Feature Slides
بلاگ کا کھوجی
آمدو رفت
بلاگر حلقہ احباب
کچھ میرے بارے میں




بدھ، 11 دسمبر، 2024
ہفتہ، 7 دسمبر، 2024
سحر سُراغ( اردو شاعری)
نہ میری رات کو مل پائے اب سحر کا سُراغ
وہ آج بانٹ رہے ہیں صدائے حق کے چراغ

مجھے شاعر ہونے کا دعویٰ ہرگز نہیں ہے اور نہ میں فن کے رموز کی مہارت رکھتا ہوں۔ ہاں البتہ اپنے خیالات ، جذبات اورا حساسات کو لفظوں کی مالا میں پروکر آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔یہی میرا ثاثہ ہے اور یہی سب کچھ میری رسیدی ٹکٹ کی پُشت پر لکھا ہے ۔میں اپنے خیالات ، جذبات اور احساسات کو آپ کو پہنچانے میں کس حد تک کامیاب ہو پایا ہوں، اِس کا فیصلہ آپ کریں گے۔
کتابی شکل میں دیکھیں
منگل، 21 ستمبر، 2021
تصاویر،اجرائ سحر سُراغ
احمد توصیف قدس (ابن الطافؔ)
الطاؔف کشتواڑی کی شعری خصوصیات
سماج افراد کا مجموعہ ہے۔یہ افراد یکساں نہیں ہوتے بلکہ اپنی صلاحیتوں، قابلیوں اور محنتوں میں یکتا اور منفرد ہوتے ہیں۔ سب کا اپنا اپنا رول ہے اور سماج کی ہئیتِ اجتماعی کے واسطے سب ضروری ہیں۔ لیکن ادیب کا رول سماج میںاس لیے زیادہ ہے کیونکہ وہ نباض اور فطرت شناس ہے۔ اُس میں سوچنے اور تجزیے کی وہ صلاحیت ہوتی ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ہوتی۔ ادیب بیک وقت مصلح بھی ہوتا ہے اور واعظ بھی، وہ نفسیات کے علم سے واقف ہوتا ہےا ور درد شناسی کے وصف سے بھی۔جس آنکھ سے ادیب چیزوں کو دیکھتا ہے، غیر ادیب نہیں دیکھ پاتا۔ادیب کا محمود و مطلوب صرف اظہارِ ذات نہیں ہوتا بلکہ اُس کی نظرسماج کی ہئیتِ اجتماعی پر ہوتی ہے۔ اُس کی سوچ اور فکر کا دائرہ بڑا ہوتا ہے۔ ادیب کا ایک خاص اسلوب ہوتا ہےجو دل نشین بھی ہوتا ہے ااور دماغ نشین بھی، یعنی وہ فرد کے دل اور دماغ دونوں کو ایڈریس کرتا ہے۔
ادیب کی تعریف میں جو سب باتیںعرض ہوئیں، اُن سب باتوں کی جھلک جناب الطافؔ کشتواڑی کی شاعری میں کہیں نہ کہیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ الطافؔ کشتواڑی کے ہاں سوچنے کا ایک خاص زاویہ ہے جو اُن کی پوری فکر اور سوچ کو متاثر کرتا ہے۔ اُن میں خیالات کی وہ پختگی ہے جو ایک موضوع پر بات کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ یہ خیالات کسی تقریر یا مضمون کے ذریعے سامنے نہیں آتے بلکہ اِنھیں ایجاز واختصار اور سجاوٹ کاایک حسین پیکر ملتا ہے جسے شاعری کہا جاتا ہے۔ وہی شاعری جسے الطافؔ کشتواڑی اپنی زیست کا ایک قیمتی سرمایہ سمجھتے ہیں۔
شاعری انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ رشید احمد صدیقی کے مطابق ’’شاعری دنیاوی مادری زبان ہے‘‘۔ ہر زمانے میں شاعری اور دیگر فنونِ لطیفہ کو سماج میں ایک مرکزی حیثیت رہی ہے۔یہ قوموں کی پہچان ہے اور اس نے سماج کے اقدار بدلے ہیں۔ہر شاعر نے کسی نہ کسی حیثیت سے سماج کی اجتماعیت کے واسطے کچھ نہ کچھ ضرور contributeکیا ہے جس سے شاعرکافن اہم اور قابلِ قدر بن جاتا ہے۔ الطافؔ کشتواڑی کا فن بھی اہم اور قابلِ قدر ہے۔آپ کی شاعری اظہارِ ذات سے سفر کرتے ہوئے اظہارِ کائنات پر ختم ہوتی ہےجس سے آپ کی شاعری کا کینویس وسیع ہو جاتا ہے۔
الطافؔ کشتواڑی جس بیک گرائونڈ سے آتے ہیں، اُس میں آپ اکلوتے شاعر ہیں۔آپ نے ناموافق حالات کے سبب اپنے فن کو مردہ ہونے سے بچایا ہے۔ وہ جہاں بھی گئے اور جس ماحول میں بھی رہے ہیں، اپنے اس فن کی آبیاری کے راستے تلاشے ہیں۔میری اس بات کی تصدیق الطافؔ کشتواڑی کے استاد جناب صابر مرزا صاحب کے ذیل کےاِن جملوں سے ہوتی ہے جو موصوف نے الطافؔ کشتواڑی کے پہلے مجموعے ’’ریزہ ریزہ آئینہ‘‘میں لکھے ہیں:
’’الطاف کشتواڑی کی بلند حوصلگی کی داد اس لیے بھی دی جا سکتی ہے کہ جس ماحول میں ان کے شب و روز گزرے ہیں وہ یکسر غیر ادبی ہی نہیں غیر سنجیدہ بھی ہیں۔ جہاں پھر بھی انھوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کے محل کو پژمردہ ہونے سے بچا رکھا ہے۔‘‘
ہر شاعر کا ایک انفراد ہوتا ہے۔میرؔ اور غالبؔ دونوں شاعری کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ لیکن دونوں کے نظامِ فکر اور شعر کہنے کے عمل میں فرق ہے۔شاعر کا یہ انفراد نہ صرف موضوعات میں بلکہ اُس کے تخیل ، اسلوب اور ذخیرۂ الفاظ میں نظر آتا ہے۔یہی چیز شاعر کو ایک جداگانہ حیثیت عطا کرتی ہے۔ذیل میں ہم الطافؔ کشتواڑی کےموضوعات، تخیل، الفاظ کے چنائو اور اسلوب نگارش کو اُن کی شاعری کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
وہ کیا گیا کہ زمان و مکان روٹھ گئے
تھا ایک شخص وہ سارے جہان میںشاید
تجھ کو آواز میں ڈھونڈا ہے مغنی بن کر
اک نئے سُر میں نئے راگ میں گایا ہے تجھے
جب وہ مرحوم ہوا پھرنہ ملےوہ مجھ کو
میں نے لکھے تھے ترے نام کے کتبے کتنے
یہ تین اشعار ہیں تین مختلف غزلوں کے۔ اشعار کی قرات اور پھر معنی تک رسائی سے ہمارے ذہن میں ایک شخص کا پیکر سامنے آتا ہے۔شاعر وقت وقت پر اِس کردار کو سامنے لاتا ہے۔ یہ شخص شاعر کا ایک تصوراتی خاکہ بھی ہو سکتا ہے اور کوئی انسانی وجود بھی۔لیکن صاف ظاہر ہے شاعر اِس کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی رکھتا ہے۔کبھی "تھا ایک شخص جہان میں وہ شاید" سے شاعر اِس کردار کو خاص بناتا ہے تو کبھی"مغنی بن کر" اُسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ایک دوسری جگہ پر شاعر اِس شخص سے بچھڑنے کا ماتم کرتا ہےاو ر اُس کی یاد کو یوں بیان کرتا ہے:
یاد کترن کی طرح دل سے گزرتی ہے کبھی
کاٹتی ہے مری دیوار وہ سیلن کی طرح
اِس کردار کےساتھ شاعرکا ایک پرانہ رشتہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ اُسے ایک بُت سے مشابہت دے رہا ہے جس کی وہ ایک عرصے سے عبادت کر رہا ہے۔ زمانے بیت گئے، لیکن وہ اُس کے دل کے کسی کونے میں اب بھی موجود ہے۔ اِس خیال کو شاعر نے یوں باندھا ہے:
ازل سے جس کے لیے ہر نظر طواف میں ہے
وہ بت ہنوز مرے دل کے اک شگاف میں ہے
زندگی کیا ہے ۔ اِس میں یہ پیچیدگیاں کیوں ہے؟ زندگی گزارنے کے طورطریقے اور خیالات و افکار میں فرق کیوں ہے؟ زندگی اگر بہار کا نام ہے تو پھراِس میں خزاں کا کیا کام؟ یہ اگرکوئی جائے
امتحان ہے تو امتحان میں شرحِ کامیابی کم کیوں ہے؟ یعنی باوجود محنت و مشقت کے انسان کو وہ سب کچھ کیوں حاصل نہیں ہوتا جس کا وہ مستحق ہے۔
ہر شاعر کے ہاں زندگی سے جڑی ان بنیادی باتوں کا کوئی نہ کوئی خاکہ ہوتا ہے۔ اُس کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کی اصل سے واقف ہے اور وہ زندگی کا ایک اجتماعی تصور رکھتا ہے۔ زندگی کے اِسی خاکے اور تصور کو شاعر اپنی شاعری میں بیان کرتا ہے۔ ذیل کے یہ تین اشعار دیکھیں:
کچھ جام روبرو ہیں مگر بے دلی کے ہیں
حالات گرد وپیش سبھی بے رُخی کے ہیں
کوئی اِس رن میں کب الطافؔہم سے جیت سکتا ہے
جو ہم نے جان کر کھائی ہیںوہ خاموش ماتیں ہیں
اُنھیں میرے حوادث سے بھلا الطاف ؔکیا لینا
یہ فہم و دل کی ساری جنگ، کیا تم کو سنانی اب
تینوں اشعار میں ایک شکایتانہ لہجہ عیاں ہے۔ شاعر کےمطابق اِس دنیا میں چین و سکون اور آرام و راحت کو کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو وہ ایک لمحاتی کیفیت کا نام ہے اور بس۔ زندگی انسان کو اکثر اوقات بے رُخی کی وہ شکل دکھاتی ہے کہ وہ ٹوٹ جاتا ہے ، یاس اور نااُمیدی میں غرق ہوتا ہے۔ زندگی حادثات کا نام ہے ۔ بے رُخی اِس کا شیوہ ہے۔
