مضمون۔۔۔از ۔۔۔توصیف حسین آہینگر
ن آزری کا خُم خانہ
توصیف حسین آہنگر
![]() |
توصیف |
ہالی ووڈ۔۔۔
ن آزری کا خُم خانہ
توصیف حسین آہنگر
بالی ووڈ بھارت کی اردو- ہندی
فلمی صنعت کو کہا جاتا ہے جو مہاراشٹرا کے بلاد العروس کہلانے والے ممبئی میں واقع
ہے۔ لفظ بالی ووڈ امریکی شہر ہالی ووڈ کے نام کا چربہ ہے جو امریکی فلمی صنعت کا
مرکز ہے۔ بالی ووڈ میں فلمیں بنانے کا آرٹ ہندوستان کا اپنا نہیں ہے۔۶۹۸۱ءمیں فرانس کے دو سگے بھائیوں Auguste Lumiere اور
Louis Lumiere نے اس آرٹ کو ہندوستان میں متعارف کرایا۔
اسی دوران ہندوستان کے ہریش چندر سکھرام بھاٹا وادیکر نے ۹۹۸۱ءمیں ایک مقامی ” کشتی مقابلہ“ (Wrestling Match) کے مناظر کو فلما کر "The Wrestler" کے نام سے ایک فلم بنائی۔یہ ایک خاموش فلم(Silent Film) تھی جس میںاشاروں کی مدد سے (Mime Gesture) اور عنوان کارڈ(Tittle Card)کا
استعمال کر کے فلمی مناظر پیش کئے گئے۔ ۳۱۹۱ءمیںانڈین
سنیما کے موجد تصور کئے جانے والے دادا صاحب پھالکے نے ” راجا ہریش چندر“ کے نام
سے ایک فلم بنالی جسے بالی ووڈ کی پہلی فلم تصور کیا جاتا ہے۔۱۳۹۱ءمیں ایک اور فلم ”عالم آرا“ کے نام سے منظر ِ عام
پر آئی۔اس فلم کے پروڈیوسر آردیشر ایرانی تھے۔ اس فلم میں پہلی بار آوازکا استعمال
کیا گیا۔ اسی لیے اسے پہلی متکلم فلم(Sound Film ) مانا جاتا ہے۔
ہندوستان میں فلمی صنعت کے معرضِ
وجود میں آنے کے بعد شروع میں مذہبی موضوعات پر فلمیں بنیں جن کا تعلق رامائن اور
مہابھارت سے ہوتا تھا۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل مذہبی اور سماجی موضوعات پر ہی
فلمیں بننے لگیں۔ جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا گیا فلموں میں نئے موضوعات شامل ہوتے
گئے۔ رفتہ رفتہ فلموں میں عشق و محبت کی داستان ، خاندانی موضوعات،ایکشن اورطنزو
مزاح
(Comedy) جیسے موضوعات شامل ہوتے گئے۔ یہ سلسلہ بیسویں
صدی کے آخر تک جاری رہا۔ اس دوران نئے اداکار اور اداکارائیں سامنے آئے جنھوں نے
اداکارانہ ہنردکھانے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے میں کوئی کسر باقی نہیںچھوڑی۔ان
میں اداکاراﺅں کی ایک طویل فہرست شامل ہے۔ شروع
میں عورتوں کا فلموں میں کام کرنا انتہائی معیوب سمجھاتا تھا۔ اسی وجہ سے اُس وقت سٹیج
اور فلموں میں مرد ہی عورتوں کا رول بھی ادا کرتے تھے لیکن رفتہ رفتہ عورت نے فلمی
صنعت میں اپنے قدم جمانا شروع کئے۔اورجوں ہی عورت بالی ووڈ میں اپنے” فن اور
ہنر“کا مظاہرہ کرنے لگی تو وہ فوراً شائقین کی توجہ کا مرکزبن گئی۔ فلموں کارحجان (Trend)بدلتا گیا اور اس طرح سے فحاشیت اور عریانیت کے لیے بالی ووڈ
فلموں میں دروازہ کھل گیا۔ ہیروئین کو کم اور ہیجان انگیز لباس میں دکھا یا جانے
لگا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ عورت کے بغیر فلم کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور فلم
کی کہانی کتنی ہی دلچسپ کیوں نہ ہواگر اُس میں عریانی مناظر کو شامل نہ کیا جائے
تو فلم کو ناکمل سمجھی جاتی ہے۔ بالی ووڈ میں اب زیادہ تر فلمی ایکٹریس ایک” سیکس
سمبل“ کے طور پر کام کرتی ہیں۔
۵۱مئی۵۱۰۲ءکو بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر ایک خبر شائع
ہوئی کہ بھارت کی چھ نوجوان اداکارائیں فلموں میں مکمل طوربرہنہ ہونے کے لیے تیار
ہیں۔ ایسے غیر فطری اور غیر اخلاقی فیصلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بالی ووڈ فحاشیت
پھیلانے کی ایک تجارتی منڈی بن چکی ہے جس میں نوجوان اداکار اور اداکارائیں نت نئے
طریقوں سے اپنے جسم کی نمائش کر کے پیسہ بٹور رہے ہیں۔ جو اداکارہ جتنے کم لباس
میں اپنے جسم کو پردے پر پیش کرے گی، اُسے اُتنی ہی دولت اور شہرت حاصل ہو گی۔ یہ
بالی ووڈ میں سستی شہرت اور پیسے کمانے کا ایک Short Cut ہے۔ اس
دوڑ میں مرد اداکار بھی کسی سے کم نہیںہیں۔ سلمان خان، جان ابراہیم ، اکشے کمار
اور دوسرے کئی اداکار بھی فلموں میں اپنی Shirt اُتارنے کے لیے مشہور ہیں۔ عامر خان نے تو ان تمام نیم عریاں
