اس نے فکر مند ہو کر کہا کہ اے معبود میں اندر سے بدل رہا ہوں تب اس نے اپنے باہر پر نظر کی اور اسے گمان ہونے لگا کہ وہ پتھری پھیل کر باہر آ رہی ہے کہ اس کے اعضاء خشک، اس کی جلد بد رنگ اور اس کا لہو بے رس ہوتا جا رہا ہے۔ پھر اس نے مزید اپنے آپ پر غور کیا اور اسے مزید وسوسوں نے گھیرا۔ اسے لگا کہ اس کا بدن بالوں سے ڈھکتا جا رہا ہے۔ اور بال بد رنگ اور سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ تب اسے اپنے بدن سے خوف آیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ خوف سے وہ اپنے اندر سمٹنے لگا۔ اسے یوں معلوم ہوا کہ اس کی ٹانگیں اور بازو مختصر اور سر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے تب اسے مزید خوف ہوا اور اعضاء اس کے خوف سے مزید سکڑنے لگے اور اس نے سوچا کہ کیا میں بالکل معدوم ہو جاؤں گا۔
اور الیاسف نے الیاب کو یاد کیا کہ خوف سے اپنے اندر سمٹ کر وہ بندر بن گیا تھا۔ تب اس نے کہا کہ میں اندر کے خوف پر اسی طور غلبہ پاؤں گا جس طور میں نے باہر کے خوف پر غلبہ پایا تھا اور الیاسف نے اندر کے خوف پر غلبہ پا لیا۔ اور اس کے سمٹتے ہوئے اعضاء دوبارہ کھلنے اور پھیلنے لگے۔ اس کے اعضاء ڈھیلے پڑ گئے۔ اور اس کی انگلیاں لمبی اور بال بڑے اور کھڑے ہونے لگے۔ اور اس کی ہتھیلیاں اور تلوے چپٹے اور لجلجے ہو گئے اور اس کے جوڑ کھلنے لگے اور الیاسف کو گمان ہوا کہ اس کے سارے اعضاء بکھر جائیں گے تب اس نے عزم کر کے اپنے دانتوں کو بھینچا اور مٹھیاں کس کر باندھا اور اپنے آپ کو اکٹھا کرنے لگا۔
الیاسف نے اپنے بد ہیئت اعضاء کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا کہ اس کے اعضاء کی صورت بدلتی جا رہی ہے۔
اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے آپ سے پوچھا کہ میں میں نہیں رہا۔ اس خیال سے دل اس کا ڈھہنے لگا۔ اس نے بہت ڈرتے ڈرتے ایک آنکھ کھولی اور چپکے سے اپنے اعضاء پر نظر کی۔ اسے ڈھارس ہوئی کہ اس کے اعضاء تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ اس نے دلیری سے آنکھیں کھولیں اور اطمینان سے اپنے بدن کو دیکھا اور کہا کہ بے شک میں اپنی جون میں ہوں مگر اس کے بعد آپ ہی آپ اسے پھر وسوسہ ہوا کہ جیسے اس کے اعضاء بگڑتے جا رہے ہیں اور اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
الیاسف نے آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اس کا دھیان اندر کی طرف گیا اور اس نے جانا کہ وہ کسی اندھیرے کنویں میں دھنستا جا رہا ہے اور الیاسف کنویں میں دھنستے ہوئے ہم جنسوں کی پرانی صورتوں نے اس کا تعاقب کیا۔ اور گزری راتیں محاصرہ کرنے لگیں۔ الیاسف کو سبت کے دن ہم جنسوں کا مچھلیوں کا شکار کرنا یاد آیا کہ ان کے ہاتھوں مچھلیوں سے بھر ا سمندر مچھلیوں سے خالی ہونے لگا۔ اور اس کی ہوس بڑھتی گئی اور انہوں نے سبت کے دن بھی مچھلیوں کا شکار شروع کر دیا۔ تب اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کرتا تھا کہا کہ رب کی سو گند جس نے سمندر کو گہرے پانیوں والا بنایا اور گہرے پانیوں کی مچھلیوں کا مامن ٹھہرایا سمندر تمہارے دستِ ہوس سے پناہ مانگتا ہے اور سبت کے دن مچھلیوں پر ظلم کرنے سے باز رہو کہ مباد ا تم اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے قرار پاؤ۔ الیاسف نے کہا کہ معبود کی سوگند میں سبت کے دن مچھلیوں کا شکار نہیں کرو ں گا اور الیاسف عقل کا پتلا تھا۔ سمندر سے فاصلے پر ایک گڑھا کھودا اور نالی کھود کر اسے سمندر سے ملا دیا اور سبت کے دن مچھلیاں سطحِ آب پر آئیں تو تیرتی ہوئی نالی کی راہ گڑھے پر نکل گئیں۔ اور سبت کے دوسرے دن الیاسف نے اس گڑھے سے بہت سی مچھلیاں پکڑیں۔ وہ شخص جو سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر بولا کہ تحقیق جس نے اللہ سے مکر کیا اللہ اس سے مکر کرے گا۔ اور بے شک اللہ زیادہ بڑا مکر کرنے والا ہے اور الیاسف یہ یاد کر کے پچھتایا اور وسوسہ کیا کہ کیا وہ مکر میں گھر گیا ہے۔ اس گھڑی اسے اپنی پوری ہستی ایک مکر نظر آئی۔ تب وہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑایا کہ پیدا کرنے والے نے تو مجھے ایسا پیدا کیا جیسے پیدا کرنے کا حق ہے۔ تو نے مجھے بہترین کینڈے پر خلق کیا۔ اور اپنی مثال پر بنایا۔ پس اے پیدا کرنے والے تو اب مجھ سے مکر کرے گا اور مجھے ذلیل بندر کے اسلوب پر ڈھالے گا اور الیاسف اپنے حال پر رویا۔ اس کے بنائے پشت میں دراڑ پڑ گئی تھی اور سمندر کا پانی جزیرے میں آ رہا تھا۔
الیاسف اپنے حال پر رویا اور بندروں سے بھری بستی سے منہ موڑ کر جنگل کی سمت نکل گیا کہ اب اس بستی اسے جنگل سے زیادہ وحشت بھری نظر آتی تھی۔ اور دیواروں اور چھتوں والا گھر اس کے لئے لفظ کی طرح معنی کھو بیٹھا تھا۔ رات اس نے درخت کی ٹہنیوں پر چھپ کر بسر کی۔
جب صبح کو وہ جاگا تو اس کا سارا بدن دکھتا تھا اور ریڑھ کی ہڈی درد کرتی تھی۔ اس نے اپنے بگڑے اعضاء پر نظر کی کہ اس وقت کچھ زیادہ بگڑے بگڑے نظر آ رہے تھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا کیا میں میں ہی ہوں اور اس آن اسے خیال آیا کہ کاش بستی میں کوئی ایک انسان ہوتا کہ اسے بتا سکتا کہ وہ کس جون میں ہے اور یہ خیال آنے پر اس نے اپنے تئیں سوال کیا کہ کیا آدمی بنے رہنے کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ آدمیوں کے درمیان ہو۔ پھر اس نے خود ہی جواب دیا کہ بیشک آدم اپنے تئیں ادھورا ہے کہ آدمی آدمی کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اور جو جن میں سے ہے ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اور جب اس نے یہ سوچا تو روح اس کی اندوہ سے بھر گئی اور وہ پکارا کہ اسے بنت الاخضر تو کہا ں ہے کہ تجھ بن میں ادھورا ہوں۔ اس آن الیاسف کو ہرن کے تڑپتے ہوئے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کی یاد بے طرح آئی۔
جزیرے میں سمندر کا پانی امنڈا چلا آ رہا تھا اور الیاسف نے درد سے صدا کی۔ کہ اے بنت الاخضر اے وہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ تجھے میں اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر اور بڑے درختوں کی گھنی شاخوں میں اور بلند برجیوں میں ڈھونڈوں گا۔ تجھے سرپٹ دوڑی دودھیا گھوڑیوں کی قسم ہے۔ قسم ہے کبوتروں کی جب وہ بلندیوں پر پرواز کرے۔ قسم ہے تجھے رات کی جب وہ بھیگ جائے۔ قسم ہے تجھے رات کے اندھیرے کی جب وہ بدن میں اترنے لگے۔ قسم ہے تجھے اندھیرے اور نیند کی۔ اور پلکوں کی جب وہ نیند سے بوجھل ہو جائیں۔ تو مجھے آن مل کہ تیرے لئے میراجی چاہتا ہے اور جب اس نے یہ صدا کی تو بہت سے لفظ آپس میں گڈ مڈ ہو گئے جیسے زنجیر الجھ گئی ہو۔ جیسے لفظ مٹ رہے ہوں۔ جیسے اس کی آواز بدلتی جا رہی ہو اور الیاسف نے اپنی بدلتی ہوئی آواز پر غور کیا اور زبلون اور الیاب کو یاد کیا کہ کیوں کر ان کی آوازیں بگڑتی چلی گئی تھیں۔ الیاسف اپنی بدلتی ہوئی آواز کا تصور کر کے ڈرا اور سوچا کہ اے معبود کیا میں بدل گیا ہوں اور اس وقت اسے یہ نرالا خیال سوجھا کہ اے کاش کوئی ایسی چیز ہوتی کہ اس کے ذریعے وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا۔ مگر یہ خیال اسے بہت انہونا نظر آیا۔ اور اس نے درد سے کہا کہ اے معبود میں کیسے جانوں کہ میں نہیں بد لاہوں۔
 ----------------------------------------------------------------------------------------------