زندگی بے ثباتی کا بھی نام ہے۔یہاں کوئی چیز مستقل نہیں ہے اور اس دنیا میں ہمیشہ کے لیے کوئی نہیں رہے گا۔ کیا شاہ و گدا، کیا عالم اور جاہل، کیامنصف اور مدعی سب خاک ہو جائیں گے۔ یہ زندگی کا وہ فلسفہ ہے جس سے کسی کو فرار نہیں۔ ذیل کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں اور الطافؔ کشتواڑی کے ہاں زندگی کی بے ثباتی کا جو تصور ہے اُسے محسوس کریں:
سونے اور چاندی میں جو تُلتا ہی رہا
آخر وہ بھی اس دنیا میں خاک ہوا
کن اثاثوں پہ جنگ تھی الطافؔ
جاتے ہو تو ہیں مٹھیاں خالی
معنی آفرینی شاعری کا جوہر ہے۔غالبؔ کے مطابق یہ اصلِ شاعری ہے۔یہ شاعر کی ذہانت ناپنے کاایک بہترین آلہ ہے۔ شاعری میں معنی آفرینی کا التزام فی الاصل ایک نازک کام ہے۔ کیونکہ اِس میں شاعر چند الفاظ یا مصرعوں میں وہ بات کہہ دیتا ہے جسے کہنے کے لیے عموماً صفحات کے صفحات درکار ہوتے ہیں۔ذیل کے اشعار دیکھیں:
وہ آئینے گلی میں بیچتا تھا
جو اپنی شکل سے پچھتا رہا ہے
میں ہی رسی پر چلا ہوں دوستو
میری شہرت تو مرے کرتب سے ہے
جپتے ہیں ترا نام، ہے قربت نہ جدائی
تسبیح کا یہ دانہ بکھر کیوں نہیں جاتا
تینوں اشعار جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن تینوں اشعار میں معنی کی تہہ داری ہے۔
شعر اول:
وہ شخص جو خود اپنی شکل سے نامانوس ہے وہ لوگوں کو مانوسیت کا درس دے رہا ہے۔ یعنی وہ شخص وہ کام انجام دے رہا ہے جس کا وہ اہل ہے ہی نہیں۔ وہ گلی میں آئینے بیچتا ہےتاکہ لوگ آئینوں میں اپنی شکل دیکھ کر خود کا محاسبہ کریں اور زندگی کا درس لیں۔ جبکہ آئینہ بیچنے والا شخص آئینے کی حقیقت سےخوب واقف ہے۔ اُسے زندگی کا وہ راز معلوم ہے جو آئینہ خریدنے والے کو معلوم نہیں ہے۔معلوم ہوا آئینہ بیچنے والا شخص عیّار ہے۔ اُس کی عیّاری کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اوّل یا تو وہ مجبور ہے کہ اُسے بعض مادی چیزیں چاہیے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے۔ دوم وہ سچ میں عیّار ہے یعنی اُس کی نیت ہی لوگوں کو دھوکا دینے کی ہے۔
شعر دوم:
رسّی پر چلنا ایک کرتب ہے۔ یہ ایک دشوار گزار کام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نازک کام بھی ہے کہ رسی پر ذرا سا پیر پھسلا تو سارا معاملہ تل پٹ ہوجائے۔شعر میں رسی پر چلنے سے مراد وہ کام انجام دینا ہے جس کو کرنے سے سب کتراتے ہیں۔ شاعر کے مطابق وہ دشوار گزار اور نازک کام اُس نے خود انجام دیا ۔ لیکن بجائے Appreciationکے اُسے حقارت ملی، دُکھ اور رنج ملا۔ "شہرت" کو شاعر نے یہاں پر طنزیہ( satirical)انداز میں استعمال کیا ہے۔
شعر سوم:
عمل دو طریقوں کے ہیں۔شعوری اور غیر شعوری۔شعوری طورپر جو عمل انجام دیا جائے اُس میں انسان کی غرض شامل ہوتی ہے۔ یعنی اُس میں اُسے مفاد چاہیے، خوشی اور لطف چاہیے اور ایسے ہی دوسرے احساسات کی تسکین۔ لیکن غیر شعوری پر جو عمل انجام دیا جائے وہ بے غرض ہوتا ہے۔ اُس میں اگر غرض ہوتی بھی ہے تو عمل کرنے والا اُس سے بے خبر ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ غیر شعوری طور پر جو عمل انجام دیا جائے اُس میں روحانیت یا کسی غیبی طاقت کو دخل حاصل ہے۔مذکورہ شعر میںایک شخص کو شاعر بار بار یاد کر رہا ہے۔جبکہ اُس شخص کے ساتھ شاعر کا کوئی واسطہ ہے نہ رابطہ۔لیکن شاعر اُس کے نام کی تسبیح پڑھے جا رہا ہے۔رابطے کی محرومی کے سبب تسبیح کے دانے بکھر جانے چاہیے تھےیعنی اُس شخص کے نام کی تسبیح پڑھنے کا عمل رُک جانا چاہیے ۔ لیکن وہ اور زیادہ مضبوط ہو رہا ہے۔ کوئی غیبی یا روحانی طاقت ضرور ہے جو تسبیح کے دانوں کو بکھرنے نہیں دیتی۔
پتھر زمانے بھر کے یہاں سہہ رہا ہوں میں
اک سچ ہی ہے کہ جس کو ابھی کہہ رہا ہوں میں
یہ کون سا سچ ہے جس کے کہنے پر شاعر کو پتھر نصیب ہوئے ہیں۔ الطافؔ کشتواڑی کے اِس مجموعےکے مطالعے سے معلوم ہوتا ہےکہ اُن کی شاعری میں بعض کچھ ناصحانہ جھلکیں ہیں جس سے وہ اپنے ہم جلیسوں کو باخبر کرنا چاہتے ہیں۔وہ زندگی کی صداقتوں کو اپنے دوستوں پر آشکار کرنا چاہتے ہیں۔یہ صداقتیں کیا ہیں؟ یہ دراصل وہ آفاقی اصول ہیں جو کسی بھی انسانی سماج کا جوہر ہیں ۔غزل کے دو اشعار دیکھیں:
جوشِ دمِ طفلانِ مناسب میں ابھی ہو
ناپختہ بہت حسبِ مراتب میں ابھی ہو
ترتیب معین ہے ستاروں کی ازل سے
تم چرخ شناسی کے مطالب میں ابھی ہو
یہ باخبری بعض اوقات تنبیہ بن جاتی ہے جس میں شاعر کی تندی ظاہر ہوتی ہے۔شعر دیکھیں:
تیری انا کے دوڑتے گھوڑوں کا کیا کریں
آجائیں گے یہ خود ہی کبھی راہِ راست پر
باخبری اور تنبیہ کے باوجود شاعر کو بدلے میں دُکھ ملا ہے اور اُس کے اخلاص کو سخت چوٹ پہنچی ہے۔ شاعر کے مطابق دنیا میں مفاد پرستی کا غلغلہ ہے اور یہاں پر شرافت کو کوئی جگہ حاصل نہیں ہے۔ایک اورشعر دیکھیں:
کہاں الطافؔ تم اخلاص کی گھٹڑی اٹھائے ہو
شرافت کی تجارت کا تو کاروبار مندہ ہے
الطافؔ کشتواڑی جس بیک گرائونڈ سے آتے ہیں وہ مذہبی بیک گرائونڈ ہے۔شادی بیاہ کی خوشی ہو یا کسی اپنے کے بچھڑ جانے کا ماتم، رسم و رواج کی انجام دہی ہو یا اور اخلاق و عادات کے اصولوں کا تعین ہر جگہ مذہب کو ایک خاص دخل حاصل ہے۔یہاں مذہبی بیک گرائونڈ سے مُراد پروفیشنل مذہبی بیک گرائونڈ نہیں ہے۔ بلکہ اِس سے مُرادہماری وہ تہذبی زندگی ہے جس کے اصول و ضوابط مذہب سے اخذ کیے گئے ہیں اور جو ہماری کُل میراث ہے۔
الطافؔ کشتواڑی خود کو اپنی مذہبی تہذیب کے اثر سے دور نہیں رکھ پائے ہیں۔ذیل کے اشعار آپ کی مذہب پسندی کا بیّن ثبوت ہیں۔
حمدِ خدا:
اِدھر دیکھا اُدھر دیکھا یہاں دیکھا وہاں دیکھا
جہاں بھی جس طرف دیکھا تجھے سب میں نہاں دیکھا
حبِ نبیﷺ:
آسان یہاں تم پہ ہو یہ گردشِ دوراں
کرنی ہے محبت تو کرو میرے نبی سے
تکریمِ ولی(شاہ فرید الدین بغدادیؒ):
چناب بہتا رہا ہے جہاں سے آپؒ نے بھی
پلائی ایسے اخوت چھلک نہ پائے ایاغ
فلسطین کی خونریزی پر نوحہ:
ارض دنیا پہ جو افضل تھی کبھی اعلیٰ تھی
اب ہے وہ غرقِ خرافات عجب ہے واللہ
اُمتِ مسلمہ کی بدحالی پر اظہارِ افسوس:
ہیں کہیں پاک، کہیں عرب و ایران کہیں
برسرِ موجِ فسادات عجب ہے واللہ
اُمتِ مسلمہ سے شکایت:
تم تو افضل امتو میں تھے میاں
یہ ریاکاری تمہاری کب سے ہےشبِ قدر کی بابرکت رات کے موقعے پر:
ہمیں تو جاگنا ہے آج کی شب صبحِ کاذب تک
کھلیں گے رحمتوں کے سارے در اب صبحِ کاذب تک
بہ کثرت توبہ، استغفار، الغفار سجدے میں
مداوا لادوا کا ہوگا امشب صبحِ کاذب تک
الطافؔ کشتواڑی کی تہذیب کشمیر کی تہذیب ہے۔ کشمیر کی تہذیب یکتائے زمانہ ہے۔کشمیر کی زبان، آب و ہوا، رہن سہن، فیرن، وازوان، کانگڑی، سماوار، برف ، ٹین،جھیل ، آبشار، پہاڑ ،جنگل، کشتی، چپو سب چیزوں کی کوئی نہ کوئی جھلک الطافؔ کشتواڑی کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ذیل کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:
غنیمِ وقت کے حملے سے لوگوں کو بچانا ہے
میں آہنگر ہوں ان کے واسطے بکتر بناتا ہوں
آہنگر الطافؔ کشتواڑی کی ذات ہے جسے لوہاری بھی کہتے ہیں۔کشمیر میں لوہاری کا پیشہ ایک عرصہ سے رائج ہے ۔ لوہار نہ صرف گھر کی ضروری اشیاء بناتا ہے بلکہ وہ زمینداری کے آلات سے لے کر جنگوں کے ساز و سامان تک بنانے کی مہارت رکھتا ہے۔ درج بالا شعر اِسی بات کی عکاسی کرتا ہے۔
کچن میں اب ہے پرانے سے برتنوں کاہجوم
ہیں ساری صدیاں ہمارے مکان میں شاید