اداکاروں کو پیچھے چھو ڑ دیا۔ حال ہی میں فلم PKکے ایک منظر میں وہ مکمل طور برہنہ نظر آئے۔ فحاشیت اور عریانیت سے بھرپور
فلمیں بنانے والی موجودہ دور کی فلم ساز ایکتا کپور کہتی ہے کہ”جہاں تک فلموں میں
عریانیت کا سوال ہے، ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آ رہے ہیں کہ فلموں میں عورتوں کو عیش
پسندی اور تلذذ کی چیز کی طرح پیش نہ کریں۔ ہیروئن کو کم کپڑوں میں نہ دکھائیں۔ جو
لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں میں اُن سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ جب جان ابراہیم اپنے کپڑے
اُتارتے ہیں تو کوئی اعتراض کیوں نہیں کرتا۔“ بالی ووڈ کے کچھ ہدایت کار وں کا
کہنا ہے کہ وہ اپنی فلموں میں وہی سب کچھ دکھاتے ہیں جو ناظرین دیکھنا چاہتے
ہیں۔ہندوستان کی اس عریاں ساز فلمی صنعت سے معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے ۔ کیونکہ
مشہور مقولہ ہے ”Cinema is the mirror image of a Society “۔
اقوام متحدہ نے حال ہی میں اپنی
ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ فحاشی کے ذریعے اپنی فلموں کی تشہیر میں بھارتی فلم
انڈسٹری کودنیاکی تمام فلم انڈسٹریوں کے مقابلہ میں اول مقام حاصل ہے۔ رپورٹ کے
مطابق بالی ووڈ میں فلموں کی تشہیر کے لیے خواتین کو بے باک انداز میں پیش کرنے کا
رحجان دنیا کی تمام فلم انڈسٹریز میں سب سے زیادہ ہے۔ گذشتہ مہینہ مودی سرکار نے
جب ہندوستان میں فحش ویب سائیٹس پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا(بعد میں بعض مخصوص
مزاج کے لوگوں کے شدید ردِ عمل کی وجہ سے یہ فیصلہ واپس لیا گیا)تو بالی ووڈ کے
کئی اداکاروں اور اداکاراﺅں نے اس فیصلہ کے متعلق اپنے شدید
غم و غصہ کا اظہار کیا۔ اداکارہ سونم کپور نے ٹویٹر پر اس فیصلہ کے ردِ عمل میں
اظہار خیال کرتے ہوئے مودی گورنمنٹ کو بے وقوف قرار دیا۔
انسانی زندگی کو تین ادوار میں
تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ ان تینوں ادوار میں جوانی کا دور
سب سے اہم دور سمجھا جاتا ہے۔ اسی دور میں جوانوں میں نشاط و چُستی اور طاقت و قوت
کا ایک لاوا پک رہا ہوتا ہے۔ اس دور میں انسان کو ایک ایک قدم پھونک کر رکھنے کی
اشد ضرورت ہوتی ہے۔یہی وہ دور ہے جس میں انسان کو اپنی آنے والی زندگی کا رُخ
متعیّن کرنا ہوتا ہے۔ اگر صحبتِ صالح میسر آ جائے تو اس کا رُخ خیر و بھلائی کی
طرف ہو جاتا ہے اور اگر اس اہم ترین دور میںانسان شیطان اور جذباتی ہیجان کے دھوکے
میں آکر اپنی جوانی اور جوانی کی طاقت کا غلط استعمال شروع کر دے تو اس کا رخ شر و
فساد اور رذیل کاموں کی طرف ہو جاتا ہے اور اس طرح سے وہ اپنی زندگی کو تباہی کے
دھانے پر لا کھڑا کردیتا ہے۔ بد قسمتی سے فحاشیت اور عریانیت کے اس طوفان میں اُمت
مسلمہ کا نوجوان بھی بالی ووڈ کے اس شیطانی جال میں پھنسا ہوا ہے۔ہمارے نوجوانوں
کے کانوں میں جو بالے لگے ہیں، گلے میں چین اور ہاتھوں میں کڑے ہیں، یہ سب بالی
ووڈ کا عطا کردہ بے چہرہ کلچر ہے۔ بالی ووڈ آج موبائل ، انٹرنیٹ اور کیبل کے ذریعے
ہمارے گھروں میں آسانی سے داخل ہورہا ہے ۔اس کے زہریلے اور فاسد اثرات سے ہمارے
نوجوانوں کی سوچ، عادات اور اطوار یکسر بدل رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے ہمارے
نوجوان بالی ووڈ کے اس مکروہ فریب کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کر کے اسلامی تعلیمات
کی طرف رجوع کریں۔ البتہ اگر فلموں کو میڈیم کو صالح معاشرہ کی تعمیر اور تشکیل کے
لئے استعمال کیا جاتاق ہے تو اس سے بھلائیوں اور اچھائیوں کا انقلاب بھی آسکتا ہے
۔ فی الحال اس کی بالی وڈ سے امید نہیں کیونکہ یہ فن آزری کا شاہکار بنا ہو اہے
جہاں گلیمر ، شہوت وہوس رانی،ا نتقام گیری ، مار دھاڑ اور باہمی کدورت ونفرت کے
مکسچر سے جوان نسل کا ذہن بگاڑا جارہاہے۔ اس میں ہالی وڈ اور بالی وڈ دونوں ہم قدم
ہیں۔
۔۔۔کشتواڑ
خوبصورت مضمون قلم بند کیاہے
خوبصورت مضمون قلم بند کیاہے