غزل









جمعرات، 14 دسمبر، 2017

Altaf مشاعرہ بر یاد مرحوم الفت کشتواڑی

0 تبصرے


  

اتوار، 3 دسمبر، 2017

مرحوم۔۔۔

0 تبصرے
قرار  داد بر وفات غلام نبی حسرت ؔ کشتواڑی

تصاویر بر خانہ مرحوم حسرتؔ کشتواڑی





جمعرات، 21 ستمبر، 2017

الفت کشتواڑی

1 تبصرے

آج اُلفت صاحب ہم میں نہیں ہیں۔طویل علالت کے بعد امروز ۲۷ ؍ نومبر بروز بدھ سال ۲۰۱۷ ؁ء بوقتِ تقریباً سَوا گیارہ بجے دِن کے اِس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ( اِنَّا للَّہ وَاِنَّااِلیہ رَاَجعُون) مرحوم کی علمی،ادبی ،روحانی وَ سماجی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔اُلفتؔ صاحب ہم میں نہیں ہیں لیکن اُن کی یاد ہمارے دِلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں۔اُنکے درجات بُلند کرے۔اُن کے پسماندگان ،متعلقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔آمین





سرخی شامل کریں
سرخی شامل کریں

 رَٹیتھ اُوش دامنس کیتھ بُلبلن ہُند گُل چھُ لَلہِ ناوُن
قدم سُوت ترأو اے بادِ صبا مُختک ڈَلن مشکل
 الفت ؔ کشمیری اب ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ان کی شرین شخصیت اورزندگی کی رعنائیوں سے معمور شعر وکلام ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔ درجہ بالا شعر اس نازک خیال شاعر کا ہے جس نے زعفران زاروں کی پُر مہک فضائوں، چناب کی پُر مست لہروں، علماء، حکماء، شعراء ، ولیوں اور ریشیوں کی وادی ٔ کشتواڑ میں خواجہ منور جو بٹ کے گھر ۲۲ پُوہ ۱۹۷۳بکرمی کو جنم لیا۔ غلام محمد بٹ صاحب کے اسم گرامی سے موسوم ہیں ، الفتؔ کشتواڑی نصف صدی کے نام سے اپنی شاعری کے مضراب سے احساس کی نازک تاروں کو چھیڑتے آئے ہیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ فریدیہ ہائی سکول کشتواڑ( جو اُن دنوںمڈل سکول تھا) سے حاصل کی۔ ابھی چھٹی جماعت میں ہی زیر تعلیم تھے کہ حالات کا ایک گراں پتھر ان کے اُوپر گر پڑا جس کا وزن لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ہی گیا۔ ان کے خاندان میں یکے بعد دیگرے چار پانچ بزرگ اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ خانگی پریشانیوں میں اضافہ ہوا تو غلام محمد بٹ صاحب اپنے والد محترم سے درزی کا کام سیکھنے لگے۔ ان کے والد اُس دور میں کشتواڑ کے مانے ہوئے درزی تھے۔ حساس طبیعت پانے کی وجہ سے فکر و نظر کی قندیلیں روشن ہونے لگیں۔ اسی فکر و احساس کے نور نے غلام محمد بٹ صاحب کو اُلفتؔ کشتواڑی بنا دیا۔ الفتؔصاحب کے قلم نے سب سے پہلے چند اردو افسانے لکھے، اس کے بعد شاعری کی طرف طبیعت مائل ہوئی اور پہلا شعر اُن کی زبان سے یوں نکلا   ؎