کشمیر کا کچن اپنی نوبہ نوع خاصیتوں کی وجہ سے مشہور ہے۔کچن میں ایک سادہ اور صاف فرش ہے جہاں پر بیٹھ کر کھانا کھایا جاتا ہے۔دیواروں پر لکڑی کے شیلف لگے ہیں جن پر لوہے اور تانبے کے برتن قرینے سے رکھے ہوئے ہیں۔ کونے پر ایک کانگڑی رکھی ہے اور شیلف کے ایک طرف ایک بڑا سماوار۔ کچن کی سامنے والی دیوار کے وسط میںایک چولہا بھی جل رہا ہے جو نہ صرف کھانا بنانے کے کام آتا ہے بلکہ اُس سے زندگی کی حرارت کا اصل احساس ہوتا ہے۔ یہی کشمیر کے کچن کی کہانی ہے اور اِسی کہانی کی ترجمانی الطافؔ کشتواڑی نے اپنی شاعری میں جا بجا کی ہے۔
یہاں تانی ہے چادر دیر سے چلۂ کلاں نے
بہت مدت سے یخ بستہ نیا کشمیر دیکھو
خوبصورتی کے علاوہ کشمیر کی سردی بھی لوگوں کے لیے توجہ کا مرکز رہی ہے۔ چلۂ کلاں 40 روز کی سخت سردیوں کا ایک خاص وقفہ ہے جوبہت مشہور ہے۔ 40 روز کے اِس عرصے میں سخت سردی پڑتی ہے جس سے معمولاتِ زندگی بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
ہماری روٹی، ہماری خوشبو، ہمارا زر تھی
وہ زعفراں کی زمیں کسی نے لتاڑ دی ہے
زعفراں کشمیر کی پہچان ہے۔ کشمیر کے ضلع پلوامہ اور ضلع کشتواڑمیں اِس کی کاشت ہوتی ہے۔زعفران ایک خاص قسم کا پھول ہے جو بہت قیمتی بھی ہے اور اِس کا استعمال بھی خاص ہے۔
کس سے کس کا رشتہ ٹوٹا، اندر باہر سب خاموش
زون ؔکا نغمہ، میرؔ کی جھانجر ، نوحہ گھر گھر سب خاموش
زونؔ سے مُراد کشمیری زبان کی شاعرہ حبہ خاتون ہے اور میرؔ سے مُراد رُسل میر ہے جو کشمیری زبان کے ایک رومان پرور شاعر تھے۔ دونوں شعراء اپنی کشمیری شاعری کی وجہ سےمعروف ہیں۔ الطافؔ کشتواڑی دونوں شعراء کے فن اور شاعری سے متاثر نظر آتے ہیں۔
غم، دُکھ ، درد ، تکلیف، اداسی، بے بسی، بے چینی ایسی حسیاتی کیفیات ہیں جو زندگی کے جزوِ لازم ہیں۔ الطافؔ کشتواڑی نے اِن سب کیفیات کو نہ صرف شدت سے محسوس کیا ہے بلکہ اپنے اشعار سے اِن کی بہترین عکاسی بھی کی ہے۔ وہ ا ِن کیفیات کے اظہار کے لیے ایک خاص شعری اسلوب رکھتے ہیں۔ ذیل کےا شعار دیکھیں:
غم اگر سینے میں ضم ہو تو غزل ہوتی ہے
یا کوئی تازہ الم ہو تو غزل ہوتی ہے
رات سنسان ہو، بوجھل ہو سبھی کی سانسیں
روح رنگوں میں بھسم ہو تو غزل ہوتی ہے
الطافؔ کو نہ جانے ہے یہ کیسی چپ لگی
اس کی غزل کا ہر کوئی مصرعہ اداس ہے
مٹکےاُداس ہیں یہاں گاگر اُداس ہیں
پانی کی بوند بوند کو بنجر اُداس ہیں
چپو ہے غم زدہ انہیں دیمک نے کھا لیا
روٹھی ہے برف ٹین کی چھپر اُداس ہے
یہ کوئل کیسا نغمہ گا رہی ہے
مرے دل کو بہت تڑپا رہی ہے
خلائوں میں پرندے چیختے ہیں
زمیں پر کوئی آفت آر ہی ہے
نہیں کھلتا کہ ہے اب ماجرا کیا
دریچوں سے صدا کچھ آرہی ہے
ان سب اشعار کے توسط سے الطاف ؔکشتواڑی فضا کو مکدر کر رہے ہیں۔سب اشعار میں’’اداسی ‘‘ کا جو پہلو در آیا ہے وہ انسانی سماج کی ایک مشترک حسیاتی کیفیت ہے۔اداسی کا بیان بعض اوقات اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ اداسی کی بھی اپنی جمالیات ہے۔ درد کو درد نہ کہا جائے تو وہ ناسور بن جاتا ہے۔
الطاف کشتواڑی کا اسلوب سادہ اور سہل ہے۔ وہ بڑی ترکیبوں اور اصطلاحات کا استعمال نہیں کرتے بلکہ عام اور آسان الفاظ میں اپنی بات کہہ دیتے ہیں۔ بعض الفاظ الطافؔ کشتواڑی باربار استعمال کرتے ہیں جو کہ ظاہر ہے اُن کے پسندیدہ الفاظ بھی ہیںا ور ان الفاظ سے اُن کی سوچ اور فکر کا دائرہ بھی متعین ہوتا ہے۔ مثلاًقلم، قرطاس، سحر، سراغ، رت جگا، پھاگن، کتبہ، اختر، بکتر، دھمال،اشجار،ابر،مٹکے،تشنہ لبی،پھول اور پتے،صحرا، شبِ غم،زخم، مرہم، نغمہ،گیت،تسبیح،گھنیری رات،رفوگر،ریت، مٹی،برف، شمع،کھیت، فصل،لوہار، بکتر، آہنگر،کواڑ، ریت، مٹھی،چائے،کرچیاں،جھیل،سنتور، رباب،کاغذ، کشتی، آندھی،کوئل،چنار،سحرگاہی ،رُت وغیرہ یہ سب الفاظ اِس مجموعے میں جگہ جگہ پر مستعمل ملےگیں۔
الطافؔ کشتواڑی نے چھوٹی،بڑی اور میانہ بحروں کے سب تجربات کئے ہیں جو کہ شاعر کی ذہانت کا عمدہ نمونہ ہے۔ چھوٹی بحروں والی غزلوں میں معنی کی نزاکت اور خوبصورتی نظر آتی ہے۔ بڑی بحروں والی غزلوں میں فکر اور فلسفہ ہے۔ میانہ بحروں والی غزلوں میں معنی کی نزاکت بھی ہے اور فکر و فلسفہ بھی۔تین بحروں کے نمونے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
چھوٹی بحر:
ہیں مناظر سے بستیاں خالی
لے رہی ہیں یہ ہچکیاں خالی
بڑی بحر:
تمام چہرے، اداس نسلوں کے، اپنی پشتوں کو دیکھتے ہیں
جو سب کی قسمت میں لکھ دیا ہے ، مٹا تھا شاید، مٹا نہیں ہو
میانہ بحر:
دیکھنے میں مرے اشعار اب کچھ بھی نہیں
ہیں فقط سوچوں کا انبار اب کچھ بھی نہیں
سحر سُراغ:
’’سحر سراغ‘‘ الطاف ؔکشتواڑی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ایک حمد،ایک نعت اورایک منقبت کے علاوہ اِس میں 200غزلیں شامل ہیں ۔کتاب کے آغاز میں "میری رسیدی ٹکٹ" کے عنوان سے الطافؔکشتواڑی کا پیش لفظ ہے جس میں آپ نے اپنی حیات، فن اور’’سحر سراغ‘‘پر مختصر لیکن اہم گفتگو کی ہے۔بزرگ شاعر اورساہتیہ اکادمی ایواڑد یافتہ ادیب جناب کرشن کمار طوراور اُستادِ محترم پروفیسر کوثر مظہری صاحب (شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) نے ’’سحر سراغ‘‘ پر تاثرات لکھے ہیں جو کہ کتاب میں شامل ہیں۔ کتاب کا نام کرشن کمار طور صاحب کا تجویز کردہ ہے۔آپ نے کتاب میں شامل پورے کلام کو پڑھا اور کتاب کا نام تجویز کیا۔یہ نام الطافؔ کشتواڑی کو نہ صرف پسند آیا بلکہ’’میںنے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرےدل میں ہے‘‘والی بات ہو گئی۔
’’سحر سراغ ‘‘مرکب لفظ ہے سحر اور سراغ کا۔ سحریعنی صبح کاوہ اولین وقت جو اُمیدوں اور اُمنگوں سےبھرا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ رات کی سیاہی کو ختم کرکے اُسے روشنی میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔رات کی سیاہی کو ختم کرنے کی جدوجہد میں ’’سحر‘‘ کووہ ’’ راز‘‘معلوم ہوتا ہے کہ جس راز کو جاننے کی ہم سب کو ضرورت ہے۔ الطافؔ کشتواڑی کے مطابق آپ نے جو کچھ لکھا ہے اِسی’’سحر سراغ‘‘ کو بیان کرنے کی کوشش میں لکھا ہے۔
اِس کتاب کی پیش کش میں ایک نیا تجربہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ ہر غزل کے ساتھ ایک تصویر شامل کی گئی ہے جو اُس غزل کے کسی خاص شعر کی عکاسی کرتی ہے۔تصویریں سب کی سب نئی ہیں یعنی یہ کہیں سے ماخوذ نہیں ہیں۔ اِنھیں Artificial Inteligence اور بعض اہم سافٹ ویرس اور ویب سائٹس کی مدد سے generateکیا گیا ہے۔تصویروں کی شمولیت کی غرض کتاب میں جدت لانا ہے۔ کیونکہ جدت کا مظاہرہ بھی فی الاصل ایک تخلیقی عمل ہے۔
کتاب کا ٹائٹل پیج صاحبِ کتاب یعنی الطافؔ کشتواڑی نے خود اپنی تخلیقی صلاحیت کا استعمال کرکے تیار کیا ہے۔کتاب عمر فرحت صاحب کے پبلی کیشن سینٹر" تفہیم پبلی کیشنز راجوری (جموں و کشمیر)" سے شائع ہو رہی ہے۔ کمپوزنگ نسیم اختر اور الطافؔ کشتواڑی نے کی ہے۔عمر فرحت صاحب، جو کہ خود ایک نوجوان شاعر ہیں، نے اِس کتاب کی ترتیب میں کئی اہم مشوروں سے نوازاجو کتاب شائع کرنے کے پورے عمل میں معاون اور ممد ثابت ہوئے ہیں۔
(ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)
( NET-JRF, JKSET, B-Ed)
Touseefqudus@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سحر سُراغ شعری مجموعہ کی رسمِ رونمائی
ریزہ ریزہ آئینہ کی رسمِ رونمائی 1990 جموں یونورسٹی
سحر سُراغ شعری مجموعہ کی رسمِ رونمائی
کرشن کمار طور صاحب احمد توصیف کو سارٹیفکٹ دیتے ہوئے