ہوا اشکوں سے دامن اپنا تر ہے
یہ خونِ دل بھی ہے خونِ جگر ہے
یہ پہلی غزل سات اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد فکر و احساس کی شمعیں مزید فروازاں ہونے لگیں۔ ان غزلوں میں رومانیت اور روائیت کا رنگ نمایاں ہے۔ ہجر و وصال کے قصے ہیں، دوسری غزل کا یہ شعر دیکھیں   ؎
بے اثر نالے میرے اُن کی نظر کے سامنے
حالِ دل اپنا سنانا بے مہر کے سامنے
 سال ۱۹۳۵ ء میں کشتواڑ میں ’’ بزمِ ادب‘‘ کی بنیاد مرحوم عشرتؔ کاشمیری صاحب نے ڈالی۔ اس بزم کے سیکریٹری عشرت کاشمیری صاحب تھے اور صدر مرحوم غلام حیدر گگڑو قیصرؔ صاحب نائب صدر مرحوم کشمیری لال روپؔ صاحب اور مرحوم نشاط ؔ کشتواڑی صاحب جوائنٹ سیکریٹری کے عہدوں پر فائز تھے۔ بزمِ ادب کی محفلیں اکثر اسلامیہ سکول میں ہوا کرتی تھیں۔ اِن محفلوں میں اکثر کسی اُستاد کی غزل سے طرحی مصرعہ دیا جاتا اور شعراء سے کہا جاتا کہ اِس طرح پر طبع آزمائی کریں۔ عشرت کاشمیری صاحب نے ایک طرح مصرعہ دیا جو کہ مرحوم رساجاودانیؔ صاحب کی ایک غزل کا مصرعہ تھا۔’’ کیا نام سکندر رکھنے سے جب بخت سکندر ہو نہ سکا‘‘۔ اِس پر الفتؔ صاحب نے یوں شعر کہے۔
اے اشک چھلک کر آنکھوں سے بہہ کر تو سمندر ہو نہ سکا
تو نوکِ پلک پر آکر بھی اے کاش کہ گوہر ہو نہ سکا
اِن چارہ گروں سے کہہ دے کوئی گرداب سے کشتی دور نہیں
جو موجِ حوادث سے نکلوں میں ایسا شناور ہو نہ سکا
اسی بزم میں ایک اور طرح پر کہے گئے یہ شعر دیکھٔے۔ طرح مصرعہ یوں تھا:’’ کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے‘‘
الفتؔ  صاحب   ؎ 
بے نقاب آج کوئی ماہِ لقا ہوتا ہے
بزمِ جاناں میں کوئی فتنہ بپا ہوتا ہے
اپنے دل کو ہی نہ کیوں سجدہ کروں میں زاہد
جب کہ خود دل میں خدا جلوہ نما ہوتا ہے
چونکہ کشتواڑ میں اردو کے علاوہ کشمیر ی زبان و ادب تہذیب و ثقافت کا گہرا رنگ ہے، عوام کی زبان بھی کشمیری ہے۔ الفتؔ صاحب نے بھی کشمیری زبان میں لکھ کر اپنی مادری زبان کی خدمت کا حق ادا کیا۔ کشمیری زبان کی شاعری میں رُسل میر، عبد الاحد آزاد، مہجورؔ اور اُن کے ساتھ رسا جاودانی ؔ کی شاعری کافی متاثر ہیں۔ اُن دنوں کشمیر سے مہجورؔ کی آواز کشتواڑ کے زعفران زاروں میں بھی گونجنے لگی تھی۔ ادھر رسا جاودانی کی کشمیر ی شاعری نے لوگوں کے دلوں کو جیت لیا تھا۔ الفتؔ صاحب نے جب پہلی غزل کشمیر زبان میں کہی تو وہ چند ہی دنوں میں قصبۂ کشتواڑ کی حدود فلانگتی ہوئی تمام ضلع میں پھیل گئی۔ اُسی غزل کے یہ شعر آپ بھی سن لیجئے:
چھُو کوتاہ کروٹھ آسن یار سندیا رس ژلُن مشکل
یتھِس دیدس بجز دیدارِ دلبر چھُم بلُن مشکل
سَنا کَئم لو ینم تیزِ نظر زخمی جگر کُورنم
تڑب ائے طائرِ دل چون چھم سنبلن مشکل
دوسری غزل کا یہ شعر دیکھئے
میہ گویز کال تس پرارن بُومورس بے وفا یارن
ستم گُر نم ستمگا رن بُو مورس بے وفا یارن
جب مندر جہ بالا غزل کے گلوکاروں نے اپنی مخصوص دُھن چلنت پر گائی تو لوگوں میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ غزل کے بول عوام میں زبان زدِ عام ہو گئے۔ بچے بچے کی زبان پر یہی بول تھے۔’ بُو مورس بے وفا یارن‘اِ س کے بعد غزلوں اور نظموں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ اُلفتؔ صاحب کے کلام کا زیادہ تر حصہ کشمیری زبان میں ہے جس میں غزل ، نظم، قطعہ اور مرثیہ شامل ہے۔ اِن کے کلام میں سادگی، روانی اور آمد پائی جاتی ہے۔ اِن کے کلام پر فارسی زبان کا اثر ہے لیکن فارسی کے الفاظ اِس طرح استعمال کئے گئے ہیں کہ وہ کشمیری زبان کے لفظ معلوم ہوتے ہیں۔ اُنھوں نے رومانی، صوفیانہ اور سماجی موضوعات پر انتہائی کامیابی کے ساتھ شعر کہے ہیں۔اِن کا کلام چند چھوٹی بحروں کے علاوہ زیادہ تر طویل بحروں میں ہے۔ گیارہ سے زیادہ شعروں پر مشتمل اِن کی غزلیں ہیں۔ 
اُلفتؔ صاحب کی شادی ایک سلیقہ شعار خاتون ساجہ بیگم سے ہوئی تھی۔ یہ ایک کامیاب شادی رہی۔ ساجہ بیگم کے بطن سے دو لڑکے تولد ہوئے۔ ایک صاحبزادہ ڈاکٹر غلام رسول اور دوسرا ڈی ایس پی غلام قادر صاحب ہیں۔ ساجہ بیگم کچھ عرصہ کے بعد بیمار ہو گئی اور بالآخر یہ بیماری اُس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ رفیقۂ حیات کی جدائی میں اُلفتؔ صاحب حزن و یاس کی ایک کیفیت میں مبتلا ہوئے۔ زمانے کے تندیاںا ور موسموں کے تغیرات اِس میں موجزن بے پناہ حسرت و یاس کے جذبات کا احساس ہوتا ہے۔ اُلفتؔ صاحب کے کلام کے مطالعہ سے آتشِ رفتہ کا سراغ بھی ملتا ہے۔ ماضی کے خوش رنگ لمحات کی تصویریں بھی نظر آتی ہیں۔ ماضی قریب کے درد و کسک کی چنگاریوں کی جلن کا احساس بھی ہوتا ہے۔ حال میں جھلسا دینے والے شعلوں کی لپک بھی محسوس ہوتی ہے۔ بے شمار آرزئوں اور تمنائوں کے جنازوں کا بوجھ اُس کے ناتواں کندھوں پر رکھا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اِن کے کلام میں خوش گوار یادوں کے حسین صنم خانے بھی آباد ہیں اور حسرت و یاس کی قبریں بھی۔ رفیقۂ حیات کی جدائی نے ان کی زندگی کے تمام رنگ اِن سے چھین لیے تھے۔ وہ کہتے ہیں    ؎