مرحوم عبدالرشید لون صاحب
پیر، 24 فروری، 2020
جمعہ، 5 جنوری، 2018
آخری آدمی—انتظار حسین
آخری آدمی—انتظار حسین
الیاسف اس قریے میں آخری آدمی تھا۔ اس نے عہد کیا تھا کہ معبود
کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور میں آدمی ہی کی جون میں مروں گا۔
اور اس نے آدمی کی جون میں رہنے کی آخر دم تک کوشش کی۔
اور اس قریے سے تین دن پہلے بندر غائب ہو گئے تھے۔ لوگ پہلے حیران ہوئے اور پھر خوشی منائی کہ بندر جو فصلیں برباد اور باغ خراب کرتے تھے نابود ہو گئے۔ پر اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا کرتا تھا یہ کہا کہ بندر تو تمہارے درمیان موجود ہیں مگر یہ کہ تم دیکھتے نہیں۔ لوگوں نے اس کا برا مانا اور کہا کہ کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے اور اس نے کہا کہ بے شک ٹھٹھا تم نے خدا سے کیا کہ اس نے سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا اور تم نے سبت کے دن مچھلیوں کا شکار کیا اور جان لو کہ وہ تم سے بڑا ٹھٹھا کرنے والا ہے۔
اس کے تیسرے دن یوں ہوا کہ الیعذر کی لونڈی گجر وم الیعذر کی خواب گاہ میں داخل ہوئی اور سہمی ہوئی الیعذر کی جورو کے پاس الٹے پاؤں آئی۔ پھر الیعذر کی جورو خواب گاہ تک گئی اور حیران و پریشان واپس آئی۔ پھر یہ خبر دور دور تک پھیل گئی اور دور دور سے لوگ الیعذر کے گھر آئے اور اس کی خواب گاہ تک جا کر ٹھٹھک ٹھٹھک گئے کہ الیعذر کی خواب گاہ میں الیعذر کی بجائے ایک بڑا بندر آرام کرتا تھا اور الیعذر نے پچھلے سبت کے دن سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑی تھیں۔
پھر یوں ہوا کہ ایک نے دوسرے کو خبر دی کہ اے عزیز الیعذر بندر بن گیا ہے۔ اس پر دوسرا زور سے ہنسا۔ “تو نے مجھ سے ٹھٹھا کیا۔” اور وہ ہنستا چلا گیا، حتٰی کہ منہ اس کا سرخ پڑ گیا اور دانت نکل آئے اور چہرے کے خد و خال کھینچتے چلے گئے اور وہ بندر بن گیا۔ تب پہلا کمال حیران ہوا۔ منہ اس کا کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں اور پھر وہ بھی بندر بن گیا۔
اور الیاب ابن زبلون کو دیکھ کر ڈرا اور یوں بولا کہ اے زبلون کے بیٹے تجھے کیا ہوا ہے کہ تیرا چہرا بگڑ گیا ہے۔ ابن زبلون نے اس بات کا برا مانا اور غصے سے دانت کچکچانے لگا۔ تب الیاب مزید ڈرا اور چلا کر بولا کہ اے زبلون کے بیٹے! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، ضرور تجھے کچھ ہو گیا ہے۔ اس پر ابن زبلون کا منہ غصے سے لال ہو گیا اور دانت کھینچ کر الیاب پر جھپٹا۔ تب الیاب پر خوف سے لرزہ طاری ہوا اور ابن زبلون کا چہرہ غصے سے اور الیاب کا چہرہ خوف سے بگڑتا چلا گیا۔ ابن زبلون غصے سے آپے سے باہر ہوا اور الیاب خوف سے اپنے آپ میں سکڑتا چلا گیا اور وہ دونوں کہ ایک مجسم غصہ اور ایک خوف کی پوت تھے آپس میں گتھ گئے۔ ان کے چہرے بگڑتے چلے گئے۔ پھر ان کے اعضا بگڑے۔ پھر ان کی آوازیں بگڑیں کہ الفاظ آپس میں مدغم ہوتے چلے گئے اور غیر ملفوظ آوازیں بن گئے۔ پھر وہ غیر ملفوظ آوازیں وحشیانہ چیخ بن گئیں اور پھر وہ بندر بن گئے۔
الیاسف نے کہ ان سب میں عقل مند تھا اور سب سے آخر تک آدمی بنا رہا۔ تشویش سے کہا کہ اے لوگو! ضرور ہمیں کچھ ہو گیا ہے۔ آؤ ہم اس شخص سے رجوع کریں جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا ہے۔ پھر الیاس لوگوں کو ہمراہ لے کر اس شخص کے گھر گیا۔ اور حلقہ زن ہو کے دیر تک پکارا کیا۔ تب وہ وہاں سے مایوس پھرا اور بڑی آواز سے بولا کہ اے لوگو! وہ شخص جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا کرتا تھا آج ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اور اگر سوچو تو اس میں ہمارے لئے خرابی ہے۔ لوگوں نے یہ سنا اور دہل گئے۔ ایک بڑے خوف نے انہیں آ لیا۔
دہشت سے صورتیں ان کی چپٹی ہونے لگیں۔ اور خد و خال مسخ ہو تے چلے گئے۔ اور الیاسف نے گھوم کر دیکھا اور بندروں کے سوا کسی کونہ پایا۔ جاننا چاہئے کہ وہ بستی ایک بستی تھی۔ سمندر کے کنارے۔اونچے برجوں اور بڑے دروازوں والی حویلیوں کی بستی، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ کٹورا بجتا تھا۔ پر دم کے دم میں بازار ویران اور اونچی ڈیوڑھیاں سونی ہو گئیں۔ اور اونچے برجوں میں عالی شان چھتوں پر بندر ہی بندر نظر آنے لگے اور الیاسف نے ہر اس سے چاروں سمت نظر دوڑائی اور سوچا کہ میں اکیلا آدمی ہوں اور اس خیال سے وہ ایسا ڈرا کہ اس کا خون جمنے لگا۔ مگر اسے الیاب یاد آیا کہ خوف سے کس طرح اس کی صورت بگڑتی چلی گئی اور وہ بندر بن گیا۔ تب الیاسف نے اپنے خوف پر غلبہ پا یا اور عزم باندھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور آدمی ہی کی جون میں مروں گا اور اس نے ایک احساسِ برتری کے ساتھ اپنے مسخ صورت ہم جنسوں کو دیکھا اور کہا۔ تحقیق میں ان میں سے نہیں ہوں کہ وہ بندر ہیں اور میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں سے نفرت کی۔ اس نے ان کی لال بھبوکا صورتوں اور بالوں سے ڈھکے ہوئے جسموں کو دیکھا اور نفرت سے چہرہ اس کا بگڑنے لگا مگر اسے اچانک زبان کا خیال آیا کہ نفرت کی شدت سے صورت اس کی مسخ ہو گئی تھی۔ اس نے کہا کہ الیاسف نفرت مت کر کہ نفرت سے آدمی کی کایا بدل جاتی ہے اور الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا۔
الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا اور کہا کہ بے شک میں انہی میں سے تھا اور اس نے وہ دن یاد کئے جب وہ ان میں سے تھا اور دل اس کا محبت کے جوش سے منڈنے لگا۔ اسے بنت الاخضر کی یاد آئی کہ فرعون کے رتھ کی دودھیا گھوڑیوں میں سے ایک گھوڑی کی مانند تھی۔ اور اس کے بڑے گھر کے در سرو کے اور کڑیاں صنوبر کی تھیں۔ اس یاد کے ساتھ الیاسف کو بیتے دن یاد آ گئے کہ وہ سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے مکان میں عقب سے گیا تھا اور چھپر کھٹ کے لئے اسے ٹٹولا جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور اس نے دیکھا لمبے بال اس کی رات کی بوندوں سے بھیگے ہوئے ہیں اور چھاتیاں ہرن کے بچوں کے موافق تڑپتی ہیں۔ اور پیٹ اس کا گندم کی ڈیوڑھی کی مانند ہے اور پاس اس کے صندل کا گول پیالہ ہے اور الیاسف نے بنت الاخضر کو یاد کیا اور ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیر اور صندل کے گول پیالے کے تصور میں سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے گھر تک گیا۔ ساس نے خالی مکان کو دیکھا اور چھپر کھٹ پر اسے ٹٹولا۔ جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور پکارا کہ اے بنت الاخضر! تو کہاں ہے اور اے وہ کہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ دیکھ موسم کا بھاری مہینہ گزر گیا اور پھولوں کی کیاریاں ہری بھری ہو گئیں اور قمریاں اونچی شاخوں پر پھڑپھڑاتی ہیں۔ تو کہاں ہے؟ اے اخضر کی بیٹی! اے اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر آرام کرنے والی تجھے دشت میں دوڑتی ہوئی ہرنیوں اور چٹانوں کی دراڑوں میں چھپے ہوئے کبوتروں کی قسم تو نیچے اتر آ۔ اور مجھ سے آن مل کہ تیرے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ الیاسف بار بار پکارتا کہ اس کا جی بھر آیا اور بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا۔
الیاسف بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا مگر اچانک الیعذر کی جورو یاد آئی جو الیعذر کو بندر کی جون میں دیکھ کر روئی تھی۔ حالانکہ اس کی ہڑکی بند ھ گئی اور بہتے آنسوؤں میں اس کے جمیل نقوش بگڑتے چلے گئے۔ اور ہڑکی کی آواز وحشی ہوتی چلی گئییہاں تک کہ اس کی جون بدل گئی۔ تب الیاسف نے خیال کیا۔ بنت الاخضر جن میں سے تھی ان میں مل گئی۔ اور بے شک جو جن میں سے ہے وہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا کہ اے الیاسف ان سے محبت مت کر مبادا تو ان میں سے ہو جائے اور الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا اور الیاسف نے ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کو فراموش کر دیا۔
الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور اپنے ہم جنسوں کی لال بھبوکا صورتوں اور کھڑ ی دم دیکھ کر ہنسا اور الیاسف کو الیعذر کی جورو یاد آئی کہ وہ اس قریے کی حسین عورتوں میں سے تھی۔ وہ تاڑ کے درخت کی مثال تھی اور چھاتیاں اس کی انگور کے خوشوں کی مانند تھیں۔ اور الیعذر نے اس سے کہا تھا کہ جان لے کہ میں انگور کے خوشے توڑوں گا اور انگور کے خوشوں والی تڑپ کر ساحل کی طرف نکل گئی۔
الیعذر اس کے پیچھے پیچھے گیا اور پھل توڑا اور تاڑ کے درخت کو اپنے گھر لے آیا اور اب وہ ایک اونچے کنگرے پر الیعذر کی جوئیں بن بن کر کھاتی تھی۔ الیعذر جھری جھری لے کر کھڑا ہو جاتا اور وہ دم کھڑی کر کے اپنے لجلجے پنجوں پر اٹھ بیٹھی۔ اس کے ہنسنے کی آواز اتنی اونچی ہوتی کہ اسے ساری بستی گونجتی معلوم ہوئی اور وہ اپنے اتنی زور سے ہنسنے پر حیران ہوا مگر اچانک اسے اس شخص کا خیال آیا جو ہنستے ہنستے بندر بن گیا تھا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا۔ اے الیاسف تو ان پر مت ہنس مبادا تو ہنسی کی ایسا بن جائے اور الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔
الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔ الیاسف محبت اور نفرت سے غصہ اور ہمدردی سے رونے اور ہنسنے سے ہر کیفیت سے گزر گیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا۔ ان کا درختوں پر اچکنا، دانت پیس پیس کر کلکاریاں کرنا، کچے کچے پھلوں پر لڑنا اور ایک دوسرے کو لہو لہان کر دینا۔ یہ سب کچھ اسے آگے کبھی ہم جنسوں پر رلاتا تھا، کبھی ہنساتا تھا۔ کبھی غصہ دلاتا کہ وہ ان پر دانت پیسنے لگا اور انہیں حقارت سے دیکھتا اور یوں ہوا کہ انہیں لڑتے دیکھ کر اس نے غصہ کیا اور بڑی آواز سے جھڑکا۔ پھر خود اپنی آواز پر حیران ہوا۔ اور کسی کسی بندر نے اسے بے تعلقی سے دیکھا اور پھر لڑائی میں جٹ گیا۔ اور الیاسف کے تئیں لفظوں کی قدر کی جاتی رہی۔ کہ وہ اس کے اور اس کے ہم جنسوں کے درمیان رشتہ نہیں رہے تھے اور اس کا اس نے افسوس کیا۔ الیاسف نے افسوس کیا اپنے ہم جنسوں پر، اپنے آپ پر اور لفظ پر۔ افسوس ہے ان پر بوجہ اس کے وہ اس لفظ سے محروم ہو گئے۔ افسوس ہے مجھ پر بوجہ اس کے لفظ میرے ہاتھوں میں خالی برتن کی مثال بن کر رہ گیا۔ اور سوچو تو آج بڑے افسوس کا دن ہے۔ آج لفظ مر گیا۔ اور الیاسف نے لفظ کی موت کا نوحہ کیا اور خاموش ہو گیا۔
الیاسف خاموش ہو گیا اور محبت اور نفرت سے، غصے اور ہمدردی سے، ہنسنے اور رونے سے در گزرا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے کنارہ کیا اور اپنی ذات کے اندر پناہ لی۔ الیاسف اپنی ذات کے اندر پناہ گیر جزیرے کے مانند بن گیا۔ سب سے بے تعلق، گہرے پانیوں کے درمیان خشکی کا ننھا سا نشان اور جزیرے نے کہا میں گہرے پانیوں کے درمیان زمین کا نشان بلند رکھو ں گا۔
الیاسف اپنے تئیں آدمیت کا جزیرہ جانتا تھا۔ گہرے پانیوں کے خلاف مدافعت کرنے لگا۔ اس نے اپنے گرد پشتہ بنا لیا کہ محبت اور نفرت، غصہ اور ہمدردی، غم اور خوشی اس پر یلغار نہ کریں کہ جذبے کی کوئی رو اسے بہا کر نہ لے جائے اور الیاسف اپنے جذبات سے خوف کرنے لگا۔ پھر جب وہ پشتہ تیار کر چکا تو اسے یوں لگا کہ اس کے سینے کے اندر پتھری پڑ گئی ہے۔ اس نے فکر مند ہو کر کہا کہ اے معبود میں اندر سے بدل رہا ہوں تب اس نے اپنے باہر پر نظر کی اور اسے گمان ہونے لگا کہ وہ پتھری پھیل کر باہر آ رہی ہے کہ اس کے اعضاء خشک، اس کی جلد بد رنگ اور اس کا لہو بے رس ہوتا جا رہا ہے۔ پھر اس نے مزید اپنے آپ پر غور کیا اور اسے مزید وسوسوں نے گھیرا۔ اسے لگا کہ اس کا بدن بالوں سے ڈھکتا جا رہا ہے۔ اور بال بد رنگ اور سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ تب اسے اپنے بدن سے خوف آیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ خوف سے وہ اپنے اندر سمٹنے لگا۔ اسے یوں معلوم ہوا کہ اس کی ٹانگیں اور بازو مختصر اور سر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے تب اسے مزید خوف ہوا اور اعضاء اس کے خوف سے مزید سکڑنے لگے اور اس نے سوچا کہ کیا میں بالکل معدوم ہو جاؤں گا۔
اور الیاسف نے الیاب کو یاد کیا کہ خوف سے اپنے اندر سمٹ کر وہ بندر بن گیا تھا۔ تب اس نے کہا کہ میں اندر کے خوف پر اسی طور غلبہ پاؤں گا جس طور میں نے باہر کے خوف پر غلبہ پایا تھا اور الیاسف نے اندر کے خوف پر غلبہ پا لیا۔ اور اس کے سمٹتے ہوئے اعضاء دوبارہ کھلنے اور پھیلنے لگے۔ اس کے اعضاء ڈھیلے پڑ گئے۔ اور اس کی انگلیاں لمبی اور بال بڑے اور کھڑے ہونے لگے۔ اور اس کی ہتھیلیاں اور تلوے چپٹے اور لجلجے ہو گئے اور اس کے جوڑ کھلنے لگے اور الیاسف کو گمان ہوا کہ اس کے سارے اعضاء بکھر جائیں گے تب اس نے عزم کر کے اپنے دانتوں کو بھینچا اور مٹھیاں کس کر باندھا اور اپنے آپ کو اکٹھا کرنے لگا۔
الیاسف نے اپنے بد ہیئت اعضاء کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا کہ اس کے اعضاء کی صورت بدلتی جا رہی ہے۔
اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے آپ سے پوچھا کہ میں میں نہیں رہا۔ اس خیال سے دل اس کا ڈھہنے لگا۔ اس نے بہت ڈرتے ڈرتے ایک آنکھ کھولی اور چپکے سے اپنے اعضاء پر نظر کی۔ اسے ڈھارس ہوئی کہ اس کے اعضاء تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ اس نے دلیری سے آنکھیں کھولیں اور اطمینان سے اپنے بدن کو دیکھا اور کہا کہ بے شک میں اپنی جون میں ہوں مگر اس کے بعد آپ ہی آپ اسے پھر وسوسہ ہوا کہ جیسے اس کے اعضاء بگڑتے جا رہے ہیں اور اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
الیاسف نے آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اس کا دھیان اندر کی طرف گیا اور اس نے جانا کہ وہ کسی اندھیرے کنویں میں دھنستا جا رہا ہے اور الیاسف کنویں میں دھنستے ہوئے ہم جنسوں کی پرانی صورتوں نے اس کا تعاقب کیا۔ اور گزری راتیں محاصرہ کرنے لگیں۔ الیاسف کو سبت کے دن ہم جنسوں کا مچھلیوں کا شکار کرنا یاد آیا کہ ان کے ہاتھوں مچھلیوں سے بھر ا سمندر مچھلیوں سے خالی ہونے لگا۔ اور اس کی ہوس بڑھتی گئی اور انہوں نے سبت کے دن بھی مچھلیوں کا شکار شروع کر دیا۔ تب اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کرتا تھا کہا کہ رب کی سو گند جس نے سمندر کو گہرے پانیوں والا بنایا اور گہرے پانیوں کی مچھلیوں کا مامن ٹھہرایا سمندر تمہارے دستِ ہوس سے پناہ مانگتا ہے اور سبت کے دن مچھلیوں پر ظلم کرنے سے باز رہو کہ مباد ا تم اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے قرار پاؤ۔ الیاسف نے کہا کہ معبود کی سوگند میں سبت کے دن مچھلیوں کا شکار نہیں کرو ں گا اور الیاسف عقل کا پتلا تھا۔ سمندر سے فاصلے پر ایک گڑھا کھودا اور نالی کھود کر اسے سمندر سے ملا دیا اور سبت کے دن مچھلیاں سطحِ آب پر آئیں تو تیرتی ہوئی نالی کی راہ گڑھے پر نکل گئیں۔ اور سبت کے دوسرے دن الیاسف نے اس گڑھے سے بہت سی مچھلیاں پکڑیں۔ وہ شخص جو سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر بولا کہ تحقیق جس نے اللہ سے مکر کیا اللہ اس سے مکر کرے گا۔ اور بے شک اللہ زیادہ بڑا مکر کرنے والا ہے اور الیاسف یہ یاد کر کے پچھتایا اور وسوسہ کیا کہ کیا وہ مکر میں گھر گیا ہے۔ اس گھڑی اسے اپنی پوری ہستی ایک مکر نظر آئی۔ تب وہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑایا کہ پیدا کرنے والے نے تو مجھے ایسا پیدا کیا جیسے پیدا کرنے کا حق ہے۔ تو نے مجھے بہترین کینڈے پر خلق کیا۔ اور اپنی مثال پر بنایا۔ پس اے پیدا کرنے والے تو اب مجھ سے مکر کرے گا اور مجھے ذلیل بندر کے اسلوب پر ڈھالے گا اور الیاسف اپنے حال پر رویا۔ اس کے بنائے پشت میں دراڑ پڑ گئی تھی اور سمندر کا پانی جزیرے میں آ رہا تھا۔