سنگ راون چھُو اکثر رنگ راون
رنگہِ رنگہِ ما دل گوم چور مدنو
اُلفتؔ صاحب کے زہر غم زندگی کو دیکھ کر احباب اور دوستوں نے اُنھیں دوسری شادی کرنے پر مجبور کیا۔ بالآخر احباب و دوست بہت جدوجہد کے بعد اُلفتؔ صاحب کو نکاحِ ثانی کرنے پر راضی کر سکے۔ دوسری شادی شریکِ سفر کے بطن سے تین لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہوئیں۔ اُلفتؔ صاحب سے کشتواڑ اور خطۂ چناب کے بہت سارے نامور شاعر وقتاً فوقتاً اپنا کلام لے کر اصلاح لیتے رہے۔ انھوں نے لکھنے والوں کی خلوصِ دل سے حوصلہ افزائی کی۔اُلفتؔ صاحب نے بہت سے گم نام لکھنے والوں کا حوصلہ بڑھا کر اور اُن کے کلام کی اصلاح کرکے اُنھیں ادب کے میدان میں لا کھڑا کیا۔ یہ اُلفتؔصاحب کا بہت بڑا کارنامہ ہے ۔
آج اُلفت صاحب ہم  میں نہیں ہیں۔طویل علالت کے بعد ۲۷ ؍ نومبر بروز بدھ سال ۲۰۱۷ء بوقت تقریباً سوا گیارہ بجے دن کے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ (  اِنَّا للَّہ  وَاِنَّااِلیہ رَاَجعُون)۔ مرحوم کی علمی،ادبی ،روحانی وَ سماجی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔اُلفتؔ صاحب ہم میں نہیں ہیں لیکن اُن کی یاد ہمارے دِلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں۔اُن کے درجات بُلند کرے۔اُن کے پسماندگان ،متعلقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔آمین
اُلفتؔ صاحب کور دربارِفریدیہ ؒ کے ساتھ والہانہ عقیدت تھی۔ صبح شام دربار حاضری دینا اُن کا معمول تھا ۔ان کی شخصیت کو کشمیری تہذیب و تمدن کی خصوصیات اور ذہن و مزاج کی گوناگوں خوبیوں کے دلکش امتزاج نے بڑا مؤثر اور پُر کشش بنا دیا ہے۔ بقولِ عوام الناس، ’’ وہ کشتواڑ کے غنی ؔ کشمیری ہیں، اِن کی شخصیت اچھے شعر کی طرح ہر دفعہ حسن و لطافت کا ایک نیا تاثر مرتب کرتی ہے اور ایک بلند معیاری دلکش غزل کی طرح نئی نئی کیفیات سے روشناس کراتی اور اثر انگیز ی کا جادو جگاتی ہے۔ اس طرح اُلفتؔ صاحب کی کتاب زندگی کا ہر ورق کسی قابلِ قدر شعری مجموعہ کی طرح نئے نئے احساسات، نئے نئے تجربات ،نئی نئی کفیات سے مزین اور نئے نئے پیچ و خم سے لبریز ہے۔ اِن کا بچپن پریشانیوں اور مصیبتوں میں گزرا۔ جوانی ، عشق و محبت کی سرمستیوں کے ساتھ غمِ دوراں کی تلخیوں میں گزاری اور بڑھاپے میں طبیعت پر تصوف کا رنگ غالب آگیا۔ چونکہ مجاز کی دہلیز عبور کر کے حقیقت کی جستجو ہر انسان میں ہوتی ہے۔ سو اُلفتؔ صاحب نے یہاں بھی پہل کر دی ہے۔ وہ زمانے کی نرم گرم لہروں پر گامزن رہے۔ وہ کہتے ہیں   ؎؎   چھُو کھ بہتھ کولہِ بٹھِس پیٹھ گندن سکہِ فلن، چانی کین لعو مختُو گوہر گو یہوئی