الیاسف اپنے حال پر رویا اور بندروں سے بھری بستی سے منہ موڑ کر جنگل کی سمت نکل گیا کہ اب اس بستی اسے جنگل سے زیادہ وحشت بھری نظر آتی تھی۔ اور دیواروں اور چھتوں والا گھر اس کے لئے لفظ کی طرح معنی کھو بیٹھا تھا۔ رات اس نے درخت کی ٹہنیوں پر چھپ کر بسر کی۔
جب صبح کو وہ جاگا تو اس کا سارا بدن دکھتا تھا اور ریڑھ کی ہڈی درد کرتی تھی۔ اس نے اپنے بگڑے اعضاء پر نظر کی کہ اس وقت کچھ زیادہ بگڑے بگڑے نظر آ رہے تھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا کیا میں میں ہی ہوں اور اس آن اسے خیال آیا کہ کاش بستی میں کوئی ایک انسان ہوتا کہ اسے بتا سکتا کہ وہ کس جون میں ہے اور یہ خیال آنے پر اس نے اپنے تئیں سوال کیا کہ کیا آدمی بنے رہنے کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ آدمیوں کے درمیان ہو۔ پھر اس نے خود ہی جواب دیا کہ بیشک آدم اپنے تئیں ادھورا ہے کہ آدمی آدمی کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اور جو جن میں سے ہے ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اور جب اس نے یہ سوچا تو روح اس کی اندوہ سے بھر گئی اور وہ پکارا کہ اسے بنت الاخضر تو کہا ں ہے کہ تجھ بن میں ادھورا ہوں۔ اس آن الیاسف کو ہرن کے تڑپتے ہوئے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کی یاد بے طرح آئی۔
جزیرے میں سمندر کا پانی امنڈا چلا آ رہا تھا اور الیاسف نے درد سے صدا کی۔ کہ اے بنت الاخضر اے وہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ تجھے میں اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر اور بڑے درختوں کی گھنی شاخوں میں اور بلند برجیوں میں ڈھونڈوں گا۔ تجھے سرپٹ دوڑی دودھیا گھوڑیوں کی قسم ہے۔ قسم ہے کبوتروں کی جب وہ بلندیوں پر پرواز کرے۔ قسم ہے تجھے رات کی جب وہ بھیگ جائے۔ قسم ہے تجھے رات کے اندھیرے کی جب وہ بدن میں اترنے لگے۔ قسم ہے تجھے اندھیرے اور نیند کی۔ اور پلکوں کی جب وہ نیند سے بوجھل ہو جائیں۔ تو مجھے آن مل کہ تیرے لئے میراجی چاہتا ہے اور جب اس نے یہ صدا کی تو بہت سے لفظ آپس میں گڈ مڈ ہو گئے جیسے زنجیر الجھ گئی ہو۔ جیسے لفظ مٹ رہے ہوں۔ جیسے اس کی آواز بدلتی جا رہی ہو اور الیاسف نے اپنی بدلتی ہوئی آواز پر غور کیا اور زبلون اور الیاب کو یاد کیا کہ کیوں کر ان کی آوازیں بگڑتی چلی گئی تھیں۔ الیاسف اپنی بدلتی ہوئی آواز کا تصور کر کے ڈرا اور سوچا کہ اے معبود کیا میں بدل گیا ہوں اور اس وقت اسے یہ نرالا خیال سوجھا کہ اے کاش کوئی ایسی چیز ہوتی کہ اس کے ذریعے وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا۔ مگر یہ خیال اسے بہت انہونا نظر آیا۔ اور اس نے درد سے کہا کہ اے معبود میں کیسے جانوں کہ میں نہیں بد لاہوں۔
اور اس قریے سے تین دن پہلے بندر غائب ہو گئے تھے۔ لوگ پہلے حیران ہوئے اور پھر خوشی منائی کہ بندر جو فصلیں برباد اور باغ خراب کرتے تھے نابود ہو گئے۔ پر اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا کرتا تھا یہ کہا کہ بندر تو تمہارے درمیان موجود ہیں مگر یہ کہ تم دیکھتے نہیں۔ لوگوں نے اس کا برا مانا اور کہا کہ کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے اور اس نے کہا کہ بے شک ٹھٹھا تم نے خدا سے کیا کہ اس نے سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا اور تم نے سبت کے دن مچھلیوں کا شکار کیا اور جان لو کہ وہ تم سے بڑا ٹھٹھا کرنے والا ہے۔
اس کے تیسرے دن یوں ہوا کہ الیعذر کی لونڈی گجر وم الیعذر کی خواب گاہ میں داخل ہوئی اور سہمی ہوئی الیعذر کی جورو کے پاس الٹے پاؤں آئی۔ پھر الیعذر کی جورو خواب گاہ تک گئی اور حیران و پریشان واپس آئی۔ پھر یہ خبر دور دور تک پھیل گئی اور دور دور سے لوگ الیعذر کے گھر آئے اور اس کی خواب گاہ تک جا کر ٹھٹھک ٹھٹھک گئے کہ الیعذر کی خواب گاہ میں الیعذر کی بجائے ایک بڑا بندر آرام کرتا تھا اور الیعذر نے پچھلے سبت کے دن سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑی تھیں۔
پھر یوں ہوا کہ ایک نے دوسرے کو خبر دی کہ اے عزیز الیعذر بندر بن گیا ہے۔ اس پر دوسرا زور سے ہنسا۔ “تو نے مجھ سے ٹھٹھا کیا۔” اور وہ ہنستا چلا گیا، حتٰی کہ منہ اس کا سرخ پڑ گیا اور دانت نکل آئے اور چہرے کے خد و خال کھینچتے چلے گئے اور وہ بندر بن گیا۔ تب پہلا کمال حیران ہوا۔ منہ اس کا کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں اور پھر وہ بھی بندر بن گیا۔
اور الیاب ابن زبلون کو دیکھ کر ڈرا اور یوں بولا کہ اے زبلون کے بیٹے تجھے کیا ہوا ہے کہ تیرا چہرا بگڑ گیا ہے۔ ابن زبلون نے اس بات کا برا مانا اور غصے سے دانت کچکچانے لگا۔ تب الیاب مزید ڈرا اور چلا کر بولا کہ اے زبلون کے بیٹے! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، ضرور تجھے کچھ ہو گیا ہے۔ اس پر ابن زبلون کا منہ غصے سے لال ہو گیا اور دانت کھینچ کر الیاب پر جھپٹا۔ تب الیاب پر خوف سے لرزہ طاری ہوا اور ابن زبلون کا چہرہ غصے سے اور الیاب کا چہرہ خوف سے بگڑتا چلا گیا۔ ابن زبلون غصے سے آپے سے باہر ہوا اور الیاب خوف سے اپنے آپ میں سکڑتا چلا گیا اور وہ دونوں کہ ایک مجسم غصہ اور ایک خوف کی پوت تھے آپس میں گتھ گئے۔ ان کے چہرے بگڑتے چلے گئے۔ پھر ان کے اعضا بگڑے۔ پھر ان کی آوازیں بگڑیں کہ الفاظ آپس میں مدغم ہوتے چلے گئے اور غیر ملفوظ آوازیں بن گئے۔ پھر وہ غیر ملفوظ آوازیں وحشیانہ چیخ بن گئیں اور پھر وہ بندر بن گئے۔
الیاسف نے کہ ان سب میں عقل مند تھا اور سب سے آخر تک آدمی بنا رہا۔ تشویش سے کہا کہ اے لوگو! ضرور ہمیں کچھ ہو گیا ہے۔ آؤ ہم اس شخص سے رجوع کریں جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا ہے۔ پھر الیاس لوگوں کو ہمراہ لے کر اس شخص کے گھر گیا۔ اور حلقہ زن ہو کے دیر تک پکارا کیا۔ تب وہ وہاں سے مایوس پھرا اور بڑی آواز سے بولا کہ اے لوگو! وہ شخص جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا کرتا تھا آج ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اور اگر سوچو تو اس میں ہمارے لئے خرابی ہے۔ لوگوں نے یہ سنا اور دہل گئے۔ ایک بڑے خوف نے انہیں آ لیا۔
دہشت سے صورتیں ان کی چپٹی ہونے لگیں۔ اور خد و خال مسخ ہو تے چلے گئے۔ اور الیاسف نے گھوم کر دیکھا اور بندروں کے سوا کسی کونہ پایا۔ جاننا چاہئے کہ وہ بستی ایک بستی تھی۔ سمندر کے کنارے۔اونچے برجوں اور بڑے دروازوں والی حویلیوں کی بستی، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ کٹورا بجتا تھا۔ پر دم کے دم میں بازار ویران اور اونچی ڈیوڑھیاں سونی ہو گئیں۔ اور اونچے برجوں میں عالی شان چھتوں پر بندر ہی بندر نظر آنے لگے اور الیاسف نے ہر اس سے چاروں سمت نظر دوڑائی اور سوچا کہ میں اکیلا آدمی ہوں اور اس خیال سے وہ ایسا ڈرا کہ اس کا خون جمنے لگا۔ مگر اسے الیاب یاد آیا کہ خوف سے کس طرح اس کی صورت بگڑتی چلی گئی اور وہ بندر بن گیا۔ تب الیاسف نے اپنے خوف پر غلبہ پا یا اور عزم باندھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور آدمی ہی کی جون میں مروں گا اور اس نے ایک احساسِ برتری کے ساتھ اپنے مسخ صورت ہم جنسوں کو دیکھا اور کہا۔ تحقیق میں ان میں سے نہیں ہوں کہ وہ بندر ہیں اور میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں سے نفرت کی۔ اس نے ان کی لال بھبوکا صورتوں اور بالوں سے ڈھکے ہوئے جسموں کو دیکھا اور نفرت سے چہرہ اس کا بگڑنے لگا مگر اسے اچانک زبان کا خیال آیا کہ نفرت کی شدت سے صورت اس کی مسخ ہو گئی تھی۔ اس نے کہا کہ الیاسف نفرت مت کر کہ نفرت سے آدمی کی کایا بدل جاتی ہے اور الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا۔
الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا اور کہا کہ بے شک میں انہی میں سے تھا اور اس نے وہ دن یاد کئے جب وہ ان میں سے تھا اور دل اس کا محبت کے جوش سے منڈنے لگا۔ اسے بنت الاخضر کی یاد آئی کہ فرعون کے رتھ کی دودھیا گھوڑیوں میں سے ایک گھوڑی کی مانند تھی۔ اور اس کے بڑے گھر کے در سرو کے اور کڑیاں صنوبر کی تھیں۔ اس یاد کے ساتھ الیاسف کو بیتے دن یاد آ گئے کہ وہ سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے مکان میں عقب سے گیا تھا اور چھپر کھٹ کے لئے اسے ٹٹولا جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور اس نے دیکھا لمبے بال اس کی رات کی بوندوں سے بھیگے ہوئے ہیں اور چھاتیاں ہرن کے بچوں کے موافق تڑپتی ہیں۔ اور پیٹ اس کا گندم کی ڈیوڑھی کی مانند ہے اور پاس اس کے صندل کا گول پیالہ ہے اور الیاسف نے بنت الاخضر کو یاد کیا اور ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیر اور صندل کے گول پیالے کے تصور میں سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے گھر تک گیا۔ ساس نے خالی مکان کو دیکھا اور چھپر کھٹ پر اسے ٹٹولا۔ جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور پکارا کہ اے بنت الاخضر! تو کہاں ہے اور اے وہ کہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ دیکھ موسم کا بھاری مہینہ گزر گیا اور پھولوں کی کیاریاں ہری بھری ہو گئیں اور قمریاں اونچی شاخوں پر پھڑپھڑاتی ہیں۔ تو کہاں ہے؟ اے اخضر کی بیٹی! اے اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر آرام کرنے والی تجھے دشت میں دوڑتی ہوئی ہرنیوں اور چٹانوں کی دراڑوں میں چھپے ہوئے کبوتروں کی قسم تو نیچے اتر آ۔ اور مجھ سے آن مل کہ تیرے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ الیاسف بار بار پکارتا کہ اس کا جی بھر آیا اور بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا۔
الیاسف بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا مگر اچانک الیعذر کی جورو یاد آئی جو الیعذر کو بندر کی جون میں دیکھ کر روئی تھی۔ حالانکہ اس کی ہڑکی بند ھ گئی اور بہتے آنسوؤں میں اس کے جمیل نقوش بگڑتے چلے گئے۔ اور ہڑکی کی آواز وحشی ہوتی چلی گئییہاں تک کہ اس کی جون بدل گئی۔ تب الیاسف نے خیال کیا۔ بنت الاخضر جن میں سے تھی ان میں مل گئی۔ اور بے شک جو جن میں سے ہے وہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا کہ اے الیاسف ان سے محبت مت کر مبادا تو ان میں سے ہو جائے اور الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا اور الیاسف نے ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کو فراموش کر دیا۔
الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور اپنے ہم جنسوں کی لال بھبوکا صورتوں اور کھڑ ی دم دیکھ کر ہنسا اور الیاسف کو الیعذر کی جورو یاد آئی کہ وہ اس قریے کی حسین عورتوں میں سے تھی۔ وہ تاڑ کے درخت کی مثال تھی اور چھاتیاں اس کی انگور کے خوشوں کی مانند تھیں۔ اور الیعذر نے اس سے کہا تھا کہ جان لے کہ میں انگور کے خوشے توڑوں گا اور انگور کے خوشوں والی تڑپ کر ساحل کی طرف نکل گئی۔
الیعذر اس کے پیچھے پیچھے گیا اور پھل توڑا اور تاڑ کے درخت کو اپنے گھر لے آیا اور اب وہ ایک اونچے کنگرے پر الیعذر کی جوئیں بن بن کر کھاتی تھی۔ الیعذر جھری جھری لے کر کھڑا ہو جاتا اور وہ دم کھڑی کر کے اپنے لجلجے پنجوں پر اٹھ بیٹھی۔ اس کے ہنسنے کی آواز اتنی اونچی ہوتی کہ اسے ساری بستی گونجتی معلوم ہوئی اور وہ اپنے اتنی زور سے ہنسنے پر حیران ہوا مگر اچانک اسے اس شخص کا خیال آیا جو ہنستے ہنستے بندر بن گیا تھا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا۔ اے الیاسف تو ان پر مت ہنس مبادا تو ہنسی کی ایسا بن جائے اور الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔
الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔ الیاسف محبت اور نفرت سے غصہ اور ہمدردی سے رونے اور ہنسنے سے ہر کیفیت سے گزر گیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا۔ ان کا درختوں پر اچکنا، دانت پیس پیس کر کلکاریاں کرنا، کچے کچے پھلوں پر لڑنا اور ایک دوسرے کو لہو لہان کر دینا۔ یہ سب کچھ اسے آگے کبھی ہم جنسوں پر رلاتا تھا، کبھی ہنساتا تھا۔ کبھی غصہ دلاتا کہ وہ ان پر دانت پیسنے لگا اور انہیں حقارت سے دیکھتا اور یوں ہوا کہ انہیں لڑتے دیکھ کر اس نے غصہ کیا اور بڑی آواز سے جھڑکا۔ پھر خود اپنی آواز پر حیران ہوا۔ اور کسی کسی بندر نے اسے بے تعلقی سے دیکھا اور پھر لڑائی میں جٹ گیا۔ اور الیاسف کے تئیں لفظوں کی قدر کی جاتی رہی۔ کہ وہ اس کے اور اس کے ہم جنسوں کے درمیان رشتہ نہیں رہے تھے اور اس کا اس نے افسوس کیا۔ الیاسف نے افسوس کیا اپنے ہم جنسوں پر، اپنے آپ پر اور لفظ پر۔ افسوس ہے ان پر بوجہ اس کے وہ اس لفظ سے محروم ہو گئے۔ افسوس ہے مجھ پر بوجہ اس کے لفظ میرے ہاتھوں میں خالی برتن کی مثال بن کر رہ گیا۔ اور سوچو تو آج بڑے افسوس کا دن ہے۔ آج لفظ مر گیا۔ اور الیاسف نے لفظ کی موت کا نوحہ کیا اور خاموش ہو گیا۔
الیاسف خاموش ہو گیا اور محبت اور نفرت سے، غصے اور ہمدردی سے، ہنسنے اور رونے سے در گزرا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے کنارہ کیا اور اپنی ذات کے اندر پناہ لی۔ الیاسف اپنی ذات کے اندر پناہ گیر جزیرے کے مانند بن گیا۔ سب سے بے تعلق، گہرے پانیوں کے درمیان خشکی کا ننھا سا نشان اور جزیرے نے کہا میں گہرے پانیوں کے درمیان زمین کا نشان بلند رکھو ں گا۔