اَژ تہِ صدرس اندر ، چیر صد فس جگر ، نہ تہِ کنارن نظر کیا ذلالت چھِ نا
وطنِ عزیز سے محبت اِن کے کلام میں جا بجا نظر آتی ہے۔ ایٹمی جنگ کے خطرات سے آگاہی ، غریبوں ، فاقہ کشوں اور مزدوروں کی ترجمانی، عریانی، ہوس پرستی اور بے حیائی کو دیکھ کر اِن کا قلم چیخ اُٹھتا ہے    ؎
ٹھاٹھ ماراں سمندرو چھم ہو سکئی، عشق  وچھمس بٹھیس پیٹھ مہِ ماتم کرآں
حسن عریاں و چھم غرتچ نائو پیٹھ، موج حیچ پریشاں قباحت چھنا
اُلفتؔ صاحب کی شہرت اِ ن کی غزلوں نظموں کے علاوہ مناقب سے بھی بہت ہوئی۔ انھوں نے سرورِ کونین آنحضرت ﷺ کی خدمت میںنذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے بہت ہی مقبول نعتِ پاک لکھے ہیں، جن کو عوامی طور پر بہت شہرت مل چکی ہے۔ کئی مقامات پر شہدائے کربلا ؓسے متعلق بھی والہانہ عقیدت کے اشارے ملتے ہیں۔ شاہ فرید الدین بغدادی ؒ سے والہانہ عقیدت کے طور پر منقبت قابل ذکر ہیں، جس کو ہر وقت دربارِ فریدیہؒ اور دربارِ اسراریہؒ میں عقیدت اور نیاز مندی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ اُلفتؔ صاحب کا کلام اکثر و بیشتر مختلف رسائل و جرائد میں شایع ہوتا رہتا ہے۔ خطۂ چناب خاص کر ضلع کشتواڑ کے مشاعروں کے روحِ رواں اُلفتؔ صاحب ہی ہوا کرتے تھے مگر اُلفت صاحب کے کلام کو کتابی صورت دی گئی ہے جو ’’ کلیاتِ الفتؔ‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آچکا ہے۔ 
اُلفتؔ صاحب کی ادبی خدمات کے لیے ’’ انجمن ِخدام ادب راجوری ‘‘ نے ۱۹۹۵ء میں انجمن کی طرف سے اعزاز سے نوازا ہے۔ سال ۱۹۹۷ء میں انجمن ترقی ادب کشتواڑ نے اُلفتؔ صاحب کی ادبی خدمت کے لیے ادبی اعزاز سے نوا ز ا۔ جموں و کشمیر کلچرل اکیڈیمی نے مورخہ ۷۲؍ اپریل سال ۲۰۱۳ء میں ادبی اعزاز سے سرفراز کیا۔رسا جاودانی میموریل لٹریری سوسائٹی جموں و کشمیر نے بھی اسناد سے نوازا۔انجمن ویلفیرسوسائٹی ڈوڈہ نے اُن کی خدامات کو سراہتے ہوئے عزاز سے نوازا ہے۔

تحریر۔۔۔الطاف ؔ کشتواڑی



How Make Free Cline & How To Add In Ur Receiver Complete

0 تبصرے















اردو ہے جس کا نام.
سُخن ورانِ کشتواڑ ..!

سُخن ورانِ کشتواڑ۔مرحومین ..!

سُخن ورانِ کشتواڑ۔مرحومین ..!

سُخن ورانِ کشتواڑ۔مرحومین ..!


اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

اُردو کے اُفق ..!

..!

..!

.........................................!