الیاسف اپنے تئیں آدمیت کا جزیرہ جانتا تھا۔ گہرے پانیوں کے خلاف مدافعت کرنے لگا۔ اس نے اپنے گرد پشتہ بنا لیا کہ محبت اور نفرت، غصہ اور ہمدردی، غم اور خوشی اس پر یلغار نہ کریں کہ جذبے کی کوئی رو اسے بہا کر نہ لے جائے اور الیاسف اپنے جذبات سے خوف کرنے لگا۔ پھر جب وہ پشتہ تیار کر چکا تو اسے یوں لگا کہ اس کے سینے کے اندر پتھری پڑ گئی ہے۔ اس نے فکر مند ہو کر کہا کہ اے معبود میں اندر سے بدل رہا ہوں تب اس نے اپنے باہر پر نظر کی اور اسے گمان ہونے لگا کہ وہ پتھری پھیل کر باہر آ رہی ہے کہ اس کے اعضاء خشک، اس کی جلد بد رنگ اور اس کا لہو بے رس ہوتا جا رہا ہے۔ پھر اس نے مزید اپنے آپ پر غور کیا اور اسے مزید وسوسوں نے گھیرا۔ اسے لگا کہ اس کا بدن بالوں سے ڈھکتا جا رہا ہے۔ اور بال بد رنگ اور سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ تب اسے اپنے بدن سے خوف آیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ خوف سے وہ اپنے اندر سمٹنے لگا۔ اسے یوں معلوم ہوا کہ اس کی ٹانگیں اور بازو مختصر اور سر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے تب اسے مزید خوف ہوا اور اعضاء اس کے خوف سے مزید سکڑنے لگے اور اس نے سوچا کہ کیا میں بالکل معدوم ہو جاؤں گا۔
اور الیاسف نے الیاب کو یاد کیا کہ خوف سے اپنے اندر سمٹ کر وہ بندر بن گیا تھا۔ تب اس نے کہا کہ میں اندر کے خوف پر اسی طور غلبہ پاؤں گا جس طور میں نے باہر کے خوف پر غلبہ پایا تھا اور الیاسف نے اندر کے خوف پر غلبہ پا لیا۔ اور اس کے سمٹتے ہوئے اعضاء دوبارہ کھلنے اور پھیلنے لگے۔ اس کے اعضاء ڈھیلے پڑ گئے۔ اور اس کی انگلیاں لمبی اور بال بڑے اور کھڑے ہونے لگے۔ اور اس کی ہتھیلیاں اور تلوے چپٹے اور لجلجے ہو گئے اور اس کے جوڑ کھلنے لگے اور الیاسف کو گمان ہوا کہ اس کے سارے اعضاء بکھر جائیں گے تب اس نے عزم کر کے اپنے دانتوں کو بھینچا اور مٹھیاں کس کر باندھا اور اپنے آپ کو اکٹھا کرنے لگا۔
الیاسف نے اپنے بد ہیئت اعضاء کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا کہ اس کے اعضاء کی صورت بدلتی جا رہی ہے۔
اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے آپ سے پوچھا کہ میں میں نہیں رہا۔ اس خیال سے دل اس کا ڈھہنے لگا۔ اس نے بہت ڈرتے ڈرتے ایک آنکھ کھولی اور چپکے سے اپنے اعضاء پر نظر کی۔ اسے ڈھارس ہوئی کہ اس کے اعضاء تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ اس نے دلیری سے آنکھیں کھولیں اور اطمینان سے اپنے بدن کو دیکھا اور کہا کہ بے شک میں اپنی جون میں ہوں مگر اس کے بعد آپ ہی آپ اسے پھر وسوسہ ہوا کہ جیسے اس کے اعضاء بگڑتے جا رہے ہیں اور اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
الیاسف نے آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اس کا دھیان اندر کی طرف گیا اور اس نے جانا کہ وہ کسی اندھیرے کنویں میں دھنستا جا رہا ہے اور الیاسف کنویں میں دھنستے ہوئے ہم جنسوں کی پرانی صورتوں نے اس کا تعاقب کیا۔ اور گزری راتیں محاصرہ کرنے لگیں۔ الیاسف کو سبت کے دن ہم جنسوں کا مچھلیوں کا شکار کرنا یاد آیا کہ ان کے ہاتھوں مچھلیوں سے بھر ا سمندر مچھلیوں سے خالی ہونے لگا۔ اور اس کی ہوس بڑھتی گئی اور انہوں نے سبت کے دن بھی مچھلیوں کا شکار شروع کر دیا۔ تب اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کرتا تھا کہا کہ رب کی سو گند جس نے سمندر کو گہرے پانیوں والا بنایا اور گہرے پانیوں کی مچھلیوں کا مامن ٹھہرایا سمندر تمہارے دستِ ہوس سے پناہ مانگتا ہے اور سبت کے دن مچھلیوں پر ظلم کرنے سے باز رہو کہ مباد ا تم اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے قرار پاؤ۔ الیاسف نے کہا کہ معبود کی سوگند میں سبت کے دن مچھلیوں کا شکار نہیں کرو ں گا اور الیاسف عقل کا پتلا تھا۔ سمندر سے فاصلے پر ایک گڑھا کھودا اور نالی کھود کر اسے سمندر سے ملا دیا اور سبت کے دن مچھلیاں سطحِ آب پر آئیں تو تیرتی ہوئی نالی کی راہ گڑھے پر نکل گئیں۔ اور سبت کے دوسرے دن الیاسف نے اس گڑھے سے بہت سی مچھلیاں پکڑیں۔ وہ شخص جو سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر بولا کہ تحقیق جس نے اللہ سے مکر کیا اللہ اس سے مکر کرے گا۔ اور بے شک اللہ زیادہ بڑا مکر کرنے والا ہے اور الیاسف یہ یاد کر کے پچھتایا اور وسوسہ کیا کہ کیا وہ مکر میں گھر گیا ہے۔ اس گھڑی اسے اپنی پوری ہستی ایک مکر نظر آئی۔ تب وہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑایا کہ پیدا کرنے والے نے تو مجھے ایسا پیدا کیا جیسے پیدا کرنے کا حق ہے۔ تو نے مجھے بہترین کینڈے پر خلق کیا۔ اور اپنی مثال پر بنایا۔ پس اے پیدا کرنے والے تو اب مجھ سے مکر کرے گا اور مجھے ذلیل بندر کے اسلوب پر ڈھالے گا اور الیاسف اپنے حال پر رویا۔ اس کے بنائے پشت میں دراڑ پڑ گئی تھی اور سمندر کا پانی جزیرے میں آ رہا تھا۔
الیاسف اپنے حال پر رویا اور بندروں سے بھری بستی سے منہ موڑ کر جنگل کی سمت نکل گیا کہ اب اس بستی اسے جنگل سے زیادہ وحشت بھری نظر آتی تھی۔ اور دیواروں اور چھتوں والا گھر اس کے لئے لفظ کی طرح معنی کھو بیٹھا تھا۔ رات اس نے درخت کی ٹہنیوں پر چھپ کر بسر کی۔
جب صبح کو وہ جاگا تو اس کا سارا بدن دکھتا تھا اور ریڑھ کی ہڈی درد کرتی تھی۔ اس نے اپنے بگڑے اعضاء پر نظر کی کہ اس وقت کچھ زیادہ بگڑے بگڑے نظر آ رہے تھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا کیا میں میں ہی ہوں اور اس آن اسے خیال آیا کہ کاش بستی میں کوئی ایک انسان ہوتا کہ اسے بتا سکتا کہ وہ کس جون میں ہے اور یہ خیال آنے پر اس نے اپنے تئیں سوال کیا کہ کیا آدمی بنے رہنے کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ آدمیوں کے درمیان ہو۔ پھر اس نے خود ہی جواب دیا کہ بیشک آدم اپنے تئیں ادھورا ہے کہ آدمی آدمی کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اور جو جن میں سے ہے ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اور جب اس نے یہ سوچا تو روح اس کی اندوہ سے بھر گئی اور وہ پکارا کہ اسے بنت الاخضر تو کہا ں ہے کہ تجھ بن میں ادھورا ہوں۔ اس آن الیاسف کو ہرن کے تڑپتے ہوئے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کی یاد بے طرح آئی۔
جزیرے میں سمندر کا پانی امنڈا چلا آ رہا تھا اور الیاسف نے درد سے صدا کی۔ کہ اے بنت الاخضر اے وہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ تجھے میں اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر اور بڑے درختوں کی گھنی شاخوں میں اور بلند برجیوں میں ڈھونڈوں گا۔ تجھے سرپٹ دوڑی دودھیا گھوڑیوں کی قسم ہے۔ قسم ہے کبوتروں کی جب وہ بلندیوں پر پرواز کرے۔ قسم ہے تجھے رات کی جب وہ بھیگ جائے۔ قسم ہے تجھے رات کے اندھیرے کی جب وہ بدن میں اترنے لگے۔ قسم ہے تجھے اندھیرے اور نیند کی۔ اور پلکوں کی جب وہ نیند سے بوجھل ہو جائیں۔ تو مجھے آن مل کہ تیرے لئے میراجی چاہتا ہے اور جب اس نے یہ صدا کی تو بہت سے لفظ آپس میں گڈ مڈ ہو گئے جیسے زنجیر الجھ گئی ہو۔ جیسے لفظ مٹ رہے ہوں۔ جیسے اس کی آواز بدلتی جا رہی ہو اور الیاسف نے اپنی بدلتی ہوئی آواز پر غور کیا اور زبلون اور الیاب کو یاد کیا کہ کیوں کر ان کی آوازیں بگڑتی چلی گئی تھیں۔ الیاسف اپنی بدلتی ہوئی آواز کا تصور کر کے ڈرا اور سوچا کہ اے معبود کیا میں بدل گیا ہوں اور اس وقت اسے یہ نرالا خیال سوجھا کہ اے کاش کوئی ایسی چیز ہوتی کہ اس کے ذریعے وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا۔ مگر یہ خیال اسے بہت انہونا نظر آیا۔ اور اس نے درد سے کہا کہ اے معبود میں کیسے جانوں کہ میں نہیں بد لاہوں۔
----------------------------------------------------------------------------------------------
غزل